بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین

خوش آمدید کہتا ہوں تمام محترم صاحبان اور برادران عزیز کو۔ جناب جنتی صاحب اور جناب شاہرودی صاحب نے جو رپورٹ پیش کی اس کا اور پورے سال صدارتی کمیٹی، کمیشنوں کے سربراہان اور ارکان نے جو زحمتیں اٹھائیں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خاص طور پر 'نظریہ پرداز کمیٹی' (1) کا جو موضوع ہے، آپ نے بلند ہمتی سے کام کیا ہے، اس کے علاہ ان شاء اللہ جب یہ کمیٹی اپنا کام شروع کر دے گی تو رفتہ رفتہ اس کے فوائد بھی ظاہر ہوں گے اور اس بڑے کام  کے راستے کی جو اس کمیٹی کے ذریعے انجام پانے والا ہے مشکلات اور دشواریاں بھی واضح ہو جائیں گی۔ طلب رحمت و مغفرت کرتے ہیں جناب شاہ آبادی مرحوم (2) کے لئے، انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ آیت اللہ العظمی شاہ آبادی مرحوم کی اولاد میں آپ ان لوگوں میں تھے جن کے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) سے قریبی، مخلصانہ اور محبت آمیز روابط تھے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کچھ لوگوں منجملہ مرحوم کے سلسلے میں پدرانہ شفقت رکھتے تھے۔ خود مرحوم  بھی واقعی جذبات کے اعتبار سے، برتاؤ کے اعتبار سے اور انقلاب سے وفاداری کے لحاظ سے بہت نمایاں انسان تھے۔ اللہ تعالی مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔

یہ اجلاس حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اسم مبارک سے متبرک ہے کیونکہ اس کا انعقاد ان ایام میں ہوا جو اس عظیم ہستی کی ولادت سے منسوب ہیں۔ اسے ہم فال نیک مانتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماہ رجب کی بھی آمد آمد ہے، یہ بھی واقعی سال کے بڑے با برکت دورانئے میں قدم رکھنے کا موقع ہے، ماہ رجب عبادت، توسل، تضرع، حصول قرب الہی اور رکاوٹیں دور کرنے کے لئے اللہ تعالی سے طلب نصرت کا مہینہ ہے۔

محترم حضرات، برادران عزیز! یہ اسمبلی سیاسی اعتبار سے بہت زیادہ حساس ادارہ ہے کیونکہ رہبر انقلاب کا انتخاب اس اسمبلی کی ذمہ داری ہے، بعض مواقع پر رہبر انقلاب کو معزول کرنے کا اختیار بھی اس کے پاس ہے، یعنی یہ غیر معمولی سیاسی پوزیشن کا حامل ادارہ ہے، اس کے علاوہ بھی یہ علما کی اسمبلی ہے۔ یعنی اس میں علمائے دین جمع ہیں۔ یہ اسمبلی دین و سیاست کی آمیزش کی زندہ مثال ہے۔ علمائے دین علم دین کے اعلی رتبے پر موجود رہتے ہوئے ایک بڑا سیاسی کام انجام دیتے ہیں جس کا ذکر ابھی ہوا اور آئین میں بھی اس کا تذکرہ ہے۔ اگر وہ 'نظریہ پرداز کمیٹی' اور اس کی سرگرمیاں بھی شروع ہو جاتی ہیں، اس پر کام ہوتا ہے اور کاموں میں وسعت آتی ہے تو پھر اس اسمبلی کی برکتوں اور فعالیتوں کی وسعت اور بڑھ جائے گی۔

آج میں جو باتیں عرض کروں گا وہ اسی عالمانہ پہلو اور دینی پہلو کے تناظر میں ہیں، اس پہلو اور اس شعبے کے بارے میں کچھ نکات محترم حاضرین کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

