بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

عزیز نوجوانو! میرے پیارے بچو! میرے فرزندو! جن کے ہاتھوں میں ملک کا مستقبل ہے! خوش آمدید! حقیقی معنی میں آپ اس ملک کے مستقبل کے مالک، اسے سنبھالنے والے اور اسے چلانے والے ہیں۔ آپ کا ہر ادراک، آپ کا ہر فیصلہ اور آپ کا ہر وہ اقدام جو آپ کی شخصیت کی تعمیر میں اثرانداز ہو حقیقی معنوں میں اس ملک کے مستبقل پر بھی اثر ڈالے گا اور یہی بہت اہم نکتہ ہے۔

'راہیان نور' کے بارے میں کچھ باتیں؛ یہ بڑا کامیاب عمل جو بحمد اللہ ملک میں چند سال قبل شروع ہوا اور روز بروز اس میں وسعت آتی جا رہی ہے، مقدس دفاع کے زمانے کی قدردانی کا ایک مظہر ہے۔ مقدس دفاع کے زمانے کی واقعی قدر کرنا چاہئے، احترام کرنا چاہئے، قدردانی کرنا چاہئے۔ کیونکہ وہ آٹھ سال، مقدس دفاع کے آٹھ سال، ملک کی حیثیت، ملت کے تشخص، موجودہ سلامتی اور ملت ایران کے وقار کی ضمانت بنے۔ جہاں تک ممکن ہو اس بارے میں مطالعہ کیجئے، غور کیجئے، تحقیقی کام کیجئے۔ آپ یقینا اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اگر ہمارے ملک کی تاریخ کے اس چھوٹے سے دورانئے میں مقدس دفاع کے یہ آٹھ سال اپنی ان تمام خصوصیات کے ساتھ شامل نہ ہوتے تو آج ہمارے ملک کے پاس اور ہماری قوم کے پاس نہ یہ وقار ہوتا، نہ یہ سیکورٹی ہوتی، نہ یہ تحفظ ہوتا، نہ یہ خود مختاری ہوتی اور نہ ہی یہ آزادی ہوتی۔ آٹھ سال بظاہر تو جنگ، سختیوں، خوف و اضطراب اور بے شمار مشکلات کے سال تھے، لیکن بباطن یہ اپنے آپ میں ایک نعمت خداوندی تھی۔ اللہ کے پنہاں الطاف تھے جو اس ملک اور اس ملت کو عطا ہوئے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں آپ خود جائیے دیکھئے اور تحقیق کیجئے۔ یقینا جو بھی اس بارے میں مکمل تحقیق کرے گا اسی نتیجے پر پہنچے گا۔ ہمیں اس دور کی قدردانی کرنا چاہئے، اس کی عزت کرنا چاہئے، اس کا احترام کرنا چاہئے۔ آج ہمارے ملک اور ہماری قوم کے پاس جو طاقت ہے وہ اسی مقدس دفاع اور وطن عزیز کی تاریخ کے آٹھ زریں برسوں اور اس خاص دورانئے کا ثمرہ ہے۔ ہمیں اس خاص دورانئے کو ہمیشہ زندہ رکھنا چاہئے۔

آج اس ملت کے دشمنوں کی جانب سے ایسے عزائم کا مظاہرہ ہوتا ہے جن کا مقصد مقدس دفاع کے زمانے کو بھلا دینا ہے۔ اس کے لئے وہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس دور کو فراموش کر دیا جائے یا اس پر سوالیہ نشان لگا دیا جائے، اسے بدنام کر دیا جائے۔ آج ایران دشمن طاقتوں کی طرف سے اس مقصد کے تحت پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے کہ اس دور کو بھلا دیا جائے۔ آپ جو کام کر رہے ہیں وہ دشمن کی سرگرمیوں کے خلاف ایک عظیم عوامی جہاد ہے۔ مقدس دفاع کی تاریخ اور دورانیہ ایک سرمایہ ہے، اس سرمائے کو ملک کی پیشرفت کے لئے ملی نمو کے لئے، ہر ملت کے سامنے موجود رہنے والے گوناگوں میدانوں میں آگے بڑھنے کی آمادگی کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔

