بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله‌ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابى ‌‌القاسم المصطفى محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین المعصومین و علی صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یوم الدّین.

مجھے بڑی مسرت ہے اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے یہ توفیق دی کہ اس سال بھی، ایک بار پھر اس پرشکوہ، پرمغز اور مفید نشست کا اہتمام ہو۔ میں ادارہ اوقاف سے تعلق رکھنے والے اپنے برادران اور ان دیگر افراد کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے ادارہ اوقاف سے تعاون کیا اس نشست کے اہتمام کے سلسلے میں۔ میں اس قرآنی پروگرام، قرآنی اجتماع بلکہ قرآنی جشن میں شرکت کرنے والے اور اس سلسلے میں تعاون کرنے والے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ ان شاء اللہ آپ سب اجر و ثواب کے مستحق قرار پائیں۔

قرآن کا موضوع حد درجہ اہمیت کا حامل ہے۔ دنیائے اسلام اور امت مسلمہ کا دائمی موضوع ہے۔ ہمیں قرآن سے تمسک کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر امت مسلمہ قرآن سے مستفیض نہیں ہوتی اور اس سے روگردانی کرتی ہے، جیسا کہ ہماری تاریخ کے بہت سے ادوار میں ایسا ہوا ہے تو اس پر ضرب پڑے گی، اسے وار سہنا پڑے گا جیسا کہ اس سے پہلے اس پر ضرب پڑ چکی ہے۔

آج ہمیں قرآن کی احتیاج ہے۔ اسلامی سماجوں اور مسلم امہ کی زندگی کا صحیح راستہ قرآن پر عمل آوری ہے۔ ایک روایت میں ارشاد ہوتا ہے؛ اِنَّ هٰذَا القُرآنَ حَبلُ الله – اسی طرح قرآن میں ارشاد ہوتا ہے؛ «وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللهِ جَمیعًا وَلا تَفَرَّقوا» (۲) اللہ کی رسی یہی قرآن ہے۔  وَ هُوَ النُّورُ المُبین (یہ روشن نور ہے) نور کی خصوصیت کیا ہے؟ نور ماحول کو روشن کر دیتا ہے۔ انسان کو راستہ دکھاتا ہے۔ انسان کی بینائی کام کرتی ہے، اسے بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ اگر نور نہ ہو تو آنکھ بھی کام نہیں کرتی، اس کا کوئی فائدہ نہیں مل پاتا، کیونکہ وہ کچھ دیکھ ہی نہیں پاتی۔ ہمارے پاس عقل ہے۔ ہمارے پاس گوناگوں توانائياں ہیں، ہمارے پاس غور و فکر کی توانائی ہے۔ لیکن اگر روشنی نہ ہو تو یہ توانائیاں ہماری مدد نہیں کر سکتیں، نور ضروری ہے۔ یہ نور، قرآن ہے۔  و الشِّفاءُ النّافِع (۳) ہم بیمار ہیں، ہمیں بیماری ہے۔ آپ اسلامی ملکوں کی پسماندگی کو دیکھئے، بہت سے اسلامی ممالک پر کفار کے غلبے کو ملاحظہ کیجئے۔ یہ جو امریکی صدر نہایت بے شرمی سے کھڑے ہوکر کہتے ہیں کہ اگر ہم نہ ہوں تو بعض عرب ممالک ایک ہفتہ بھی خود کو محفوظ نہیں رکھ پائیں گے، یہ مسلمانوں کی توہین ہے۔ اس کی وجہ یہی بیماری ہے۔ ذلت کی اس بیماری سے بڑی  اور بری کوئی بیماری نہیں ہے۔