اس بحث کی تمہید یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایک ہمہ جہتی پیکار میں مصروف ہے، اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے۔ یہ سب مانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایک سخت مقابلہ آرائی اور ہمہ جہتی پیکار میں مصروف ہے۔ صرف سیاسی میدان میں نہیں بلکہ ثقافتی میدان میں بھی، اقتصادی میدان میں بھی، سماجی میدان میں بھی اور سیکورٹی کے میدان میں بھی ہم محو پیکار ہیں۔ ایک زمانے میں عسکری جنگ اور فوجی تصادم بھی تھا تاہم وہ رک گيا ہے اور اس وقت وہ جنگ نہیں ہے لیکن اس سے زیادہ سخت سکیورٹی کی جنگیں، اقتصادی جنگيں اور ثقافتی جنگیں ہیں جن میں ہم مصروف ہیں، ہم حالت جنگ میں ہیں۔ اس کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ بے شک کچھ لوگ ہیں جو اس بات پر کہ ہم اس حالت میں ہیں، حالت جنگ میں ہیں، اعتراض کرتے ہیں کہ ہم کیوں دنیا سے حالت جنگ میں رہیں؟ کچھ لوگ ہیں جنھیں اس چیز پر اعتراض ہے۔ ان کا تصور یہ ہے کہ اس جنگ کا آغاز اسلامی جمہوریہ نے کیا ہے۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ ہم ایسے کیوں ہیں، اس حالت میں کیوں ہیں؟ ہماری نظر میں یہ غفلت کا نتیجہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے دنیا سے اتنی وسیع جنگ کا آغاز خود نہیں کیا ہے۔ بلکہ خود اسلامی جمہوریہ کا وجود یعنی وہ امنگیں، وہ اہداف اور وہ نعرے جو اسلامی جمہوریہ میں نظر آتے ہیں، جن کا خلاصہ ہے دین کی حکومت، جن کا نچوڑ ہے دینی سماج، اس سے خود ہی دشمن پیدا ہو جاتے ہیں، دشمن نکل آتے ہیں، جنگ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ وہی مشہور جنگ حق و باطل ہے جو پوری تاریخ میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ جہاں نغمہ توحید بلند ہوا اور مساوات کی بات ہوئی وہیں دشمنیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ آج کی بات نہیں ہے۔ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ*  وَلِتَصْغَىٰ إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُم مُّقْتَرِفُونَ* ‌(3)، باطل محاذ کے مختلف حصے ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ یعنی وہ تعاون بھی کرتے ہیں اور حامی بھی تلاش کر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو ان کی باتوں پر توجہ دیتے ہیں، انھیں سنتے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ یہ صورت حال ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں ہمارا نعرہ توحید ہے، ولایت خداوندی ہے، اولیائے خدا کی ولایت و بالادستی ہے، سماجی انصاف ہے، انسان کا احترام ہے۔ ہمارے جو نعرے ہیں اور ہم جن کے لئے کام کر رہے ہیں وہ یہی ہیں اور ان نعروں کے کچھ دشمن ہیں۔ ہم ظلم کے مخالف ہیں۔ لِلظّالِمِ خَصماً وَ لِلمَظلومِ‌ عَونا؛(4) یہ ہمارا مکتب فکر ہے، ہم ظالم کے مخالف ہیں، مظلوم کے مددگار ہیں۔ یہ موقف ہو تو فطری طور پر کچھ دشمن پیدا ہو جاتے ہیں، دشمنیاں پیدا ہو جاتی ہیں، ٹکراؤ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ہوتا ہے۔