مقدس دفاع کے بارے میں باتیں تو بہت زیادہ ہیں، میں یہ بھی عرض کر دینا چاہتا ہوں۔ اب تک بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، سرگزشت لکھی گئی ہے، فلمیں بھی بنی ہیں، ان میں بہت سی فلمیں اور کتابیں واقعی بہت اچھی اور گراں قدر ہیں۔ لیکن مقدس دفاع کے مزید گوناگوں پہلو ہیں جو ہنوز بیان نہیں کئے جا سکے ہیں، ہنوز ان کے بارے میں تحقیق نہیں ہوئی ہے، تاحال ان پر کام نہیں ہوا ہے، انچھوئے رہ گئے ہیں۔ میں آج آپ عزیز نوجوانوں کے سامنے ان پہلوؤں کے دو حصوں کی جانب ایک مختصر اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ ایک حصہ مربوط ہے اس جنگ کی وجہ اور سبب سے۔ وہ وجہ جس کے چلتے ایران پر حملہ ہوا۔ دوسرا حصہ مسلط کر دی جانے والی اس جنگ میں ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ کے دفاع کی کیفیت سے مربوط ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اگر آپ پورے ماجرا پر نظر ڈالیں تو یہ مسلط کردہ جنگ، یہ دفاع، دشمن کے وہ معاندانہ اقدامات، وہ خباثتیں جو انجام پائیں اور ملت ایران کی جو شجاعت اور مظلومیت سامنے آئی یہ سب کچھ مجموعی طور پر ایک لطف خداوندی تھا، لیکن ضرورت ہے اس بات کی کہ اس کا تجزیہ کیا جائے، اس کو بخوبی سمجھا جائے۔ میں آپ عزیز نوجوانوں کی خدمت میں آج یہ دو نکات بہت اختصار کے ساتھ بیان کروں گا۔

پہلا نکتہ یہ ہے کہ جنگ شروع ہونے کا سبب کیا تھا؟ آخر ایسا کیا ہو گیا کہ ملت ایران جس نے اپنے اس مغربی ہمسایہ ملک کا کچھ نہیں بگاڑا تھا یکبارگی اس کے حملے کا نشانہ بنی، اس پر جارحیت شروع ہو گئی اور یہ جارحیت آٹھ سال تک چلتی رہی؟ وجہ کیا تھی؟ وجہ تھی انقلاب کی عظمت، انقلاب کی ہیبت۔ جب اسلامی انقلاب رونما ہوا تو اس انقلاب کی عظمت اور اس کی ہیبت نے طاقتور عالمی دشمنوں کو ہراساں کر دیا، مرعوب کر دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ جو لوگ ساری دنیا پر غلبہ رکھنے والے تخت پر بیٹھے ہوئے تھے اور ساری دنیا کو دھمکیاں دیتے رہتے تھے اور  خود کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، یعنی مغرب کے طاقتور سرمایہ دار اور ان میں سر فہرست امریکہ اور اس کے بعد یورپ، یورپی ممالک واقعی خود کو طاقت کے بام ثریا پر براجمان محسوس کرتے تھے، وطن عزیز میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد ان کا وہ تخت قدرت ہلنے لگا، دنیا انھیں لرزتی ہوئی محسوس ہوئی، وہ حقیقت میں خوفزدہ ہو گئے۔ وہ تجزیہ نہیں کر پا رہے تھے کہ ایران میں جو کچھ ہوا ہے وہ کیا ہے؟! مادی دنیا میں، الحاد کی دینا میں، فضیلتوں سے لا تعلق دنیا میں، خاص طور پر اسلام سے بے بہرہ دنیا میں کسی ایسے ملک کے اندر جہاں کے حکام مغرب کی ہر خواہش کو من و عن عملی جامہ پہنانا اپنا فرض سمجھتے تھے، یکبارگی ان کی مرضی کے خلاف، ان کے اہداف کے خلاف، ان کی خواہشات اور دنیا طلبی کے برخلاف اسلام کی بنیاد پر، دین کی بنیاد پر اور فضیلتوں کی بنیاد پر ایک انقلاب رونما ہوا، یہ ان کے لئے قابل فہم نہیں تھا کہ نوجوان خالی ہاتھ میدان میں اتر پڑیں اور اسلحے کے مقابل سینہ سپر ہو جائیں۔ طالب علم بھی آئے، اسکولی طلبہ بھی آئے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس ملک میں خونریز جدوجہد کا ایک اہم میدان طلبہ کی شراکت سے وجود میں آیا، 4 نومبر کو اسکولی طلبہ میدان میں نکلے۔ یہ یونیورسٹی کے طلبہ اور بڑی عمر کے افراد کی بات نہیں تھی۔ ہائی اسکول کے بچے بلکہ ان سے بھی چھوٹے بچے، اسی طرح سن رسیدہ افراد، مختلف طبقات کے لوگ، تمام شہروں میں، تمام دیہاتوں میں میدان میں نکل پڑے۔ اس چیز نے ان طاقتوں کو متحیر کر دیا تھا کہ یہ کیسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے؟! وہ خوفزدہ ہو گئے۔ جیسے جیسے وقت گزرا،ان کی حیرت خوف و دہشت میں بدلتی گئی۔ یعنی جیسے جیسے وقت گزرا، انہیں آسودگی ملنا تو درکنار، ان کی مشکلات، تشویش اور فکرمندی بڑھتی گئی۔ کیوں؟ اس لئے کہ انھوں نے دیکھا کہ اس انقلاب کو ساری دنیا کی اقوام میں پذیرائی مل رہی ہے۔ ان ممالک میں بھی جہاں کے سربراہان امریکہ کے اشارے پر کام کرتے تھے، عوام اسلامی انقلاب کی حمایت میں نعرے لگانے لگے۔ 1978 اور 1979 میں جو انقلاب کا ابتدائی وقت ہے، تقریبا تمام اسلامی ممالک میں اسلامی انقلاب کی حمایت میں باتیں ہونے لگیں، نعرے لگائے گئے، خطبے دئے گئے، مقالے لکھے گئے۔ اس صورت حال نے انھیں واقعی ڈرا دیا۔ انھوں نے دیکھا کہ ایران جو پہلے ان کی مٹھی میں تھا، اب ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، مگر اب ڈر اس بات کا ہے کہ اقوام کے اندر انقلاب کی ثقافت کے رسوخ اور مسلم اقوام میں اس کے پھیلاو سے کہیں دیگر اسلامی ممالک اور دیگر اسلامی حکومتیں بھی ان کے ہاتھ سے نکل نہ جائیں! اسی لئے وہ اس انقلاب کو کسی بھی قیمت پر ختم کر دینے پر تل گئے۔ ایران کے خلاف صدام کی بعثی  حکومت کی جنگ کا آغاز بھی یہیں سے ہوا۔