یہ ذلت ہے۔ یہ قرآن سے عدم تمسک کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاتھ سے یہ شفا نکل گئی ہے، ہم نے یہ علاج گنوا دیا ہے۔ «عِصمَةٌ لِمَن تَمَسَّکَ‌ بِهِ‌ وَ نَجاةٌ لِمَن تَبِعَه‌» (۴) یہ عین حقیقت ہے۔ یہ ہے قرآن کی خصوصیت۔ آج ہمیں قرآن کی شدید ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی ذاتی زندگی میں بھی قرآن کی ضرورت ہے، سماجی زندگی میں بھی قرآن کی ضرورت ہے، اپنی سیاست میں بھی قرآن کی ضرورت ہے، اسی طرح حکومتی طرز سلوک میں بھی ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ قرآن ہمیں درس دیتا ہے۔ مثال کے طور پر یہی آیتیں جن کی آج یہاں تلاوت کی گئی؛ مُحَمَّدٌ رَسولُ اللَّهِ وَالَّذینَ مَعَهُ أَشِدّاءُ عَلَى الکُفّارِ رُحَماءُ بَینَهُم تَراهُم رُکَّعًا سُجَّدًا یَبتَغونَ فَضلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضوانًا سیماهُم فی وُجوهِهِم مِن أَثَرِ السُّجودِ (۵) یہ مومن انسان کی خصوصیات ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ ایسے بنئے! پہلے «أَشِدّاءُ عَلَى الکُفّار» ہے۔ کفار کے سامنے سختی کے ساتھ ڈٹ جانا۔ ان کمزور محاذوں کی طرح نہ ہونا جن میں دراندازی کی جا سکتی ہو۔ کفار کے مد مقابل مضبوط دیوار بن جانا۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ استکبار کے مقابلے میں ڈٹ جائیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ امریکہ کے تحکمانہ روئے اور دیگر توسیع پسند قوتوں کے مد مقابل ڈٹ جائیں۔ اگر انھوں نے اس پر عمل نہ کیا۔ اگر انھوں نے ان حدود پر توجہ نہ دی تو ذلت اٹھائیں گے، انتشار کا شکار ہوں گے، پسماندگی میں مبتلا رہیں گے، اس وقت بدقسمتی سے یہی صورت حال سامنے ہے۔ سورہ مبارکہ انفال کی آخری آیتوں میں جہاں مومنین کی آپس میں ولایت کا ذکر ہے، ارشاد ہوتا ہے؛ أُولٰئِکَ بَعضُهُم أَولِیاءُ بَعضٍ (۶) یہ مومنین کے بارے میں ہے۔ کفار کے بارے میں بعد کی آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ وہ بھی؛ «بَعضُهُم اَولِیاءُ بَعضٍ»؛ مومنین آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں، ان کے درمیان ولایت کا رشتہ ہے، اسی طرح کفار کے درمیان بھی آپس میں ولایت کا رشتہ ہے۔ تو یہ در حقیقت فریضہ بیان کیا گيا ہے خبر دینے کے لہجے  میں، یہ صرف خبر نہیں دی گئي ہے بلکہ فریضے کا تعین کیا گيا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مومن دوسرے مومن سے ولایت کا رشتہ رکھے۔ خواہ اس کا تعلق عالم اسلام کے کسی بھی حصے سے ہو۔ ہم جس اتحاد کی بات کر رہے ہیں اس سے یہی مراد ہے۔ اس کے ساتھ ہی دوسری طرف جب وہ کفار کو دیکھے تو ان سے رشتہ نہ رکھے، ان سے ولایت کا رابطہ نہ ہو۔ کفار کی ولایت مسلمانوں کو نگوں بخت بنا دے گی۔ جیسے یہی ولایت جو آپ آج دیکھ رہے ہیں اور بعض ممالک صیہونی حکومت کے سلسلے میں جسے اپنا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ محبت آمیز بیانوں کا تبادلہ کر رہے ہیں، اس سے گوناگوں سیاسی، اقتصادی اور دیگر شعبوں میں روابط قائم کر رہے ہیں۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے؛ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَکُنْ فِتْنَةٌ فِی الْأَرْضِ وَ فَسادٌ کَبیرٌ (7) اگر مومنین کے درمیان باہمی ولایت قائم رکھنے اور مومنین اور کفار کے درمیان ولایت منقطع رکھنے کے اصول کو ملحوظ نہ رکھا گیا تو زمین میں بڑا فتنہ و فساد برپا ہوگا۔ آجکل یہی ہو رہا ہے۔ آج ہمارے اسلامی خطے میں جنگ ہے، خانہ جنگی ہے، خونریزی ہے، بے پناہ مشکلات ہیں، بعض ملکوں کی بے عقل اور پسماندہ حکومتیں بعض دیگر ملکوں کے خلاف جنگ کر رہی ہیں، جرائم کا ارتکاب کر رہی ہیں۔ آپ غور کیجئے! آج یمن کے عوام کس مصیبت میں مبتلا ہیں؟! شادی کی تقریب سوگ میں بدل جاتی ہے، تقریب پر بمباری کر رہے ہیں۔ کوچہ و بازار میں، مساجد جیسی جگہوں پر لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ افغانستان میں ایک الگ انداز سے، پاکستان میں کسی اور انداز سے، شام میں کسی اور شکل میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان، مومنین کے درمیان باہمی ولایت کی بات فراموش کر بیٹھے ہیں! یعنی ہم قرآن پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔ یہی تو قرآن پر عمل نہ کرنا ہے۔ اگر ہم قرآن پر عمل کریں تو ہمیں عزت حاصل ہوگی۔ یہ وہ راستہ ہے جو مسلمانوں کی خوش قسمتی کا ضامن ہے۔

