بسم ‌اللّه ‌الرّحمن ‌الرّحیم

عزیز و جاں نثار شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنا ان نیک اعمال میں ہے جو بحمد اللہ اس زمانے میں اور اس دور میں رائج ہیں۔ یہ جو ہر صوبے میں وہاں کے شہیدوں کی بڑے پرشکوہ انداز میں یاد منائی جاتی ہے اور شہدا کی تعظیم کی جاتی ہے یہ بہت اچھا عمل اور لازمی قدم ہے۔ لیکن ملک کے بعض مراکز اور بعض صوبوں میں ایسی منفرد خصوصیت ہے کہ جس کی وجہ سے یہ نیک عمل، یہ عمل صالح گویا کئی گنا بڑی نیکی بن جاتا ہے۔ انھیں مراکز میں سے ایک صوبہ سیستان و بلوچستان ہے۔ اس حقیر کے لئے یہ چیز بڑی  پرکشش ہے کہ صوبہ سیستان و بلوچستان کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے چنندہ افراد اور اس صوبے کے محترم عہدیداران ایک جگہ پر جمع ہوئے ہیں تاکہ اس صوبے کے شہیدوں کے لئے جو بڑا مظلوم صوبہ ہے، خراج عقیدت کا پروگرام ترتیب دیں، شہیدوں کو یاد کریں، ان کی قدردانی کریں۔ یہ چیز اس حقیر کی نظر میں بہت پرکشش ہے، بہت اچھی ہے۔

اس حقیر کے لئے اس عمل کے پرکشش ہونے کی چند وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ اس صوبے سے میرا لگاؤ ہے۔ ایک زمانے میں ہم نے صوبہ سیستان و بلوچستان میں قیام کیا تھا جس کی مدت زیادہ تو نہیں تھی لیکن اللہ تعالی نے کچھ ایسے حالات بنا دئے کہ اس صوبے اور وہاں کے عوام سے ہمارا لگاؤ برسوں کی معیت سے پیدا ہونے والا لگاؤ بن گیا۔ یہ کار خدا تھا، ورنہ ہم وہاں زیادہ نہیں رکے تھے۔ ایرانشہر اس وقت مجھے اتنا پسند آیا کہ میں نے وہاں وصیت کی تھی اور کہا تھا کہ اگر اس سفر میں، اس عرصے میں میری موت ہو جائے تو مجھے ضرور ایرانشہر میں دفن کیا جائے، ایرانشہر سے باہر نہ لے جایا جائے۔ میں نے جاکر وہاں کا قبرستان بھی دیکھا، ایرانشہر کا قبرستان۔ لیکن قسمت میں یہ نہیں تھا۔ بلوچ عوام بڑے محبتی ہوتے ہیں۔ گرم جوش، مخلص، بے لوث اور ساتھ ہی بڑے با صلاحیت۔ اس صوبے میں استعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ تاہم پوری تاریخ میں، قاجاریہ دور میں بھی، پہلوی دور میں بھی، اس طولانی مدت میں اس علاقے پر اور وہاں کے عوام پر ظلم ہوا، بے اعتنائی برتی گئی۔ جس زمانے میں ہم وہاں تھے، لوگوں سے ملتے جلتے تھے بات ہوتی تھی، اس سے پتہ چلا کہ ایرانشہر جیسی جگہ بھی جو بلوچستان کا سیاسی و جغرافیائی اعتبار سے مرکز تھا، کسی معمولی سے اہلکار نے بھی قدم نہیں رکھے تھے۔ یا سراوان جو بلوچستان کا علمی و روحانی مرکز شمار ہوتا ہے کوئی عہدیدار، کوئی گورنر کبھی نہیں گيا۔ انقلاب کے بعد وہاں صدر مملکت گئے، عہدیداران گئے، سب گئے۔ ان تمام شہروں میں گئے، بلکہ دیہی علاقوں میں بھی پہنچے۔ فاصلہ کافی زیادہ ہے۔ اس زمانے میں اس علاقے کے عوام کے سلسلے میں بے توجہی برتی گئی، بلوچستان کے امور کے سلسلے میں بے اعتنائی برتی گئی۔ وہاں کے عوام کی استعداد اور صلاحیتوں کے پروان چڑھنے کے لئے سازگار حالات نہیں پیدا ہوئے، اس کا موقع نہیں ملا۔ سیستان میں بھی یہی صورت حال تھی۔ سیستان کے عوام ایسے ہیں کہ ماضی کی تاریخ کے اعتبار سے تمام ایرانی قومیتوں میں کم نظیر ہیں۔ سیستان کا ماضی بڑا درخشاں، بڑا ممتاز اور غیر معمولی ماضی ہے۔ اس علاقے میں بھی یہی ہوا، اس کے سلسلے میں بھی بے توجہی اور بے اعتنائی برتی گئی۔ بے توجہی کے ساتھ ہی قدرتی آفات کا بھی سلسلہ رہا۔

