بسم الله الرّحمن الرّحیم

یزدی صاحبان جو ایک بڑا اچھا کام انجام دے رہے ہیں وہ الحاج شیخ غلام رضا یزدی کے سلسلے میں اعزازی پروگراموں کا انعقاد ہے۔ یہ بزرگوار ایسی نمایاں شخصیات میں سے ہیں جن کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ ان کے بارے میں بہت کم بات ہوئی ہے، کم چیزیں بیان کی گئی ہیں۔ حالانکہ الحاج شیخ غلام رضا مرحوم بہت نمایاں ہستی تھے۔ الحاج شیخ غلام رضا یزدی مرحوم کے نواسے جناب ناصری صاحب کی گفتگو میرے لئے بالکل نئی چیز تھی اور میں نے بہت سی باتیں شیخ غلام رضا کے بارے میں اس سے پہلے نہیں سنی تھیں۔ مناسب ہے کہ یہ خصوصیات اور یہ یادیں جو ماضی کی بزرگ ہستیوں اور مرحومن کے متعلقین، اہل خانہ اور قریبی افراد کی زبانی بیان کی جاتی ہیں انھیں محفوظ کر لیا جائے۔ یعنی اس کا ریفرنس بھی ضرور دیجئے۔ مثال کے طور پر آپ نے نقل کیا (2) کہ جناب بروجردی صاحب نے یہ جملہ کہا ہے۔ آپ اس کا ریفرنس بھی دیجئے کہ جناب بروجردی مرحوم نے یہ بات کہاں کہی ہے۔ یا آقا بہجت مرحوم نے یہ بات مثال کے طور پر کہاں کہی۔ ان چیزوں کو واضح کیجئے کہ یہ بات مستند ہو جائے۔ البتہ نجف میں جو آپ کے حالات تھے، طلبہ کا آپ جس طرح خیال رکھتے تھے، اسی طرح ان کے دیکر حیرت انگیزی اخلاقیاتی کام، وہ ایسی چیزیں ہیں کہ ان سے اس قضیئے کی درستگی کا پتہ چلتا ہے۔ سند کی بہت زیادہ ضرورت نہیں ہے۔ انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ باتیں صحیح ہیں، واقعی ایسا ہی ہے۔