اسلامی جمہوریہ کے اندر ہم تقریبا چالیس سال سے استکبار کی زور زبردستی کا ڈٹ کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ہمیں پیشرفت بھی ملی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کو نابود کر دینے کے خواہاں لوگوں کی آنکھیں یہ دیکھ کر تاریک ہو جاتی ہیں کہ ہماری جڑیں اور بھی گہرائی تک پھیل گئی ہیں، ہماری توانائیوں میں اور بھی اضافہ ہوا ہے، ہماری طاقت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ہمیں اور بھی پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ بہ کوری چشم دشمن! یہ قرآن کا پڑھنا، تلاوت کرنا، خوش الحانی سے تلاوت، تجوید کے ساتھ تلاوت وغیرہ یہ سب کچھ مقدمہ ہے، حفظ قرآن بھی تمہید ہے، ان نشستوں میں قرآن پڑھنا بھی ایک تمہید ہے۔ تمہید ہے ادراک اور سمجھنے کی اور سمجھنا تمہید ہے عمل آوری کی۔ آپ عزیز نوجوان، آپ میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، اس نگاہ اور اس جذبے کے ساتھ قرآن کو دیکھئے کہ آپ کو قرآنی معارف و علوم حاصل کرنا ہے اپنی زندگی کے لئے، اپنی ذاتی زندگی کے لئے بھی، اپنی سماجی زںدگی کے لئے اور اپنی سیاسی زندگي کے لئے بھی۔ پھر ان معارف کو رو بہ عمل لائیے، اس کی پابندی کیجئے۔

اگر ہم قرآن کو اس نظر سے اور اس جذبے سے دیکھیں تو عالم اسلام کا مستقبل زمانہ حال سے بدرجہا بہتر ہوگا۔ پھر امریکہ کی یہ ہمت نہیں ہوگی کہ اسلامی ممالک کے خلاف، مسلم امہ کے خلاف دھمکی آمیز لہجے میں بات کرے ، انھیں آنکھ دکھائے۔ اگر ہم نے قرآن پر تکیہ کیا، اگر ہم نے قرآن سے سبق حاصل کیا، اگر ہم نے قرآن سے تمسک کیا، تو یہ اللہ کی رسی سے تمسک ہوگا اور اللہ کی رسی سے تمسک انسان کے قدموں کو ثبات عطا کرے گا۔ اگر آپ کسی راستے سے گزر رہے ہیں اور آپ کے ہاتھوں کو کوئی سہارا بھی حاصل ہے جسے آپ مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں تو پھر آپ کے گرنے کا کوئي خطرہ نہیں ہے۔ یہی حبل اللہ کی خصوصیت ہے۔ اگر آپ نے اس سے تمسک کیا تو آپ کے گرنے کا اندیشہ ختم ہو جائے گا۔ دعا ہے کہ عالم اسلام روز بروز اس سے قریب ہو۔

میں ایک بار پھر اس اجتماع کے منتظمین، اس کے شرکا اور مہمانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

و السّلام علیکم و رحمة ‌الله و‌ برکاته

 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو قرآن کریم کے 35 ویں بین الاقوامی مقابلوں کے اختتام پر انجام پائی ادارہ اوقاف و فلاحی امور کے نگراں حجت الاسلام و المسلمین علی محمدی نے ایک رپورٹ پیش کی۔

۲) سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۱۰۳ کا ایک حصہ؛ «سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور منتشر نہ ہو...»

۳) وسایل‌ الشیعه، جلد۶، صفحہ ۱۹۱

۴) تفسیر منسوب به امام حسن عسکری (ع)، صفحہ ۱۳

۵) سوره‌ فتح، آیت نمبر ۲۹ کا ایک حصہ؛ «... اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے سلسلے میں سختگیر اور آپس میں مہربان ہیں، انھیں تم رکوع اور سجدے کی حالت میں دیکھو گے، وہ فضل و رضائے پروردگار کے خواہاں ہوتے ہیں، سجدے کے اثر سے ان کی نشانیاں ان کے چہرے پر ہوتی ہیں۔...»

۶) سوره‌ انفال آیت نمبر ۷۲ کا ایک حصہ

7) سوره‌ انفال آیت نمبر ۷۳ کا ایک حصہ