بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله‌ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علىٰ سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فى الارضین.

علوم عقلیہ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے محترم بزرگان اور افاضل کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ جناب فیاضی صاحب کا ممنون و شکر گزار ہوں، واقعی آپ کا وجود بڑی برکتوں کا سرچشمہ ہے۔ آپ نے قم میں اس ادارے (2) کو کامیابی کے ساتھ تشکیل دیا اور اسے شروع کر دیا۔ جو تفصیلات صاحبان نے بیان کیں ان کی روشنی میں یہ بڑا با ارزش ادارہ ہے۔ یہ خوشی کا مقام ہے کہ  اسلامی جمہوریہ کے دور میں علوم عقلیہ کے شعبے میں کافی ترقی ہوئی۔ انقلاب سے پہلے قم میں یہ سلسلہ نہیں تھا۔ جس زمانے میں ہم تھے تو مثال کے طور پر ایک درس جناب طباطبائی صاحب (3) کا ہوتا تھا جس میں تھوڑے سے افراد، چالیس پچاس لوگ شرکت کرتے تھے۔ مگر اب دیکھئے تو جناب جوادی صاحب (4) برسوں سے اس میدان میں سرگرم عمل ہیں، جناب مصباح صاحب (5)، جناب سبحانی صاحب (6) اور علم کلام کے میدان میں سرگرم ان کا نیٹ ورک، اسی طرح قم میں فلسفے کے موضوع پر جو دورس ہیں جن کے بارے میں مجھے اطلاع ملی ہے، یہ ساری چیزیں علوم عقلیہ کی ترویج و ارتقاء کی نوید دیتی ہیں۔

یہی چیز جس کا ذکر جناب فیاضی صاحب نے اور دیگر حضرات نے کیا کہ کسی مدلل نکتے کے لئے جدید تشریح یا جدید برہان یا جس نکتے کا بطلان ثابت ہو چکا ہے اس کے بطلان پر نئی دلیل اور نئی بحث پیش کی جاتی ہے، یہ چیز بہت اہم ہے۔ بہت اچھی چیز ہے۔ یہ معقولات کو ارتقا دینے والی چیزیں ہیں۔ آقا علی مدرس مرحوم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ ملا صدرا کے نقاد تھے۔ یعنی وہ اسی مقدار میں فلسفے کو آگے لے گئے۔ یعنی ملا صدرا کے نظریات کی تنقید پر مبنی ان کی بحثیں ہیں۔ یہ کام انجام دیا جانا چاہئے۔ ملا صدرا پر کی جانے والی تنقید کا ذکر نہیں کرنا چاہتا۔ بلکہ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تنقید کی بحث اور نئی بات اور نیا نظریہ لانا، علوم عقلیہ میں جدید کاری بہت اہم چیز ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی فکر اور کسی نظرئے کی کئی تشریحات ہوتی ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھئے کہ اہل مغرب اس میدان میں بہت کام کر رہے ہیں۔ تشہیرات اور رابطہ عامہ کے اعتبار سے ہمارا ان سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے وہ اس میدان میں ہم سے بہت مضبوط اور بہت آگے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ دیکھئے کہ ہیگل (7) کے بارے میں مثلا اس کی باتوں، کتابوں اور تحریروں کی متعدد تفاسیر اور تشریحیں نظر آتی ہیں۔ یعنی ان تحریروں کے بارے میں گوناگوں تاثرات پیش کرتے ہیں۔ یہ چیز فکر و منطق و معقولات کی پیشرفت میں مدد کرتی ہے۔ تو یہ کام بہت اچھا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ کام جس کی سرپرستی جناب فیاضی صاحب، جناب آقا جوادی صاحب، جناب آقا مصباح، جناب آقا سبحانی، کر رہے ہیں، جیسا کہ  انھوں نے ذکر کیا (8)، اس عمل کو جہاں تک ممکن ہو مستحکم انداز میں آگے لے  جائیں گے۔ یہ بہت اہم اور ضروری چیز ہے۔ اسے ضرور انجام دیا جانا چاہئے۔

