بسم الله الرّحمن الرّحیم

ملک کے ہر طبقے اور ہر علاقے کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنا اور ان کی یاد منانا حقیقت میں نیک عمل اور نمایاں کام ہے۔ خود یہ چیز کہ اللہ تعالی نے آپ کے دلوں کو اس سمت کھینچا کہ آپ آئیں اور اس کام میں مصروف ہوں، اس کی صعوبتیں برداشت کریں اور خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اس کانفرنس کا اہتمام کریں، لطف خداوندی کی علامت ہے، اس بات کی نشانی ہے کہ اللہ تعالی یہ چاہتا ہے کہ اس ملک کے سر پر شہدا کا سایہ ہمیشہ قائم و دائم رہے۔ تاہم بعض صنفیں ایسی ہیں کہ ان کے شہیدوں کی اور بھی قدر و منزلت ہے۔ ہمارا محنت کش طبقہ انھیں صفوں میں شامل ہے۔ بنابریں ہم ملک کے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے آپ تمام حضرات کے ممنون کرم اور آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ یہ اہم کام انجام دے رہے ہیں اور ملک کے محنت کش طبقے کا تعارف کرا رہے ہیں۔

آٹھ سالہ مقدس دفاع کا زمانہ ہو یا اس سے پہلے بعض گروہوں سے ہونے والی لڑائی کا دور ہو یا پھر اس سے بھی قبل تحریک انقلاب کا دور ہو یا پھر بعد کے حوادث و واقعات ہوں جن میں کچھ عسکری تصادم کے واقعات ہیں اور بیشتر غیر عسکری تصادم کے واقعات ہیں، ان تمام جنگوں میں ہم محنت کش طبقے کے کردار کو بہت نمایاں طور پر دیکھتے ہیں۔ میں نے اپنی تقاریر میں بارہا اپنے عزیز محنت کش طبقے سے اپنے خطاب میں یہ بات کہی ہے کہ انقلاب دشمنوں کی نظر شروع ہی سے محنت کش طبقے پر لگی ہوئی تھی کہ کسی طرح اسلامی جمہوریہ کے خلاف محنت کش طبقے کو مشتعل کر سکے۔ شروع ہی سے یعنی اسلامی انقلاب کامیاب ہونے کے دن سے ہی یہ صورت حال تھی۔ خود حقیر بھی اس ماجرا میں باقاعدہ دخیل رہا۔ اللہ تعالی نے کچھ ایسے حالات فراہم کر دئے کہ تقریبا اتفاقیہ طور پر، اچانک میں محنت کش طبقے کو مشتعل کئے جانے کے ایک قضیئے کے متن میں پہنچ گيا اور میں نے انقلاب دشمن عناصر کے سلسلے میں محنت کش طبقے کا موقف دیکھا کہ کیسے اس طبقے نے بصیرت کے ساتھ، بلند ہمتی کے ساتھ، دینداری اور جذبہ تدین کے ساتھ ان عناصر کی تجاویز کو ٹھکرا دیا۔ اس کے بعد سے آج تک یہی سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ ہمارے دشمنوں کا ایک بنیادی کام یہ ہے کہ ہمارے کارخانوں میں، ہمارے محنت کش طبقے کی سطح پر، ہمارے بڑے کامپلیکسوں میں تعطل پیدا کر دیں، محنت کش طبقے کی جانب سے کوئی رکاوٹ پیدا کر دیں، محنت کش طبقے کو ایسا کرنے کے لئے مشتعل کریں۔ مگر برسوں سے ہمارا محنت کش طبقہ ان کی مزاحمت کرتا آ رہا ہے، اس نے ہمیشہ ثابت قدمی کا ثبوت دیا، ہمیشہ بصیرت کے ساتھ دشمن کی تجویز کو ٹھکرا دیا ہے جو بہت بڑی بات ہے۔

