بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

سب سے پہلے تو میں آپ عزیز نوجوانوں کو، اپنے پیارے بچوں کو، عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ نے اپنے ان جذبات سے 13 آبان (4 جون) کے واقعات کی یاد تازہ کر دی جو ہماری تاریخ میں بڑے اثر انگیز اور عہد ساز واقعات ہیں۔ آپ عزیز نوجوانوں سے ملاقات پر مجھے بے حد خوشی اور مسرت ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایک اہم نکتہ ہے جو قابل توجہ ہے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ یوں تو تمام ممالک میں اور تمام اقوام کے اندر نوجوان سماج کی گاڑی کو آگے کھینچنے والی توانائی کے حامل ہوتے ہیں۔ گاڑی کے انجن کا کام کرتے ہیں۔ اپنے سماج کی عظیم پیشرفت کے عمل کو آگے بڑھانے والے ہوتے ہیں۔ یہ تمام ملکوں میں ہوتا ہے، البتہ شرط یہ ہے کہ نوجوان برباد نہ ہو گئے ہوں، بگڑ نہ گئے ہوں، پھنس نہ گئے ہوں، نشے کی لت میں نہ پڑ گئے ہوں۔ نوجوان کی سرشت میں فعال رہنا، آگے بڑھنا اور آگے لے جانا ہے۔ تاہم ہمارے ملک میں نوجوانوں کی سطح پر یہ جذبہ اسی عام سطح تک محدود نہیں ہے۔ نوجوان یعنی اٹھارہ بیس سال کا لڑکا یا لڑکی، یہ نوجوان ہے۔ ہمارے ملک میں متحرک ہو جانے اور جوش و خروش سے بھر جانے کی عمر اور نیچے آ گئی ہے۔ یعنی تیرہ سال، چودہ سال اور پندرہ سال کا نوجوان وہی کام کرتا ہے، اسی شئے پر نظر مرکوز کرتا ہے، اسی ہدف کے لئے کام کرتا ہے، وہی توانائی اور وہی جذبہ پیش کرتا ہے جو دیگر خطوں میں بیس سال، بائیس سال اور پچیس سال کے نوجوان سے متوقع ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں سرگرم عمل ہو جانے، جوش و خروش کا مظاہرہ کرنے اور سماج کو آگے بڑھانے کی سطح سن کم ہوکر بچوں تک پہنچ گئی ہے۔ یہ ہمارے ملک کی خصوصیت ہے۔

میں کس بنیاد پر یہ بات کہہ رہا ہوں؟ انقلاب سے پہلے، انقلاب کی تحریک کے دوران، مقدس دفاع کے دوران اور موجودہ دور میں ہمیشہ یہ چیزیں ہماری نگاہوں کے سامنے رہی ہیں۔ انقلاب سے پہلے میں مشہد میں تھا تو مشہد کا مشاہدہ کرتا تھا اور جب کبھی تہران آنا ہوتا تھا تو تہران کو بھی دیکھتا تھا۔ بہت سی جگہوں پر انقلاب کے بنیادی اصولوں اور اہداف وغیرہ کے بارے میں سوال کرنے والے صرف یونیورسٹی کے طلبہ اور نوجوان ہی نہیں ہوتے تھے، خود تہران میں میں نے اسکولی بچوں کے لئے ایک نشست رکھی تھی، یعنی سولہ سال، سترہ سال اور اٹھارہ سال کے بچے وہ بھی اس گھٹن کے ماحول میں۔ بعد میں یہ سارے کم عمر بچے جہاد کے میدان میں اترے۔ ان میں سے بعض آج ہمارے نامور شہدا میں شامل ہیں۔ وہی افراد، وہی بچے! بعض نے جدوجہد کے اس دور میں بڑے اہم اور حساس کارنامے انجام دئے۔ مشہد میں بھی یہی عالم تھا۔ ہائی اسکول کے بچے اور وہ  افراد جو ہنوز نوجوانی کی دہلیز پر نہیں پہنچے تھے، جوانی کا دور شروع نہیں ہوا تھا، مگر جدوجہد کے میدان میں اتر پڑے۔ یہ انقلاب سے پہلے کی باتیں ہیں۔

