بسم‌ اللَّه ‌الرّحمن‌ الرّحیم

اس کھڑکی کی مانند جو کسی دلکش باغ کی طرف کھلتی ہے، آپ عزیزوں کی یہاں تشریف آوری نے اسی طرح ہمارے دلوں کو خوش کر دیا۔ ہمیں تازہ ہوا بھی میسر ہوئی اور وہ امید کی کرن جو توفیق الہی سے اس حقیر کے دل میں کبھی ختم یا کم نہیں ہوئی، وہ  اور بڑھ گئی اور روشن ہو گئی۔ اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں آپ اچھے نوجوانوں، آپ عزیز نوجوانوں اس ملک کے با صلاحیت اور صاحب استعداد فرزندوں کے وجود پر جو ان شاء اللہ مستقبل میں اس ملک کے طاقتور مرد اور عورتیں بننے والے ہیں۔

۔۔۔ یہ شکر جو میں ادا کرتا ہوں وہ اس حقیر تک محدود نہیں ہے، آپ کو بھی چاہئے کہ شکر ادا کریں۔ اللہ تعالی نے آپ کو فکر و فہم سے نوازا، سوچنے کی توانائی دی، استعداد عطا فرمائی، آپ کے وجود میں ممتاز علمی ہستی بننے کا مادہ رکھا اور خاص حالات میں یہ مادہ پروان چڑھا اور شکوفائی تک پہنچا۔ استعداد اور فکری توانائی کی اس نعمت پر جو اللہ تعالی نے آپ کو دی ہے اس کا شکر ادا کیجئے۔۔۔۔۔

۔۔۔ جن چیزوں پر میں تاکید کرتا ہوں ان میں ایک تو علمی کاوشیں ہیں۔ یونیورسٹیوں میں علمی سعی و کاوش رکنی نہیں چاہئے۔ آپ بحمد اللہ الیٹ طلبہ ہیں آپ نے میڈل جیتے ہیں۔ یہ میڈل بھی ایک نشانی  اور علامت ہے۔ یعنی اس میڈل کی روحانی قدر و قیمت اس کی مادی اہمیت سے بدرجہا زیادہ ہے۔ اس کی روحانی قدر و قیمت یہ ہے کہ وہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ ایک خاص اندرونی توانائی اور استعداد کے مالک ہیں، ایک بلند تشخص کے مالک ہیں، یہ میڈل اس قسم کی چیز ہے۔ یہ میڈل ایک علامتی چیز ہے، اس کی مادی اہمیت کے ساتھ ہی روحانی اہمیت بھی ہے۔ اسی لئے میں آپ کے اس تحفے کو بڑی رغبت سے اور فخریہ قبول کر رہا ہوں اور اس کے بعد یہ میڈل آپ ہی کو لوٹا رہا ہوں۔ یعنی میرا دل یہ چاہتا ہے کہ آپ ان علامتوں کو اپنے گھروں میں، اپنے دفاتر میں یعنی جب آپ دفتر میں کام شروع کریں گے، حفاظت سے رکھئے۔ بہرحال ایک مسئلہ علم و دانش کا ہے اس پر سنجیدگی سے توجہ دیجئے۔