میدان جنگ میں بھی یہی صورت حال تھی۔ ہم نے ابھی جو بیان کیا وہ غیر فوجی تصادم کا واقعہ تھا۔ فوجی تصادم میں بھی یہی صورت حال تھی۔ جب بھی امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی جانب سے کال دی جاتی تھی اور رضاکاروں کا ایک سیلاب حرکت میں آ جاتا تھا اور ملک کے ہر گوشہ و کنار سے لوگ محاذ جنگ کی جانب کوچ کر دیتے تھے تو ان میں بڑی تعداد مزدوروں اور محنت کش طبقے کے افراد کی ہوتی تھی۔ ان میں بعض تو ایسے مزدور بھی ہوتے تھے جن کی روزی روٹی ان کی روزانہ کی مزدوری پر منحصر تھی۔ یعنی دن میں کام کریں تو رات میں ان کے گھر میں کھانہ پکے گا، بال بچوں والے تھے،  بعض کے ذمے والدین کی دیکھ بھال بھی تھی۔ مگر پھر بھی ان میں سے بعض نے اس قضیئے میں اس طرح سے اسلامی و دینی غیرت و حمیت کا ثبوت دیا کہ اپنی روزانہ کی اس مزدوری کو ترک کیا اور میدان جنگ کی طرف روانہ ہو گئے۔ بڑے عظیم کام انجام پائے۔ یعنی واقعی میرا تصور تو یہ ہے کہ اگر ہم نے خود ان چیزوں کو حقیقی طور پر اصلی زندگی میں نہ دیکھا ہوتا تو اس پر یقین کر پانا مشکل تھا۔ غیرت کا یہ عالم کہ ایک نوجوان صاحب ایمان اور فرض شناس مزدور اپنی اس معمولی سی آمدنی کو بھی ترک کر دے، اللہ پر توکل کرکے میدان جنگ کی جانب روانہ ہو جائے! جب اس سے بات کی جاتی ہے تو بڑا منطقی جواب دیتا ہے۔ کہتا ہے کہ مجھے جاکر اپنے وطن کا دفاع کرنا ہے، اسلامی مملکت کی سرحدوں کا دفاع کرنا ہے کہ کہیں اس پر دشمن کا قبضہ نہ ہو جائے۔ ورنہ اگر دشمن کا قبضہ ہو گيا تو نان شبینہ ہی نہیں ہمارا سب کچھ لٹ جائے گا۔ یہ عین حقیقت تھی۔ انسان ان چیزوں کو ہمارے نوجوانوں کی باتوں اور استدلال میں دیکھ سکتا ہے۔ تو محنت کش طبقے کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنا بہت اچھا عمل ہے، عوام کی رائے عامہ کو میدان جنگ میں اس طبقے کی قربانیوں کی جانب متوجہ کرنا بڑا نمایاں عمل ہے۔

جن چیزوں کے بارے میں آپ نے اشارہ کیا اور جو پروگرام ترتیب دیا ہے (1)، یہ پروگرام بہت اچھا ہے تاہم توجہ رکھئے کہ یہ ظاہری اور رسم ادائیگی والے پہلو جو بعض اوقات دخیل ہو جاتے ہیں وہ زیادہ دخیل نہ ہونے پائیں۔ آپ اس پر غور کیجئے کہ جو عمل آپ انجام دینے جا رہے ہیں مخاطب افراد پر اس کیا اثر پڑے گا۔ یعنی بنیادی طور پر اس پر توجہ رکھئے۔ اگر کوئی کتاب لکھی جا رہی ہے یا کوئی اور چیز تیار کی جا رہی ہے تو ایسی روش اختیار کیجئے کہ پڑھنے اور دیکھنے والوں پر اس کا اثر ہو۔ یہ ضروری ہے۔ ظواہر پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

دعا کرتا ہوں کہ اللہ  تعالی آپ کے اس عمل میں برکت عطا فرمائے، شہدا کی پاکیزہ ارواح کو آپ سے راضی و خوشنود رکھے، ہمارے عظیم امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی روح کو آپ سے خوش رکھے۔ ان شاء اللہ آپ وہ کام انجام دیں جسے انجام دینے کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ سلامت اور کامیاب رہئے۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کانفرنس کے کنوینر نے اپنی گفتگو میں کانفرنس کے اہداف کو دو حصوں میں تقسیم کیا؛ شہدا سے متعلق کتابوں کی نگارش، اشعار کی نگارش، دستاویزی فلمیں بنانا، شارٹ فلمیں بنانا، انفارمیشن بینک تیار کرنا، اسی طرح شہدا کے اہل خانہ سے ملاقات کے لئے جانے اور ان کی یادیں تازہ کرنے کے لئے پروگراموں کا انعقاد۔