بسم الله الرّحمن الرّحیم

مجھے بہت خوشی ہوئی جب میں نے یہ سنا کہ علامہ جعفری مرحوم کی قدردانی کا پروگرام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بزرگ ہستی کے تعلق سے جو علمی، تبلیغی، دینی اور فنون لطیفہ جیسے میدانوں میں حد درجہ سرگرم عمل شخصیت تھے، آپ کی رحلت کے بعد آپ کی شخصیت کے معیار کے اعتبار سے کوئی مناسب کام انجام نہیں دیا جا سکا۔ یہ روایت رہی ہے کہ معاشرے کے اندر بڑی ہستیوں کی، بہتر تو یہ ہے کہ ان کی حیات میں ہی، ورنہ کم از کم وفات کے بعد اس طرح سے قدردانی کی جائے کہ ان کی علمی شخصیت اور حقیقی وجودی ماہیت سے، جو موت سے ختم نہیں ہوتی، دوسرے افراد بہرہ مند ہو سکیں۔ بحمد اللہ ہمارے درمیان یہ روایت رائج ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ علامہ جعفری رضوان اللہ تعالی علیہ کے سلسلے میں ہم نے اپنی اس دائمی روایت اور رائج روش پر عمل کیوں نہیں کیا؟! لہذا جب میں نے یہ سنا کہ علامہ جعفری پر ایک سیمینار ہونے والا ہے، جس میں ایک طرف اہل تبریز، دوسری طرف قم کے افاضل اور تیسری طرف اس ہستی سے علمی رابطہ رکھنے والے افراد کردار ادا کر رہے ہیں تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ واقعی یہ بالکل بجا اقدام ہے اور حق و انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے۔

علامہ جعفری مرحوم کی ایک نمایاں خصوصیت ان کا جامع الحیثیات ہونا تھا۔ یعنی آپ کسی ایک شعبے تک محدود نہیں تھے۔ ہم دینی طلبہ کے امور کے اعتبار سے آپ نے فقہ میں بھی اور فلسفے کے میدان میں بھی کافی کام کیا۔ فقہ میں آپ آقا میرزا رضی تبریزی مرحوم کے شاگرد تھے۔ آقا میرزا رضی، آخوند (1) کے شاگرد تھے۔ میں نے آقا میرزا رضی مرحوم کو دیکھا ہے وہ تبریز کے صف اول کے علما میں سے تھے۔ ایک زمانے میں تو وہ تبریز کے سب سے نمایاں عالم دین تھے۔ آقا جعفری نوجوانی کے زمانے میں ان سے خاص عقیدت رکھتے تھے، ان کے درس میں شرکت کرتے تھے، ان کے شاگرد تھے، آپ نے آقا میرزا رضی سے اپنے رابطے کے تعلق سے کچھ باتیں ہمارے لئے بھی نقل کیں۔ اس کے بعد آپ نجف چلے جاتے ہیں۔ کئی سال تک نجف میں آقای خوئی کے درس میں اور دیگر بزرگ ہستیوں کے درس میں غالبا آقا شیخ کاظم شیرازی مرحوم (2) کے درس میں شریک ہوتے رہے۔ ظاہر یہ وہ ہستیاں ہے جو انسان کو فقیہ بنانے کا ہنر رکھتی تھیں۔ یعنی اس طرح کے دروس میں شرکت، جو افراد علمی و دینی مسائل کے ماہر ہیں بخوبی جانتے ہیں کہ انسان کو فقیہ بنا دیتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے فلسفے کے میدان میں بھی بہت کام کیا۔ فلسفے کے میدان میں آپ نے جو کام کئے ان میں سے ایک اہم کام مغربی فلاسفہ کے نظریات کا گہرا مطالعہ تھا، بہت پہلے سے، یعنی نوجوانی کے زمانے سے ہی جب ہم نے پہلی بار مشہد میں آپ کو دیکھا تو ہیگل وغیرہ کے نظریات پر آپ کو عبور تھا اور اس بارے میں بحث کرتے تھے، جبکہ اس زمانے میں دینی مدارس میں کسی کو بھی ان چیزوں کا علم نہیں تھا، اس طرح کے موضوعات رائج نہیں تھے۔