صدام کی شخصیت ایسی تھی کہ انھیں بخوبی علم تھا، یعنی وہ سیاسی شخصیات کو پہچانتے تھے، انھیں اس شخص کے اندر متکبرانہ، ظالمانہ اور حریصانہ کارروائی کی زمین ہموار نظر آئی۔ وہ مزاجا جارحیت پسند شخص تھا۔ انقلاب کے وقت صدام عراق کا صدر نہیں تھا۔ عراق کا صدر ایک اور شخص تھا، احمد حسن البکر تھا۔ لیکن ایسے حالات فراہم کئے گئے کہ وہ اقتدار سے ہٹ جائے اور یہ عراق کا صدر بن جائے تاکہ اسے آمادہ کر سکیں، ترغیب دلا سکیں، ایران پر حملے کے لئے اسے ورغلائیں! ایران پر فوجی حملہ پہلے اس بہانے سے کیا گیا، یعنی یہ کہتے تھے اور نعرے لگاتے تھے کہ تیل سے مالامال علاقوں کو ایران سے الگ کرکے عراق سے ملحق کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بے بنیاد بات تھی، یہ تیل کے ذخائر والے علاقوں کا معاملہ نہیں تھا۔ اصلی نشانہ حکومت تھی، اسلامی انقلاب تھا۔ وہ انقلاب کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ امریکہ اور طاقتور یورپ یعنی دوسرے اور تیسرے درجے کے یورپی ملکوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی، مگر اصلی یورپ یعنی برطانیہ، یعنی فرانس، یعنی جرمنی، یعنی اٹلی، یہ سارے ممالک جو یورپ میں خاص پوزیشن رکھتے تھے، توانائی رکھتے تھے وہ سب کے سب صدام کی پشت پناہی کے لئے آگے بڑھے۔ جہاں تک ممکن تھا انھوں نے مدد کی، جو بھی بس میں تھا وہ کیا۔

