بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین المعصومین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یوم الدّین.

خوش آمدید کہتا ہوں عزیز بھائیوں اور بہنوں کو، ملک کے مختلف شعبوں کے محترم عہدیداران کو، اسلامی جمہوریہ کے اس مجموعے میں انتظامی اور سیاسی عہدوں پر فائز شخصیات کو۔ بڑی اہم نشست ہے۔ محترم صدر جمہوریہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اس اچھی اور ٹھوس گفتگو پر جو آپ نے مختلف شعبوں کے تعلق سے کی۔

ماہ رمضان ہماری ذات کے اندر روح ایمان، صفائے باطن اور روحانیت کو تازگی عطا کرنے کا منفرد موقع ہوتا ہے۔ روزہ، تلاوت قرآن، دعا، مناجات، وعظ سننا، یہ ساری چیزیں مل کر ایسا ماحول قائم کر دیتی ہیں کہ ہمارے قلوب اپنی بساط بھر، اپنی صلاحیت کے مطابق، اس روحانی فضا سے مستفیض ہوتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ سال کے بارہ مہینوں میں یہ ایک مہینہ شب و روز کے دوران فجر سے پہلے کے دو تین گھنٹوں کی مانند ہے۔ جس طرح اذان صبح سے پہلے کے ان ایک دو گھنٹوں یا دو تین گھنٹوں کی غیر معمولی خصوصیات ہیں، اس دوران انسان کی روحانیت اور صفائے باطن میں اضافہ ہوتا ہے، قرآن کی آیتوں میں بھی ان دو تین گھنٹوں کی بیداری کے بارے میں اشارہ ہوا ہے، صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اسی طرح متعدد روایتوں میں بھی اس کا تذکرہ ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ چوبیس گھنٹے میں ان چند گھنٹوں کی ایسی خصوصیات ہیں جو دیگر اوقات میں نہیں ہیں۔ بارہ مہینوں میں ماہ رمضان کے اندر بھی انھیں خاص ساعتوں کی طرح منفرد خصوصیات ہیں۔

یہ موقع تو سارے عوام کے لئے ہے مگر ملک کے انتظامی عہدیداران اور اہم شخصیات کے لئے اس خصوصیت کی اہمیت اور زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ ہمارے اور آپ کے دوش پر سنگین ذمہ داریاں ہیں۔ عوام الناس جو کارہائے زندگی میں مصروف ہیں ان کے دوش پر یہ سنگین ذمہ داری نہیں ہے۔ ان کی شخصیت کا روحانی پہلو انھیں متحرک کر سکتا ہے۔ لیکن ہم جو اپنے دوش پر بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ رکھتے ہیں، اگر اپنی شخصیت کے روحانی پہلو کی تقویت نہیں کریں گے تو وہ ضروری فریضہ انجام دینا اور سنگین ذمہ داریوں کو پورا کر پانا ممکن نہیں ہوگا۔ آپ غور کیجئے کہ اللہ تعالی پیغمبر اسلام جیسی ہستی سے، رسول اللہ جیسے عظیم انسان سے سورہ مزمل میں فرماتا ہے؛ بِسمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحیمِ * یا اَیُّهَا المُزَّمِّل * قُمِ الَّیلَ اِلّا قَلیلًا * نِصفَهُ اَوِ انقُص مِنهُ قَلیـلًا * اَو زِد عَلَیهِ وَ رَتِّلِ القُرءانَ تَرتیلًا؛ (۲) رات کا نصف حصہ، اس سے کچھ زیادہ یا کم، عبادت کرو، دعا کرو، مناجات کرو، قرآن کی تلاوت کرو، ان ساعتوں میں مشغول رہو، کیوں؟ اِنّا سَنُلقی عَلَیکَ قَولًا ثَقیلًا (۳)، تمہارا کام مشکل ہے، تمہارے دوش پر ذمہ داریوں کا بوجھ زیادہ ہے۔ ہم آپ کو 'قول ثقیل' کا القاء کریں گے، تمہارے اندر اس بوجھ کو اٹھانے کی توانائی ہونی چاہئے۔ اگر نیمہ شب کی یہ بیداری، یہ تضرع، یہ دعائیں ہوں گی تو اس بھاری بوجھ کو اٹھا سکوگے اور اسے منزل تک پہنچا سکوگے۔ اگر نہیں تو پھر نہیں۔ ہماری بھی یہی حالت ہے۔ میرے عزیزو! اگر ہم اپنی شخصیت کی روحانی بنیادوں کو مستحکم نہیں بنائیں گے تو ہم کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ ہم جہاں کہیں بھی ہیں، اس حقیر سے لیکر جس کی ذمہ داری مختلف سطح کے دیگر عہدیداران سے زیادہ ہے، تمام حکام تک سب کے لئے یہ خطاب ہے؛ «اِنّا سَنُلقی عَلَیکَ قَولًا ثَقیلًا»؛ ہمیں چاہئے کہ خود کو آمادہ کریں۔

معروضی مسائل کے بارے میں کچھ باتیں، صدر محترم نے بہت اچھی بحث پیش کی۔ اسی سلسلے میں حقیر بھی اپنے کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہے۔ ہم ایک اہم دور میں ہیں۔ شروع سے لیکر تا امروز اسلامی جمہوریہ مختلف طرح کے ادوار سے گزری ہے اور ہر دور میں ایک نئے تجربہ، نئے امتحان اور نئی آزمائش کا سامنا رہا۔ اسلامی جمہوریہ نے ان ادوار کے گوناگوں واقعات و تغیرات کا مقتدرانہ انداز میں اور ثابت قدمی سے سامنا کیا ہے اور آگے بڑھتی رہی ہے۔ اس وقت بھی ایک دور ہے، ان شاء اللہ اس موقع پر بھی اسلامی جمہوریہ مقتدرانہ انداز میں، بھرپور توانائی کے ساتھ اور مدبرانہ طریقے سے عمل کرے گی اور آگے بڑھے گی۔ ہمارے پاس ماضی کے کچھ تجربات ہیں ہمیں ان تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے، ان تجربات کو رو بہ عمل لانا چاہئے۔

اس خاص معاملے میں اصلی نکتہ یہ ہے کہ ہم انقلاب کے اوائل سے تاحال اپنے سامنے ایک دشمن کو دیکھتے آئے ہیں۔ شروعاتی لمحات سے ہی یہ دشمن نمودار ہو گیا، سامنے آ گیا، مخالفت پر تل گیا۔ یہ دشمن ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت تھی۔ بالکل آغاز سے، البتہ اس وقت جب ان کی سراسیمگی دور ہوئی اور وہ ایام گزر گئے جن میں ان کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے، انھوں نے مخالفت کرنا شروع کر دیا۔ تا حال امریکیوں نے اسلامی جمہوریہ کو نقصان پہنچانے کے لئے مختلف طرح کی دشمنی برتی، گوناگوں حربے اور حیلے استعمال کئے۔ یعنی آپ مخالفت کی کوئی بھی قسم نہیں بتا سکتے جو انھوں نے اسلامی جمہوریہ کے سلسلے میں استعمال نہ کی ہو۔ فوجی بغاوت کی سازش رچی، قومیتوں کو اشتعال دلایا، ایران کے خلاف جنگ کرنے اور ایران پر حملہ کر دینے کے لئے صدام کو ترغیب دلائی۔ اس کے بعد جنگ کے دوران گوناگوں طریقوں سے اس کی مدد اور حمایت کی، پشتپناہی کی، پابندیاں عائد کیں، ہمارے خلاف اقوام متحدہ میں اپنا رسوخ استعمال کیا۔ شب و روز زہریلا پروپیگنڈا کیا۔ آرٹ کا بھی استعمال کیا۔ ہالی وڈ کا استعمال کیا ہمارے خلاف فلمیں بنانے کے لئے وہ  بھی ایک دو نہیں۔ مختلف ادوار میں عسکری اقدامات کئے۔ ہمارے طیارے کو مار گرایا۔ خلیج فارس میں ہمارے بعض مراکز پر حملے کئے۔ اسلامی جمہوریہ کے خلاف ہر طرح کا کام انھوں نے کیا۔ سیکورٹی سے متعلق، سیاسی، اقتصادی، تشہیراتی، ثقافتی ہر طرح کی دشمنی کی۔ ان تمام اقدامات کا مقصد تختہ پلٹنا تھا۔ آج امریکی حکام کے بیانوں میں یہ لفظ بار بار آ رہا ہے تو یہ کو‏ئی نئی بات نہیں ہے۔ روز اول سے ان کا ہدف یہی تھا۔ یہاں تک کہ وہ صدر (4) بھی جو بار بار کہتے تھے اور اصرار کرتے تھے کہ ہمارا مقصد تختہ پلٹنا نہیں ہے، وہ بھی تختہ الٹنے کی کوشش میں تھے اور یہ بات بالکل واضح بھی ہو گئی۔