اب اہم نکتہ یہ ہے کہ اس پیکار میں فتح حتمی طور پر حق کے محاذ کی ہوتی ہے۔ صرف آج کی بات نہیں ہے، بلکہ کل بھی آج بھی اور آئندہ کل بھی، جہاں بھی کوئی مقابلہ آرائی ہو فتح و کامرانی حق کے محاذ کی ہوتی ہے۔ البتہ اس کی کچھ شرطیں ہیں۔ اگر اہل حق اور وہ لوگ جو حق کے طرفدار ہیں نیت کر لیں، ٹھان لیں، تحمل سے کام لیں، ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں، جدوجہد کریں تو فتح یقینی ہے۔ جہاں بھی ایسا ہوا ہے، تاریخ کے پرانے ادوار سے اب تک یہی نتیجہ رہا ہے۔ انبیاء کے سلسلے میں بھی یہی ہے۔ انبیا کے واقعات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ انھیں قتل کر دیا گیا، ختم کرد یا گيا، ان کا مذاق اڑایا گيا، اس طرح کی حرکتیں کی گئيں۔ لیکن قرآن میں بھی اور روایات میں بھی ایسی مثالیں ہیں کہ انبیا کامیاب ہوئے، غالب آئے، اس کی وجہ یہی تھی کہ حالات الگ الگ تھے۔ جب بھی حق کے طرفداروں نے تساہلی کا مظاہرہ کیا، بے توجہی برتی تو وہ حالت ہوئی۔ جہاں ثابت قدمی دکھائی، استقامت کا مظاہرہ کیا، پیکار کیا، بصیرت سے کام لیا وہاں فتح نے ان کے قدم چومے۔ یعنی پوری تاریخ میں یہی سلسلہ رہا ہے۔ آج بھی وہی صورت حال ہے۔ آج جب اس تحریک کو اس مہم کو بزرگوار امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) نے شروع کیا تو عوام نے پیروی کی۔ لوگ میدان میں نکلے۔ پیرو و جواں، مرد و زن، مختلف طبقات، مختلف علاقوں کے لوگ میدان میں نکل پڑے۔ وہ قتل ہونے سے نہیں ڈرے، پائیداری کے ساتھ ڈٹے رہے اور کامیابی ملی۔ جنگ میں بھی یہی ہوا۔ اسی طرح جس معاملے میں بھی ہم نے ہمت سے کام لیا وہاں یقینا ہمیں فتح ملی ہے۔ آج بھی وہی صورت حال ہے۔ آج بھی اگر ہم نے شرطیں پوری کیں تو فتح یقینی ہے۔