ان عوام کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گيا تھا اسے دیکھ کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ لوگ محبت کے بھوکے ہیں۔ اللہ تعالی نے ہمارے دل میں ان کی محبت ڈال دی، عہدیداران کے دل میں بھی ڈال دی، چنانچہ سیستان و بلوچستان کے لئے بہت سے کام انجام دئے گئے۔ وہ سارے کام جن کا ذکر ابھی محترم گورنر صاحب نے (2) کیا وہ بھی ضروری ہیں، لیکن میں جناب عالی سے یہ گزارش کروں گا کہ اسی پر اکتفا نہ کیجئے کہ اس نشست میں اس حقیر سے آپ نے کہہ دیا۔ یہ کام میرے ہاتھ سے تو انجام نہیں پانے والے ہیں۔ یہ کام تو مجریہ کے عہدیداران کو انجام دینے ہیں۔ ریلوے لائن ہو، میٹھے پانی کا مسئلہ ہو، اسی طرح دوسری تمام چیزیں، اس کے لئے آپ بھاگ دوڑ کیجئے، آپ جائیے حکومت میں عہدیداران اور اپنے سینیئر حکام سے سنجیدگی سے بات کیجئے۔ انھیں ان کاموں کی انجام دہی کا راستہ معلوم ہے۔ اگر اس کا کوئی راستہ ہے، اور یقینا ہے، تو انھیں وہ راستہ معلوم ہے۔ صوبے کے ضروری کاموں کی نشاندہی کیجئے۔ مثال کے طور پر ایرانشہر میں، جہاں کے مسائل میں صوبے کی دوسری جگہوں کے مسائل سے زیادہ بہتر جانتا تھا، 'بلوچ بنائی کی صنعت' (3) کیوں بیٹھ جائے، کیوں ختم ہو جائے؟ کس وجہ سے؟ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں شروع ہی سے میں نے کوشش کی، یہ صنعت چل پڑی اور اچھی حالت میں پہنچ گئی۔ لیکن بعد میں بے توجہی کا شکار ہو گئی۔ ان مسائل کو حل کیجئے۔ اس کے لئے مناسب افراد کو تلاش کیجئے، نجی شعبے سے رابطہ کیجئے۔ لوگ آئیں اور اسے دوبارہ حرکت میں لائیں۔ یہ لوگ ضرورت کے مطابق ترقیاتی فنڈ سے استفادہ کریں، ترقیاتی فنڈ نجی سیکٹر کے لئے ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی ان پہلوؤں پر آپ جاکر کام کیجئے۔ تو شہدا کے سلسلے میں آپ کے اس اجتماع سے مجھے جو مسرت ہوئی اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ اس صوبے اور وہاں کے عوام سے مجھے لگاؤ ہے۔ یہ وابستگی بے سبب نہیں ہے۔ اس کی منطقی وجہ ہے۔ صرف اتنا نہیں ہے کہ عوام سے قدرے لگاؤ ہے، نہیں، واقعی اس کی منطقی وجہ ہے کہ انسان کو گہری وابستگی ہو۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ صوبہ وحدت اسلامی کے ہمارے نعرے کا آئینہ ہے۔ ملک میں کچھ صوبے ایسے ہیں، صوبہ کردستان ہے، صوبہ گلستان میں ترکمن صحرا کا علاقہ ہے، صوبہ سیستان و بلوچستان ہے۔ یہاں شیعہ سنی ایک ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ ہم دنیا کو یہ سکھانا چاہتے ہیں، ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مسلم برادران آپس میں تعاون کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزاریں، اس کا نمونہ ہمارے یہاں سیستان و بلوچستان میں موجود ہے۔ اتفاق سے دشمن نے اسی کو نظر میں رکھا ہے، اسی چیز کو نظر میں رکھا ہے اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ جب آپ آکر یہ بتاتے ہیں کہ گیارہ بارہ سال کا سنی بچہ اسلامی جمہوریہ کے دفاع میں شلمچہ کے علاقے میں شہید ہو گیا (4)، تو یہ سیستان و بلوچستان میں شیعہ سنی ہمدلی کی سب سے بڑی خبر ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے، یہ بہت اہم معاملہ ہے۔ یا مثال کے طور پر جب کوئی سنی مولوی اسلامی جمہوریہ کے دفاع کی وجہ سے دشمن کے حملے کا نشانہ بنتا ہے اور انقلاب دشمن عناصر کے ہاتھوں شہید کر دیا جاتا ہے (5)، تو ان واقعات کی اہمیت کو بیان کرنا چاہئے، ان واقعات کی اہمیت پر زور دینا چاہئے، انھیں نمایاں کرنا چاہئے کہ سیستان و بلوچستان میں اس طرح کی چیزیں موجود ہیں۔ یہ بڑی اہم بات ہے کہ آپ اس صوبے میں اس حقیقی اتحاد کی نمائش کریں، عوام کے سامنے پیش کریں۔ اس کا طریقہ وہی ہے جو ان محترم کمانڈر نے بیان کیا (6)۔ یعنی یہی گوناگوں ثقافتی سرگرمیاں، کتابوں کی نگارش، یادوں کو قلمبند کرنا، ثقافتی سرمایہ، خواہ ویڈیو کی شکل میں ہو یا آڈیو کی شکل میں۔ ان تمام چیزوں سے استفادہ کیجئے۔ اس حقیقت کی پیشکش کیجئے، اسے واضح کیجئے تاکہ سب دیکھیں کہ اسلامی جمہوریہ میں شیعہ سنی ایک ساتھ دشوار گزار راستوں کو مل کر طے کرتے ہیں۔ میں نے بلوچستان کے کچھ سفر کئے اور وہاں پر زاہدان، ایرانشہر، خاش، سراوان، چابہار، اسی طرح خود زابل اور صوبے کے دیگر علاقوں میں گیا۔ انسان جب ان شہروں میں جاتا ہے تو صاف طور پر محسوس ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگوں کو اسلامی جمہوریہ سے حقیقی معنی میں الفت ہے۔ ہاں یہ چیز صاف طور پر محسوس ہوتی ہے۔ یہ چیز میدان جنگ میں اور قربانیاں پیش کرنے کے موقع پر اور بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔

شہدا کی یاد منانا چاہئے۔ اس ملک اور اس نظام کو ہمارے عزیز شہدا کی یادیں تازہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ سب کو اس کی ضرورت ہے۔ شہدا کے نام اور شہدا کی یادوں کی مدد سے اسلامی جمہوریہ کے افتخارات نمایاں ہوتے ہیں۔ اسلامی جمہوری نظام ایک ایسا نظام ہے جو کئی برسوں سے جدید جاہلیت کے نظام کے مد مقابل ڈٹا ہوا ہے اور مزاحمت کر رہا ہے۔ لہذا ماڈرن جاہلیت اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس نظام کے خلاف صف آرا ہے، عسکری ہتھیاروں، ثقافتی ہتھیاروں، نو ظہور وسائل، اقتصادی پابندیوں کے وسائل سب کو استعمال کر رہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے خلاف سب نے قیام کیا لیکن اسلامی جمہوریہ کو شکست نہیں دے سکے۔ اسے پسپائی پر مجبور نہیں کر سکے۔ اسلامی جمہوری نظام کو اس کے موقف اور پیغام سے دست بردار ہونے پر مجبور نہ کر سکے کہ یہ نظام کہتا کہ ہم اپنے اس موقف کو ترک کرتے ہیں، اپنے اس مطالبے کو چھوڑ رہے ہیں! وہ ایسا نہیں کر سکے۔ کیوں نہیں کر سکے؟ اس لئے کہ اسلامی جمہوریہ بہت طاقتور ہے۔ اس طاقت کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ ایمان اور جذبہ استقامت ہے۔ جب ہم اس منزل پر پہنچتے ہیں تو پھر آپ دیکھیں گے کہ اس زنجیر کا آخری اور نہایت اہم حلقہ شہدا، جانبازوں، فداکاروں اور جاں نثاروں پر پہنچ کر ختم ہوتا ہے۔ دنیا میں اسلامی جمہوری نطام اگر اپنے وقار کی حفاظت کرنے میں، اس میں روز افزوں اضافہ کرنے اور تمام تر سازشوں اور چالوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوا ہے تو اس کی وجہ عوام کی قربانیاں ہیں، اس کی وجہ پختہ ایمان ہے جس کا سب سے کامل اور اعلی نمونہ شہدا ہیں۔ آپ شہدا کی تعظیم کرتے ہیں، انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، ان کے نام کو زندہ رکھتے ہیں، ان کی یاد مناتے ہیں۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ اسلامی جمہوریہ کو اس کی ضرورت ہے کہ شہدا کی تعظیم کی جائے۔ بنابریں آپ کا یہ عمل بہت اچھا ہے، بالکل درست اور لازمی عمل ہے۔

