بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

برادران عزیز! پیارے نوجوانو! اسلامی جمہوری نظام کے عزیز فرزندو! آپ سب کا خیر مقدم ہے جو ملک کی قوت و توانائی اور اسلامی جمہوری نظام کی طاقت اور اقتدار کے انتہائی اہم اور حساس ستون کا درجہ رکھنے والے شعبے میں مصروف خدمت ہیں۔ اللہ آپ سب کو کامیاب کرے، آپ کی مدد فرمائے، آپ پر لطف و کرم کا سایہ رکھے، آپ سب کا مستقبل، زمانہ حال سے بدرجہا بہتر ہو! میں شکریہ ادا کرنا چاہوں گا محترم کمانڈر کی جامع گفتگو اور ان عزیز نوجوانوں کے ذریعے پیش کئے جانے والے ترانے کا جس کے اشعار بھی اچھے تھے اور پیشکش بھی بہت اچھی تھی۔ ان شاء اللہ آپ سب کو کامیابی و کامرانی نصیب ہو۔

میں اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔ 19 بہمن (مطابق 8 فروری) کا دن ملک کے لئے بہت اہم دن ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے فضائی شعبے کے لئے بڑے افتخار و اعزاز کا دن ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے۔ چنانچہ اس دن کو ہر سال ہم بھی اور آپ بھی مناتے ہیں، اس کی قدردانی کرتے ہیں اور بیٹھ کر اس کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ 19 بہمن (مطابق 8 فروری) صرف ایک شیریں اور افتخار آمیز واقعے کی یاد منانے کا دن نہیں ہے۔ البتہ یاد تو منائی جانی چاہئے لیکن اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ 19 بہمن (مطابق آٹھ فروری) کا دن اسلامی انقلاب کے سرمائے اور پونجی میں اضافے کا دن ہے۔ تمام 'ایام اللہ' اس خصوصیت کے حامل ہیں۔ 22 بہمن (11 فروری) کا دن بھی ایسا ہی ہے۔ یہ تمام 'ایام اللہ' یہ یادگار ایام، وہ ایام جن میں عظمت، انسانیت اور قربانی کے جلوؤں کی درخشش نظر آئی، ہر سال جب ان کی یاد منائی جاتی ہے اور ان پر غور کیا جاتا ہے تو انقلاب کے ذخائر میں ایک اور ذخیرے کا اضافہ ہوتا ہے، اسلامی انقلاب کو مزید استحکام حاصل ہوتا ہے۔ 19 بہمن (مطابق آٹھ فروری) بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔

انقلاب ایک زندہ شئے ہے۔ میں اس نکتے پر تاکید کرنا چاہتا ہوں۔ اس سلسلے میں کچھ نکات ہیں جو مجھے عرض کرنے ہیں۔ البتہ آج نہیں، ان شاء اللہ مستقبل قریب میں کسی مناسبت سے عرض کروں گا۔ انقلاب ایک 'موجود زندہ' ہے۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انقلاب ایک چنگاری تھی جو نکلی اور ختم ہو گئی وہ انقلاب کی حقیقت کی شناخت سے بہت دور ہیں۔ جی نہیں، انقلاب ایک حقیقت زندہ کا نام ہے، ایک موجودہ زندہ کا نام ہے جس کی پیدائش ہوتی ہے نشو نما ہوتی ہے، قد و قامت ہوتی ہے اور سازگار حالات میں اس کی ایک طولانی عمر ہوتی ہے، جبکہ ناسازگار حالات میں وہ بھی بیمار ہوتا ہے، مر جاتا ہے، نابود ہو جاتا ہے۔

انقلاب ایسا ہوتا ہے۔ وہ بھی دیگر جاندار موجودات کی مانند ہوتا ہے۔ انقلاب زندہ مخلوق کی طرح ہوتا ہے لہذا وہ بھی بڑھتا ہے، نمو پاتا ہے، قد و قامت پاتا ہے اور کاملیت کے مراحل سے گزرتا ہے۔ آپ دیکھئے، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے؛ وَمَثَلُهُم فِی الاِنجیلِ کَزَرعٍ اَخرَجَ شَطئئَه فَئازَرَه فَاستَغلَظَ فَاستَویّْ عَلیّْ سوقِه (۲)۔ یعنی اصحاب پیغمبر کی مثال، اسلامی سماج کی یعنی ان انقلابیوں کی مثال ایک نبات کی ہے جو زمین سے سر ابھارتی ہے، اپنی نمائش کرتی ہے، پھر بتدریج نشو نما پاتی ہے، رفتہ رفتہ اس کا تنا محکم ہوتا ہے، رفتہ رفتہ اس کا قد بڑھتا ہے، رفتہ رفتہ وہ حیرت انگیز طور پر ایک مستحکم اور بابرکت موجود میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس میں حیرت انگیزی کیا ہے؟ آیت آگے  کہتی ہے؛ «یُعجِبُ الزُّرّاع» خود اس شخص کے لئے جس نے اس پودے کو زمین پر لگایا ہے، حیرت آور ہے۔ لِیَغیظَ بِهِمُ الکُفّار؛ وہ دشمن کو غصہ دلاتا ہے۔ انقلاب کی بھی یہ خصوصیت ہے۔ یہ روز بروز نمو کے مراحل سے گزرتا ہے اور تکامل کی منزلیں طے کرتا ہے۔

