بسم ‌اللّه ‌الرّحمن ‌الرّحیم

الحمد للّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله و صحبه. المطهّرین و علیٰ متابعیهم الی یوم الدّین.

سب سے پہلے تو میں تمام حاضرین محترم، اوقاف کے وزیر محترم، علمائے کرام اور تمام عزیز حاضرین کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ وزیر محترم کی نہایت فصیح و بلیغ اور مفید گفتگو کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اسی طرح ترانہ پیش کرنے والی ٹیم کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں اس ترانے پر بھی اور اس ٹیم کی تلاوت قرآن پر بھی۔ ترانے کا مضمون بھی بڑا پرمغز تھا، اس کا قالب بھی بہت پرکشش تھا، بڑی اچھی پیشکش تھی۔

ہم شام کے ساتھ ہیں۔ شام آج فرنٹ لائن پر ہے۔ ہمارا فریضہ ہے کہ شام کی استقامت و پائیداری کی حمایت کریں۔ شام کے محترم صدر جمہوریہ جناب بشار اسد ایک عظیم مجاہد اور ثابت قدم شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان کے اندر کوئی تامل و تردد پیدا نہیں ہوا بلکہ وہ ثابت قدمی سے کھڑے رہے۔ یہ کسی بھی ملت کے لئے بہت اہم چیز ہوتی ہے۔ جن مسلم اقوام کو آپ دیکھتے ہیں کہ ذلت کی زندگی گزار رہی ہیں، وہ قومیں خود ذلیل و خوار نہیں ہیں، بلکہ ان کے رہنما ذلیل و خوار ہیں۔ اگر کسی قوم کے پاس ایسے رہنما ہوں جنھیں اپنے اسلام اور اپنے تشخص پر فخر کا احساس ہو، اس قوم کی عزت ہوگی، دشمن ایسی قوم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

ہم اسلامی انقلاب کے چالیسویں سال میں داخل ہوئے ہیں۔ روز اول سے دنیا کی صف اول کی تمام طاقتیں ہمارے خلاف متحد اور سرگرم عمل ہو گئيں۔ امریکہ، سوویت یونین، نیٹو، عرب رجعت پسند حکومتیں سب متحد ہو گئے۔ لیکن ہم نہیں مٹے بلکہ نمو کی منزلیں طے کرتے رہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس بات کا سب سے پہلا مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ بڑی طاقتیں جو چاہ لیں وہی ہوتا ہے! یعنی سب نے یہ طے کر لیا کہ ہمیں مٹا دینا ہے لیکن ہم مٹے نہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو کچھ امریکہ چاہتا ہے، جو کچھ یورپ کی مرضی ہے، جو کچھ دنیا کی ایٹمی طاقتیں چاہتی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ ہر حال میں وہی ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ادراک، یہ معرفت قوموں کے اندر امید اور قوت پیدا کرے گی۔ اب اگر علاقے میں ہمارا، آپ کا اور مزاحمتی محاذ سے وابستہ دیگر دھڑوں کا ٹھوس عزم ہو تو دشمن کچھ نہیں بگاڑ پائے گا۔ یہ تو رہی ایک بات۔

دوسری بات یہ ہے کہ اسلام نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ فتح و کامرانی مجاہد مومن کا مقدر ہے۔ اگر ایمان نہ ہو تو کامل فتح نہیں ملتی، اسی طرح اگر ایمان ہو لیکن جدوجہد اور مساعی نہ ہوں تب بھی نتیجہ نہیں ملتا۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ اسلام کا اور اسلامی اقدام کا دفاع کریں، اس کی حمایت کریں۔ اس کا ایک ضروری مقدمہ اور تمہید یہی ہے کہ ہم اپنے فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلافات کو دور کریں۔ اب اگر ہم ان اختلافات کو نظر انداز کرنا چاہیں گے تو یقینا ایسے عناصر موجود ہیں جو ہمارے اس نئے رخ کے مخالف ہیں، وہ ہمیں ایسا نہیں کرنے دینا چاہتے۔ ہمارے اندر سے کسی کو اکساتے ہیں اور ہمارے بھائیوں کے اندر سے بھی کسی کو مشتعل کر دیتے ہیں۔ اب یہ دونوں ہی اتحاد کے لئے جاری کوششوں کے خلاف بیان دیتے ہیں، اقدام کرتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔ جو لوگ یہ کردار ادا کر رہے ہیں اگر وہ عالمی اور استکباری سیاست سے وابستہ نہ ہوں، یعنی اگر انھیں پالیسیوں کی پیداوار نہ ہوں تو اس صورت میں ان عناصر کے سلسلے میں بے توجہی برتنا چاہئے، ان پر کوئی توجہ نہ دی جائے۔ لیکن اگر سعودیوں کی طرح اور ان کے جیسے دیگر افراد کی طرح اختلاف کی آگ بھڑکانے اور اشتعال انگیزی کا عمل استکباری پالیسیوں کی دین ہو تو ایسے عناصر کا مقابلہ کرنا چاہئے، ان کے سامنے سختی کے ساتھ ڈٹ جانا چاہئے۔ وہ شیعہ جسے لندن کا آشیرباد حاصل ہے ہمیں منظور نہیں ہے۔ وہ سنی جس کی پشت پناہی امریکہ اور اسرائیل کر رہے ہوں، ہم اس سنی کو مسلمان نہیں مانتے۔ یعنی ہم اسے مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔ اسلام تو وہ ہے جو کفر، ظلم اور استکبار کے خلاف علم بغاوت بلند کرے۔ ہمارے اشتراکات یہی ہیں۔ ہمارے اشتراکات میں توحید ہے، ہمارے اشتراکات میں کعبہ ہے، ہمارے اشتراکات میں پیغمبر کا وجود اقدس ہے، ہمارے اشتراکات میں اہل بیت پیغمبر سے محبت ہے، اسی طرح دوسرے بھی متعدد اشتراکات۔ ہمارے تمام واجبات ہمارے اشتراکات کا حصہ ہیں۔ یہ چیز کہ نماز میں میں قنوت پڑھتا ہوں اور آپ نہیں بڑھتے، یہ ایسی چیز نہیں ہے جو اختلاف کا سبب قرار پائے۔ سب سے بنیادی چیز تو یہی ہے کہ خدائے واحد و احد پر ہم ایمان رکھتے ہیں، نبوت پر عقیدہ رکھتے ہیں، نصرت خداوندی پر یقین رکھتے ہیں، قیامت پر حقیقت میں عقیدہ رکھتے ہیں۔ یہ بنیادی اصول ہیں۔

دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی وہ دن آپ کو اور ہمیں دکھائے جب آپ جماعت کے ساتھ قدس میں نماز ادا کریں۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ یہ دن آنے والا ہے۔ ممکن ہے کہ اس وقت یہ حقیر اور میرے جیسے دیگر افراد موجود نہ ہوں، لیکن وہ دن ضرور آئے گا، اس میں بہت زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ چند سال قبل آپ کی ہمسایہ اسی صیہونی حکومت نے کہا کہ مثال کے طور پر 25 سال تک ہم ایران کے ساتھ یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے! میں نے کہا کہ آپ 25 سال بعد کا زمانہ نہیں دیکھ پائیں گے کہ آپ ایران کے خلاف یہ کام کر سکیں! ان شاء  اللہ وہ دن آنے والا ہے۔