قرآن میں ایسی آیات کریمہ کثرت سے ہیں جو حتمی فتح کے اس نکتے کی یاددہانی کراتی ہیں، تعلیم دیتی ہیں اور خوش خبری دیتی ہیں۔ منجملہ یہ آیت؛ « اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم»،(5) یا یہ آیت؛ «لَیَنصُرَنَّ‌ اللهُ مَن یَنصُرُه» (6) یا یہ آیت؛ «وَ العاقِبَةُ لِلمُتَّقین»(7) جو کئی جگہوں پر مکرر آئی ہے۔ یہ سب اسی نکتے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ حد درجہ امید بخش آیتیں جن میں سے کچھ کے بارے میں آج میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں معیت الہی کی آیتیں ہیں؛ «اِنَّ اللهَ مَعَنا» (8)، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ یہ بہت بڑی چیز ہے کہ انسان یہ محسوس کرے کہ اللہ اس کے ساتھ ہے۔ اللہ اس کے پاس ہے۔ اللہ اس کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اللہ اس کا خیال رکھ رہا ہے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ اس لئے کہ اللہ مرکز قدرت اور مرکز عزت ہے۔ جب اللہ کسی محاذ کے ساتھ ہو تو اس محاذ کی فتح و کامرانی میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں بچتی۔ اب آپ غور کیجئے کہ سخت ترین حالات میں اللہ تعالی نے اپنے اولیا کو اپنی اس معیت سے آگاہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر جب حضرت موسی کہتے ہیں؛ وَلَهُم عَلَیَّ ذَنبٌ فَاَخافُ اَن یَقتُلون، اس قضیئے کے آغاز میں اللہ تعالی فرماتا ہے؛ قالَ کَلّا فَاذهَبا بِئایتِناِ اِنّا مَعَکُم مُستَمِعون (9) میں تمہارے ساتھ ہوں، تمہیں کس کا ڈر ہے؟ یہ سورہ شعرا میں ہے۔ اسی طرح ایک اور آیت میں جب موسی و ہارون کہتے ہیں؛ اِنَّنا نَخافُ اَن یَفرُطَ عَلَینا اَو اَن یَطغی، فرعون ایسا کر سکتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے؛ قالَ لا تَخافا اِنَّنی مَعَکُماّ اَسمَعُ وَ اَری (10) اب آپ دیکھئے کہ یہ کتنی اچھی چیز ہے! میں تمہارے ساتھ ہوں، دیکھ رہا ہوں، سن رہا ہوں، پوری طرح متوجہ ہوں، تمہاری حفاظت کر رہا ہوں۔ یا سورہ مبارکہ محمد میں ارشاد ہوتا ہے؛ فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّـهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ (11)، یعنی مومنین کے لئے، پیغمبروں کے لئے، پیغمبروں کے اصحاب اور ہمراہ افراد کے لئے اللہ کی یہ معیت ایسی چیز ہے جس کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن میں مکرر کیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پیغمبروں نے اللہ تعالی کے اس وعدے پر اعتماد کیا اور اس آیہ شریفہ میں؛ « فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَىٰ إِنَّا لَمُدْرَكُونَ*  قَالَ كَلَّا ۖ إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ*» (12) جیسے ہی دور سے فرعون کے لشکر کے آثار نمودار ہوئے، فرعون کی فوج پہنچا ہی چاہتی تھی، ادھر ان کے آگے سمندر اور پیچھے فرعون کا لشکر! دل لرزنے لگے۔ انھوں نے کہا؛ «اِنّا لَمُدرَکون» اب تو ہمارا کام تمام ہے۔ اس موقع پر حضرت موسی نے اللہ تعالی کے اسی وعدے کے بھروسے فرمایا؛ کلّا، ہرگز نہیں۔ اِنَّ مَعِیَ رَبّی سَیَهدین۔ یا پیغمبر اسلام غار ثور میں؛ اِلّا تَنصُروهُ فَقَد نَصَرَهُ اللهُ اِذ اَخرَجَهُ الَّذینَ کَفَروا ثانِیَ اثنَینِ اِذ هُما فِی الغارِ اِذ یَقولُ لِصاحِبِه! لا تَحزَن اِنَّ اللهَ مَعَنا (13)، اسی وعدہ خداوندی کے بھروسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا؛ «اِنَّ اللهَ مَعَنا»، پریشان مت ہو، رنجیدہ نہ ہو۔ تو یہ حتمی وعدہ اللہ تعالی نے کیا ہے اور اولیائے خدا جیسے حضرت موسی اور پیغمبر اکرم نے اس وعدے پر یقین کیا، اسے قبول کیا اور اس کے مطابق عمل کیا۔ یہ ایک حقیقت اور تاریخ کی مسلمہ سنت پروردگار ہے۔ یہ ان سنتوں میں سے ہے کہ ؛ «لَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبدیلا» (14) بے شک یہ دائمی سنت ہے۔