آپ عزیز نوجوان جو اس نشست میں اکثریت میں ہیں اور مجھے بہت عزیز بھی ہیں اور میرے بچوں جیسے ہیں، آپ میں اکثر نے ان ایام کو نہیں دیکھا ہے۔ انقلاب سے پہلے کے ایام کی تو بات ہی الگ ہے، اوائل انقلاب کے ایام بھی آپ نے نہیں دیکھے ہیں۔ جوش و جذبے کے ایام تھے، شجاعت و بہادری کے ایام تھے۔ لیکن آج انقلاب کی قد آوری کا دن ہے، اس زمانے کی نسبت آج انقلاب زیادہ مستحکم ہو چکا ہے۔ وہ انقلابی افراد جن کے دل انقلاب کے سلسلے میں ایمان و ایقان سے مملو ہیں، آج وہ اپنا سفر طے کرنے کے سلسلے میں، اپنی منزل اور اپنے ہدف سے آگاہی کے سلسلے میں  زیادہ محکم، زیادہ استوار، زیادہ آگاہ اور زیادہ صاحب بصیرت ہیں۔ آج یہ حالات ہیں۔ انقلاب آگے بڑھ چکا ہے، انقلاب تکامل کی منزلیں طے کر رہا ہے۔ اسی لئے حقیر نے بارہا کہا کہ تغیر و تبدل انسانی زندگی کا جز ہے تو یہ انقلاب کی زندگی کا بھی جز ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیسا تغیر و تبدل؟ ایسی تبدیلی جس میں اصول اور بنیادیں محکم انداز میں قائم رہیں۔ اَلَم تَرَ کَیفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَـلًا کَلِمَةً طَیِّـبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِی السَّماّْءِ (۳)، اس کی اصل یا بنیاد اٹل ہے۔ جڑ محکم ہے، اس کے ستون وہی اصلی محکم ستون ہیں۔ نئے نئے نتائج، ثمرات، حاشئے تو عالم زندگی میں، انسان اور سماج کی زندگی کی فضا میں نظر آتے رہتے ہیں۔ بے شک اس سے نئے پھل اور نئے ثمرات ملتے رہتے ہیں۔ یہی انقلاب کی خصوصیت ہے۔ ہمارے انقلاب کے اندر یہ خصوصیت موجود ہے۔

اگر دنیا کے انقلابات کی تاریخ پر نظر ڈالئے، البتہ حالیہ صدیوں کے جو انقلابات ہیں ان کی بات کر رہا ہوں، اس سے پہلے کے انقلابات اور کئی صدیوں پہلے کے انقلابات کے بارے میں ہمیں بہت زیادہ اطلاعات نہیں ہیں، اس وقت ان سے ہماری بحث نہیں ہے۔ بلکہ ان دو تین صدیوں کے اندر دنیا میں جو انقلاب آئے مثال کے طور پر انگریزوں سے امریکہ کو خود مختاری دلانے کے لئے جو انقلاب شروع ہوا یا فرانس کا انقلاب کبیر، یا سوویت یونین کا اکتوبر انقلاب، ان انقلابات سے لیکر چھوٹے انقلابات تک جو بعض ممالک میں رونما ہوئے ان کے بارے میں اس حقیر کو مکمل آشنائی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ جو خصوصیات ہمارے انقلاب میں ہیں وہ ان میں سے کسی بھی انقلاب میں نہ تھیں اور نہ ہیں کہ اس کی بنیادیں ثابت و محکم بنی رہیں اور اس طویل قامت اور گہری جڑیوں والے درخت سے نو بہ نو ثمرات نکلیں اور عوام اور سماج ان سے بہرہ مند ہوں۔ انقلاب کو 39 سال ہو رہے ہیں، ہم انقلاب کے چالیسویں سال میں داخل ہو رہے ہیں، یہ بہت عظیم واقعہ ہے۔ تو یہ کچھ باتیں انقلاب کے تعلق سے تھیں۔