ان تمام مسائل میں سب سے اہم اور دلچسپ بات یہ رہی کہ اسلامی جمہوریہ پر اتنے حملے ہوئے، اتنے وار کئے گئے، اتنی سازشیں اور منصوبہ بندی ہوئی مگر سب ناکام رہی۔ آج آپ دیکھئے، اسلامی جمہوریہ کا مشاہدہ کیجئے، چالیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد پوری طاقت سے، پامردی کے ساتھ، گوناگوں توانائیوں کے ساتھ، ان میں سے ممکن ہے ابھی بعض کا میں تذکرہ کروں اور بعض کا ذکر جناب ڈاکٹر روحانی نے کیا، اسلامی جمہوریہ آگے بڑھ رہی ہے، پیش قدمی کر رہی ہے۔ یعنی انھوں نے جو کچھ بھی کیا، اپنی پوری طاقت لگا دی، گوناگوں حربے استعمال کئے گئے، یہ سب شکست خوردہ ثابت ہوئے۔ بالکل 'ٹام اینڈ جیری' کی معروف داستان کی بلی کی مانند (5)۔ گوناگوں حجم کی ان کی بے شمار تدابیر آخرکار ناکام ثابت ہوئیں۔ آج بھی ایک مرحلہ در پیش ہے۔ انھیں پھر شکست ہوگی۔ اس معاملے میں بھی آپ پورے یقین سے باور رکھئے کہ امریکہ کو شکست ہوگی۔ اس مقابلے میں بھی اسلامی جمہوریہ سربلند اور سرخرو ہوکر باہر نکلے گی۔

دشمن کی شکست کے بارے میں تو ہمیں کوئی شک ہے ہی نہیں۔ مجھے کسی طرح کا شبہ نہیں ہے۔ اسلامی معارف و تعلیمات سے جو بھی آشنا ہے اسے معلوم ہے کہ «اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم»، (۶) وَ لَیَنصُرَنَّ‌ اللهُ مَن یَنصُرُه‌؛(۷) یا یہی آیہ کریمہ جس کی تلاوت کی گئی؛ «وَ مَا النَّصَرُ اِلّا مِن عِندِ الله» (۸)، یہ سب پختہ حقائق ہیں ان کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ انھیں شکست ہوگی۔ ہمیں معلوم ہے کہ موجودہ صدر کا انجام بھی ان کے پیشرؤوں، بش، نیو کنزرویٹوز اور ریگن کے حلقہ بگوش افراد اور دوسرے لوگوں سے بہتر نہیں ہوگا۔ یہ بھی انھیں لوگوں کی طرح تاریخ میں معدوم ہو جائے گا اور اسلامی جمہوریہ سرفراز رہے گی، اس میں کسی طرح کا شک نہیں ہے۔ لیکن سنت الہیہ کے مطابق ہمارے دوش پر کچھ فرائض ہیں۔ یہ حتمی اور یقینی نتیجہ کہ اسلامی جمہوریہ کو نصرت خداوندی اور پیشرفت حاصل ہونی ہے، ہمیں ہمارے فرائض سے غافل نہ کرے۔ ہم اپنے ان فرائض کے بارے میں آج یہاں تھوڑی بحث کریں گے، اس بحث سے ہمیں مدد ملے گی کہ مختلف حصوں میں، مختلف سطح پر، ما شاء اللہ یہاں تمام عہدیداران تشریف فرما ہیں، ایک ہم خیالی پیدا ہو۔ اس موضوع کا ہم دو حصوں میں جائزہ لیں گے؛ ایک تو وہ طرز عمل ہے جو ہمیں امریکہ کے سلسلے میں ایٹمی ڈیل کے سلسلے میں اور مد مقابل دعویداروں کے سلسلے میں اپنانا ہے، یہ ایک بحث ہے۔ دوسری بحث یہ ہے کہ ملک کے اندر ہم کس طرح عمل کریں، کیا کام کریں کہ ہم ٹھوس قدم اٹھا سکیں اور مطلوبہ نتائج حاصل کر سکیں۔ یہ بحث کے دو حصے ہیں۔ میں اس وقت اور موقع کا استفادہ کرتے ہوئے جہاں تک ممکن ہے ان شاء اللہ ان دونوں پہلؤوں کو بیان کروں گا۔