اعزازی پروگراموں کا جہاں تک سوال ہے تو یہ بہت اہم کام ہے۔ جب آقا علی مدرس جیسی شخصیات کے اعزازی پروگرام کی بات ہو تو ہم اسے اس نگاہ سے نہ دیکھیں کہ ایک عظیم انسان کا ہم تعارف کرا رہے ہیں۔ نہیں، یہ تو ایک فکری رجحان کا تعارف ہے۔ یہ ایک نظرئے اور عظیم مفکر کا تعارف ہے۔ آپ حضرات نے اس سیمینار کا عنوان مدرس تہران، حکیم تہران منتخب کیا ہے۔ بے شک وہ تہران میں تھے اور تہران کے فلسفی تھے۔ لیکن حکیم تہران صرف آقا فلسفی نہیں تھے۔ ابھی جب حضرات گفتگو کر رہے تھے تو گزشتہ سو سال کے دوران تہران میں جو فلاسفہ گزرے ہیں ان میں سے کچھ کے نام میرے ذہن میں آئے۔ میرزا ابو الحسن جلوہ سے لیکر محمد رضا قمشہ ای تک عرفان کے میدان میں اور مرحوم ہیدجی (9)  تاک اور مرحوم میرزا عبد اللہ زنوزی تک۔ میرزا عبد اللہ زنوزی ان کے والد تھے اور آقا علی اپنے والد کے شاگرد تھے۔ یہ دونوں ملا علی نوری اصفہان کے شاگرد تھے۔ مرحوم ملا علی نوری بھی ان عظیم ہستیوں میں اس میدان کی قدآور شخصیت تھے۔ یعنی یہ وہ افراد ہیں جنھوں نے ملا صدرا کے فلسفے کا احیا کیا۔ ایک دورانئے کے بعد ملا صدرا کے فلسفیانہ نظریات پر بہت شدید حملے ہوئے اور وہ زوال کی جانب بڑھنے لگے۔ پھر اصفہان میں ایسے افراد سامنے آئے جنھوں نے ملا صدرا کے فلسفے کا احیاء کیا۔ یہ سارے افراد اصفہان میں تھے۔ البتہ یہ سارے اصفہانی الاصل نہیں تھے۔ خود وہ مرحوم بھی اصفہانی نہیں تھے۔ اسی طرح بہت سی بزرگ ہستیاں ہیں جن کا نام لیا جاتا ہے لیکن اصفہانی نہیں ہیں۔ البتہ مرکز اصفہان تھا۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ علوم عقلیہ کا مرکز اصفہان تھا۔ پھر یہ باپ بیٹے یعنی مرحوم میرزا عبد اللہ زنوزی، اور مرحوم آقا علی حکیم تہران منتقل ہو گئے جس کے بعد تہران علوم عقلیہ کا مرکز بن گیا۔ مختصر یہ کہ یہ بڑی عظیم ہستیاں تھیں۔ آخر میں مرحوم آقا میرزا مہدی آشتیانی، آقا میرزا احمد آشتیانی اور مرحوم شاہ آبادی (10) کا دور آیا۔ آقا میرزا مہدی کی بہت شہرت ہے لیکن آقا میرزا احمد آشتیانی فلسفی کے طور پر معروف نہیں ہیں۔ حالانکہ بہت بڑے فلسفہ داں تھے اور حقیقی معنی میں ایک فلسفی تھے۔ اسی طرح آقا شیخ محمد تقی آملی مرحوم جنہوں نے منظومہ کی شرح لکھی ہے۔ آپ نے دیکھی ہوگی۔ یعنی فلسفی تھے۔ البتہ وہ ایک فقیہ تھے اور بہت بڑے فقیہ تھے۔ مرجع تقلید کی سطح کے فقیہ تھے، تاہم وہ ایک فلسفی تھے، علوم عقلیہ میں خاص تبحر رکھتے تھے۔ میرے خیال میں ان سب کو ایک ایک کرکے اس گوشہ تنہائی سے، گمنامی کی خلوت سے باہر لانا اور تعارف کرانا چاہئے۔ ان کے پاس اپنے نظریات ہیں، اہم نکات ہیں۔