اب اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ 'معیت' ہمیں بھی حاصل ہو تو اس کا طریقہ کیا ہے؟ سب سے اہم بات یہی ہے۔ یہ معیت موجود ہے، لیکن اس کے حصول کی شرط ہے۔ یہ سب کے لئے عام نہیں ہے۔ اس معیت کے لئے قرآن کریم میں کچھ شرطیں بیان کی گئی ہیں۔ سورہ نحل کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے؛ اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذینَ اتَّقَوا وَالَّذینَ هُم مُحسِنون (15)، تقوی «اِنَّ ‌اللهَ مَعَ الصّبِرین‌» (16)  اور «وَ اللهُ‌ مَعَ‌ الصّبِرین» (17)  اور «اَنَّ اللهَ مَعَ المُتَّقین» ‌(18)  اور «اَنَّ اللهَ مَعَ المُؤمِنین‌» (19)  اور «وَ اِنَّ اللهَ لَمَعَ المُحسِنین» (20) قرآن میں کئی بار اس کا ذکر ہے۔ ہمیں یہیں سے اپنا فریضہ سمجھنا ہوگا۔ ہم یہی بات عرض کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت اسلامی بھی، یعنی حکومتی عہدیداران، مجریہ، مقننہ اور عدلیہ کا بھی اور علما کا بھی فریضہ یہ ہے کہ اس ملت کی ایمانی تربیت کریں، تقوائی تربیت کریں، مومنین کو صبر کی تربیت دیں، نیکی کی تربیت دیں۔ ہمیں عوام کی اس طرح تربیت کرنا چاہئے۔ سب سے زیادہ اہمیت حکومتی اداروں کی ہے جو منصوبہ بندی کے ساتھ یہ کام انجام دے سکتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک وسیع ادارہ ہے تعلیم و تربیت کے نام سے، ایک اور وسیع ادارہ ہے ہائیر ایجوکیشن کے نام سے، ایک وسیع ادارہ ہے قومی نشریاتی ادارے کے نام سے۔ ہمارے اپنے الگ جو ادارے ہیں ان سے ہٹ کر۔ جن اداروں کا ذکر میں نے کیا یہ ساری دنیا میں سب کے پاس ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے پاس کچھ سسٹم ایسے ہیں جو ہم سے مختص ہیں۔ جیسے ائمہ جمعہ و جماعت کا نیٹ ورک، جیسے منبر، یہ منبر اور عوام سے براہ راست رابطہ بہت اہم چیز ہے۔ تو ایک اہم کام یہ ہے کہ اسکول میں، یونیورسٹی میں، مسجد میں، نماز جمعہ کے مراکز میں، تبلیغی منبروں پر تعلیمی و تربیتی منصوبہ بندی کی جائے۔ اسی طرح جیسا کہ میں نے عرض کیا جو وسیع ادارے ہیں، جیسے قومی نشریاتی ادارہ اس کا ایک اہم فریضہ یہ بھی ہے۔ یا وہ لوگ جن کی بات سننے والوں کی تعداد زیادہ ہے جیسے یہ حقیر، جیسے صدر محترم یا کچھ دوسرے افراد جن کی باتیں عوام تک پہنچتی ہیں۔ معروف دینی، علمی اور سیاسی شخصیات جن کی باتیں عوام سنتے ہیں، ان سب کو چاہئے کہ اپنے اہم اہداف کو اسی مذکورہ تربیت پر مرکوز کریں۔ اس لئے کہ اگر یہ تربیت انجام پا گئی تو «وَالَّذینَ هُم مُحسِنونَ» پیدا ہوں گے، « الَّذینَ اتَّقَوا» وغیرہ پیدا ہوں گے، اور اس کے بعد « اِنَّ اللهَ مَعَنا» کی کیفیت پیدا ہوگی۔ یعنی یقینی طور پر معیت خداوندی حاصل ہوگی۔ پھر کسی خوف و حزن کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ آج ہمیں ایک وسیع سیاسی، مالیاتی، اقتصادی، عسکری اور سیکورٹی وغیرہ کے حملہ آور محاذ کا سامنا ہے۔ دنیا کے تقریبا سارے تشہیراتی ادارے ہمارے خلاف بول رہے ہیں، کام کر رہے ہیں۔ صیہونیوں سے وابستہ، امریکہ اور استکباری قوتوں سے وابستہ مالیاتی ادارے ہمارے خلاف ریشہ دوانیاں کر رہے ہیں۔ وہ سب سرگرمیاں کر رہے ہیں۔ البتہ بحمد اللہ ہم پائيداری کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ استقامت بھی اسی تقوی اور ایمان کی برکت سے ہے جو ہمارے عوام کے بیشتر حصے میں بحمد اللہ موجود ہے۔ یعنی یہی نوجوان، یہی قربانیاں، یہی 'حججی صفت افراد' (21) وغیرہ۔ انھیں آپ معمولی نہ سمجھئے۔ یہ بہت اہم ہیں۔ انھیں لوگوں نے اس نظام کے ستونوں کو قائم رکھا ہے اور ہمارے لئے کافی حد تک معیت خداوندی فراہم کر دی ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ معیت خداوندی کامل ہو جائے تو ہمیں ان افراد کے دائرے کو وسیع تر کرنا ہوگا۔ ان مسائل پر ہمیں کام کرنا ہوگا۔ ایک تو تبلیغی کام اور تبلیغی منصوبہ بندی ہے۔ آپ حضرات، آپ سب کے سب اپنے اپنے شہروں میں ایسے مراکز میں ہیں جن پر سب کی توجہ رہتی ہے۔ آپ یا تو امام جمعہ ہیں یا دینی مقرر ہیں، یا استاد ہیں، بعض دینی درسگاہ کے استاد ہیں اور بعد یونیورسٹی کے استاد ہیں۔ مختلف جگہوں پر آپ کے پاس پلیٹ فارم موجود ہے، اپنی بات کہنے، کام کرنے، تربیت کرنے کا موقع آپ کے لئے فراہم ہے، آپ کے ارد گرد افراد ہوتے ہیں، آپ کے پاس میدان موجود ہے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالی سوال کرے گا۔ یعنی یہ جو امکانات فراہم ہیں انھیں استعمال کرنے کی کیفیت کے بارے میں اللہ سوال کرے گا۔ ؛ وَاستَعمِلنی بِما تَسئَلُنی غَداً عَنه؛ (22) یہ اس قسم کی چیزیں ہیں۔ تو ایک اہم کام یہ ہے۔