پہلی بحث؛ کسی بھی فیصلے کا لازمی مقدمہ یہ ہے کہ ہم اپنے ماضی کے تجربات کا جائزہ لیں۔ من جرّب المجرّب حلّت به النّدامة؛ (۱۰) اگر ہم نے تجربات سے سبق نہ لیا تو یقینا نقصان اٹھائیں گے۔ ہمیں تجربات کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا ہوگا، غور کرنا ہوگا اور ان تجربات سے سبق حاصل کرنا ہوگا۔ ہمارے سامنے چند تجربات ہیں۔ میں چار پانچ تجربات عرض کرتا ہوں آپ سب ان کی تصدیق کریں گے۔ یہ ہماری آنکھ کے سامنے ہیں۔ یہ آج فیصلہ کرنے کے سلسلے میں بھی ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں اور آئندہ نسلوں کے لئے بھی ان کی بہت اہمیت ہے، اسی طرح ان کی اہمیت ان لوگوں کے لئے بھی ہے جنھیں گوناگوں اقدامات اور کاموں سے روبرو ہونا ہے اور جو ان شاء اللہ اسلامی جمہوریہ کو آگے لے جائیں گے۔

پہلا تجربہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت امریکہ کے ساتھ کام نہیں کر سکتی، کیوں؟ اس لئے کہ امریکہ اپنے عہد کا پابند نہیں ہے۔ یہ نہ کہئے کہ یہ کام اس حکومت نے کیا ہے، یہ ٹرمپ کی حرکت ہے۔ نہیں، گزشتہ حکومت بھی جو ہمارے ساتھ بیٹھی، جس نے ہم سے مذاکرات کئے، جس کے وزیر خارجہ دس پندرہ دن تک یورپ میں پابندی سے اجلاسوں میں شریک رہے، وہ بھی تقریبا اسی طرح تھی۔ اس نے ایک الگ انداز سے عمل کیا لیکن خلاف ورزی اس نے بھی کی۔ انھوں نے بھی پابندیاں لگائیں، انھوں نے بھی عہد شکنی کی۔ امریکہ کی حکومت اپنے عہد کے خلاف عمل کرتی ہے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے، ماضی کے گوناگوں معاملات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں انھوں نے مجموعی طور پر جو رویہ اپنایا، ہمارے ڈپلومیٹ حضرات کے بقول وہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کی روح اور جسم دونوں کے خلاف تھا۔ یہ بات ہمارے محترم سفارت کاروں نے کہی جنہوں نے خود  بڑی زحمت کی تھی اور واقعی شب و روز محنت سے کام کر رہے تھے ایٹمی معاہدے کے لئے۔ انھوں نے بارہا اس حکومت کے زمانے میں بھی اور امریکہ کی گزشتہ حکومت کے زمانے میں بھی کہا کہ ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ کبھی ایٹمی معاہدے کی روح کی خلاف ورزی اور کبھی اس کے متن کی خلاف ورزی۔ اب اگر ایک حکومت جس کی یہ خصوصیات ہیں، جو بڑی آسانی سے بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کرتی ہے، بڑی آسانی سے اپنے دستخط والے معاہدے کو توڑ دیتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم تو معاہدے سے نکل گئے، ٹی وی کے ڈرامے کے انداز میں اپنے دستخط دکھاتے ہیں کہ ہم فلاں معاہدے سے نکل گئے، تو ظاہر ہے کہ ایسی حکومت کے ساتھ کم از کم اسلامی جمہوریہ تو کوئی کام نہیں کر سکتی۔ یہ ان لوگوں کے لئے ہمارا جواب ہے جو اس طویل مدت میں بار بار ہم سے کہتے تھے کہ آپ امریکہ سے مذاکرات کیوں نہیں کرتے، آپ امریکہ کے ساتھ کام کیوں نہیں کرتے، یہ رہا ان کا جواب۔ البتہ بہت سے دوسرے ملکوں کے سلسلے میں بھی امریکہ کا یہی رویہ ہے۔ دوسری بہت سی حکومتوں کے لئے بھی وہ ایسا ہی ہے لیکن ہمیں اس سے بحث نہیں ہے۔ کم از کم اسلامی جمہوریہ تو امریکہ کے ساتھ کوئی لین دین نہیں کر سکتی، کوئی کام نہیں کر سکتی، یہ رہا پہلا تجربہ۔