حقیر نے ایک دفعہ الحاج شیخ غلام رضا مرحوم رضوان اللہ علیہ کی مشہد میں زیارت کی تھی۔ آپ کبھی کبھی مشہد تشریف لاتے تھے اور نئے صحن کے ایک گوشے میں نماز جماعت پڑھتے تھے۔ ایک ایوان تھا جو نئے صحن اور میوزیم کے بیچ میں تھا، اب وہاں رواق امام خمینی ہے۔ اس ایوان میں کوئی نماز نہیں پڑھتا تھا۔ وہ نماز کی جگہ نہیں تھی۔ بعض اوقات میں نے دیکھا کہ الحاج شیخ غلام رضا مرحوم گرمیوں میں وہاں آتے تھے، اور وہاں چند افراد کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھتے تھے۔ مثلا دس پندرہ افراد جو ان کے عقیدت مند تھے اور آپ کے آشنا تھے وہ وہاں جاتے تھے اور آپ کی  اقتدا میں نماز جماعت ادا کرتے تھے۔ بس یہی اتنا، ہم نے اس سے زیادہ ان کو نہیں دیکھا، زیارت نہیں کی۔ لیکن آپ کے بارے میں مجھے بہت کچھ سننے کو ملا ہے۔ یہی چیزیں جو جناب نجفی قوچانی مرحوم نے نقل کیں، کافی ہیں۔ یعنی یہی تذکرہ جو آقا نجفی قوچانی مرحوم نے لکھا ہے کہ وہ مشہد سے اپنے یزدی دوست کے ساتھ، انھوں نے آپ کو 'رفیق یزدی' کہا ہے، چل پڑتے ہیں اور اصفہان پہنچ جاتے ہیں۔ کئی سال اصفہان میں قیام کرتے ہیں۔ پھر وہاں سے نجف جاتے ہیں۔ نجف میں بھی کچھ عرصہ ساتھ رہتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے بیچ جدائی ہوتی ہے۔ یعنی آپ آقا میرزا محمد باقر اصطہباناتی (3)، کے درس میں شریک ہونے لگتے ہیں اور ان سے مانوس ہو جاتے ہیں۔ اقا نجفی مرحوم، آخوند کے درس میں شرکت کرتے ہیں، وہ ان کے دیوانے ہو جاتے ہیں۔ اس طرح دونوں کے بیچ اختلاف ہو جاتا ہے۔ آئینی انقلاب کے معاملے میں بھی دونوں کے درمیان اختلاف رائے تھا۔ مرحوم اصطہباناتی آئينی انقلاب کے خلاف تھے۔ آخوند مرحوم آئینی انقلاب کے قائدین میں تھے۔ لہذا دونوں میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ لیکن آپ نے رفیق یزدی کے  بارے میں جو کچھ لکھا ہے کہ مشہد سے طولانی پیدل سفر پر ایک ساتھ روانہ ہوتے ہیں اور اصفہان پہنچتے ہیں، پھر وہاں سے نجف جاتے ہیں۔ یہ بھی یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کہ اس زمانے کے نوجوان حصول علم کے لئے اور خود کو علم کے سرچشموں تک پہنچانے کے لئے کیسے کیسے جتن کرتے تھے، کیسی کیسی صعوبتیں برداشت کرتے تھے، کیسے کیسے کام کرتے تھے اور تقوا کے کتنے پابند رہتے تھے؟! نوجوانی میں تقوا کا وہ عالم، اس کے بعد وہ اصطہباناتی مرحوم کے ساتھ شیراز آتے ہیں۔ وہاں اصطہباناتی مرحوم کو قتل کر دیا جاتا ہے، آپ شہید ہو جاتے ہیں۔ پھر آپ یزد آکر وہاں رہنے لگے اور یہ خدمات جن کا تذکرہ جناب ناصری صاحب نے کیا انجام دیں۔ آپ علم و تقوا، زہد، توکل علی اللہ، عوام کی خدمت جیسی چیزوں کے لئے مرکز بن جاتے ہیں۔ زرتشتی اور یہودی فقرا کی مدد سے متعلق جو نکتہ آپ نے بیان کیا واقعی بہت اہم ہے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ الحاج شیخ غلام رضا مرحوم جیسا ایک پرہیزگار عالم دین جاکر ایک یہودی کے گھر میں اس لئے کہ وہ غریب ہے روٹی، آٹا اور غذا رکھ کر آتے ہیں۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ آج دنیا میں ان چیزوں کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یعنی مادی دنیا میں یہ چیزیں متروک ہو چکی ہیں۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیمات دی ہیں۔ جو شخص اسلام سے جتنا زیادہ مانوس ہے اس کے یہاں اس طرح کی افعال زیادہ نظر آتے ہیں۔ یہ چیز لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے، سمجھنا چاہئے۔ یہ شخص یہودی ہے، اسے ہمارے دین، قرآن، پیغمبر اور اللہ پر عقیدہ نہیں ہے۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ وہ فقیر ہے، محتاج ہے اور ایک انسان ہے، یہ وہی چیز ہے؛ «وَ اِمّا شَبیهٌ لَکَ فِی الخَلق»(۴) جو امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے۔ اسی جذبے کے تحت آپ جاتے ہیں اور خدمات انجام دیتے ہیں۔ ان چیزوں کی آج بڑی قدر و قیمت ہے۔ یہ چیزیں ضبط تحریر میں آنی چاہئے، انھیں محفوظ رکھا جانا چاہئے تاکہ ہماری ترقی پذیر نسل کے لئے یہ ایک سبق ہو۔

