بسم‌ الله‌ ‌الرّحمن ‌الرّحیم

دینی درسگاہوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور علما کی شہادت کے بارے میں مختلف پہلوؤں سے بحث بڑی اہم اور پر مغز معلوم پڑتی ہے۔ ایک چیز تو یہی ہے کہ یہ ایک علامتی عمل ہے۔ دینی درسگاہوں نے شہدا کی قربانی پیش کی ہے وہ بھی اس بڑی تعداد میں، قم میں بھی، اسی طرح ملک بھر کے دیگر دینی درسگاہوں میں بھی۔ بنابریں یہ جو عمل انجام دیا جا رہا ہے یہ علامتی عمل ہے۔ اس میں ایک خاص مفہوم مضمر ہے جو بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ مفہوم یہ ہے کہ شہید وہ ہوتا ہے جو جدوجہد اور مقابلہ آرائی کے میدان میں قدم رکھے۔ جو شخص مقابلے کے میدان میں نہیں ہے، جو دشمن سے، دین کے دشمن سے، خود مختاری کے دشمن سے، ملک کے دشمن سے محو پیکار نہیں ہے، بلکہ اپنے گھر کے ایک گوشے میں بیٹھا ہوا ہے اور فرض کیجئے کہ کوئی چور اس کے گھر میں چوری کی نیت سے داخل ہوتا ہے اور پیسے کے لالچ میں اسے قتل کر دیتا ہے تو اسے شہید کا درجہ نہیں حاصل ہوگا۔ شہادت کا لازمہ ہے مجاہدت۔ جو شخص مجاہدت کرتا ہے اور جدوجہد کی اسی راہ میں قتل کیا جاتا ہے وہ شہید ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علمائے دین پیکار کے میدان میں جدوجہد کے میدان میں وسیع پیمانے پر اور بڑی تندہی کے ساتھ موجود رہے ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ بعض ادوار میں علمائے دین کی صنف جس مشکل اور کوتاہی سے دوچار رہی وہ دین کے دشمنوں سے، خودمختاری کے دشمنوں سے، بیرونی دشمنوں سے، مستبدین سے اور استعماری قوتوں سے پیکار کے میدان سے دوری و لا تعلقی ہے۔ بعض ادوار میں ہماری یہ صنف واقعی اس مشکل میں دوچار رہی اور اس کیفیت نے ہمیں واقعی نقصان پہنچایا، علمائے دین کی صنف کو نقصان پہنچایا۔ جب بھی علمائے دین کی صنف میدان عمل میں اتری اور دشمنان دین اور دشمنان اسلام کی معاندانہ سرگرمیوں کے سامنے سینہ سپر ہو گئی تو واقعی اس صنف نے جہاد کیا، پیکار کیا، ضربیں کھائیں، قتل بھی ہوئے اور سرخرو ہوئے۔ مختلف ادوار میں اس قسم کے علما موجود رہے ہیں۔ تاہم حالیہ دور میں یعنی ہمارا جو یہ زمانہ ہے، ہمارا جو یہ دور ہے، انقلاب کا جو یہ دور ہے ، اس میں بحمد اللہ اس میدان کا دائرہ کافی وسیع ہو گیا۔ بڑی تعداد میں لوگ اس میدان میں اترے۔ ہمارے بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے جو تحریک شروع کی اس کی برکت سے، توفیق خداوندی سے، ہدایت پروردگار سے اور ملت کی پشت پناہی سے علمائے دین کی صنف نے واقعی میدان پیکار میں کارنامہ سرانجام دیا۔

