بسم ‌اللّه ‌الرّحمن‌ الرّحیم

آپ نوجوان ہیں، آپ کا تعلق تیسری نسل سے ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس نسل کے نوجوان یعنی تیسری نسل کے نوجوان، پہلی نسل کے نوجوانوں کی نسبت زیادہ امید بخش ثابت ہوتے ہیں بشرطیکہ اپنے ایمان کی حفاظت کریں۔ پہلی نوجوان نسل میں وہ  افراد تھے جنہوں نے جذبات کی بنیاد پر ہیجان کے ماحول میں کام کیا، جذبات کا عالم تھا، بڑے اچھے جذبات تھے، ان جذبات نے اپنا اثر بھی دکھایا۔ یعنی ایک پرانے نظام کو سرنگوں کر دیا اور اسلام کے لئے راستہ ہموار ہوا۔ اسے ہم معمولی نہیں گردانتے۔ لیکن اکثریت، یعنی میں ایک ایک فرد کی بات نہیں کر رہا ہوں، سب کی بات نہیں کر رہا ہوں، اکثریت نے جذبات میں آکر جاسوسی کے مرکز (امریکی سفارت خانہ) پر بڑی شجاعت کے ساتھ قبضہ کر لیا لیکن بعد میں جاکر امریکیوں سے بات کی اور معذرت خواہی کر لی! اس کی وجہ کیا تھی؟ یہ جذبات میں گہرائی نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ وہ جذبات محکم بنیادوں پر استوار نہیں تھے۔ جذبہ تھا لیکن اس کی بنیاد محکم نہیں تھی۔ آج کے نوجوان البتہ ان میں بعض ایسے ہیں جو سڑکوں پر بے فکر ہوکر گھومتے ہیں، جنگ کے زمانے میں بھی ایسے افراد تھے، ایسا نہیں ہے کہ نہ رہے ہوں، لیکن جو نوجوان اپنے فریضے پر عمل کرتا ہے اسے بخوبی علم ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ اس کی ایک مثال یہی حججی ہیں، ایسے سیکڑوں نمونے ہیں، بلکہ ایسے ہزاروں نمونے موجود ہیں۔  

لہذا آج کے نوجوان پر اگر اس کا جذبہ اور ایمان ٹھیک ہے تو اس پر مجھے زیادہ اعتماد ہے اور اس سے زیادہ امیدیں ہیں ماضی کے نوجوانوں کے مقابلے میں۔ آپ آج کے نوجوان ہیں۔ یہ مستقبل آپ کا ہے۔ یہ مملکت آپ کی ہے۔ جہاں تک ممکن ہو خود سازی کیجئے فکری اعتبار سے بھی خود سازی کیجئے، ایمان کے اعتبار سے بھی خود سازی کیجئے، فکر بھی صحیح رکھئے اور ایمان و دل کو بھی صراط مستقیم پر رکھئے، اللہ سے مانوس رہئے۔ اگر ممکن ہو، جہاں تک ہو سکے نماز شب پڑھئے، نماز کو اچھے انداز سے پڑھئے، توجہ کے ساتھ پڑھئے، قرآن کی تلاوت کیجئے! یہ چیزیں ان شہیدوں کے جانے سے پیدا ہونے والے خلا کو بھر سکتی ہیں۔ یہ کام بہت ضروری ہیں۔ آپ سے مجھے زیادہ امیدیں ہیں۔ آپ کی اس نوجوان نسل سے، میں آپ کے بارے میں فردا فردا بات نہیں کر رہا ہوں کیونکہ آپ سے آشنائی نہیں ہے لیکن بحیثیت نوجوان نسل کے آپ پر مجھے اعتماد ہے آپ سے مجھے گزشتہ نسلوں کے مقابلے میں زیادہ امیدیں ہیں۔