آپ نے مثال کے طور پر آقا علی حکیم مرحوم کی کتاب بدائع الحکم یہاں شائع کی ہے۔ انسان بیٹھ کر تفصیل سے اس کتاب کو پڑھے تب سمجھ پائے گا کہ آقا علی کیا کہنا چاہتے ہیں۔ کتنے افراد یہ کتاب پڑھنے کے لئے آمادہ ہوں گے؟  کتنے افراد ایسے ہیں جن کے پاس یہ صلاحیت ہے؟ اس کے لئے وہی کام ضروری ہے جو میں نے ملا صدرا کے تعلق سے عرض کیا (11)                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                   البتہ اس سلسلے میں تھوڑا بہت کام ہوا ہے جو برا نہیں ہے، کہ ایک ٹیم بیٹھے اور آقا علی حکیم کے فلسفے کا ما حصل نکال لیں اور بتائیں کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ ان کا نظریہ کیا ہے۔ ان کے مد نظر کیا افکار ہیں۔ ایک بار جناب جوادی صاحب (12) آقا علی کی ایک کتاب میرے خیال میں کتاب تھی یا ان کے رسالوں میں سے کوئی رسالہ تھا، لیکر آئے تھے اور مجھے انھوں نے دکھایا تھا کہ انھو نے اس بات کے جواب میں یہ چیز کہی ہے۔ اس وقت مجھے وہ بات یاد نہیں ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ بہت اہم بات تھی۔ ان چیزوں کو  باہر لانا چاہئے، آپ کی کتب اور رسائل سے اخذ کیا جانا چاہئے۔ غالبا آپ نے 'وجود رابطی'  کے موضوع پر بھی ایک رسالہ تحریر کیا ہے۔  آقا علی حکیم کے کئی رسائل ہیں۔ ان سب کی تدوین کی جانی چاہئے تاکہ جب آپ کہتے ہیں کہ تہران ایک دور میں فلسفے کا مرکز تھا تو محسوس ہو کہ آپ نے مثال کے طور پر سو سال سے کچھ زیادہ عرصہ قبل بظاہر آپ نے 1928 عیسوی کے آس پاس انتقال فرمایا، تہران میں ایسا فلسفیانہ مکتب فکر پیش کیا۔ یعنی اس کا خلاصہ کرکے اسے پیش کیا جانا چاہئے، آپ کی بات، آپ کے نظرئے اور آپ کے موقف کو بیان کیا جانا چاہئے۔ اسی طرح جو دوسرے افراد ہ یں۔ مثال کے طور پر آقا میرزا ابو الحسن جلوہ رضوان اللہ علیہ، آپ نے اسفار پر حاشیہ لگایا ہے۔ تحریر بہت اچھی تھی۔ بتاتے ہیں کہ آپ نے اسفار کے مختلف نسخوں کی تدریس کی اور جس وقت جس نسخے کی تدریس کرتے تھے اسی پر حاشیہ لگاتے جاتے تھے۔ اسفار کا ایسا ہی ایک نسخہ جس پر میرزا ابو الحسن جلوہ یا الحاج میرزا ابو الحسن جلوہ، مجھے نہیں معلوم کہ آپ حج کے لئے گئے تھے یا نہیں، بہرحال وہ نسخہ میرے ہاتھ لگا۔ میں نے اسے آقائے مصباح کے ادارے کو ہدیہ کر دیا جو اس وقت اس ادارے میں موجود ہوگا۔ تو آپ کا ایک نظریہ ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میرزا ابو الحسن جلوہ ملا صدرا کے ناقدین میں سے تھے۔ یعنی آپ ایسے افراد میں تھے جو ملا صدرا کے نظریات کے سلسلے میں اپنی الگ رائے رکھتے تھے، استدلال رکھتے تھے۔ آقا علی کی طرح۔ آپ بھی ایسے ہی افراد میں سے تھے۔ تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ کا موقف کیا ہے۔ کوئی ان نظریات کو استخراج کرے، جمع کرے اور سامنے لائے۔ میری نظر میں یہ بڑے اہم کام ہیں۔ ہم ذرا تاخیر سے اس طرف متوجہ ہوئے ہیں، ہمیں یہ سارے کام انجام دینے ہیں۔