آپ اسے بھی طے جانئے کہ اگر گزشتہ لڑائی میں جو اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل اور انقلاب کی فتحیابی پر منتج ہوئی، علمائے دین شامل نہ ہوئے ہوتے تو یہ نتیجہ کبھی بھی حاصل نہ ہو پاتا۔ یعنی کوئی بھی پارٹی، کوئی بھی گروہ، روشن خیال گروہوں سے لیکر سیاسی گروہوں، چھاپہ مار گروہوں تک کوئی بھی اس بات پر قادر نہیں تھا کہ اس ملک میں استبدادی سلطنتی نظام کی بساط لپیٹ پاتا، اسے سرنگوں کر پاتا، اس ملک پر استعمار کے دیرینہ تسلط کو ختم کر پاتا اور اس کی بنیادوں کو نابود کر پاتا۔ اگر علمائے دین اس میدان میں نہ اترتے تہ یہ ہو پانا ممکن ہی نہیں تھا۔ کام عوام نے کیا۔ لیکن عوام کی یہ وسیع شراکت علمائے دین کی موجودگی کی وجہ سے تھی۔ اگر دینی قیادت نہ ہوتی تو عوام اس پیمانے پر، اس وسعت کے ساتھ، اس تندہی کے ساتھ میدان میں نہ آتے۔ اگر علمائے دین کی صنف میدان میں نہ اترتی، اگر اس تحریک کا دینی پہلو نہ ہوتا تو یہ جدوجہد خفیہ ہی رہ جاتی کبھی منظر عام پر نہ آ پاتی۔ اگر اس کا دینی پہلو سامنے نہ آیا ہوتا تو اس بڑی تعداد میں شہید، اس کثیر تعداد میں مخلص فی سبیل اللہ اور ایثار و قربانی کی تصویر بننے والے یہ والدین کبھی سامنے نہ آتے جنھوں نے اپنے ان نوجوانوں کو جن کی انھوں نے بڑی شفقت سے پرورش کی اور شباب کے مرحلے تک پہنچایا اور پھر انھیں میدان جنگ میں بھیج کر ان کی جدائی کا داغ سینے پر اٹھایا! یہ چیز کبھی بھی نہ ہو پاتی۔ بنابریں میدان پیکار میں علمائے دین کی صنف کی موجودگی بہت اہم اور تاریخی چیز ہے اور یہ شہادت اسی موجودگی و شراکت کی نشانی ہے۔ بنابریں خود شہادت ایک بلندی ہے اور اگر اس کے ساتھ عالم دین ہونے کی صفت بھی شامل ہو، علمی و دینی پہلو بھی شامل ہو تو اس کی قدر و منزلت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ محاذ جنگ پر جانے والے دینی طلبہ کے اندر جو اخلاص تھا، دوسرے بہت سے نوجوانوں کے اخلاص کی طرح بڑا اہم ہے، یہ ساری چیزیں اپنی جگہ پر محفوظ ہیں، لیکن علمائے دین کے سلسلے میں اورعلما کی شہادت کے سلسلے میں جو چیز بالکل منفرد ہے وہ یہی علامتی پہلو ہے۔ یعنی جہاد و پیکار کے میدان میں ان کی بھرپور شرکت کی نشاندہی کرنے والی علامت۔ یہ شرکت بہت اہم ہے۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ان بزرگوں پر جنھوں نے اس راہ کو ہموار کیا۔

علامہ طباطبائی مرحوم رضوان اللہ تعالی علیہ ان روشن فکر اور سماجی افکار کے حامل علمائے دین میں سے تھے۔ آپ کی تفسیر المیزان میں یہ خصوصیت سر تا پا علامہ طباطبائی مرحوم میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ لیکن آپ میدان پیکار میں موجود نہیں رہے۔ ایک موقع پر آپ سے بات ہو رہی تھی۔ دو افراد کے درمیان کی ایک خصوصی ملاقات تھی۔ اس میں آپ نے فرمایا کہ ماضی میں ایک بڑی کوتاہی، یا شاید آپ نے فرمایا کہ بڑی تقصیر یا بڑا گناہ علمائے دین کی طرف سے ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ مجھے آپ کی اس بات کی تفصیلات تو یاد نہیں ہیں، لیکن ماحصل یہی تھا، الفاظ مجھے یاد نہیں ہیں۔ اس بات کو آپ قبول کرتے تھے، اس کی تصدیق کرتے تھے کہ ماضی میں یہ خامی تھی۔ جبکہ ہمارے اس دور میں یہ خامی نہیں رہی۔ جب علمائے دین کی صنف انقلابی ہو، محو پیکار ہو، مجاہدت میں مصروف ہو، جب یہ صنف دشمن کو پہچانے، دشمن کے حربوں اور طریقوں سے آگاہ ہو، جب وہ ان حربوں اور روشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے خود کو تیار کرے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے حقیقی مقام پر پہنچ چکی ہے۔ بے شک اس راہ کے اپنے خطرات بھی ہیں، نقصانات بھی ہیں، مادی زیاں بھی ہے، ایک چیز تو یہی ہے کہ انسان قتل کر دیا جاتا ہے اس راہ میں، اس کا خون بہایا جاتا ہے۔ ویسے یہ اپنے آپ میں ایک بڑا مرتبہ ہے اللہ کی بارگاہ میں، اللہ تعالی ہر کسی کو درجہ شہادت عطا نہیں کرتا۔ بہرحال ان عزیزوں کی شہادت کی قدر و منزلت بہت زیادہ ہے۔ ان کی قدردانی کرنا بہت مستحسن عمل ہے۔

البتہ یہ کوشش کی جانی چاہئے کہ شہید عالم دین کو دیگر شہدا سے الگ نہ کیا جائے۔ شہدا تو سب ہی راہ خدا کے شہید ہیں، خواہ وہ طالب علم رہے ہوں، عمامہ پوش رہے ہوں یا عمامہ پوش نہ رہے ہوں۔ یہ سب کے سب راہ خدا کے شہید ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں زندہ جاوید ہیں؛ «اَحیآءٌ عِندَ رَبِّهِم یُرزَقون ‌» (1)  ہمیں چاہئے کہ حسرت اور رشک کی نگاہ سے شہدا کے اس بلند مرتبے کو دیکھیں اور اس کی آرزو کریں۔ ان کی قدر و منزلت نا قابل بیان ہے۔ لیکن بہرحال عالم دین شہیدوں کی ایک تعداد ہے جن کے بارے میں تحقیقی کام کیا جا سکتا ہے۔