جنگ کے اوائل میں صدام حکومت کی فوج محدود تھی، کم تعداد کی فوج تھی۔ اس کے پاس وسائل بھی اتنے ہی تھے جو عام طور پر ہوتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، جیسے جیسے وقت گزرا، چھے مہینہ، ایک سال اور دو سال گزرا، تو روز بروز اس کے وسائل بڑھتے گئے۔ جنگ میں وسائل اور ساز و سامان تباہ بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جنگ کے اوائل میں ہمارے  پاس کچھ ٹنک تھے بعد میں ان میں سے کچھ تباہ ہو گئے۔ اسی طرح کچھ توپیں بھی تھیں جن میں سے بعض تباہ ہو گئیں۔ اسلحہ اور گولہ بارود تھا جس کی کافی مقدار ختم ہو گئی۔ جنگ میں یہ چیزیں استعمال ہوتی ہیں۔ جنگ ہوتی ہے تو وسائل اور ساز و سامان کم ہو جاتا ہے۔ مگر جیسے جیسے جنگ آگے بڑھ رہی تھی صدام کے وسائل اور ساز و سامان میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ بعثی حکومت کے وسائل میں کئی گنا کا اضافہ ہو گیا۔ اسے یہ وسائل کون دے رہا تھا؟ فرانس، برطانیہ، جرمنی، امریکہ، یہاں تک کہ سوویت یونین جو امریکہ کا دشمن تھا، مگر اس معاملے میں امریکہ کے ساتھ ایک ہی محاذ پر پہنچ گیا۔ اس کی بھی ایک خاص وجہ تھی۔ سوویت یونین میں شامل جمہوریاؤں میں خاصی تعداد مسلمان جمہوریاؤں کی تھی۔ ایران میں اسلامی تحریک اور اسلامی انقلاب رونما ہوا تو اس کے نتیجے میں ان جمہوریاؤں میں بھی اسلامی تشخص کی فکر بیدار ہوئی۔ سوویت یونین اس صورت حال کے لئے تیار نہیں تھا۔ اس لئے اس نے بھی اس معاملے میں ہمارے اوپر مسلط کی جانے والی اس جنگ میں، ہمارے خلاف ہونے والی محاذ آرائی میں امریکہ کے ساتھ یعنی اپنے دیرینہ دشمن کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کیا۔ تو اس طرح امریکہ، سوویت یونین، نیٹو، نیٹو میں یہی یورپ اور امریکہ وغیرہ ہی تو شامل ہیں، تمام توسیع پسند ممالک جو اسلامی جمہوریہ کے خلاف صدام کی پشت پناہی کے لئے کھڑے ہو گئے ان کا مقصد اسلامی جمہوریہ کو ختم کر دینا تھا۔ اصلی ہدف یہی تھا۔ مقصد خرم شہر، یا قصر شیرین یا کسی اور علاقے کو فتح کرنا نہیں تھا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ یہاں آئيں، جیسا کہ صدام نے شروع ہی میں کہا کہ "آج ہم یہاں انٹرویو دے رہے ہیں، آئندہ ہفتے تہران میں انٹرویو دیں گے!" یہ منصوبہ بندی تھی۔ جنگ کی وجہ یہ تھی۔ یعنی مسلط کردہ جنگ، نو تشکیل شدہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف دنیا کی بڑی طاقتوں کی ایک بہت بڑی سازش تھی۔ گویا جنگلی درندے کسی تنہا اور نہتے انسان پر حملہ آور ہو جائیں، در حقیقت یہ صورت حال تھی۔

اسلامی جمہوریہ کے پاس اس زمانے میں منظم مسلح فورسز نہیں تھیں، منظم انٹیلیجنس ادارہ نہیں تھا۔ ظاہر ہے اوائل انقلاب کا زمانہ تھا، سب کچھ درہم برہم تھا۔ اسلامی جمہوریہ کے پاس واحد چیز جو تھی وہ صاحب ایمان قوم اور عظیم الشان قائد (امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) تھے۔ یہی سرمایہ ملت ایران کے پاس تھا۔ جنگ کے بیچ میں اسی فرانس نے اپنے پیشرفتہ ترین طیارے اور ہیلی کاپٹر عراق کو دئے تھے، اسی جرمنی نے کیمیکل اور زہریلے مادے صدام حکومت کو دئے کہ وہ جنگ کے محاذوں پر کیمیکل مادے استعمال کرے۔

یہی لوگ جو آج کبھی کسی گروہ پر اور کبھی کسی ملک پر کیمیکل مادے کے استعمال کا الزام عائد کرکے اس کی سرزنش کرتے ہیں، انھوں نے رسمی طور پر اور اعلانیہ کیمیکل مادے صدام کو دئے کہ وہ کیمیکل بم بنائے، کیمیکل ہتھیار بنائے اور جنگ کے محاذوں پر ان ہتھیاروں کو استعمال کرے اور اس نے استعمال کیا بھی۔ آج جنگ کو تقریبا تیس سال، انتیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہمارے سپاہیوں میں ایسے افراد ہیں جو اس زمانے میں کئے گئے کیمیکل حملوں کی زد میں آئے، ان کی تعداد کم نہیں ہے، کرب میں مبتلا ہیں، ان میں بہت سے مجاہدین شہید ہو چکے ہیں۔ برطانیہ نے مدد کی، امریکہ نے مدد کی۔ جنگ کے نقشے اور سیٹیلائٹ کی تصاویر کے ذریعے مدد کی۔ دنیا کے سارے شیطانی اداروں نے اس بد بخت، متکبر، مغرور اور خود پسند شیطان یعنی صدام کی مدد کی اسلامی جمہوریہ کے خلاف کہ یہ جنگ شروع ہو، جاری رہے اور اس کا خاتمہ اس کی فتح پر ہو۔ البتہ یہ ساری کوششیں اس تیر کی مانند تھیں جو پتھر سے ٹکرا کر گر جائے۔ یہ سب کچھ کرکے دیکھ لیا اور آٹھ سال تک جی جان سے لگے رہے کہ اسلامی جمہوریہ کا ایک بالشت حصہ ہی سہی اپنے قبضے میں لے لیں، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ ملت ایران ان تمام طاقتوں پر غالب آئی۔ یہ پہلا نکتہ تھا، جنگ کی وجہ یہ تھی۔