ایک اور اہم مسئلہ بھی ہے۔۔۔۔ وہ یہ کہ جو چیز اس ملک کو منظم اور آراستہ کرے گی، بلکہ ںظم اور وسائل کی پورے علاقے، پوری دنیائے اسلام بلکہ ساری دنیا پر بارش کروا دے گی وہ ہے دینی و انقلابی فرض شناسی۔ اگر دینی و انقلابی فرض شناسی نہ ہو تو علمی پیشرفت اکیلے کسی ملک کو، کسی قوم کو، کسی انسانی سماج کو کامیاب و خوش بخت نہیں بنا سکتی۔ آپ فرض کیجئے کہ یہی بات کوئی شخص ستر سال پہلے، اسی سال پہلے کہتا تو بہت سے لوگوں کو یقین نہ آتا۔ اس لئے کہ اس وقت مغربی تمدن اور مغربی ممالک کے تمدن کے پیکر میں ہنوز دراڑیں نہیں پڑی تھیں، شگاف نظر نہیں آتا تھا۔ آج یہ شگاف، یہ خامیاں، مغربی تمدن کی بنیادوں کی کمزوریاں، نوجوانوں کی زندگی میں، خاندانوں کی زندگی میں گوناگوں فکری، عملی اور اخلاقی انحراف میں ڈوبنے کی شکل میں آشکارا طور پر نظر آ رہی ہیں، دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ جو کچھ کہہ رہا ہوں یہ مغربی تمدن کے عمائدین کے بارے میں اس حقیر کا معاندانہ دعوی نہیں ہے، بے شک ان سے میری مخاصمت ہے، میں ان کا دشمن ہوں، لیکن یہ بات اس جذبے سے نہیں نکلی ہے۔ بلکہ یہ تو خود ان کی کہی ہوئی باتیں ہیں۔ آج امریکہ میں تشدد پسندی، اخلاقی بے راہروی، خاندانوں کے بکھراؤ کی حالت، بچوں اور آئندہ نسل کی کسمپرسی کی زندگی، میں امریکہ کی بات کر رہا ہوں، دیگر جگہوں پر اس کا تناسب الگ الگ ہے۔ حالت یہ ہو چکی ہے کہ امریکہ کے اندر ہی ایسے ہمدرد اور صاحب فکر افراد نظر آنے لگے ہیں جن کا پرزور مطالبہ ہے کہ ہالی وڈ کی فلموں اور اشتہارات وغیرہ کی ماضی کے سو سال یا ستر سال کے عرصے میں جو حالت رہی ہے اسے بدلا جائے، اس میں اخلاقی پہلوؤں کو شامل کیا جائے۔ یہ باتیں ان کے مقالات میں نظر آتی ہیں۔ یہ اطلاعات ہیں جو اس حقیر کے پاس ہیں، ٹھوس اطلاعات ہیں۔ یعنی خود وہ بھی پریشان ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر میں ابھی حال ہی میں، چند دن پہلے پڑھ رہا تھا کہ امریکہ میں تقریبا سو لوگ ایک دوسرے کے ہاتھوں بغیر کسی جرم کے ہی قتل ہو جاتے ہیں، بلا وجہ! پولیس کے ہاتھوں کہ امریکہ میں جس کے جرائم کی داستان ایک الگ ہی قضیہ ہے، خود عام افراد ایک دوسرے کو قتل کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ہفتے میں سو لوگ یا کئی سو افراد، صحیح تعداد بتائی گئی تھی مگر مجھے اس وقت یاد نہیں ہے، تو یہ اس ملک کے لئے کتنی بڑی مصیبت کی بات ہے۔ اس کی تصدیق تو سبھی کرتے ہیں کہ اسلحہ کے رواج سے، قتل کے رواج سے امریکہ جیسے ملک کے لئے سنگین مشکلات پیدا ہو گئی ہیں سب اس کی  تصدیق کرتے ہیں، سب اس سے خائف ہیں، پریشان ہیں لیکن اس کا واضح علاج اور واضح حل کوئی پیش کرنے کی ہمت نہیں کرتا، اس کا علاج کیا ہے؟ علاج یہ ہے کہ ہتھیار ساتھ رکھنے کو غیر قانونی قرار دے دیا جائے۔ امریکی رہنما یہ کام کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ یعنی اسلحہ ساز کمپنیاں اس طرح امریکہ کے سینیٹروں اور ایوان نمائندگان کے ارکان پر مسلط ہیں کہ وہ ایسا کوئی قانون پاس کرنے کی جرئت نہیں کر سکتے۔ امریکہ کے صدر کے پاس اتنی ہمت نہیں ہے کہ اسے اپنا نعرہ بنائے اور پھر اس پر ڈٹا رہے۔ دیکھئے اسی کو کرپشن کہتے ہیں۔ یعنی ایک جاہ طلب اور دولت طلب مافیائی قوت کا ایسا تسلط ہو جائے کہ امریکہ  جیسے ملک کا وسیع و عریض سیاسی و عسکری سسٹم بھی یہ ہمت نہیں کر پا رہا ہے کہ ایک ایسا کام انجام دے جس کا اچھا اور مفید ہونا بالکل واضح ہے، یعنی اسلحہ کی فروخت پر پابندی کا کام۔ یہی کرپشن ہے۔ یہ روحانی اقدار و اہداف سے دوری کا نتیجہ ہے کہ مغربی سماج اس حالت میں پہنچ گئے ہیں۔ نوجوانوں کا ڈپریشن، خود کشی، بچوں کا قتل، گوناگوں اخلاقیاتی اور جنسیاتی جرائم وغیرہ کی بات کی جائے تو ہر موضوع اپنی جگہ پر ایک الگ بحث ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک، قوم اور انسانی سماج سعادت و کامیابی حاصل کرے تو اس کا راستہ یہی ہے کہ دینی و الہی اہداف کو دیگر تمام اہداف و مقاصد سے بلند اور بالاتر سمجھا جائے۔ ان اہداف کا اثر ہماری معیشت پر بھی ہونا چاہئے، ہماری علمی کاوشوں پر بھی ہونا چاہئے، ملکی انتظام و انصرام پر بھی ہونا چاہئے، ملک کے عہدیداران کی تقرری پر بھی ہونا چاہئے، ہماری فکر و نظر پر بھی اس کا اثر ہونا چاہئے۔