البتہ دشمن اسی چیز کا سخت مخالف ہے۔ دشمن سے کیا مراد ہے؟ مراد وہ ہے جسے انقلاب سے نقصان پہنچا۔ وہ لوگ جنھیں اس انتہائی حساس علاقے میں ایک فرماں بردار حکومت دستیاب تھی جس نے سب کچھ ان کے اختیار میں دے رکھا تھا؛ اپنی سیاست، اپنی معیشت، اپنی آمدنی سب کچھ ۔ ان کے ہاتھوں سے یہ حکومت نکل گئی اور انھیں یہ نقصان اٹھانا پڑا۔ ان میں سر فہرست امریکہ ہے، اسی طرح برطانیہ جیسی کچھ یورپی حکومتیں ہیں۔ یہ دشمن ہیں۔ دشمن کی کوشش یہ ہے کہ اس استقامت اور اس صورت حال کے تسلسل کو ختم کر دے۔ گوناگوں کوششیں کر رہے ہیں کہ یہ مقصد پورا ہو جائے۔ اس کے لئے ہر ممکن حربے استعمال کر رہے ہیں۔ دانشور نما افراد استعمال کئے جا رہے ہیں، بعض افراد ایسے ہیں جو دانشور نما ہیں، بیٹھ کر بخیال خویش نظریات پیش کرتے ہیں جو انقلاب کی بنیادوں سے متصادم ہیں۔ ممکن ہے آپ ان کے بعض مقالات اور تحریریں بعض اخبارات و جرائد یا الیکٹرانک میڈیا میں دیکھیں۔ ان افراد کو استعمال کیا جاتا ہے، انھیں پیسے دئے جاتے ہیں۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ بیٹھ کر انقلاب کے خلاف اور انقلاب کی بنیادوں کے خلاف نظریات وضع کیجئے۔ ان دانشوروں سے لیکر جعلی نظریہ پردازوں تک جو مفکر بن جاتے ہیں۔ جعلی مفکروں سے لیکر اخبار نویسوں تک اور بکے ہوئے قلمکاروں تک سائیبر اسپیس کے وسائل تک اور ان جوکروں تک، وہ جس کو بھی ممکن ہے استعمال کرتے ہیں تاکہ مخاطب افراد کی تعداد بڑھ سکے۔ یہ سارے کام انجام دئے جا رہے ہیں، یہ سب کچھ اس وقت موجود ہے۔ نئی بات نہیں ہے، اوائل انقلاب سے ہی یعنی انتالیس سال پہلے سے یہ سارے کام ہوتے آ رہے ہیں۔ تاہم روز بروز ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آج ایسے وسائل دستیاب ہیں جو پہلے کے زمانے میں نہیں تھے۔ یہ سارے وسائل استعمال کئے جا رہے ہیں۔ آپ نے سنہ 2009 کے فتنے میں سنا کہ انٹرنیٹ پر سرگرم رہنے والا ایک چینل مرمت اور اصلاحات انجام دینے والا تھا اس سے کہا کہ گیا کہ مرمت نہ کرو، ابھی رک جاؤ، اس وقت ہمیں خدمات فراہم کرو۔ تاکہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور امریکی سیاسی اداروں کی خدمات انجام دیتا رہے۔ تو وہ ان تمام  وسائل کو استعمال کرتے ہیں۔

وہ اسی طرح کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اچانک 22 بہمن (مطابق 11 فروری) کا دن آ جاتا ہے! وہ لوگ اپنے مخاطب افراد سے آس لگاتے ہیں، مگر 22 بہمن کی تاریخ آتی ہے تو آپ خود دیکھتے ہیں کہ تہران میں اور دیگر شہروں میں، ملک کے تمام علاقوں میں، مشرق میں، مغرب میں، شمال میں، جنوب میں، عوام کا سیلاب نکل پڑتا ہے۔ سردی کے موسم میں، برفباری اور بارش میں، برف جمی سڑکوں پر، سب کی زبان پر یکساں نعرے ہوتے ہیں۔ یا مثال کے طور پر '9 دی' (مطابق 30 دسمبر، سنہ 2009 میں آشوب پسند عناصر کے خلاف ملک گیر عوامی ریلیوں کا دن) کی تاریخ آ جاتی ہے تو ایک الگ انداز سے۔ جب بھی کچھ واقعات پیش آ جائیں تو 30 دسمبر 2009 کی طرح یا 2017 کے 30 دسمبر کی طرح سب لوگ نکل پڑتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ اس دفعہ بھی 30 دسمبر کو عوام کس جذبے اور کس جوش و خروش کے ساتھ نکلے! کیونکہ عوام نے دشمن کی آہٹ محسوس کر لی تھی۔ جاندار موجود کی یہی خصوصیت ہوتی ہے۔ جب وہ دشمن کی آہٹ محسوس کر لیتا ہے تو اور بھی چوکنا ہو جاتا ہے، اپنی سرگرمیاں تیز کر دیتا ہے۔ 30 دسمبر کو پورے ملک میں عوام نظر آئے، اس کے بعد تین جنوری سے آٹھ جنوری تک مسلسل چار یا پانچ دن مختلف شہروں میں خود بخود عوام نے ریلیاں نکالیں۔ 9 جنوری کو میں نے اسی حسینیہ میں اپنے عزیز عوام کی خدمت میں عوام کی اس شراکت کی ایک اجمالی رپورٹ پیش کی (4)۔ اسی کو زندہ ہونا کہتے ہیں، اسی کو نشو نما پانا کہتے ہیں۔ دشمن کی وہ تمام تر کوششیں اور سرگرمیاں بے اثر ہو جاتی ہیں۔ کوششیں صرف انٹرنیٹ اور سائیبر اسپیس کی حد تک محدود نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر پابنیوں کو لے لیجئے۔ پابندیوں کا اثر عوام کی زندگی پر پڑتا ہے، اقتصادی مشکلات پیدا ہوتی ہیں اور ہوئی ہیں۔ سارے عوام ان مشکلات سے روبرو ہیں لیکن اس کے باوجود انقلاب سے ان کا عشق، انقلاب سے ان کی وابستگی، انقلاب اور اسلامی نظام سے ان کا رشتہ ان مواقع پر ان کے رد عمل کی صورت میں نظر آتا ہے۔