انقلاب آنے کے بعد عمومی طور پر انقلاب سے متعلق واقعات کے اندر بھی ہمارے طلبہ نے بہت کام کیا اور 13 آبان (مطابق 4 نومبر) کی تاریخ انھیں سے منسوب ہے۔ یہ طلبہ کا دن ہے، یہ جدوجہد کا دن ہے، یہ طلبہ کا قتل عام کئے جانے کا دن ہے۔ چار جون کو تین اہم واقعات رونما ہوئے۔ ایک تو طلبہ کے قتل عام کا واقعہ ہے۔ اگر اسکولی طلبہ جدوجہد میں شامل نہ ہوتے، میدان عمل میں موجود نہ ہوتے، اگر مقابلہ نہ کرتے، اگر ان کے وجود کی کوئی تاثیر نہ ہوتی تو طاغوتی شاہی حکومت کے اہلکاروں کی اس درندگی اور خباثت کا سامنا کیوں کرنا پڑتا اور وہ شہید نہ ہوتے۔ مسلط کردہ جنگ کے زمانے میں تو ایک عجیب جوش و خروش ہے۔ چودہ سالہ، پندرہ سالہ نو عمر لڑکے میدان جنگ میں پہنچ گئے اور شجاع و کارآمد جوان کے انداز میں جنگ کی۔ بعض شہید ہو گئے جیسے حسین فہمیدہ اور کچھ دشمن کے ہاتھوں قید کر لئے گئے جیسے یہی چند کمسن لڑکے جن کے قصے اور کتابیں شائع ہوئی ہیں، جن کے واقعات شائع کئے گئے۔ انسان جب ان بچوں کے احساسات و جذبات کا مطالعہ کرتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس مادی دنیا سے بالاتر کسی اور وادی میں سیر کر رہے ہیں۔ پندرہ سال، سولہ سال اور سترہ سال کا ایک لڑکا قید کے دوران اس خبیث اور ظالم بعثی اہلکار کے سامنے کہسار کی مانند ڈٹ جاتا ہے۔ دنیا میں کہاں یہ چیزیں دکھائی دیتی ہیں؟ دنیا کی کس نوجوان نسل میں اس طرح کے افراد شامل ہیں؟

جنگ ختم ہونے کے بعد آج تک یہ سلسلہ رکا نہیں ہے۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کر دوں کہ ملک کے گوناگوں مسائل کے بارے میں اس حقیر کی اطلاعات بہت وسیع ہیں اور مجھے بہت سی جگہوں کے بارے میں مکمل اطلاعات ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ہمارے اسکولی بچے، مختلف علاقوں میں ہمارے نوجوان بہترین انداز سے عمل کر رہے ہیں اور بہترین ادراک رکھتے ہیں، حالات حاضرہ کا باریکی سے تجزیہ کرتے ہین۔ آج کا سولہ سترہ سالہ نوجوان جو اسکول جاتا ہے، بعض مسائل میں حالات کا اس انداز سے ادراک رکھتا ہے جو ہماری نوجوانی کے ایام میں 25 سالہ یا 26 سالہ نوجوانوں کے یہاں نظر آتا تھا، بلکہ شاید اس سے زیادہ بہتر انداز میں مسائل کو سمجھتا ہے، تجزیہ کرتا ہے۔ یہ ہمارے ملک کی خصوصیت ہے۔