یہ 1954 یا 1955 کی بات ہے کہ میں نے آپ کو مشہد میں دیکھا۔ اس وقت ہم تو بچے تھے اور آپ نئے نئے نجف سے تشریف لائے تھے۔ مشہد میں ان کی ایک رشتہ داری تھی، ان کے چچا مشہد میں رہتے تھے اور ایک خاص موقع تھا، جس کی تفصیلات کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے، جب ان کا اور ان کے بھائیوں کا مشہد میں قیام رہا۔ اس طرح مشہد سے بھی ان کا ایک رابطہ تھا۔ تو آپ مشہد تشریف لائے اور کچھ عرصہ، اب مجھے یاد نہیں ہے کہ کتنے دن، وہ مشہد میں قیام پذیر رہے۔ مدرسہ نواب میں جہاں ہم بھی تھے، آپ کا آنا جانا رہتا تھا۔ وہاں جاتے تھے، بیٹھتے تھے، گفتگو کرتے تھے، اپنے اس خاص شیریں، پرکشش اور پرتپاک انداز میں۔ ان کا علمی کام بہت پرکشش ہے۔ آپ کی جو کتاب ہے 'انسان- جہان' اس کے بارے میں ہمیشہ ان کا اصرار رہتا تھا کہ اسے 'انسان و جہان' نہ کہئے، بلکہ کہئے 'انسان- جہان'، اس پر آپ تاکید کرتے تھے۔ میں بھی آپ سے سنتا تھا کہ فرماتے تھے کہ یہ 'انسان و جہان' نہیں ہے۔ ابھی اس کی پہلی ہی جلد چھپی تھی۔ وہ کتاب لیکر مدرسہ نواب میں آتے تھے، طلبہ جمع ہو جاتے تھے، آپ تشریح کرتے تھے کہ یہ کتاب ایسی ہے، اس میں ہم یہ بات کہنا چاہتے ہیں، ہم یہ کام کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ آپ کا علمی بیان آسان نہیں ہوتا تھا، اسی طرح آپ کی علمی تحریریں بھی آسان نہیں ہیں۔ آپ کے جو فلسفیانہ نظریات ہیں ان کے بارے میں تو میں کوئی بات نہیں کہہ سکتا، کوئی دعوی نہیں کر سکتا، اس بارے میں وہ افراد اور احباب جو زیادہ قریب تھے اور رابطے میں رہے وہی صحیح رائے دے سکیں گے، تاہم اتنا تو ہے کہ آپ کو عبور تھا، آپ آگاہ انسان تھے۔ بہت زیادہ محنتی تھے۔ واقعی آقا جعفری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کا یہ پہلو بہت نمایاں تھا کہ کسی ایک موضوع میں آپ کے علمی و فکری میدان کی وسعت آپ کو دوسرے موضوع سے غافل نہیں رکھتی تھی۔ آپ غور کیجئے کہ بیک وقت آپ نے شرح مثنوی بھی لکھی ہے، شرح نہج البلاغہ بھی لکھی ہے۔ ظاہر ہے کہ مثنوی اور نہج البلاغہ میں بہت گہرا اور ماہیتی فرق ہے۔ مگر آپ نے مثنوی کی بڑی تفصیلی شرح لکھی ہے اور ساتھ ہی نہج البلاغہ کی بھی تفصیلی شرح کی ہے اور قارئین کے لئے پیش کر دیا ہے۔

ادبیات اور فنون لطیفہ کے میدان میں بھی یہی صورت حال تھی۔ آپ فطرتا ایک فن کار اور فن شناس انسان تھے۔ مجھے یاد ہے، اوائل انقلاب کی بات ہے، ایک نشست ہوتی تھی ہفتہ وار یا دو ہفتے میں ایک بار جس میں میں بھی اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود شریک ہونے کی کوشش کرتا تھا۔ تہران میں آپ اس نشست کے بنیادی رکن تھے۔ اشعار پڑھے جاتے تھے، بعض اوقات بڑے مشکل اشعار بھی پڑھے جاتے تھے۔ مگر آپ اشعار، شعر فہمی اور شعر شناسی پر اس قدر عبور رکھتے تھے کہ مجھے حیرت ہوتی تھی۔

یہ بات مشہور ہے کہ جن کا حافظہ اچھا ہوتا ہے ان کے یہاں فکری گہرائی نہیں ہوتی، جن کے یہاں فکری عمق ہوتا ہے ان کا حافظہ اچھا نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں کہ یہ دونوں خصوصیات ایک ساتھ جمع نہیں ہوتیں۔ مگر جعفری صاحب اس خیال کے بطلان کا ثبوت تھے۔ یعنی بڑے مفکر انسان تھے اور غیر معمولی  حافظے کے بھی مالک تھے۔ واقعی ان کا حافظہ عجائبات میں سے تھا۔ مشہد میں ہم جناب جعفری صاحب اور دیگر تین افراد کے ساتھ ٹھنڈے علاقے کی جانب پیدل سفر پر گئے تھے۔ کل پانچ لوگ تھے، ان احباب میں سے اب ایک ہی حیات ہیں، باقی تین افراد جن میں آپ بھی شامل ہیں، اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ہم مشہد کے ان ٹھنڈے علاقوں میں پہاڑوں کی بلندی پر جاتے تھے اور گفتگو ہوتی تھی۔ جعفری صاحب کی خاص بات یہ تھی کہ وہ سفر کا احساس ہی نہیں ہونے دیتے تھے۔ بڑی دلچسپ گفتگو کرنے والے، تبحر رکھنے والے اور تمام بحثوں کے لئے دائمی طور پر آمادہ رہنے والے انسان تھے۔ ساتھ ہی آپ کا حافظہ بہت غضب کا تھا۔ انسان کسی شعر کی طرف بس ایک اشارہ کر دے تو پوری نظم پڑھ دیتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک بار کسی موقع پر منوچہری کی گفتگو ہوئی۔ میں نے ایک اشارہ کیا اور یہ مصرع پڑھا؛ «الا کجاست جمْل بادپای من» (3) قصیدے کا یہ ایک مصرع میں نے پڑھا۔ آپ نے شروع سے آخر تک پورا قصیدہ سنا دیا، زبانی! ایسے انسان تھے۔ ان کا حافظہ غیر معمولی تھا۔ سارے مطالب ہمیشہ آمادہ۔