بنابریں ان 'ایام اللہ' کو استحکام کی ضمانت سمجھنا چاہئے۔ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس سال بھی لطف خداوندی سے، نصرت خداوندی سے 22 بہمن کی تقریب جشن انقلاب کی دیدنی تقاریب میں سے ایک ہوگی۔ اس لئے کہ امریکی حکام اور دوسروں نے جو مہمل گوئی کی ہے اس کی وجہ سے عوام کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ دشمن گھات میں بیٹھا ہے اور حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ فوجی حملہ ہو تاہم وہ دشمنی نکالنے کی کوشش میں ہے۔ عوام میں جب یہ احساس پیدا ہوتا ہے تو وہ فورا میدان میں نکل پڑتے ہیں۔ اس سال ان شاء اللہ توفیق خداوندی سے، نصرت پروردگار سے عوام کی شرکت ہمیشہ سے زیادہ پر تپاک اور پرجوش ہوگی۔ توفیق خداوندی سے سب باہر نکلیں گے۔ یہ رہی ایک بات۔

دوسری بات اسلامی جمہوری نظام کے اصولی مسائل کے بارے میں ہے۔ البتہ میں نے عرض کیا کہ ان مسائل کے بارے میں مجھے کچھ باتیں کہنی ہیں جو ان شاء اللہ عنقریب میں عرض کروں گا۔ آج اجمالی طور پر ذکر کرنا چاہوں گا۔ اسلامی انقلاب کے نتیجے میں تشکیل پانے والے نظام نے اپنی کچھ اصولی پالیسیاں وضع کر رکھی ہیں۔ اسلامی انقلاب نے ایک سیاسی و سماجی نظام کی پیشکش کی اور اسے عملی جامہ پہنایا اور اس فکر کو نافذ کیا۔ اس نظام کے لئے انقلاب کی بنیاد پر کچھ اصول طے ہو گئے۔ مثال کے طور پر خود مختاری؛ اقتصادی خود مختاری، ثقافتی خود مختاری، سیاسی خود مختاری، سیکورٹی کی خود مختاری۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو پہلے نہیں تھیں۔ انقلاب کی کامیابی سے پہلے ان میں سے کوئی بھی خود مختاری نہیں تھی۔ ان میدانوں میں ہم نے کافی پیشرفت کی ہے۔ البتہ بعض میدانوں میں ہمیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ خود مختاری ہے، آزادی ہے۔

ملکی پیشرفت؛ انقلاب کے کلیدی اصولوں میں سے ایک ملکی پیشرفت ہے۔ مختلف میدانوں میں، علم و سائنس کے میدان میں، ٹیکنالوجی کے میدان میں، اخلاقیات کے میدان میں، مادی میدانوں میں، روحانی میدانوں میں، گوناگوں شعبوں میں ملک کو پیشرفت حاصل ہونی چاہئے۔ ان میدانوں میں اچھی پیشرفت ہوئی ہے۔ البتہ جو ہمارا مطمح نظر ہے اور جس کی ضرورت ہے وہ منزل ابھی دور ہے، ہمیں ابھی کافی مسافت طے کرنی ہے۔