ایک اور ضروری کام جو اہمیت کے اعتبار سے اگر تبلیغ سے زیادہ ضروری نہیں تو کم بھی نہیں ہے، ہمارے خیال میں یہ زیادہ اہم ہے۔ وہ خود ہمارا عمل۔ صرف وہ عمل نہیں جو لازمی طور پر عوام کی آنکھ کے سامنے ہو۔ نہیں، ہمارا صحیح عمل اپنا اثر ضرور چھوڑتا ہے۔ ترک گناہ، ترک دنیا پرستی، اشرافیہ کلچر سے اجتناب، سخت اور محنت طلب کام ہے۔ جب ہم اللہ کے ساتھ ہوں تو اللہ تعالی ہماری بات میں اور ہمارے عمل میں تاثیر پیدا کر دیتا ہے۔ جب عوام ہمیں دیکھتے ہیں اور انھیں ہماری گفتار اور ہمارے عمل میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا تو ان کا ایمان اور بھی قوی ہوتا ہے۔ وہ بھی اسی راستے کی جانب بڑھتے ہیں، اسی راستے پر چلتے ہیں۔ میرے خیال میں امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی کرشماتی کامیابیوں کی ایک وجہ یہی تھی کہ آپ خود عمل کرتے تھے۔ متدین تھے، قیامت پر حقیقی معنی میں گہرا ایمان رکھتے تھے، ان کے اس ایمان اور اس عقیدے کی پابندی ان کے عمل میں نظر آتی تھی۔ عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) واقعی پاکیزہ انسان تھے۔ پھر اس کی اپنی تاثیر تھی۔ ممکن ہے کہ بعض لوگوں کو اس پاکیزگی کا علم ہو اور بعض کو اس کا علم نہ ہو لیکن وہ اپنا اثر ضرور ڈالتی ہے۔ تو ہمارا سب سے اہم فریضہ، کسی ادارے کے عہدیدار کی حیثیت سے، حکومتی عہدیدار یا اسلامی نظام کے کسی بھی ادارے میں فرائض منصبی انجام دینے والے عہدیدار کی حیثیت سے بھی اور عالم دین ہونے کی حیثیت سے بھی یہ ہے کہ زبان و عمل سے عوام کو تقوی کی، احسان کی، صبر کی، پاکیزگی اور دیگر فضائل کی جانب مائل ہونے کی ترغیب دلائیں۔ اگر ایسا ہو گیا اور ہم نے یہ سمجھا کہ اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بڑی طاقتوں کے مقابلے میں ہم شجاعت کے ساتھ آگے بڑھیں گے، اقدام کریں گے۔ البتہ بڑی طاقتوں سے مقابلہ ہو تو شجاعانہ انداز میں، دانشمندانہ انداز میں، ماہرانہ انداز میں کام کرکے دشمن کو میدان سیاست میں مغلوب کرنا چاہئے۔ یہ ہماری اصلی اور حتمی چیزوں میں سے ایک ہے۔