سب کو تعاون کرنا چاہئے۔ شیعہ سنی کا کوئی فرق نہیں ہے، عالم و جاہل کا اس میں فرق نہیں ہے، مختلف طبقات، وہ سارے لوگ جن کے پاس توانائی ہے، اس معاملے میں تعاون کریں۔ ان عزیزوں کی یادوں کو باقی رکھیں، بڑے پیمانے پر تشہیر کریں۔ شہدا کے ذکر کو نمایاں کریں۔ البتہ میں سیستان و بلوچستان کے بعض معروف شہدا کو قریب سے جانتا تھا اور بعض کے بارے میں کتابوں اور مکتوبات میں میں نے پڑھا۔ لیکن پھر بھی ان تمام شہیدوں اور تمام نمایاں ہستیوں، خاص طور پر ان بچوں، بارہ سالہ اور چودہ سالہ بچوں سے اور ان کے حالات زندگی سے واقف نہیں تھا۔ آپ ان کا تعارف کرائيے تاکہ سب پہچانیں اور جانیں۔ اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب کرے۔

و السّلام ‌علیکم‌ و رحمة اللّه

1۔ اس ملاقات کے آغاز میں صوبہ سیستان و بلوچستان میں ولی امر مسلمین کے نمائندے اور زاہدان کے امام جمعہ حجت الاسلام و المسلمین عباس علی سلیمانی، صوبہ سیستان و بلوچستان کے گورنر سید دانیال محبی، پاسداران انقلاب فورس سیستان و بلوچستان کے کمانڈر جنرل حسین معروفی نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔ یہ کانفرنس مورخہ 13 فروری 2018 کو منعقد ہوگی۔

2۔ اپنی رپورٹ میں صوبہ سیستان و بلوچستان کے گورنر نے صوبے کے تین بنیادی مسائل کا ذکر کیا؛ پانی کی کمی کی مشکل جسے قومی ترقیاتی فنڈ سے مدد لیکر اور پانی کو میٹھا کرنے والے پلانٹ لگاکر حل کیا جا سکتا ہے، چابہار-مشہد ریلوے لائن بچھانے کا کام اور تعلیمی مراکز کے فروغ کی ضرورت۔

3۔ بنائی کا یہ کارخانہ ایرانشہر میں ہے لیکن بعض مشکلات کی وجہ سے کام نہیں کر رہا ہے۔

4۔ ولی امر مسلمین کے نمائندے اسی طرح پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈر کا کمسن شہید سبیل اخلاقی کی طرف اشارہ

5۔ صوبے کی پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈر کا مولوی مصطفی جنگ زہی کی طرف اشارہ

6۔ صوبے کی پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈر کا اس کانفرنس کی ثقافتی سرگرمیوں کی طرف اشارہ؛ کانفرنس کے انفارمیشن بینک کا قیام، کتابوں کی نگارش، دستاویزی اور داستانی فلمیں، ترانے وغیرہ بنانا، بلوچی، سیستانی و فارسی زبانوں میں ترانوں کی کمپوزنگ وغیرہ۔