میرے عزیزو! عزیز نوجوانو! میرے پیارے بچو! اس پوزیشن اور ان امکانات کی قدر کرو۔ آپ اور آپ  کی یہ نسل وہی نسل ہے کہ جو ان شاء اللہ اس ملک کو بام ثریا پر لے جائے گی۔ ہماری آرزوئیں تو بہت سی ہیں، امنگیں بہت ہیں اور دشمنوں کی دشمنی کا اب تک کوئی اثر نہیں ہوا ہے، دشمن کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے دشمنی نہیں برتی، ایسا نہیں ہے کہ  انھوں نے ریشہ دوانیاں نہیں کیں، کیوں نہیں، جہاں تک ان سے ہو سکا انھوں نے دشمنی کی، سرگرمیاں انجام دیں۔ مختلف ملکوں میں نوجوان نسل کو گمراہ کرنے اور ورغلانے کے لئے انھوں نے جو کچھ کیا ہے، وہی سب کچھ انھوں نے ہمارے ملک میں بھی کیا ہے۔ منشیات کی ترویج سے لیکر اخلاقی بے راہروی تک، گمراہ کن کمپیوٹر گیمز سے لیکر دیگر اقدامات تک، انھوں نے سب کچھ کرکے دیکھ لیا ہے۔ کچھ شعبوں میں انھیں کامیابی بھی ملی ہے۔ کچھ جگہوں پر ممکن ہے کہ وہ منحرف کرنے میں کامیاب ہو گئے ہوں لیکن نوجوان نسل اور بچے کے اندر وہی نظریہ موجزن ہے جو اوائل انقلاب سے متوقع تھا۔ اس کی وجہ یہی ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ سنہ دو ہزار کے بعد کا نوجوان جس نے نہ تو جنگ کا زمانہ دیکھا ہے، نہ امام خمینی کو دیکھا ہے، نہ انقلاب کی تحریک کو دیکھا ہے، مفاہیم اور افکار کو اسی نظرئے کے ساتھ دیکھ رہا ہے جو اس زمانے کے نوجوانوں کا ہوتا تھا، آج کا نوجوان بھی اسی راستے پر رواں دواں ہے۔ آپ کے اندر توانائی ہے، آپ دشمن کے حربوں پر غلبہ پا سکتے ہیں۔ آپ سختیوں اور دشواریوں سے گزر سکتے ہیں اور اس ملک کو اس مقام پر پہنچا سکتے ہیں جو اسلامی انقلاب کے اہداف و اقدار اور اسلام کے مقاصد کے مطابق ہے۔ ان شاء اللہ یہ کامیابی ملے گی۔ یہ ہوکر رہے گا اور دشمن کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

البتہ اس کی کچھ شرطیں ہیں۔ ایک شرط یہ ہے کہ دشمن کو پہچانئے، دھوکا نہ کھائیے۔ بے شک ہماری قوم کے کچھ دشمن ہیں، چھوٹے دشمن اور بڑے دشمن، لیکن جس پر میں ہمیشہ زور دیتا ہوں کہ حقیقی معنی میں ہمارا دشمن ہے اور ہمارے خلاف دشمنی اور خباثتیں کرتا ہے وہ امریکا ہے۔ میں یہ بات تعصب کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا ہوں، یہ کسی منفی سوچ کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا ہوں۔ یہ تجربات کا نتیجہ ہے، یہ حقیقت کے درست ادراک کے ساتھ کہہ رہا ہوں، یہ میدان پر گہری نظر کا نتیجہ ہے، ہم میدان کو دیکھ رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف اس حقیر کے دشمن ہیں، یا اسلامی جمہوری حکومت کے دشمن ہیں۔ نہیں وہ اس پوری قوم کے دشمن ہیں، وہ اس قوم کے مخالف ہیں جو دشمن کے مد مقابل جدوجہد سے کبھی نہیں  تھکتی، وہ اس کے دشمن ہیں، وہ اس کے بدخواہ ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ حال ہی میں امریکی حکومت کے سربراہ نے کہا کہ ملت ایران ایک دہشت گرد قوم ہے (1)۔ آپ غور کیجئے کہ یہ نظریہ کس قدر احمقانہ ہے! ایک پوری قوم کو دہشت گرد کہا جا سکتا ہے؟ وہ یہ نہیں کہتے کہ لیڈر دہشت گرد ہیں، نہیں، کہتے کہ حکومت دہشت گرد ہے، کہتے ہیں کہ ملت ایران دہشت گرد ہے۔ یہ دشمنی نہیں ہے؟ چند سال قبل بھی ایک اور امریکی عہدیدار نے کہا تھا کہ ہمیں چاہئے کہ ملت ایران کی جڑوں کو ختم کر دیں۔ احمق! (2)۔ ایک ملت کی جڑیں، وہ بھی ایسی ملت جس کی طویل تاریخ ہے، جو ثقافتی میدان کے عظیم ستونوں کی مالک ہے، کیا اسے اکھاڑ پھینکنا ممکن ہے؟ آپ دیکھئے! یہ دشمنی ہے۔ جب کوئی دشمن ہوتا ہے تو اس کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں، ایسے شخص کی طرح ہو جاتا ہے جو دیکھنے سے معذور ہے، جو صحیح تخمینہ لگانے پر قادر نہیں ہوتا، جو صحیح اندازہ لگانے سے قاصر ہوتا ہے۔ صحیح تخمینہ نہ لگا پانا ہی اس کی ہزیمت کا باعث بنتا ہے۔ چونکہ وہ صحیح تخمینہ نہیں لگا پاتا، صحیح طور پر زمینی حالات کا ادراک نہیں کر پاتا اس لئے شکست سے دوچار ہوتا ہے وہ دشمن شکست سے دوچار ہوئے بھی ہیں۔ اس انقلاب کی کامیابی کو تقریبا چالیس سال کا عرصہ ہو رہا ہے۔ انقلاب کے کامیاب ہوتے ہی جب یہ تحریک ایک پودھے سے زیادہ کچھ نہیں تھی، اس وقت بھی انھوں نے اس کے خلاف پیکار کیا اور حملہ آور ہو گئے۔ مگر دشمنوں کی آنکھیں پھوٹ جائیں! آج وہی پودا تناور درخت بن گیا ہے، پتیوں اور پھلوں سے لد گیا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوئے اور ہوں گے بھی نہیں۔ مگر ان کی دشمن جاری رہے گی اور یہ دشمنی بھی کوئی آج کی نہیں ہے۔