بحمد اللہ آج بڑی اچھی نسل موجود ہے۔ یہ جو میں کہتا ہوں تو یہ صرف نعرہ نہیں ہے۔ پوری اطلاعات کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں۔ ملک میں ایک نئی نسل ایک نئی پود نکلی ہے جو کسی خاص علاقے تک محدود نہیں ہے، کسی خاص فکری و عملی شعبے تک محدود نہیں ہے، مختلف ثقافتی شعبوں، تبلیغی شعبوں، فنی شعبوں، علمی شعبوں، فلسفیانہ شعبوں میں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد تیار ہو گئی ہے جو حقیقی معنی میں اللہ پر اور اس راہ کی حقانیت پر ایمان و ایقان رکھتی ہے۔ انھوں نے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کو نہیں دیکھا ہے، جنگ کا زمانہ نہیں دیکھا ہے جو بہت تعمیری اور موثر دور تھا۔ یہی چیز ان کی ایمانی منزلت کی بلندی کی علامت ہے۔ اس لئے کہ انھوں نے وہ زمانہ نہیں دیکھا اس کے باوجود اس تندہی کے ساتھ، اس مضبوطی کے ساتھ اور اس گہرے لگاؤ کے ساتھ اس راستے پر گامزن ہیں۔ یہ نسل بہت اچھی نسل ہے۔ امید بخش نسل ہے۔ دشمن نے ہم لوگوں کے بڑھاپے سے آس لگا رکھی ہے۔ وہ بیٹھ کر حساب کتاب کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ لوگ بوڑھے ہو چکے ہیں۔ رہبر انقلاب ایسے ہیں اور دوسرے لوگ ویسے ہی ہیں، یہ پوری جماعت بوڑھی ہو چکی ہے۔ مگر انھیں خبر نہیں کہ اس 'بوڑھے ظاہر' کے باطن میں بحمد اللہ جواں سال مہم جاری ہے جو مسلسل آگے بڑھ رہی ہے، یہ نوجوان نسل محنت کر رہی ہے، کام کر رہی ہے، ان شاء اللہ اس نسل کے جذبوں سے، ہمت و ادراک اور دانشمندی سے مساعی کے ثمرات حاصل ہوں گے۔

جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے میرا یہ یقین بڑھتا جا رہا ہے کہ اس ملک کا مستقبل اس کے زمانہ حال سے بدرجہا بہتر ہوگا اور انقلاب مزید آگے جائے گا۔ بے شک مشکلات بھی ہیں، جی ہاں مجھے معلوم ہے ان مشکلات کے بارے میں جن کا ذکر حضرات اپنی  تقاریر میں کرتے ہیں، ان تقاریر کی ایک رپورٹ مجھے ملی ہے، آپ حضرات نے جو باتیں بیان کیں ان میں بیشتر سے میں اتفاق رکھتا ہوں، آپ نے اپنے اپنے شہروں اور صوبوں کے بارے میں جو چیزیں بیان کیں، ان سے با خبر ہوں؛ عوام کی مشکلات، عوام کی معیشتی مشکلات اور ان کی جو شکایات ہیں ان کا مجھے علم ہے۔ البتہ میرے خیال میں یہ ساری مشکلات قابل حل ہیں۔ ان شاء اللہ چند دن بعد میں عوام سے خطاب کروں گا اور شاید اس بارے میں مزید گفتگو کر سکوں گا۔ ملک میں ہمارے سامنے کوئی ایسی مشکل نہیں ہے جو قابل حل نہیں۔

والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

1.  رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 21 ستمبر 2017 کو ماہرین اسمبلی کے ارکان سے ملاقات میں اس اسمبلی کے اندر نظریہ  پرداز کمیٹی کی تشکیل کی سفارش کی تھی جس کے بعد ماہرین اسمبلی نے اس تجویز کا جائزہ لیا اور مورخہ 14 مارچ 2018 کو اپنے اجلاس میں ایک بل کو منظوری دیکر ماہرین اسمبلی کی نظریہ پرداز کمیٹی کی تشکیل کر دی۔ یہ کمیٹی ماہرین اسمبلی کے دس ارکان پر مشتمل ہے۔

2.  ماہرین اسمبلی میں صوبہ تہران کے عوامی نمائندے آیت‌ ﷲ نصرﷲ شاه‌ آبادی مورخہ  12 مارچ 2018 کو انتقال فرما گئے۔