اور اب جنگ کی کیفیت اور دفاعی اسٹریٹیجی کے بارے میں کچھ باتیں جو ہمارے مجاہدین نے میدان جنگ میں اختیار کی۔ آپ عزیزوں میں سے کسی کو بھی جنگ کا زمانہ یاد نہیں ہوگا، تاہم بعض شخصیات سے آپ یقینا واقف ہوں گے، ان کی کتابیں پڑھی ہوں گی، میں آپ سے یہ سفارش کرنا چاہتا ہوں کہ ان عزیز، عظیم، لازوال اور منفرد شخصیات کے بارے میں لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کیجئے، ہمارے دفاع کی نوعیت بڑی غیر معمولی تھی۔ دفاعی کارروائی پختہ عزم و ارادے سے آراستہ تھی۔ جنگ کے میدانوں میں پختہ عزم و ارادہ موجزن نظر آتا تھا۔ دفاعی کارروائی ایمان سے بھی آراستہ تھی۔ یعنی اپنی حقانیت اور دشمن کے باطل پر ہونے کا پورا یقین، اس کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ کسی میدان میں جو شخص جدوجہد کر رہا ہے اگر وہ جذبہ ایمانی رکھتا ہے، یعنی اسے اپنے حق پر ہونے کا یقین ہے، اپنے راستے کی حقیانیت کا یقین ہے، تو اس سے اس کی پیشرفت میں مدد ملے گی۔ اگر یہ ایمان، ایمان باللہ ہو، ایمان بالغیب ہو تب تو بات ہی الگ ہے۔ یہی وہ عنصر تھا جس نے صدر اسلام میں مسلمانوں کو وہ فتوحات دلائیں۔ ہمارے زمانے میں بھی یہی ہوا۔ عزم تھا، ایمان تھا، جذبہ قربانی تھا۔ ایمان کا نتیجہ جذبہ قربانی ہے۔ یعنی جان قربان کر دینا ان کے لئے کوئی بہت بڑی بات نہیں تھی۔ یعنی وہ واقعی اللہ کی راہ میں، جہاد فی سبیل اللہ کے لئے اپنی جان قربان کر دینے پر آمادہ تھے، یعنی جذبہ قربانی۔ یہ جو سرگزشت لکھی جاتی ہے اس مین قربانی کے واقعات بھرے پڑے ہیں جو ہم سب کے لئے درس ہیں۔ میں جب بھی ایسی کوئی کتاب پڑھتا ہوں، ویسے میں اکثر ان کا مطالعہ کرتا ہوں، تو حقیقت میں اس عمل میں اور ان قربانیوں میں جو عظمت ہے اسے دیکھ کر خود کو بہت حقیر محسوس کرتا ہوں۔

خلاقیت؛ مقدس دفاع کی ایک اور خصوصیت خلاقیت اور نئے کاموں کی انجام دہی کے جذبے کو پروان جڑھانا تھا۔ اگر آپ نے غور کیا ہوگا تو ضرور دیکھیں گے کہ دنیا کی افواج جن کے پاس تجربات بھی ہیں ان کی بالکل مسلمہ روشوں کو عبور کر جانا، نئے راستے بنانا اور نئے راستے تلاش کرنا! واقعی یہی ماحول تھا۔ ہمارے مجاہدین کی ایک بہت اہم چیز خلاقیت تھی۔ اس کے علاوہ روحانی توسل۔ جنگ کا محاذ ایسی جگہ تھی جہاں عام سے افراد بھی جب  پہنچ جاتے تھے تو گویا صفا و نورانیت و عرفان کی وادی میں وارد ہو جاتے تھے، وہ بھی بے اختیار طور پر! یہ ہمارے سپاہیوں کی خصوصیات تھیں۔ اس طرح خود یہ جنگ بھی انسان ساز بن گئی۔ یعنی مقدس دفاع کی وجہ سے ہمارے عام سے نوجوان، جو اس وقت طالب علم تھے، تاجر تھے، دیہی علاقوں کے رہنے والے تھے، مزدور تھے، کسان تھے، تعلیم یافتہ تھے، غیر تعلیم یافتہ تھے، اس آزمائش کی وادی میں اترے، انھوں نے زیادہ محنت کی، پیشرفت حاصل کی، انسانی مدارج اور اعلی انسانی مقامات پر پہنچے۔