دیکھئے! کچھ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ کسی طرح ہمیں تھوڑا بہت امریکہ سے مصالحت کر لینا چاہئے تاکہ شاید اس کی دشمنی کچھ کم ہو جائے۔ ایسا نہیں ہے۔ امریکہ نے ان پر بھی رحم نہیں کیا جنھوں نے امریکہ پر اعتماد کیا، امریکہ سے امیدیں وابستہ کیں، مدد مانگنے امریکہ کے پاسے گئے۔ جیسے کون؟ جیسے ڈاکٹر مصدق (3)۔ برطانیہ کا مقابلہ کرنے کے لئے، برطانیہ کے سامنے سینہ سپر ہو جانے کی غرض سے وہ بخیال خویش امریکیوں کے پاس پہنچ گئے، ان سے ملاقات کی، گفتگو کی اور مدد مانگی۔ ان پراعتماد کیا۔ مگر 19 اگست کی بغاوت برطانیہ نے نہیں انھیں امریکیوں نے کروائی مصدق کے خلاف۔ یعنی وہ مصدق جیسے افراد سے بھی خوش نہیں رہتے۔ وہ بس غلامی چاہتے ہیں، جو پوری طرح سر تعظیم خم کر دے، ان کی ڈانٹ سنتا رہے۔ جیسے کون؟ جیسے محمد رضا پہلوی۔ ان کو ایسا آدمی چاہئے۔ تاکہ وہ نعمتوں سے مالامال، برکتوں والے، دولت مند ملک پر جو جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے بہت حساس علاقے میں واقع ہے، جو گوناگوں توانائیوں کے اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتا ہے، اس پر حکومت کر سکیں۔ ایسا شخص ہو جو ان کے سامنے دست بستہ کھڑا رہے، سر جھکائے کھڑا رہے۔ امریکیوں کو یہ چاہئے، اگر یہ نہ ہوا تو وہ دشمنی پر اتر آئیں گے۔ طبس کے واقعے میں انھوں نے دشمنی برتی البتہ منہ کی کھائی۔ ہمارا مسافر طیارہ مار گرانے کے معاملے میں انھوں نے دشمنی برتی، پابندیوں کے قضیئے میں انھوں نے روز اول سے دشمنی برتی اور آج تک دشمنی نکالتے چلے آ رہے ہیں۔ ایٹمی مذاکرات کو ناکام بنانے کے لئے، ایٹمی مذاکرات کا جو نتیجہ نکلا ہے جسے 'مشترکہ جامع ایکشن پلان' کہا جاتا ہے اسے خراب کرنے کے لئے حد درجہ خباثت دکھا رہے ہیں، دشمنی نکال رہے ہیں۔