ایران پوری طرح پابند رہا، اپنے عہد کے تئیں وفادار رہا، یعنی ان کے پاس کوئی بہانہ نہیں ہے۔ ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے آئی اے ای اے نے بارہا تصدیق کی ہے۔ دوسروں نے بھی تصدیق کی ہے کہ ایران پابندی سے عمل کر رہا تھا۔ تو ان کے پاس کوئی بہانہ نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود آپ دیکھتے ہیں کہ بڑے آرام سے ایک بین الاقوامی معاہدے کو توڑ دیتے ہیں، خود اپنے دستخط کو نظر انداز کر دیتے ہیں، اپنی بات واپس لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہیں، ہمیں قبول نہیں ہے۔ ظاہر ہے ایسی حکومت کے ساتھ بیٹھنا اور مذاکرات کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ کام نہیں کیا جا سکتا۔ یہ پورے قضیئے کا خلاصہ ہے۔ البتہ میں نے جو یہ کہا کہ ہمارے معاملے میں وہ قابل اعتماد نہیں ہیں تو یہ اس قضیئے کا مسلمہ پہلو ہے، مگر جب میں علاقے کے مسائل کو دیکھتا ہوں، وطن عزیز کے معاملات کو دیکھتا ہوں تو نظر آتا ہے کہ وہ دوسروں کے معاملے میں بھی قابل اعتماد نہیں ہیں۔ محمد رضا پہلوی نے سنہ 1953 سے 1978 تک پچیس سال کی مدت میں ان کی فرماں برداری کی۔ بار بار اس کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا کہ اگر آپ علّم کی ڈائری پڑھیں تو دیکھیں گے کہ شاہ اپنے قریبی دوست علّم سے ملاقات میں، کیونکہ باہر اعلانیہ طور پر یا خود امریکیوں سے تو کچھ کہنے کی اس کی ہمت تھی نہیں، امریکیوں کی شکایت کرتا ہے کہ انھوں نے یہ کیا، وہ کیا، جبکہ وہ پوری طرح امریکیوں کا مطیع و فرماں بردار تھا۔ بعد میں جب اس بد بخت و رو سیاہ کا انجام ایسا ہوا کہ ایران سے بھاگا تو اسے امریکہ میں جگہ نہیں دی۔ یعنی شروع میں وہ گيا اور کچھ عرصہ امریکہ میں رہا، لیکن پھر اسے نکال باہر کیا۔ یعنی وہ پچیس سال سے پورے خلوص کے ساتھ غلامی کرنے والے شحص کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے ہیں۔ اسی طرح حسنی مبارک (11) کے ساتھ ہوا۔ ان حساس ایام میں جب مصر میں انقلاب شروع ہوا تھا اور اپنے اوج پر پہنچ گیا، کسی بھی لمحہ کچھ بھی ہو سکتا تھا تو ایک بار حسنی مبارک کی حمایت کی لیکن کچھ ہی گھنٹوں بعد اسے مسترد کر دیا، کچھ گھنٹے گزرے تو لہجہ بدل گيا۔ پھر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ ختم ہو گیا۔ حسنی مبارک پورے 30 سال ان کے اختیار میں رہا فلسطین کے معاملے میں اور دیگر معاملات میں اس سے جو کہا اس نے کیا! یہ لوگ اسی قماش کے ہیں۔ امریکی ایسے ہی ہیں۔ امریکی حکومت، امریکی رژیم ایسی ہی ہے۔ یہ پہلا تجربہ ہے۔

