بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله‌ ربّ العالمین و صلّی الله علی محمّد و آله الطّاهرین

اللہ  تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیں زندگی دی، موقع دیا کہ ایک بار پھر ماہ رمضان اور اس نورانی نشست کی زیارت کریں اور قرآن کریم کے فیوض سے حسب حیثیت مستفیض ہوں۔ ان تمام افراد کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے قرآن کی تلاوت کی، پروگرام پیش کیا اور اس روحانی نشست کی آرائش میں اپنا کردار ادا کیا۔ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ روز بروز قرآن، اس کے مفاہیم، اس کے تعلق سے اشتیاق، سیکھنے، یاد کرنے اور اس پر غور کرنے کا سلسلہ ملک کے اندر وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ اسلامی انقلاب کی برکت ہے۔ لیکن پھر بھی ابھی ہم قرآن سے بہت دور ہیں، قرآن سے ہمارا فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ اپنی زندگی کے ہر شعبے میں، اپنی ذہنیت میں، اپنے اعمال میں، اپنے افکار، اپنے عزم اور اپنے برتاؤ میں ہمیں قرآن کو اپنا ہادی، امام اور جائے  پناہ قرار دینا ہوگا۔ افسوس کی بات ہے کہ ابھی یہ صورت حال نہیں ہے۔  ہمیں قرآن سے قریب ہونا چاہئے۔

آپ عزیز نوجوان قرآن سے اپنا انس، قرآن میں تدبر، روز بروز بڑھائیں۔ قرآن کی تلاوت کرنا ہرگز نہ بھولئے، قرآن میں تدبر ہرگز فراموش نہ کیجئے۔ امیر المومنین علیہ السلام کا جو خطبہ یہاں پڑھا گیا اس میں ارشاد ہوتا ہے؛ ما جالَسَ اَحَدٌ هذَا القُرآنَ اِلّا قامَ عَنهُ بِزیادَةٍ اَو نُقصانٍ زیادَةٍ فی هُدًی وَ نُقصانٍ عَن عَمًی؛(۲) جب بھی ہم قرآن کی صبحت میں بیٹھتے ہیں اور اس سے کسب فیض کرکے اٹھتے ہیں تو ہمارے اندر ہدایت میں اضافہ ہو جانا چاہئے، ہماری کور دلی میں کمی آ جانی چاہئے،  ہماری معرفت میں اضافہ ہونا چاہئے۔ معارف حقہ سے ہمارے انس میں اضافہ ہو جانا چاہئے۔ اللہ سے ہماری قربت بڑھ جانا چاہئے، عبادت کا شوق دو چنداں ہو جانا چاہئے۔

آج اسلامی دنیا کی سب سے بڑی مصیبت قرآن سے دوری ہے۔ بعض اسلامی معاشروں کی بدبختی کی وجہ قرآن سے ان کی دوری ہی ہے۔ آپ فلسطین کی حالت کو دیکھئے! ایک قوم اپنے گھربار سے دور پڑی ہے۔ ان گھروں میں جو لوگ رہ گئے ہیں وہ طرح طرح کی سختیوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کا ایک نمونہ آپ نے ابھی چند روز قبل مشاہدہ کیا۔ اتنے سارے شہید، کئی ہزار لوگ زخمی ایک غاصب، خبیث اور جعلی حکومت کے ہاتھوں۔ مسلمان بس ٹک ٹک دیکھ رہے ہیں، تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ بعض یہ شکایت کرتے ہیں کہ امریکہ نے کوئی موقف کیوں نہیں اختیار کیا؟! تو کیا امریکہ کو اس میں موقف اپنانے کی ضرورت ہے؟ امریکہ تو خود اس جرم میں شریک ہے۔ بہت سی مغربی حکومتیں اس جرم میں شامل ہیں۔ آپ کو توقع ہے کہ یہ حکومتیں کوئی موقف اختیار کریں گی؟! موقف تو مسلمانوں کو اختیار کرنا ہے۔ موقف تو مسلم امہ کو اختیار کرنا ہے۔ مسلم امہ اور اسلامی حکومتوں کو چاہئے کہ ڈٹ کر کھڑی ہو جائيں لیکن وہ ایسا نہیں کر رہی ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ قرآن سے دور ہیں۔ اس لئے کہ قرآن پر ان کا عقیدہ نہیں ہے۔ سورہ انّا فتحنا کی آیت کریمہ کی تلاوت کی گئی؛ اَشِدّاءُ عَلَی الکُفّارِ رُحَماءُ بَینَهُم؛(۳) دشمنان دین کے مقابل اور کفار کے مقابل بہت سخت ہونا چاہئے اور آپس میں ہمیں مہربان ہونا چاہئے۔ لیکن اس کے برخلاف عمل کیا جا رہا ہے۔ ہمارے درمیان تو جنگ ہے، اختلاف ہے، تصادم ہے، شیعہ سنی تنازعہ، عرب اور عجم کا جھگڑا اسی طرح دوسرے مسائل ہیں جو دشمنوں کی طرف سے پھیلائے جاتے ہیں۔ قرآن سے دور حکام، تدبر و عقل سے بے بہرہ حکام کفار کے فریب میں آ جاتے ہیں اور ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ قرآن سے ہم دور ہیں۔ قرآن نے ہمارے فریضے کا تعین کر دیا ہے۔ قرآن نے ہمیں ان  کے بارے میں بتا دیا ہے؛ قَد بَدَتِ البَغضاءُ مِن اَفواهِهِم وَ ما تُخفی صُدورُهُم اَکـبَر؛(۴) اس کی تلاوت آج ہی ہوئی ہے۔ یہ قرآن کی آیتیں ہیں۔ اسلام اور مسلمین سے ان کی دشمنی کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ وَ ما نَقَموا مِنهُم اِلّا اَن یُؤمِنوا بِاللهِ العَزیزِ الحَمید؛(۵) ان کی دشمنی کی وجہ  اسلام کی جانب رجحان ہے۔ ہم قرآن سے دور ہیں۔ مسلم امہ قرآن سے دور ہے۔ اگر ہم خود کو قرآن سے قریب کر لیں تو بلا شبہ ہم دشمن کو مغلوب کر لیں گے، وہ دشمن کوئی بھی ہو؛ وَلَو قاتَلَکُمُ الَّذینَ کَفَروا لَوَلَّوُا الاَدبارَ ثُمَّ لایَجِدونَ وَلِیًّا وَلا نَصیرًا سُنَّةَ اللهِ الَّتی قَد خَلَت مِن قَبلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبدیلا؛(۶) اللہ کا وعدہ ہے، قرآن کا وعدہ ہے؛ وَ لَیَنصُرَنَّ‌ اللهُ مَن یَنصُرُه؛(۷) یہ چیزیں ہمیں قرآن سے سیکھنا چاہئے، کام کرنا چاہئے۔ یہ نشستیں مقدمہ اور ذریعہ ہیں۔ یہ نشست و برخاست، یہ تعلیم سب کچھ مقدمہ ہے، یہ پڑھنا اور تلاوت کرنا مقدمہ ہے۔ مقدمہ ہے تدبر کرنے کا، سمجھنے کا، آگاہ ہونے اور عمل کرنے کا۔