خوشی کا مقام ہے کہ آج ملک کے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد رضاکار کی حیثیت سے، طلبہ رضاکار فورس کے رکن کی حیثیت سے ملک میں اسلامی فکر اور انقلابی فکر پر چل رہی ہے، یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔ وہ اس فکر پر چل رہے ہیں۔ اس فکر کی حفاظت کیجئے۔ آپ یاد رکھئے کہ گوناگوں واقعات انسان کے اندر فکری تبدیلیاں پیدا کر دیتے ہیں، کبھی کبھی بڑا معمولی سا انحراف شروع ہوتا ہے لیکن اگر وہی جاری رہتا ہے تو آگے چل کر اصلی لائن سے انسان بہت دور ہو جاتا ہے۔ اس پر ہمیشہ توجہ رکھئے۔ جن لوگوں نے اس ملک میں بڑے کارنامے انجام دئے ہیں جن میں ایک کارنامہ اسلامی انقلاب کی کامیابی ہے، اسی طرح کا ایک اور کارنامہ مقدس دفاع ہے، میں گزارش کرتا ہوں کہ مقدس دفاع کے واقعات کا ہمارے نوجوان مطالعہ کریں، یہ بڑی قیمتی چیز ہے، میں آپ کے دادا کی عمر کا ہوں، میں اس جنگ میں تھا، میں نے دیکھا ہے، مگر پھر بھی جب میں یہ واقعات آج پڑھتا ہوں تو بہت سی نئی اطلاعات ملتی ہیں، یہ میرے لئے بھی بہت اہم ہیں، میرے لئے بھی ان میں بہت سے واقعات نئے اور اثر انگیز ہیں۔ آٹھ سالہ مقدس دفاع میں ہمیں جو کامیابیاں ملیں، یا انقلاب میں جو کامیابیاں ہاتھ آئیں، یا اس چالیس سال کے عرصے میں انقلاب کی مخالفتوں کا سامنا کرنے میں جو کامیابی ملی وہ سب استقامت اور ثابت قدمی کی دین تھی۔ جو افراد کبھی کسی فکر پر اور کبھی کسی اور فکر پر چلتے ہیں، متلون مزاج ہیں، حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے مطابق «اِنَّکَ لَقَلِقُ الوَضینِ تُرسِلُ فی غَیرِ سَدَد» (1) ہیں، یعنی ایسے افراد جن کی مثال حضرت نے اس اونٹ سے دی جس کی پیٹھ پر بوجھ ڈھیلا باندھا گیا ہے، جب وہ راستہ چلتا ہے تو بوجھ کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف لٹک جاتا ہے۔ ایسا اونٹ سیدھا راستہ نہیں چل پاتا۔ ایسے شخص سے ڈرنا چاہئے، ایسے شخص سے دور رہنا چاہئے۔ ہم دعا میں پڑھتے ہیں، اَسئَلُکَ الثَّباتَ عَلَی دینِک،(2) دین کے معاملے میں استقامت، انقلاب کی راہ میں استقامت بہت اہم چیز ہے۔ اس پر توجہ دینا چاہئے۔

طلبہ تحریک کا ذکر ہوا، طلبہ  تحریک کے دو معانی ہو سکتے ہیں۔  ایک تو یہ کہ انسان تمام اعلی اہداف اور اصولوں پر تنقید کرے، نعرے لگائے، مخالفت میں ہاتھ بلند کرے، دوسرے یہ کہ اعلی اہداف کی راہ میں گامزن ہو جائے۔ یعنی مجاہدانہ روش۔ علم و دانش کے میدان میں بھی مجاہدانہ انداز سے کام کرنا چاہئے، حصول علم میں بھی مجاہدانہ انداز سے کام کرنا چاہئے، سیاسی فعالیت کے میدان میں بھی مجاہدانہ انداز سے کام کرنا چاہئے، جہاد کا یہی مطلب نہیں ہے کہ تلوار کھینچ لی جائے، داہنے بائیں حملہ کیا جائے، لوگوں پر وار کئے جائیں! جہاد کا مطلب ہے تھکن کا احساس نہ کرنا، یعنی صحیح فکر اور منطقی سوچ کی بنیاد پر ایک راستے کا انتخاب کرنا، اس کے سلسلے میں ایقان و ایمان حاصل کرنا اور پھر تمام تر سختیوں اور دشواریوں کے باوجود اس پر گامزن رہنا اور آگے بڑھنا۔ اسے کہتے ہیں مجاہدانہ انداز میں عمل۔

دعا کرتا ہوں کہ اللہ  تعالی آپ سب کو کامیاب فرمائے۔

 

 ۱. نهج البلاغه، خطبه نمبر ۱۶۲

۲. کافی، جلد ۲، صفحہ ۵۸۶