آج ہمارے نوجوان گمراہ کن پروپیگنڈے کی زد پر ہیں۔ اسے ہم مانتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے۔ مختلف دریچوں سے آوازیں نکل رہی ہیں، گمراہ کن آوازیں کانوں میں پہنچ رہی ہیں۔ یہ نوجوان بیچ میدان میں ان دلفریب اور گمراہ کن آوازوں اور تصویروں میں گھرا ہوا ہے۔ ضرورت ہے اس بات کی کہ اسے ایک پیمانے سے روشناس کرایا جائے۔ یہ پیمانہ اسے اسلامی جمہوریہ اور اسلامی نظام دکھا سکتا ہے۔ ایک پیمانہ اور نمونہ تو یہی بزرگ ہستیاں ہیں، اسی طرح دوسرے نمونے بھی موجود ہیں۔ اس پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ جب ہم نوجوان نسل کے بھٹک جانے کے اندیشوں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو مومن نوجوان نسل کے نمو اور ہدایت حاصل کرنے کے امکانات کا بھی ذکر کریں۔ آج ہمارے نظام کے اندر یہی صورت حال ہے۔ آپ دیکھئے کہ یہی عزیز شہید جو حال ہی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے شہید حججی (5)، انھیں نوجوانوں میں سے ایک نوجوان ہے۔ وہ بھی ایک پچیس سالہ نوجوان ہیں۔ یعنی یہ نوجوان بھی انٹرنیٹ، سماجی رابطے کی ویب سائٹوں، انھیں گمراہ کن صوتی اور تصویری دریچوں سے گھرا ہوا تھا۔ جیسے دوسرے ہزاروں نوجوان گھرے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ کیا بن کر نکلا؟! آج اللہ تعالی نے شہید حججی کو ایک حجت کے طور پر ہماری آنکھوں کے سامنے پیش کر دیا ہے ویسے اس طرح کے افراد کافی زیادہ ہیں جو اس احساس، اس جذبے اور اور اس ایمان سے آراستہ ہیں۔ اس نئی انقلابی و اسلامی فصل کو معمولی نہ سمجھئے۔ یہ بہت قیمتی فصل ہے۔ اس کی قدر کرنا چاہئے۔ رابطہ عامہ کے شعبے کے ذریعے اس حقیر کو خطوط بھیجے جاتے ہیں جنگ کے محاذوں پر جانے کی اجازت لینے کے لئے۔ کس جگہ کے محاذ جنگ پر؟ شام اور حلب کے محاذ جنگ پر! مسلسل خطوط لکھتے ہیں۔ التجائیں کرتے ہیں۔ بعض خود التجائیں کرتے ہیں اور بعض کے والدین بھی التجائیں کرتے ہیں کہ "ہمارا نوجوان بہت بے تاب ہے، آپ اسے جانے کی اجازت دے دیجئے۔" یہ ناقابل یقین حقائق ہیں۔ یعنی واقعی اگر یہی باتیں کسی اور دور کے بارے میں ہمیں بتائی جاتیں اور ہم نے خود اپنی آنکھ سے ان چیزوں کو نہ دیکھا ہوتا تو آسانی سے اس پر یقین نہ کر پاتے۔ لیکن یہ چیزیں ہمارے اسی زمانے میں رونما ہو رہی ہیں۔ یہ کون سا جذبہ ہے جو اس نوجوان کو جہاد کے عشق میں اور اقدار کے دفاع کے عشق میں اسے اپنی بیوی، اپنی زندگی، اپنے خاندان، اپنے بچے، اپنے والدین، اپنی آسائش، اپنے روزگار ہر چیز سے جدا ہو جانے پر تیار کر دیتا ہے اور دشمن سے لڑنے کے لئے ہزاروں کلومیٹر دور ملک کی سرحدوں سے کافی فاصلے پر واقع علاقے کی جانب کوچ کرنے کی ترغیب دلاتا ہے؟ ان چیزوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ اب یہاں چونکہ ثقافتی افتخارات کا ذکر ہوا اور وزیر ثقافت و اسلامی ہدایت (6) یہاں تشریف فرما ہیں تو یہ سفارش کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ جو حضرات ثقافتی امور میں مصروف کار ہیں اس نکتے پر توجہ دیں کہ  آج ہمارا سب سے اہم فریضہ نوجوانوں کے اندر اور نوجوان نسل کے اندر اس جذبے کی تقویت کرنا ہے۔ ہم اگر اخلاقیات کے حامی ہیں تو ہمیں ان کے اندر انقلابی جذبے کی تقویت کرنا چاہئے۔ نوجوانوں میں دینی و انقلابی جذبے کی برکت سے اخلاقیات کی جڑوں کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ دین سے عاری اخلاق، تقوی سے عاری اخلاق، انقلابی جذبے سے عاری اخلاق، مجاہدانہ اقدام اور راہ خدا میں جہاد کے رجحان سے عاری اخلاق نہ تو پیدا ہو پاتا ہے اور نہ جڑ پکڑتا ہے۔ اگر پیدا ہو گیا تب بھی اس کی جڑیں گہرائی تک نہیں پہنچ پاتیں۔ ہمیں چاہئے کہ آج اپنی تمام تر توانائیاں نوجوانوں کی انقلابی اور دینی تربیت پر مرکوز کریں۔ خوش قسمتی سے نوجوانوں کے اندر موجود اس عظیم انقلابی رجحان کو تقویت پہنچائیں۔ ان کی امید بڑھائيں، ان کی حمایت کریں اور اس رجحان کو تقویت پہنچائیں۔ ایسا نہ ہو کہ انقلابی رجحان کمزور پڑنے لگے اور مد مقابل رجحان قوی ہو جائے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ نہ تو یونیورسٹی کے ماحول میں، نہ دینی تبلیغات کی فضا میں اور نہ ہی ثقافتی شعبے میں۔