آپ کی اہم خصوصیات میں سے ایک اسلامی معارف و تعلیمات کی ترویج کے تعلق سے ذمہ داری کا احساس تھا۔ آپ سخنور انسان تھے، لہجہ بہت شیریں تھا اور زبان میں بڑی سلاست تھی۔ انقلاب سے قبل کے دور سے ہی مجھے یاد ہے کہ آپ کو مختلف جگہوں پر بلایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ہم مشہد میں تھے۔ بعض خصوصی نشستوں کے لئے آپ کو مدعو کیا جاتا تھا اور آپ تہران سے تشریف لاتے تھے۔ خود تہران میں بھی، دوسری جگہوں پر بھی بلائے جاتے تھے۔ انقلاب کے بعد تو بڑی کثرت سے آپ نوجوانوں، طلبہ، اساتذہ، علما اور عوام کے لئے نشستوں میں شرکت کرتے تھے اور دینی معارف و تعلیمات کی تبلیغ و ترویج کرتے تھے۔ یعنی آپ کا جو علمی مرتبہ اور فکری مقام تھا وہ اس میں کبھی رکاوٹ نہیں بنا کہ آپ اپنے مخاطب افراد کی فکری سطح تک خود کو نیچے لائیں اور گفتگو کریں۔

آپ کے اندر خصوصیات تو بہت زیادہ تھیں، ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ میں دینی حمیت بہت زیادہ تھی۔ دینی امور کے سلسلے میں بڑے پابند انسان تھے، بعض افراد کے یہاں فکر یا کلام میں جو انحراف پیدا ہو جاتا ہے اس کے بارے میں بہت حساس تھے اور دو ٹوک انداز میں جواب دیتے تھے۔ ظاہر ہے پھر ان سے دشمنی بھی برتی گئی، یہاں تک کہ توہین بھی کی گئی، مگر اس کے باوجود آپ میدان میں ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔ واقعی آقا جعفری رضوان اللہ تعالی علیہ ایک ممتاز ہستی تھے۔

بڑے صابر انسان تھے۔ ان تمام فکری خصوصیات اور ظرافتوں کے ساتھ ہی آپ بڑے صابر انسان تھے۔ آپ کو مشکلات بھی پیش آئیں، آپ کی بیٹی کا انتقال ہو گیا، اسی طرح اہلیہ بھی دنیا سے چلی گئیں، یعنی زندگی میں یہ ساری مشکلات بھی  تھیں، مگر پھر بھی آپ محکم، ثابت قدم اور قوی مرد اور صابر انسان بنے رہے۔

دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو توفیق دے کہ آپ ان کے افکار و نظریات پر کام کر سکیں۔ ہمیں یہ بات اہل مغرب سے سیکھنا چاہئے کہ وہ اپنی علمی ہستیوں کو، ممتاز شخصیات کو بھلاتے نہیں۔ صرف احوال زندگی بیان کر دینے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ان کے نظریات اور ان نظریات کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان کے بارے میں ڈھیروں کتابیں لکھتے ہیں، تنقیدیں کرتے ہیں، بعض مخالفت کرتے ہیں اور بعض حمایت کرتے ہیں، دلائل قائم کرتے ہیں۔ یہ کام ہماری بھی علمی ہستیوں منجملہ آقا جعفری کے بارے میں انجام دیا جانا چاہئے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ آپ نے قدردانی کے لئے یہ جو سیمینار رکھا ہے وہ اس سلسلے کا آغاز ثابت ہو اور خود جعفری صاحب اور آپ کے افکار کو عالم تنہائی سے باہر نکالے۔ بہرحال ہم آپ سب کے بھی شکر گزار ہیں جو اس مہم کا حصہ ہیں اور اسی طرح اہل تبریز، قم کے علمائے افاضل اور تہران کی علمی ہستیوں کا اور ان تمام افراد کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو اس پروگرام میں تعاون کر رہے ہیں۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة ‌الله و برکاته

۱) ملّا محمّد کاظم خراسانی

۲) شیخ محمّد کاظم شیرازی

3) منوچهری. دیوان اشعار؛ قصیده‌، جس کا مطلع ہے «فغان ازین غراب بین و وای او / که در نوا فکندمان نوای او»