بہرحال ہمارے نوجوانوں کو علوم عقلیہ کی جانب ترغیب دلانا بہت ضروری ہے۔ دینی درسگاہوں کا معقولات اور خاص طور پر فلسفے پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ بعض بزرگ اور محترم ہستیاں جن کا ہماری نظر میں خاص احترام ہے اس بات پر معترض تھیں کہ قم میں فلسفہ و عرفان وغیرہ جیسے دروس زیادہ ہو گئے ہیں۔ میں نے ان حضرات سے کہا کہ اگر آپ قم سے فلسفے کو ہٹا دیں گے تو دوسری جگہوں پر کچھ دوسرے افراد فلسفہ کی تدریس اور تشریح کا کام سنبھالیں گے جن کے پاس اس کی اہلیت و صلاحیت نہیں ہے۔ چنانچہ ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ قم کے علاوہ کچھ جگہوں پر لوگ فلسفہ داں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اور معروف ہیں جبکہ فلسفے کے بارے میں ان کا علم سطحی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انھیں کوئی علم نہیں ہے، علم ہے لیکن عمیق نہیں ہے، سطحی ہے۔ کچھ چیزیں پڑھ لی ہیں اور بعض اصطلاحات کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ یہ علم قم میں موجود رہے، دینی درسگاہ کے اندر موجود رہے۔ تہران کی دینی درسگاہوں کے سلسلے میں بھی یہی چیز ہے۔ تہران ایک زمانے میں معقولات کا مرکز تھا، اب اگر آج فلسفہ کی تدریس اور معقولات کی تعلیم رائج ہو جائے گی تو ہماری نظر میں ان شاء اللہ یہ بہت مفید ثابت ہوگی۔

میں میرزا ہاشم اشکوری کا نام ذکر کرنا بھول گیا تھا (13) یا آقا سید کاظم عصار مرحوم۔ البتہ ان میں سے بعض یونیورسٹی میں درس دیتے تھے اور بعض یونیورسٹی کے باہر تدریس کرتے تھے۔ یہ متاخرین تھے، ان کے شاگرد تھے۔ لیکن جو نام ہم نے پہلے لئے ہیں وہ اس نسل سے قبل کے ہیں (14)۔ جب بھی مکتب تہران کی بات ہوتی ہے تو مراد یہی فلاسفہ ہوتے ہیں۔ یعنی وہ باپ بیٹے (15)، البتہ آپ نے میرزا عبد اللہ زنوزی کا ذکر نہیں کیا ان پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ضرور ان کی کچھ تحریریں ہوں گی۔ مرحوم میرزا عبد اللہ زنوزی کی خدمات کو بیان کیا جانا چاہئے۔ اس لئے کہ آقا علی ان کے والد کے شاگرد تھے۔ یہی افراد مکتب تہران کے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔

بہرحال ہم آپ حضرات کے شکرگزار ہیں اس زحمت پر جو آپ نے اٹھائی اور یہ کام جو شروع کیا۔ فلاسفہ کے تعارف کا کام۔ خداوند عالم آپ کے وجود کو باعث برکت قرار دے۔ قم میں فلسفے کے بڑے مدرسین جن کے وجود کی  برکتیں انسان کثرت سے دیکھ سکتا ہے، اللہ ان سب کی تائید فرمائے، حفاظت کرے اور ان کی برکتوں کا یہ سلسلہ جاری رہے۔ اسی طرح آپ حضرات جو اس مشن پر کام کر ہے ہیں اللہ کی توفیقات اور تائيدات و ہدایت آپ کے شامل حال ہوں۔ اللہ آپ کو کامیاب کرے۔

والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو اجتماعی ملاقاتوں کی شکل میں انجام  پائی فلسفہ اسلامی سپریم فاؤنڈیشن کی مینیجنگ ڈائریکٹر اور سیمینار کے کنوینر آں جنابان حجت الاسلام غلام رضا فیاضی، فلسفہ اسلامی سپریم فاؤنڈیشن کے سکریٹری اور سیمینار کے سکریٹری حجت الاسلام معلمی، فلسفہ اسلامی سپریم فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹیو مینیجر اور سیمینار کے ایگزیکٹیو سکریٹری نے اپنی اپنی رپورٹیں پیش کیں۔ پانچ اور چھے اردیبہشت 1397 مطابق 25 اور 26 اپریل 2018 کو حکیم تہران قومی سیمینار کا انعقاد فلسفہ اسلامی سپریم فاؤنڈیشن اور بعض علمی، ثقافتی اور اجرائی اداروں کے تعاون سے تہران اور قم میں کیا گیا۔

۲) قم کی دینی درسگاہ کے علمائے افاضل نے مورخہ 29/10/1382 ہجری شمسی مطابق 19 جنوری 2004 کو رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے دینی علوم کے مراکز میں معقولات کی تعلیم کو فروغ دینے اور ان بحثوں میں علمی عمق پیدا کرنے کی ہدایات دی تھیں جس کے بعد فلسفہ اسلامی سپریم فاؤنڈیشن نے سنہ 1384 ہجری شمسی  مطابق 2006 عیسوی سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ان سرگرمیوں میں علمی ٹیموں کی تشکیل، نئے اور تنقیدی مقالات پیش کرنے کے لئے نششتوں کے انعقاد، علوم عقلیہ کے میدان کی بڑی ہستیوں کے لئے اعزازی پروگراموں کے انعقاد کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔

۳) علّامه سیّد محمّد حسین طباطبائی

۴) آیت ‌الله عبد الله جوادی ‌آملی

۵) آیت‌ الله محمّد تقی مصباح ‌یزدی

۶) آیت‌ الله جعفر سبحانی

۷) جرمن فلسفی

۸) سیمینار کے کنوینر کی رپورٹ میں اس نکتے کی جانب اشارہ کیا گيا کہ آیت اللہ جوادی آملی، آیت اللہ مصباح یزدی اور آیت اللہ جعفر سبحانی فلسفہ اسلامی سپریم فاؤنڈیشن کے تین نگراں ہیں۔

۹) حکیم ملّا محمّدعلی هیدجی

10) آیت‌ الله میرزا محمّد علی شاه ‌آبادی

11) ملا صدرا سیمینار کے منتظمین کی رہبر انقلاب اسلامی سے مورخہ 8/9/1380  ہجری شمسی مطابق 29 نومبر 2001  کو  ہونے والی ملاقات

12) آیت‌ الله جوادی آملی

13) حاضرین نے تہران کے معاصر فلاسفہ منجملہ آقا سید کاظم عصار مرحوم کے ناموں کا ذکر کیا۔

14) اسلامی ثقافت و فکر تحقیقاتی مرکز کے سربراہ حجّت‌ الاسلام و المسلمین علی ‌اکبر صادقی‌ رشاد: بعض لوگ ان افراد کو مکتب تہران سے تعبیر کرتے ہیں۔

15) میرزا عبد الله و ملّا علی زنوزی