یہ اہم اور نمایاں شخصیات، شہید ہمت اور شہید خرازی جیسی ہستیاں، آپ کے خیال میں کیسی تھیں؟ شہید ہمت جو واقعی ایک افسانوی کردار محسوس ہوتے ہیں، شہید خرازی بھی جو ایک افسانوی کردار نظر آتے ہیں، ایک عام نوجوان تھے۔ جنگ نے انھیں ایسی نمایاں، عظیم اور حقیقی معنی میں لازوال شخصیتوں میں تبدیل کر دیا۔ یا شہید باکری اور شہید برونسی جیسے افراد ہیں۔ استاد عبد الحسین ایک غیر تعلیم یافتہ راجگیر جب میدان جنگ میں مجاہدین کے درمیان کھڑے ہوتے تھے اور گفتگو کرتے تھے، جن لوگون نے ان کی  تقریریں سنی تھیں، یا سنی ہیں وہ جانتے ہیں، کسی فلسفی کے انداز میں، کسی دانشور انسان کے انداز میں بولتے تھے اور سامع کے دل میں ان کی بات اتر جاتی تھی۔ تو جنگ انسان ساز بھی ہے۔ یہ مقدس دفاع ان خصوصیات کے حامل، جن کا میں نے ذکر کیا، انسانوں کی تعمیر کرتا ہے۔ چیت سازیان ایک اٹھارہ سالہ نوجوان تھا جو میدان جنگ میں گیا تو ایک لازوال ہستی، ایک درخشاں ستارہ بن گيا جس کی باتوں سے ہمیں اور آپ کو، سب کو استفادہ کرنا چاہئے اور ہم استفادہ کرتے ہیں۔ اس طرح کے ہزاروں نوجوان میدان جنگ میں پروان چڑھے۔

ان کے پاس دانشمندی اور فکر تھی۔ کوئی یہ نہ سوچے کہ بس آنکھ بند کرکے بغیر کچھ سوچے سمجھے دشمن پر حملہ کرتے تھے، جی نہیں، تدبر کے ساتھ اور عقلمندی کے ساتھ کام کرتے تھے۔ میدان جنگ میں ہمارے نوجوانوں کے حرکات و سکنات مدبرانہ اور دانشمندانہ ہوتے تھے۔ دانشمندی اور تدبر سے، دلیری اور شجاعت سے کام کرتے تھے۔ فداکاری اور عبادت بھی کرتے تھے۔ حقیقت میں دن میں میدان کے بپھرے ہوئے شیر اور رات میں حقیقی معنی میں زاہد و عابد، عبادت گزار اور بارگاہ خداوند میں گریہ و زاری کرنے والے۔ دن کے شیر اور رات کے عبادت گزار، یہ ماحول تھا۔

یہی وجہ تھی کہ شروع میں ہی ملنے والی فتوحات میں سے ایک فتح کے بعد، سنہ 1981 میں ایک فتح ملی تھی فتح بستان جو بہت زیادہ اہم تھی، پسپائی اور گوناگوں شکستوں کے بعد ملنے والی فتح بستان کو بہت بڑی فتح شمار کیا جا رہا تھا، امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے اپنے ایک نہایت پرمغز بیان میں، البتہ یہ آپ کی اس بات کا مفہوم ہے، اصلی عبارت کتاب میں ہے، آپ نے فرمایا کہ فتح الفتوح کسی شہر کو فتح کر لینا نہیں ہے۔ فتح الفتوح تو ایسے نوجوانوں کی تربیت ہے۔ یہ فتح الفتوح ہے (2)۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ کسی بھی ملک کے لئے فتح الفتوح یہ ہے کہ اس ملک کے نوجوان عقلمند بھی ہوں، مدبر بھی ہوں، مومن بھی ہوں، پارسا بھی ہوں، اہل عبادت و تضرع بھی ہوں، دشمن کے مد مقابل ڈٹ جانے والے بھی ہوں، صاحب بصیرت بھی ہوں جو اس وسیع پیمانے پر دشمن اور اس کے آلہ کاروں کی جانب سے ہر دور میں کئے گئے اور آج بھی کئے جانے والے زہریلے پروپیگنڈے کے باوجود فریب میں نہ آئیں۔ اگر کسی ملک میں ایسے نوجوان موجود ہیں تو وہ ملک پوری طرح محفوظ بن جاتا ہے۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا اس ملک کا مستقبل آپ ہیں، اس ملک کا 'کل' آپ ہیں۔ اگر آپ نے ان خصوصیات کے ساتھ خود کو پروان چڑھایا اور اپنی تربیت کی تو وطن عزیز بہت جلد، یعنی مستقبل بعید نہیں بلکہ مستقبل قریب میں، ہر لحاظ سے اوج اور تکامل کی منزل پر پہنچ جائے گا۔ علمی اعتبار سے بھی، مادی اعتبار سے بھی، سیاسی اعتبار سے بھی اور اقتصادی اعتبار سے بھی بلندی پر پہنچ جائے گا، یہ نوجوان کی خصوصیت ہوتی ہے۔