ہمیں قرآن کی سمت اپنی پیش قدمی جاری رکھنا چاہئے۔ میرے عزیزو، ایرانی نوجوانو، مومن نوجوانو، انقلابی نوجوانو! قرآن سے آپ کی آشنائی، قرآن سے آپ کی مانوسیت اور قرآن سے کسب فیض روز بروز بڑھنا چاہئے۔ اس سے آپ کو قوت ملے گی، یہ آپ کے اقتدار کا ضامن ہے، یہ آپ کے وقار کا راستہ ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ ہم سب بیدار ہوں، دنیائے اسلام بیدار ہو اور ہم یہ کام انجام دے سکیں۔ بہرحال فلسطین توفیق خداوندی سے، اذن پروردگار سے دشمنوں کے چنگل سے آزاد ہوگا۔ بیت المقدس فلسطین کا دار الحکومت ہے۔ فلسطین کے سلسلے میں اس حقیقت اور سنت الہیہ کے مقابلے میں امریکہ، اس کے بھی بڑے، اس سے چھوٹے اور اس کے مہرے کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔ تمام شہدائے اسلام کے لئے، فلسطین کے شہدا کے لئے خاص طور پر ان چند دنوں کے دوران شہید ہونے والوں کے لئے اللہ  تعالی سے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ راہ حق کے مجاہدین اور جہاد فی سبیل اللہ کرنے والوں کے لئے اس راہ میں مزید استقامت و پائيداری کی دعا کرتے ہیں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو ماہ رمضان کے پہلے دن انجام پائی کچھ قاریوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر تلاوت کی اور 'تواشیح' بھی پیش کی گئی۔

۲) نهج ‌البلاغه، خطبه‌ ۱۷۶ (قدرے فرق کے ساتھ)

۳) سوره‌  فتح، آيت نمبر ۲۹ کا ایک حصہ

۴) سوره‌ آل‌عمران،  آیت نمبر ۱۱۸ کا ایک حصہ؛ « … ان کے لہجے اور باتوں سے دشمنی آشکارا ہے جبکہ ان کے سینوں میں جو پنہاں ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔».

۵) سوره‌ بروج، آیت ۸ کا ایک حصہ؛ «ان کے اندر انھیں بس یہ خامی نظر آئی کہ وہ  اللہ پر ایمان لائے تھے۔»

۶) سوره‌ فتح، آیات ۲۲ و ۲۳؛ « اور اگر کافر ہو جانے والے تمہارے خلاف جنگ کے لئے کھڑے ہوں تو وہ پیٹھ دکھانے پر مجبور ہوں گے، پھر ان کا کوئی ناصر و مددگار نہ ہوگا۔ پہلے سے سنت الہیہ یہی رہی ہے اور سنت خداوندی میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔».

۷) سوره‌ حج، آیت نمبر ۴۰ کا ایک حصہ؛ «...یقینا اللہ تعالی اس کی مدد کرتا ہے جو دین خدا کی مدد  کرے۔. ...»