بحمد اللہ جہاد و پیکار کی یہ فکر انھیں شہادتوں کی وجہ سے اور انھیں قربانیوں کی وجہ سے چار سو پھیل گئی، رائج ہو گئی۔ خود ہمارے ملک کے اندر بھی اور دیگر مسلمانوں کے درمیان بھی۔ آج آپ دیکھئے کہ جدوجہد کا جذبہ، جہاد کا جذبہ، شہادت کے لئے آمادگی کا جذبہ سارے عالم اسلام میں پھیل چکا ہے۔ کہیں اس میں شدت ہے کہیں یہ جذبہ قدرے کم ہے۔ اس کی ایک مثال اربعین حسینی کے موقع کا پا پیادہ سفر ہے۔ یہ واقعی بڑی حیرت انگیز چیز ہے، ایک الوہی شئے  ہے، ایک روحانی چیز ہے۔ واقعی یہ قابل بیان نہیں ہے۔ جیسے دوسرے بہت سے الہی حقائق ہیں جنھیں صحیح طریقے سے بیان کر پانا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ یعنی اس کا تجزیہ کر پانا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس انداز سے یہ ملین مارچ معرض شہود میں آ جائے، چند سال کے اندر اس طرح اپنی خاص شکل اختیار کر لے! بے شک ماضی میں بھی یہ سفر پیدل کیا جاتا تھا، لیکن یہ عالم نہیں تھا۔ ہمیں اطلاع ہے کہ مختلف ایام میں اربعین کے موقع پر بھی اور دوسرے مواقع پر بھی، طلبہ نجف سے اور عراق کے دیگر علاقوں سے پیدل جاتے تھے اور کافی تعداد میں جاتے تھے۔ لیکن دسیوں لاکھ کی تعداد میں یہ عظیم جم غفیر، ایران سے کئی ملین افراد، دیگر ممالک اور خود عراق سے دسیوں لاکھ افراد کی شرکت سے یہ عظیم عمل، وہ بھی دہشت گردانہ حملوں کے خطرات کے باوجود جو ہمیشہ لاحق رہے اور آج بھی لاحق ہیں، واقعی حیرت انگیز اور غیر معمولی ہے، ساتھ ہی بہت اہم بھی ہے۔ یہ راہ خدا میں، راہ اسلام میں جدوجہد کے نظرئے اور اس راہ میں عمومی اور ہمہ گیر آمادگی کی علامت ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ اس عمل میں اور بھی برکت دے۔

اب جب اربعین کے پیدل سفر کا ذکر آ گیا ہے تو ہم اس عمل کی قبولیت کی دعا و آرزو کے ساتھ اس عمل میں شریک ہونے والے تمام افراد کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیں گے۔ ہم عراق کی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے اس عظیم عمل کی انجام دہی کے وسائل فراہم کئے۔ ہم عراق کے عزیز عوام کا شکریہ ادا کریں گے جنھوں نے ان ایام میں، اس ایک ہفتے کے دوران یا اس سے زیادہ ایام کے دوران حضرت ابو عبد اللہ الحسین علیہ السلام کے زائرین اور پیدل سفر کرنے والے عقیدت مندوں کی خلوص اور خندہ پیشانی سے پذیرائی اور خدمت کو اپنا فریضہ سمجھا۔ ہم واقعی تہہ دل سے ان کے شکر گزار ہیں اور اللہ تعالی سے ان کے لئے جزائے خیر کے طالب ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم مجاہد عراقی نوجوانوں کا، حشد الشعبی اور دیگر افراد کا جنھوں نے اس پروگرام کی امن و سلامتی کے لئے کام کیا اور اس کے تحفظ کو یقینی بنانے میں رول ادا کیا، شکریہ ادا کریں۔ نجف کے مقدس مقامات کے منتظمین، اسی طرح کربلا میں حضرت ابو عبد اللہ (الحسین) علیہ السلام اور حضرت ابو الفضل (العباس) علیہ السلام کے روضہ ہائے اقدس کے منتظمین کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے جنھوں نے عوام کے لئے وسائل فراہم کئے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی انھیں بھی، اس عظیم عمل کو بھی اور اس میں شامل تمام افراد کو بھی برکتوں سے نوازے، ان پر لطف کرے، ان کی مدد فرمائے کہ وہ اس عمل کو ان شاء اللہ بنحو احسن انجام دیں۔ دعا کرتے ہیں کہ آپ کی یہ نشست بھی پرمغز، مفید اور برکتوں کی حامل ہو، اللہ تعالی آپ کی اس نشست کو بھی برکت دے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

1) سوره‌ آل‌ عمران، آیت نمبر ۱۶۹ کا ایک حصہ‌؛ «...وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں۔ ...»