مساوات، سماجی انصاف، عوام کے مختلف طبقات کے درمیان فاصلوں کو ختم کرنا۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو کوتاہی نظر آتی ہے، پسماندگی نظر آتی ہے، اس میدان میں جو کام کیا جانا تھا، جو لازمی اور مناسب اقدامات تھے وہ انجام نہیں پائے ہیں۔ ہمیں پوری سنجیدگی سے اس کے لئے کام کرنا چاہئے اور آپ یقین رکھئے کہ ہم اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور اس قضیئے کو ہرگز نظر انداز نہیں ہونے دیں گے۔ یہ اسلامی جمہوری نظام کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ یقینا اس کا راستہ ناانصافی اور کرپشن سے جنگ ہے۔ انصاف و مساوات کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ سماج کی داخلی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی۔ اقتصادی میدانوں میں بھی، سیاسی میدانوں میں بھی اور دوسرے تمام میدانوں میں بھی انصاف و مساوات بہت اہم موضوع ہے۔ انصاف و مساوات ایک 'مطلق قدر' و خصوصیت ہے، دیگر اقدار و اوصاف ایک طرح سے تناسبی ہوتے ہیں لیکن انصاف ایک قدر مطلق ہے۔ یہ ہر صورت میں لازم ہے اور اس کے لئے کام کیا جانا چاہئے۔ کرپشن کے خلاف جد وجہد ہونی جاہئے، ظلم و نا انصافی کے خلاف پیکار ہونا چاہئے، البتہ یہ بہت دشوار کام ہے۔ میں نے چند سال قبل کہا تھا کہ کرپشن افسانوں والے سات منہ کے اژدہے کی مانند ہے۔ اگر آپ سات سر والے اژدہا کا ایک سر کاٹ دیں تب بھی وہ چھے سروں سے اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ اسے ختم کرنا آسان نہیں ہے۔ کرپشن ایسا ہوتا ہے۔ سماج میں جو لوگ کرپشن سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کرنا اور ان سے زور آزمائی بہت دشوار کام ہے۔ واقعی بڑا مشکل کام ہے۔ لیکن یہ ان دشوار کاموں میں ہے جنھیں ضرور انجام دینا چاہئے۔ یہ ایسا کام ہے جسے ضرور انجام دیا جانا چاہئے۔ حضرت امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام جو ہمارے پیشوا اور مقتدا ہیں ان کی پوری حکومت تقریبا اسی اہم مسئلے اور اسی اہم مشن میں گزر گئی، البتہ کرپشن ختم بھی نہیں ہو پایا۔ اگر خدانخواستہ حکومتی اہلکاروں کے اندر ناانصافی کا مزاج پیدا ہو جائے، کرپشن پھیل جائے تو کارروائی اور بھی سختی کے ساتھ کی جانی چاہئے۔ گوناگوں ادارے اور ملک کے تمام عہدیداران ہم سب کے سب پورے ملک میں اس مسئلے پر توجہ دیں، اسے ہرگز نظر انداز نہ کریں، نا انصافی کو ہرگز نظر انداز نہ کریں۔

بین الاقوامی سطح پر بھی یہی چیز ہے۔ استکبار کے مظالم کو بے نقاب کیا جانا چاہئے۔ اس وقت سب سے ظالم اور سب سے بے رحم حکومت امریکہ کی حکومت ہے۔ سب سے زیادہ ظالم ہے۔ آپ نے داعش کو دیکھا کہ یہ کس قدر وحشی اور ظالم تنظیم تھی؟ امریکی حکومت اس سے بھی بدتر ہے۔ امریکی حکومت تو وہ ادارہ ہے جس نے داعش جیسی تنظیموں کو تشکیل دیا، یعنی صرف ایک داعش تنظیم کی بات نہیں ہے، ان کے لئے سہولت کاری انجام دی، بلکہ ان تنظیموں کے وجود میں آنے کا اصلی سبب امریکی حکومت ہی تھی۔ اب تو یہ صرف ہمارا دعوی نہیں ہے، یہ خود وہی کہہ رہے ہیں۔ یہی شخص جو اس وقت امریکہ کا صدر  ہے اس نے اپنی انتخابی کیمپین میں بار بار داعش کی تشکیل کو ڈیموکریٹوں یعنی اپنی حریف جماعت کا کام قرار دیا، بار بار اس موضوع کو اٹھایا۔ یہ بات صحیح تھی۔ اس کے شواہد اور دستاویزات موجود تھے اور آج بھی ہیں۔ خود انھوں نے داعش کی تشکیل کی، خود انھوں نے داعش کو تقویت پہنچائی، خود انھوں نے داعش کی مالیاتی اور اسلحہ جاتی مدد کی۔ بلکہ ممکنہ طور پر بعض روشوں کی ٹریننگ خود انھوں نے داعش کو دی۔ وہ وحشی امریکی ادارے جو حکومت سے وابستہ ہیں جیسے بلیک واٹر وغیرہ، وہ یہی سب حرکتیں کرتے ہیں۔ انھیں یہ سب خوب آتا ہے، وہ انسانوں کے خلاف وحشیانہ برتاؤ کے ماہر ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ داعشی دہشت گردوں کو انھوں نے ہی ٹریننگ دی ہو۔ ورنہ وہ بدبخت آدمی جو قفقاز سے آیا ہے اسے کیا معلوم کہ کیسے ایک انسان کو ٹارچر کیا جا سکتا ہے، کیسے تدریجی طور پر غرق کیا جائے یا تدریجی طور پر زندہ جلایا جائے؟ ممکنہ طور  پر انھوں نے ہی یہ سب سکھایا ہے۔