بہرحال ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ بحمد اللہ ہمارے بزرگ دینی رہنما جیسے الحاج شیخ غلام رضا یزدی مرحوم، تاریخ کے گوشہ تنہائی سے نکل رہے ہیں، واقعی یہ ہستیاں تاریخ کے گوشوں میں الگ تھلگ ہوکر رہ گئی ہیں۔ سوائے چند لوگوں کے۔ ان ہستیوں کو کوئی نہیں جانتا۔ انہیں گوشیہ تنہائی سے نکالنا اور ان کا تعارف کرانا چاہئے۔ عوام کے سامنے ان چہروں کو پیش کرنا چاہئے۔ یہ چمکتے سورج ہیں، یہ نورانی ہستیاں ہیں، اگر ان کا تعارف کرایا گیا تو ان کی درخشش سے بہت سے افراد ان شاء اللہ رہنمائی حاصل کریں گے۔ لیکن ہمارے ہمدانی برادران بھی جو آقا نجفی مرحوم کی قدردانی کرنا چاہتے ہیں (7) اور برادران یزدی بھی جو الحاج شیخ غلام رضا مرحوم کی قدردانی کرنا چاہتے ہیں خیال رکھیں کہ کام خوش اسلوبی سے انجام  پائے، ہنرمندانہ اور خردمندانہ انداز میں یہ کام انجام دیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم محنت کرتے ہیں لیکن ہمارا کام اتنا موثر نہیں ہوتا جتنا ہونا چاہئے۔ ایسا نہ ہونے پائے۔ جہاں تک ممکن ہے غور کیجئے اور کام بڑی ہوشیاری، خردمندی، دانشمندی کے ساتھ، فنکارانہ انداز میں انجام دیجئے کہ وہ ان شاء اللہ موثر واقع ہو۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو اجتماعی ملاقاتوں کی شکل میں انجام پائی یزد کے امام جمعہ اور ولی امر مسلمین کے نمائندے آیت اللہ شیخ محمد رضا ناصری یزدی اور صوبہ یزد کے گورنر سید محمد میر محمدی نے تقریر کی۔

۲) یزد کے امام جمعہ اور ولی امر مسلمین کے نمائندے نے الحاج شیخ غلام رضا یزدی مرحوم کے بارے میں بزرگ علما کے کچھ اقوال نقل کئے اور آپ کے حالات زندگی کے تعلق سے کچھ نکات بیان کئے۔

۳) آیت‌ الله محمّد باقر اصطهباناتی شیرازی

۴) نهج ‌البلاغه، مکتوب نمبر۵۳ ( قدرے فرق کے ساتھ)

5) شہید محسن حججی محافظ حرم فورس کا حصہ تھے جو شام و عراق کی مشترکہ سرحد کے ایک علاقے میں داعش کے ہاتھوں قید کر لئے گئے اور دو دن بعد بڑے وحشیانہ انداز میں انھیں شہید کر دیا گیا۔

6) وزیر ثقافت اور اسلامی ہدایت سید عباس صالحی جلسے میں موجود تھے۔

7) انقلابی عالم دین اور مفسر قرآن آیت اللہ آقا نجفی ہمدانی کی بیسویں برسی کی منتظمہ کمیٹی کے افراد بھی جلسے میں موجود تھے۔