3.  سوره‌ انعام، آیات ۱۱۲ اور ۱۱۳؛ « پھر جب حال یہ ہے تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں، حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کر دی ہے؟ اور جن لوگوں کو ہم نے (تم سے پہلے) کتاب دی تھی وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب تمہارے رب ہی کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے لہٰذا تم شک کرنے والوں میں شامل نہ ہو* (یہ سب کچھ ہم انہیں اسی لیے کرنے دے رہے ہیں کہ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اُن کے دل اِس (خوشنما دھوکے) کی طرف مائل ہوں اور وہ اس سے راضی ہو جائیں اور اُن برائیوں کا اکتساب کریں جن کا اکتساب وہ کرنا چاہتے ہیں*»

4. نهج ‌البلاغه، مکتوب نمبر ۴۷

5. سوره‌ محمّد، آیت نمبر ۷ کا ایک حصہ؛ «... اگر اللہ کی نصرت کروگے تو اللہ تمہاری نصرت کرے گا۔ »

6. سوره‌ حج، آیت نمبر ۴۰ کا ایک حصہ؛ «... یقینا اللہ اس کی مدد کرتا ہے جو اس (کے دین) کی نصرت کرے۔»

7.  منجملہ سوره‌ اعراف، آیت نمبر ۱۲۸ کا ایک حصہ؛ «...اچھا انجام متقین کے لئے ہے۔»

8. سوره‌ توبه، آیت نمبر۴۰ کا ایک حصہ؛ «... کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‌ ...»

9. سوره‌  شعرا، آیات ۱۵ و ١۶؛ «اور مجھ پر ان کے ہاں ایک جرم کا الزام بھی ہے، اس لئے ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔«  فرمایا: " ہرگز نہیں، تم دونوں جاؤ ہماری نشانیاں لیکر، ہم تمہارے ساتھ  سب کچھ سنتے رہیں گے۔

10. سوره‌ طه، آیت ۴۶ اور آیت ۴۵ کا ایک  حصہ؛ «...ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا سرکشی کرے گا۔» فرمایا: ڈرو مت، میں تمہارے ساتھ ہوں، سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔»

11. سوره‌ محمد، آیت ۳۵؛ « پس تم تساہلی نہ برتو اور (کافروں سے) صلح کی درخواست نہ کرو، تم ہی غالب رہنے والے ہو، اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو و ہرگز ضائع نہ کرے گا۔»

12. سوره‌ شعرا، آیات ۶١  اور ۶۲؛ «جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسی کے ساتھی چیخ اٹھے کہ ہم تو پکڑے گئے، موسی نے کہا "ہرگز نہیں، میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا۔

13. سوره‌ توبه، آیت نمبر ۴۰ کا ایک حصہ؛ « اگر تم اس (پیغمبر) کی نصرت نہیں کروگے، یقینا اللہ اس کی نصرت کرے گا۔ جب کفار نے اسے (مکے سے)  نکال دیا اور وہ دو لوگوں میں سے دوسرا تھا، تو اس وقت جب وہ غار میں تھے، تو اپنے ساتھی سے کہا رنجیدہ نہ ہو کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ " ...»

14. منجملہ سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۶۲ کا ایک حصہ؛ «... سنت خدا میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤگے۔»

15. سوره‌ نحل، آیت ۱۲۸؛ «در حقیقت اللہ ان کے ساتھ ہے جو تقوی سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں۔»

16. ‌منجملہ سوره‌ بقره، آیت نمبر ۱۵۳ کا ایک حصہ؛ «... اللہ صابرین کے ساتھ ہے۔»

17.  منجملہ سوره‌ بقره، آیت نمبر ۲۴۹ کا ایک حصہ؛ «... اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔»

18.  منجملہ سوره‌ توبه، آیت نمبر ۳۶ کا ایک حصہ؛ «... اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔»

19. سوره‌ انفال، آیت نمبر۱۹ کا ایک حصہ؛ «...  اللہ مومنین کے ساتھ ہے۔»

20. سوره‌ عنکبوت، آیت نمبر ۹۶ کا ایک حصہ؛«... در حقیقت اللہ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔»

21. شہید محسن حججی

22. صحیفه‌ سجّادیّه؛ دعا نمبر ۲۰