امریکی حکومت دنیا کی سب سے سنگ دل اور سب سے بے رحم حکومت ہے لیکن اس کے باوجود پروپیگنڈے میں وہ انسانی حقوق کی علمبردار بنی ہوئی ہے، مظلومین کے حقوق کی طرف دار بنی ہوئی ہے، جانوروں کے حقوق کی پاسدار بنی ہوئی ہے! انھیں رسوا کیا جانا ضروری ہے۔ یہ چیزیں بیان کی جانی چاہئیں، عالمی سطح پر لوگوں کو آگاہ کیا جانا چاہئے۔ فلسطین کے سلسلے میں انھوں نے جو ظلم کیا، اس وقت روزانہ فلسطینیوں پر جو ظلم و ستم ڈھایا جا رہا ہے، ایک سال، دو سال، دس سال یا بیس سال نہیں ستر سال سے مظالم کا یہ سلسلہ جاری ہے اور اس کی پشت پر امریکی موجود رہے ہیں، آج بھی موجود ہیں، یہ چیزی بیان کی جانی چاہئیں۔ اہل یمن پر ظلم۔ اس وقت روزانہ یمن پر بمباری ہو رہی ہے، بے گناہ عوام پر بمباری ہو رہی ہے، خوشی کی  تقاریب اور غم کی مجالس پر بمباری کی جاتی ہے۔ بازاروں پر بمباری کی جاتی ہے، ملک کی بنیادی تنصیبات پر بمباری کی جاتی ہے۔ کس کے ذریعے؟ امریکیوں کے اتحادیوں کے ہاتھوں جنھیں امریکہ کی حمایت حاصل ہے، جنھیں امریکیوں سے اسلحہ مل رہا ہے، جنھیں امریکیوں سے مدد مل رہی ہے۔ وہ اس منظر کو بخوبی دیکھ رہے ہیں اور اعتراض یا تنقید کا ایک لفظ زبان پر لانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ البتہ خود ان کے ملک میں بعض افراد مثلا کچھ قلمکار ہیں جو اعتراض کرتے ہیں، مگر امریکہ کی حکومت ان پر ذرہ برابر توجہ نہیں دیتی۔ اس کے بعد وہ جاتی ہیں (5) اور بڑی بے حیائی کے ساتھ لوہے کے چند ٹکڑے وہاں رکھ کر کہتی ہیں کہ یہ ٹکڑے اس میزائل کے ہیں جو ایران نے یمن کے مجاہدین کو دیا ہے! بے بنیاد دعوے کرتے ہیں۔ یمن کے مجاہدین محاصرے میں ہیں، کوئی بھی چیز ان تک پہنچا پانا ممکن نہیں ہے۔ اگر پہنچانا ممکن ہوتا تو ہم انھیں میزائل کے بجائے میزائل ڈیفنس سسٹم دیتے۔ لیکن ان تک کچھ پہنچا پانا ممکن نہیں ہے، وہ بڑے مظلوم ہیں۔ کُن للظّالِمِ خَصمًا وَ لِلمَظلومِ عَونا (۶)۔ اگر مظلوم کی مدد کر سکتے ہو تو ضرور کرو۔ اسلامی مزاحمت کے معاملے میں ہم ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ امریکیوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ مغربی ایشیا میں اسلامی مزاحمت کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکیں گے! انھیں پورا یقین بھی تھا کہ وہ اس میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہم سامنے کھڑے ہو گئے، ہم نے کہا کہ یہ نہیں ہونے دیں گے۔ آج ساری دنیا کے لئے ثابت ہو چکا ہے کہ امریکہ نے چاہا لیکن کر نہیں پایا، مگر ہم نے جو چاہا وہ کر دکھایا۔ یہ چیز ساری دنیا سمجھ چکی ہے۔ ظلم کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہئے۔ یہ تو بیرونی ظلم ہے۔ داخلی ظلم کے سلسلے میں بھی یہی ہونا چاہئے بلکہ کچھ پہلوؤں سے تو اسے اور ترجیح حاصل ہے۔

ایک نکتہ اور بھی ہے اسے بھی عرض کرتا چلوں، یہ عوام سے متعلق ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کا سب سے اہم امتیاز اس کا عوامی ہونا ہے۔ ایک بہت بڑا امتیاز اس انقلاب کا عوامی اور دینی ہونا ہے۔ اسلامی انقلاب ایک دینی تحریک تھی جس کا تعلق عوام کے عقیدے سے تھا۔ جو نظام تشکیل پایا وہ بھی دینی اور عوامی نظام تھا۔ عوام چونکہ اسلام پر عقیدہ رکھتے تھے اس لئے وہ میدان میں اتر پڑے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے اور ان کے پیارے، جنگ کے محاذوں پر گئے، جہاد کیا اور جاں بحق ہوئے۔ ماں باپ کے دل و جگر شگافتہ ہو گئے لیکن انھوں نے صبر کیا، شکر ادا کیا، شکوہ نہیں کیا۔ کیونکہ یہ قربانی راہ خدا میں تھی، امام  حسین کے لئے تھی۔ یہ انقلاب کی خصوصیات ہیں۔ یہ انقلاب عوامی انقلاب ہے۔ تمام پروگراموں اور منصوبوں میں عوام کو پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔

عوام کا نام تو بار بار لیا جاتا ہے۔ یہ اچھا بھی ہے کہ ملک کے حکام ہمیشہ عوام پر توجہ دیں، عوام کا ذکر کریں۔ اس چیز پر بار بار تاکید کرتے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ عوام کو پہچانیں، ہم سب عوام کو پہچانیں! دیکھئے طاغوتی حکومت ( شاہی دور حکومت) میں، جو آپ کو یاد نہیں ہوگا، ہم نے اپنی جوانی کا دور اور سرگرمیوں اور جدوجہد کا دور اسی زمانے میں گزارا ہے، ایک طبقہ روشن خیال افراد کا ہوا کرتا تھا، کچھ روشن فکر افراد تھے جو سرگرم تھے۔ ان میں بہت سے افراد سے ہمارا رابطہ بھی تھا۔ وہ  ہمیشہ عوام کا ذکر کرتے تھے۔ کوئی بھی مناسبت ہو، کوئی بھی گفتگو ہو وہ کہتے تھے؛ 'عوام، عوام کی خاطر، عوام کا دفاع' اس طرح کی باتیں کرتے تھے۔ حالانکہ وہ غلط فہمی میں تھے۔ اب یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ سب کے سب غلط بیانی کرتے تھے، لیکن وہ غلط فہمی میں ضرور مبتلا تھے۔ کیونکہ نہ تو وہ عوام کو پہچانتے تھے اور نہ عوام انھیں جانتے تھے۔ نہ تو وہ عوام کی بات سمجھتے تھے اور نہ عوام ان کا مدعا سمجھ پاتے تھے۔ اخبارات و جرائد میں وہ کثرت سے مقالے لکھتے تھے۔ طاغوتی حکومت کو بھی علم تھا کہ عوام پر ان کی باتوں کا کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے۔ کیونکہ عوام ان کی باتوں کو نہیں سمجھیں گے۔ یہ لوگ بس یونہی خیالی گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ اسی لئے ان کے ساتھ زیادہ سختی بھی نہیں کرتی تھی۔ میں نے مشہد میں دیکھا تھا کہ صریحی کمیونسٹ نظریات کی کتابیں کتب خانوں میں بہ آسانی ملتی تھیں۔ لیکن کسی اسلامی نظرئے پر کوئی کتاب، مسئلہ فلسطین پر کوئی کتاب یا اسی طرح کے دیگر مسائل پر کتابوں کو بہت سختی کے ساتھ روکا جاتا تھا۔ وجہ یہی تھی کہ جو چیزیں وہ لکھتے تھے، جو باتیں وہ کرتے تھے، وہ عوام کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں تھیں۔ انھیں عوام کی شناخت نہیں تھی اور نہ عوام ان سے واقف تھے۔ سنہ 1962 میں جب امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) جدوجہد کے میدان میں اترے تو خود وہ بھی عوام سے بخوبی واقف تھے اور عوام نے بھی انھیں پہچانا، ان کی بات سمجھی، ان کی باتوں پر توجہ دی، نتیجے میں انقلاب رونما ہوا۔ تو ضروری ہے کہ عوام کی شناخت حاصل کی جائے۔

عوام کون لوگ ہیں؟ عوام وہی لوگ ہیں جو 11 فروری کا کارنامہ انجام دیتے ہیں، عوام یہی ہیں۔ اگر آپ کو عوام کی بات سننی ہے، سمجھنی ہے تو دیکھئے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ عوام وہ ہیں جو یہ دیکھتے ہی کہ کچھ آشوب پسند بیچ میں آ گئے ہیں، اگر انھیں کوئی اعتراض بھی ہے تو آشوب پسندی والے نعرے سنتے ہی خود کو الگ کر لیتے ہیں۔ پھر 30 دسمبر کو میدان میں اترتے ہیں اور اپنے نعرے بلند کرتے ہیں۔ عوام یہ ہیں۔ کسی اور کو عوام تصور کرنے کی غلطی نہ کی جائے۔ عوام کو ان کے نعروں سے ان کی باتوں سے پہچانا جائے اور ان کے لئے کام کیا جائے۔ مُخلِصاً لِلّهِ و لِوَجهِهِ الکَریم، عوام کے لئے کام کرنے اور اللہ کے لئے کام کرنے میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ عوام کے لئے کام کر رہے ہیں تو پھر یہ کام اللہ کے لئے نہیں ہے۔ نہیں، اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ عوام الناس کے لئے کام کیجئے۔ اللہ ہم عہدیداران سے یہی چاہتا ہے کہ ہم عوام کی خدمت میں لگے رہیں، عوام کے خادم بنے رہیں، عوام کے لئے کام کریں۔ عوام کی بات سننا چاہئے۔ عوام کی باتوں کو، بدعنوانی کے سلسلے میں ان کی شکایتوں کو، تفریق و امتیاز کے بارے میں ان کی شکایتوں کو سننا چاہئے، یہی عوام کی باتیں ہیں۔ عوام بہت سی مشکلات برداشت کرتے ہیں، لیکن بدعنوانی اور تفریق و امتیاز انھیں ہرگز پسند نہیں ہے۔ انھیں شکوہ ہے، شکایت ہے۔ عوام کو بدعنوانی سے اور تفریق سے شکایت ہے، عہدیداران کو چاہئے کہ پوری سنجیدگی سے اس پر توجہ دیں، خواہ وہ مجریہ کے عہدیداران ہوں، عدلیہ کے عہدیداران ہوں یا مقننہ کے عہدیداران ہوں۔