مقدس دفاع کا تشخص یہ ہے؛ طاقتور عالمی دشمنوں کے عناد کی وجہ سے یہ جنگ شروع ہوئی مگر ہمارے نوجوانوں کی عظمت و قربانی نے اس جنگ کو ہمارے فائدے میں کر دیا۔ انھوں نے اس نیت سے جنگ شروع کی تھی کہ اسلامی انقلاب کو پوری طرح مٹا دیں، مگر یہ نوجوان اس عزم و ارادے کے ساتھ میدان میں اترے، وہ کارنامہ انجام دیا کہ اسلامی انقلاب روز بروز زیادہ طاقتور، اس کی جڑیں زیادہ مضبوط اور اسلامی جمہوری نظام زیادہ مستحکم ہوا۔ یہ مقدس دفاع کا تشخص ہے۔ اس تشخص کی حفاظت کی جانی چاہئے، اس کی پاسبانی کرنی چاہئے۔ ملک بھر سے 'راہیان نور' کاروانوں کا حرکت میں آنا، آپ کا یہ عمل، ہر ساس کئی ملین پیر و جواں کا حرکت میں آنا اور اس سمت روانہ ہو جانا، در حقیقت اس نورانی دور، اس نورانی حقیقت یعنی مقدس دفاع کی حقیقت کی پاسداری کا ایک مظہر ہے۔

انقلاب کی فتح کو چالیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ آپ  کی عمریں اٹھارہ، بیس یا پچیس سال سے زیادہ نہیں ہیں۔ دشمن کو یہ توقع تھی اور وہ چاہتے تھے کہ جب یہ نسل یعنی آپ کی نسل سامنے آئے گی، جب آپ کی باری آئے گی تو اسلام اور انقلاب کا اس ملک میں کوئی نام و نشان نہیں بچے گا۔ پھر آسانی سے اس ملک کی سیاست پر، اس ملت کے تشخص پر، اس ملک کی تمام چیزوں پر امریکی، دنیا کی طاقتیں اور صیہونی سرمایہ دار قابض ہو جائیں گے۔ انھیں یہ توقع تھی۔ انھوں نے اسی ارادے کے ساتھ لڑائی شروع کی، اس منصوبے کے تحت جنگ کا آغاز کیا۔ جنگ کے بعد بھی انھوں نے اسی مقصد کے تحت تا حال اس ملک پر عسکری اور تشہیراتی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ مگر آج نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ اس نسل کے درمیان ایسے افراد موجود ہیں جن کے اندر نمو اور شکوفائی کی استعداد پہلی نسل سے زیادہ ہے، جارح اور خبیث دشمن کے مد مقابل ان کی ثابت قدمی زیادہ ہے۔ بے شک اگر اس دور میں ہمارے نوجوانوں نے دشمن کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا تو آج بھی ہمارے نوجوان دشمن کو پیچھے دھکیلنے کے لئے اور زیادہ آمادگی رکھتے ہیں۔ انھوں نے عیاری کی، سازشیں رچیں، مگر اسلامی جمہوریہ نے اور ارادہ خداوندی نے ان کی سازشوں کو ناکام بنایا۔ ان شاء اللہ روز بروز یہ سازشیں اور بھی ناکام ہوں گی۔ اے اچھے نوجوانو! خود کو آمادہ کرو!