پیارے بچو، عزیز نوجوانو! آپ کبھی فراموش نہ کیجئے کہ اس انتہائی اہم راستے پر بہترین منزل کی جانب آپ جو سفر کر رہے ہیں، اعلی اہداف کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اس سفر پر پوری طرح قادر بھی ہیں، اس راہ میں آپ کا اصلی دشمن امریکہ ہے۔  اسے ہرگز فراموش نہ کیجئے (4)۔ تو آپ یہ کبھی نہیں بھولیں گے جو میں نے عرض کیا۔ کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ امریکہ کے مقابلے میں ذرا پسپائی کر لیتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ جتنی پسپائی کریں گے وہ اتنے ہی گستاخ ہوتے جائیں گے۔ راہ حل ہے مقابلہ، مقابلے میں ڈٹ جانا، اس کا راستہ ہے استقامت۔ صحیح راستہ یہ ہے کہ اسلامی انقلاب نے جس سفر کا آغاز کیا ہے وہ جاری رہے۔ لہذا ایک بنیادی شرط یہ ہے۔

میں آپ نوجوانوں کے سامنے ایک شرط اور بیان کرنا چاہوں گا؛ خوب درس پڑھئے۔ علم اور تعلیم بہت کلیدی ذریعہ اور وسیلہ ہے دشمنوں سے، طوفانوں سے، بڑی لہروں وغیرہ سے ٹکرانے کا۔ ہمارے اچھے نوجوان خوب پڑھائی کریں، تعلیم حاصل کریں۔ جو غیر معمولی صلاحیت کے مالک ہیں وہ اپنے ملک کی خدمت کریں، دشمن کے خدمت گزار نہ بنیں۔ درس پڑھنا اعلی اقدار کا حصہ بن جانا چاہئے۔ ہمارے نوجوانوں کی استعداد بحمد اللہ کافی اچھی ہے، اب اگر وہ اچھی طرح پڑھائی بھی کریں گے اور محنت کریں گے، تو یقینی طور پر ملک میں علم و دانش کی سطح بلند ہوگی۔ اگر ملک کے اندر علم و دانش کی سطح بلند ہوگی تو ملت ایران کی بنیادیں اور مستحکم ہوں گی، ان میں استحکام پیدا ہوگا۔ علم کی برکت سے انسان اعلی اہداف حاصل کر سکتا ہے۔ آپ اس پر بھی ان شاء اللہ توجہ رکھیں گے۔

میرے عزیزو! اللہ سے اپنا رابطہ مستحکم کیجئے۔ آپ کے قلوب پاکیزہ ہیں، آپ کی روح آلايش سے پاک ہے، آلودہ نہیں ہے۔ لہذا ہم جیسے افراد کے مقابلے میں آپ کے لئے لطف پروردگار، فضل الہی اور نور خداوندی کا رخ اپنی جانب موڑنا آسان ہے۔ توسل سے، دعا سے، بہترین انداز میں نماز سے، توجہ سے، قرآن کی  تلاوت سے، اللہ کے بندوں کی نصرت کرکے، چونکہ ایک بہت اہم کام اور اہم عبادت اللہ کے بندوں کی مدد کرنا ہے، اسی طرح گناہوں سے اجتناب کے ذریعے آپ یہ ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے، ذرہ برابر شک نہیں ہے کہ آپ کی یہی موجودہ نسل اسلامی انقلاب کی تمام آرزوئیں اور اہداف پورے کرے گی۔

دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کی راہیں ہموار کر دے، آپ کا راستہ آسان کر دے اور آپ کی توفیقات میں روز بروز اضافہ ہو۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

1) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ  کی مورخہ 13اکتوبر 2017 کی تقریر کی جانب اشارہ ہے۔

2) حاضرین ہنس پڑے

3) محمد رضا پہلوی کے شاہی دور کے وزیر اعظم محمّد مصدّق

4) امریکہ مردہ باد کا نعرہ گونج اٹھا۔