اور اب مسلح فورسز۔ میری آخری بات ان کے بارے میں ہے۔ مسلح فورسز کو چاہئے کہ خود سازی میں روز بروز اضافہ کریں۔ خود سازی کیا ہے؟ اپنی شخصیت کی تعمیر، خود سازی کریں۔ اپنی تعمیر کریں، خود کو اسلامی معیار پر پورا اترنے والا انسان بنائیں، اسلامی معیار پر پورا اترنے والا فوجی بنائیں۔ اسلامی معیار پر پورا اترنے والا فوجی مومن ہوتا ہے، شجاع ہوتا ہے، جذبہ ایثار رکھتا ہے، مدبر ہوتا ہے، دشمن کے سامنے محکم انداز میں ڈٹ جاتا ہے، دوست کے سامنے کسی طرح کے تکبر اور نخوت کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ یہ اسلامی نظام کی خصوصیات ہیں۔ اس کی مثال جناب مالک اشتر ہیں۔ دشمن کا مقابلہ ہو تو اپنے خاص انداز میں دکھائی دیں اور کوفے کے گستاخ بچے کا معاملہ ہو جس کا قصہ بہت معروف ہے، تو آپ کا انداز کچھ اور ہو۔ ایک بچہ تھا جو جناب مالک اشتر کو نہیں پہچانتا تھا، اس نے آپ کی شان میں گستاخی کی۔ جب اسے پتہ چلا کہ یہ مالک اشتر ہیں تو خوفزدہ ہو گیا۔ دوڑتا ہوا ان کے پاس گیا تو دیکھا کہ مسجد کوفہ میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس نے معذرت خواہی کی۔ مالک اشتر نے کہا کہ میں تو مسجد میں آیا ہی اس لئے تھا کہ تیرے لئے دعا کروں۔ ایک فوج کا سردار! یہ وہی مالک اشتر ہیں جو جنگ صفین میں عظیم کارنامے انجام دیتے ہیں، مگر ایک بچے کے معاملے میں ایک گستاخ بچے کے قضیئے میں اس قسم کا برتاؤ کرتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں خود سازی۔

خود سازی کے ساتھ ہی ضروری وسائل کی ایجاد اور تعمیر؛ فضائیہ کے محترم کمانڈر نے بالکل بجا فرمایا کہ فوج میں سب سے  پہلے وسائل کی ساخت اور خود کفالت کا مشن فضائیہ نے شروع کیا۔ فضائیہ بہت اچھی اور فعال تھی۔ فضائیہ نے بہت اہم کام انجام دئے ہیں۔ فضائیہ کے واقعات بہت زیادہ ہیں۔ ان میں سے ایک یہی ہے۔ وسائل کی ساخت کا آغاز آپ نے کیا۔ آپ کی فورس میں اس زمانے میں جو بلند ہمت افراد تھے انھوں نے اس کا آغاز کیا۔ آج بھی الحمد للہ ایسے افراد موجود ہیں۔ آپ موجود ہیں اور آپ بھی ایسے کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں۔ وسائل اور ساز و سامان کا ماڈرنائیزیشن بھی کرتے رہئے، نئے ساز و سامان بھی بناتے رہئے۔ آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ آپ نوجوانوں کے اندر بڑی استعداد موجود ہے۔ میں نے ان ملکوں میں سے ایک کے بارے میں کہا کہ اس کے پاس ایک ہی چیز موجود ہے اور وہ ہے پیسہ۔ پیسے کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ نہ دین ہے، نہ اخلاق ہے، نہ عقل ہے، نہ توانائی ہے، نہ مہارت ہے، صرف پیسہ ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں۔ آپ کے پاس ممکن ہے کہ پیسہ بہت زیادہ نہ ہو، لیکن دوسری تمام چیزیں موجود ہیں۔ استعداد ہے، فکری توانائی ہے، خلاقانہ صلاحیت ہے، ایجادات کی توانائی ہے۔ آپ ساز و سامان بنا سکتے ہیں۔ تو خود سازی کے معاملے میں بھی جو تمام کاموں پر مقدم ہے، وسائل کی ساخت میں بھی اور ادارے کی  تعمیر میں بھی محنت کیجئے۔ اپنے ادارے کو جہاں تک ممکن ہے ارتقائی منزلوں سے گزارئے۔ آپ یقین رکھئے کہ ان شاء اللہ کامیابی آپ کا مقدر ہے۔ ان برسوں میں جو بھی مسائل پیش آئے ان سب میں بحمد اللہ انقلابی فورسز کو فتح و کامرانی ملی ہے۔ مستقبل میں بھی بہ کوری چشم دشمن فتح آپ کو اور پائیدار ملت ایران کو ہی نصیب ہوگی۔

و السّلام علیکم و رحمة الله برکاته                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                       

1؛ اس ملاقات کے آغاز میں فضائیہ کے کمانڈر، بریگیڈیئر جنرل حسین شاہ صفی نے ایک رپورٹ پیش کی۔

2؛ سورہ فتح؛ آیت نمبر 29

3؛ سورہ ابراھیم آیت نمبر 24

4؛ اہل قم سے ملاقات مورخہ 9 جنوری 2018

5؛ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی

6؛ نھج البلاغہ، مکتوب نمبر 47، قدرے فرق کے ساتھ