میں 'راہیان نور' کے  تعلق سے کچھ سفارشات کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ سارے ادارے اپنے اپنے اعتبار سے اس عمل میں مدد کریں۔ ملک کے مختلف ادارے جو اس عمل میں مدد کر سکتے ہیں، مدد کریں۔ البتہ اس رپورٹ میں جو ذکر کیا گیا اس کے مطابق تو بعض ادارے واقعی بہت اچھا تعاون کر رہے ہیں، تاہم عقیدے کا تقاضا یہ ہے کہ اس عمل پر ملک کے تمام اداروں کی توجہ رہے۔ دوسری سفارش یہ ہے کہ 'راہیان نور' کا جو ثقافتی اور سماجی پہلو ہے اسے زیادہ سے زیادہ تقویت پہنچائی جائے۔ غور کیا جائے کہ اس عظیم عوامی عمل میں ثقافتی گہرائی کیسے پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس پر کام کریں، اس پر نظر رکھیں۔ ایک اور سفارش 'راویوں' کے بارے میں ہے۔ جو افراد ان 'راہیان نور' کے علاقوں میں ان مسافرین کے لئے وہاں پہنچنے والے افراد کے لئے واقعات کو بیان کرتے ہیں، اس بیان میں دیانتداری کا پوری طرح خیال رکھیں۔ میں مبالغہ آرائی اور بڑھا چڑھا کر  پیش کئے جانے جیسی باتوں کے خلاف ہوں، اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم مبالغہ آرائی کریں۔ جو کچھ رونما ہوا ہے وہ اپنے آپ میں اتنا پروقار، فکر انگیز اور پرکشش ہے کہ ہمیں اس میں کسی چیز کا اضافہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ کبھی کبھی سننے میں آتا ہے کہ امداد غیبی کی باتیں عامیانہ انداز میں جوڑ دی جاتی ہیں۔ بے شک امداد غیبی تھی، ہم خود اس کے گواہ ہیں، ہم جانتے ہیں کہ امداد غیبی تھی، لیکن اس عامیانہ شکل میں امداد غیبی جس کی بعض اوقات تصویر کشی کر دی جاتی ہے، نہیں تھی۔ اللہ تعالی یقینا مدد کرتا ہے۔ جنگ بدر میں اللہ تعالی نے اپنے فرشتوں کو حکم دیا کہ جاؤ جاکر مجاہدین فی سبیل اللہ کی پشت پناہی کرو، مدد کرو۔ اللہ ہر جگہ مخلص بندوں کے لئے ایسا کرتا ہے، لیکن ان مطالب کو بیان کرنے میں ہمیں مبالغہ آرائی وغیرہ سے پرہیز کرنا چاہئے۔

مقدس دفاع کے جو اہم واقعات ہیں انھیں نصاب کی کتابوں میں جگہ ملنی چاہئے۔ اہم اور مسلمہ واقعات جو رونما ہوئے انھیں درسی کتب میں شامل کیا جانا چاہئے تاکہ ہمارے نوجوانوں کو ان واقعات کا علم ہو۔ کتابیں تو بہت لکھی گئی ہیں، بعض کتابیں کافی ضخیم اور تفصیلی بھی ہیں۔ ممکن ہے کہ بہت سے لوگ انھیں نہ پڑھیں۔ ان کتابوں میں سے کچھ حصے درسی کتب میں مناسبت کے مطابق شامل کئے جا سکتے ہیں۔

راہیان نور کاروانوں کے مسافرین کی سیفٹی کا خیال بہت ضروری ہے اس پر توجہ رکھی جانی چاہئے۔ جو ذمہ داران ہیں وہ اس مسئلے پر توجہ دیں۔

یہ یاد رکھئے کہ 'راہیان نور' کے اس عمل سے، مختلف میدانوں میں انسان جو جذبات ملک کے نوجوانوں میں دیکھتا ہے ان کے ہوتے ہوئے دشمن ملت ایران کے خلاف جس طرح ان چالیس برسوں میں کچھ نہیں کر پایا، آئندہ بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ بے شک وہ پریشان کرتے ہیں، تکلیف پہنچاتے ہیں، پابندیوں کے مسائل، اقتصادی مشکلات، گوناگوں پروپیگنڈے، یہ سب کچھ ہے، یہ چیزیں ملت ایران کو تکلیف تو پہنچاتی ہیں لیکن اس کی پیش قدمی کے عمل کو نہیں روک سکتیں۔ جب ارادہ پختہ ہو، جب آگے بڑھنے کا فیصلہ پوری پختگی سے کیا گيا ہو، جب نوجوانوں کے اندر ضروری بصیرت موجود ہو اور وہ مد مقابل دشمن سے بخوبی آگاہ ہوں، دشمن کی شناخت میں ان سے کوئی غلطی نہ ہو، دشمن سے پیکار کا جذبہ اور عزم ان کے اندر کمزور نہ ہونے پائے تو دشمن کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا، دشمن ضرب نہیں لگا سکتا، دشمن پیش قدمی کے اس عظیم عمل کو روک نہیں سکتا۔

امید کرتا ہوں کہ آپ عزیز نوجوان ان شاء اللہ مستقبل میں جب اس ملک کی چابیاں آپ کے ہاتھوں میں ہوں گی، اس ملک کو عزت و اقتدار کے اوج پر پہنچائیں گے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

  1. اس ملاقات کے آغاز میں مقدس دفاع کے اقدار کی حفاظت اور نشر و اشاعت کی فاؤنڈیشن کے سربراہ بریگیڈيئر جنرل بہمن کارگر نے ایک رپورٹ پیش کی۔
  2. صحیفہ امام جلد 15 صفحہ 395