دوسرا تجربہ؛ دوسرا تجربہ ایران اور اسلامی جمہوریہ سے امریکہ کی گہری دشمنی کا ہے۔ دشمنی بہت گہری ہے، سطحی دشمنی نہیں ہے۔ مخالفت کی بنیاد اور محور ایٹمی مسئلے جیسی چیزیں نہیں ہیں۔ یہ بات سب سمجھ چکے ہیں۔ معاملہ اس سے آگے کا ہے۔ بحث یہ ہے کہ یہ لوگ اس حساس علاقے میں ابھرنے والے اس نظام کے دشمن ہیں جو ثابت قدمی سے کھڑا ہے، پورے قد سے کھڑا ہے، نمو کے مراحل طے کر رہا ہے، جو امریکہ کے مظالم کے خلاف ہے، امریکہ کے سلسلے میں کوئی مروت اور لحاظ نہیں کرتا، علاقے میں استقامت و مزاحمت کا جذبہ پھیلا رہا ہے، جس نے اپنے ہاتھ میں اسلام کا پرچم اٹھا رکھا ہے۔ وہ اس نظام کے سخت مخالف ہیں۔ ان کی خواہش یہ ہے کہ اسلامی نظام، اسلامی جمہوریہ سرے سے باقی ہی نہ رہے، صرف یہ نظام ختم نہ ہو بلکہ وہ عوام بھی جو اس نظام کی حمایت کرتے ہیں یعنی ملت ایران، وہ بھی امریکی حکومتوں کے عمائدین کی نظر میں منفور ہیں۔ امریکی صدر کے ایک معاون، موجودہ صدر نہیں بلکہ سابق صدور میں سے ایک کے معاون نے صریحی طور پر کہا کہ ہمیں چاہئے کہ ملت ایران کی جڑ کاٹ دیں، یعنی اسلامی جمہوریہ کی جڑ نہیں۔ تو اسلامی جمہوریہ کے سلسلے میں امریکہ کی مشکل یہ نہیں ہے کہ ایٹمی مسئلے میں اختلاف ہے یا میزائل وغیرہ کے معاملے میں اختلاف ہے۔ جی نہیں، ایٹمی معاملہ اور میزائلی طاقت کی ایک الگ ہی داستان ہے۔ یعنی ان مسائل پر جو زور دیا جاتا ہے تو شاید میں نے اپنی گفتگو کے ذیل میں یہ بات کہی کہ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ اسلامی جمہوریہ کی قوت و توانائی کے تمام عناصر کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ کی طاقت اور ملت ایران کے اقتدار کے عناصر اور فیکٹرز ہیں۔ اسی وجہ سے ان مسائل پر زور دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک تجربہ ہے اور اس تجربے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ امریکہ ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کا دشمن ہے اور دشمنی بہت گہری ہے۔ معاملہ ایٹمی پروگرام وغیرہ کا نہیں ہے، معاملہ خود اسلامی جمہوری نظام کا ہے۔

تیسرا تجربہ؛ تیسرا تجربہ یہ ہے کہ وقتی مصلحتوں کی خاطر جو بعض اوقات ہمارے پیش نظر رہتی ہیں، دشمن کے مقابلے میں نرمی برتنا دشمنی کی تلوار کی دھار کو کند نہیں کرے گا بلکہ اسے اور زیادہ گستاخ بنا دے گا۔ یہ بھی ایک تجربہ ہے۔ یہ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ جہاں بھی ہم نے نرمی دکھائی وہ زیادہ سخت ہو گئے۔ وہی شر پسند صدر جو سراپا شر تھا، بش جونیئر (12)، اس کے تعلق سے اس وقت کی حکومت کی جانب سے برتی جانے والی نرمی کے جواب میں اس نے ایران کو شرارت کا محور قرار دیا تھا، بڑے فخر سے کھڑے ہوکر ایران کو شیطنت کا محور کہا تھا۔ کیونکہ اس کے سامنے نرمی دکھائی گئی تھی۔ آپ اس وقت بھی دیکھئے کہ انھوں نے بہت سی پابندیاں جو لگائی ہیں، جو اقدامات کئے ہیں، جو خلاف ورزیاں کی ہیں اس پر ہم نے اعتراض تو کیا لیکن کوئی ٹھوس عملی اقدام نہیں کیا۔ یہ ایک طرح سے قیمت چکانے جیسا تھا۔ آپ نے یہ قیمت ادا کی اور آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکی صدر (13) اس کا وزیر خارجہ (14)، گستاخ اور پست انسان آکر تحکمانہ انداز میں بات کرتا ہے! ان کے مقابلے میں پسپائی، ان کے سامنے نرمی کا برتاؤ ان کی دشمنی کو کم کرنے میں مددگار نہیں ہوگا۔ مان لیجئے کہ کوئی ہے جو یہ محسوس کرتا ہے کہ ایسے دشمن کے سلسلے میں ہمیں ایسا کچھ کرنا چاہئے کہ اسے دشمنی کا برتاؤ کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ تو اس کی دشمنی کا سد باب کرنے کا طریقہ نرمی برتنا اور پیچھے ہٹ جانا نہیں ہے۔ اگر آپ کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جس سے وہ دشمنی کا برتاؤ روک دے تو اچھی بات ہے آپ راستہ تلاش کیجئے۔ لیکن اس کا راستہ یہ نہیں ہے کہ ہم اس کے سامنے پسپائی اختیار کر لیں اور پیچھے ہٹ جائیں۔ البتہ یہ چیز صرف امریکہ سے مختص نہیں ہے بلکہ سارے مغربی ممالک ایسے ہی ہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے، یعین یہ ان چیزوں میں ہے جو ہماری تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں، کہ ایک زمانے میں ہمارے صدر جمہوریہ کو (15) جو مغرب کے مقابلے میں نرمی کے برتاؤ کے طرفدار تھے، ایک مغربی حکومت کی جانب سے میکنس والے قضیئے میں جرمنی کی جانب سے ایک بے بنیاد اور غیر منطقی مسئلے میں عدالت میں طلب کیا گیا تھا۔ یعنی یہ لوگ اس قدر بے غیرت، ڈھیٹ اور  پست ہیں! اس طرح کے اور بھی واقعات ہوئے ہیں۔ تو یہ بھی ایک تجربہ ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ان دشمنوں کے عناد کے سد باب کا راستہ پسپائی اختیار کرنا اور نرمی دکھانا وغیرہ نہیں ہے۔

ایک اور تجربہ اس کے بالکل برعکس صورت حال کا ہے اور وہ یہ کہ ان کے مقابلے میں ڈٹ جانے سے ان کی پسپائی کی امید کافی بڑھ جاتی ہے۔ اسی ایٹمی معاملے میں ایسا ہو چکا ہے۔ سنہ 2004 اور 2005 کے دوران ہمارے سارے پلانٹ بند ہو گئے تھے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم نے جو مذاکرات کئے تھے اسی کی وجہ سے اور ایران کے مسئلے کو غیر معمولی حالت سے خارج کرنے کے لئے، ایٹمی مسئلے کو عام حالت میں واپس لانے کے لئے، اصفہان کے یو سی ایف (16) کے مرکز کو ہم نے سیل کر دیا تھا اور اس کے بعد ہم جیسے جیسے پسپائی اختیار کرتے تھے وہ زیادہ گستاخ ہوتے جاتے تھے۔ ہم نے جتنی نرمی دکھائی وہ اتنے ہی تند اور گستاخ ہو گئے۔ یہاں تک کہ انھوں نے ایرانی وفد سے یہ کہہ دیا کہ جناب! آپ کی جانب سے گیرنٹی بس یہی ہو سکتی ہے کہ آپ اپنی تمام ایٹمی سائٹیں ختم کر دیجئے، سب کو ختم کیجئے! یعنی وہی کام جو لیبیا نے کیا تھا۔ یہ ہوگی اصلی گیرنٹی۔ ورنہ کسی اور طریقے سے آپ کے ایٹمی پروگرام کے سول ماہیت تک محدود رہنے کی ضمانت ممکن ہی نہیں ہے۔ بس اسی صورت میں ممکن ہے کہ آپ تمام ایٹمی مراکز ختم کر دیجئے! یعنی یہ لوگ اس طرح سے میدان میں سامنے آتے ہیں۔ اصفہان کا کارخانہ جو ابتدائی کارخانہ تھا بند کر دیا گيا تھا۔ یورینیم کی افزودگی حقیقی معنی میں بالکل باقی ہی نہیں رہی تھی، یہاں تک کہ ہم ایک، دو یا تین سینٹری فیوج مشین اپنے پاس رکھنے کے لئے مذاکرات کر رہے تھے اور وہ کہتے تھے کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ وہ موافقت نہیں کر رہے تھے کہ ہمارے پاس ایک، دو یا تین سنٹری فیوج مشینیں رہیں۔ پھر ہم نے جب دیکھا کہ یہ لوگ کچھ زیادہ ہی بولنے لگے ہیں، زیادہ ڈھٹائی دکھا رہے ہیں، واقعی بے شرمی پر اتر آئے ہیں، تو ہم نے کہا کہ بس اب کھیل ختم! ہم نے سیل توڑ دی، یو سی ایف کارخانہ پھر سے شروع کر دیا، ہم نے نطنز میں اور بعد میں دیگر جگہوں پر یورینیم کی افزودگی شروع کر دی اور بیس فیصدی کے گریڈ تک پہنچ گئے۔ یعنی ہم ‎نے ساڑھے تین درجے کے گریڈ سے جس کی وہ اجازت نہیں دے رہے تھے، اپنے سفر کا آغاز کیا اور ہمارے مومن نوجوان یورینیم کی افزودگی کو بیس فیصدی تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی طرح انھوں نے بہت سے کام انجام دئے جس سے آپ باخبر ہیں، جانتے ہیں۔ جب ہم اس منزل پر پہنچ گئے تب وہ آئے بڑے اصرار کے ساتھ، ایک طرح سے التجائیں کرکے ہم سے کہنے لگے کہ چلئے ٹھیک ہے، اب آپ یہ مان لیجئے کہ بیس فیصدی کے گریڈ تک یورینیئم کی افزودگی نہیں کریں گے۔ مثال کے طور پر پانچ ہزار یا چھے ہزار سینٹری فیوج مشہینیں رکھئے! دیکھئے یہ وہی لوگ کہہ رہے ہیں جو اس سے پہلے تین سینٹری فیوج یا دو سینٹری فیوج رکھنے کی ہمیں اجازت نہیں دے رہے تھے، اب کہنے لگے کہ چلئے کوئی بات نہیں ہے، آپ یورینیم افزودہ کیجئے، مثال کے طور پر چھے ہزار سینٹری فیوج مشینیں اپنے پاس رکھئے یا فلاں مقدار میں اور ساڑے تین فیصدی تک ہی یورینیم افزودہ کیجئے۔ یہ وہی لوگ تھے۔ ابھی جناب ڈاکٹر روحانی صاحب نے ذکر کیا کہ ان لوگوں نے، اقوام متحدہ نے اور دنیا کے گوناگوں سیاسی اداروں نے بہ خیال خود یورینیم افزودہ کرنے کے ایران کے حق کو تسلیم کیا ہے۔ جی ہاں تسلیم کیا ہے، لیکن اس کی وجہ مذاکرات نہیں تھے، ہمیں غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے۔ اس کی وجہ ہماری پیشرفت ہے۔ چونکہ ہمیں پیشرفت حاصل ہو گئی، چونکہ ہم آگے بڑھ چکے تھے، چونکہ ہم بیس فیصدی کے گریڈ تک پہنچ چکے تھے وہ اس لئے آمادہ ہو گئے۔ ورنہ اگر یہ صورت حال ہوتی کہ ہم مذاکرات کریں اور مذاکرات کے ذریعے اسے حاصل کریں تو اب تک ہرگز ہمیں کچھ نہ مل پاتا۔ یہ بھی مد مقابل فریق کے بے جا مطالبات کا مقابلہ کرنے، دشمن محاذ کا مقابلہ کرنے کا ایک تجربہ ہے۔ انسان اپنے مفادات کے لئے کوشش کرے، شجاعانہ انداز میں عمل کرے اور آگے بڑھے۔

ایک اور تجربہ جو بہت اہم ہے، اہم مسائل میں یورپ کا امریکہ کے ساتھ کھڑے ہونے کا تجربہ ہے۔ یورپیوں سے جھگڑا کرنے کا ہمارا ارادہ نہیں ہے۔ ان تین یورپی ملکوں سے ہم لفظی جنگ نہیں چاہتے، ان کی مخالفت کا ارادہ نہیں ہے۔ لیکن ہمیں حقائق سے آگاہ رہنا چاہئے۔ ان تینوں ممالک نے ثابت کر دیا ہے کہ حساس ترین معاملات میں وہ امریکہ کا ساتھ دیتے ہیں اور امریکہ کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ مذاکرات کے دوران فرانس کے وزیر خارجہ کی مذموم حرکت سب کو یاد ہے۔ اچھے پولیس مین اور برے پولیس مین کے ڈرامے میں کہتے ہیں وہ برے پولیس مین کا رول ادا کر رہے تھے۔ البتہ یقینی طور پر امریکہ سے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ یہ سب ہوا۔ یا 'یلو کیک' خریدنے کے حق کے سلسلے میں برطانیہ کا رویہ جسے تسلیم کر لیا گيا تھا اور جو حتمی صورت اختیار کر چکا تھا، ایٹمی معاہدے میں یہ بات واضح کر دی گئی تھی کہ ہم ایک مرکز سے یلو کیک حاصل کر سکیں گے، خرید کر لا سکیں گے۔ لیکن برطانیہ نے یہ راستہ مسدود کر دیا۔ یعنی وہ امریکہ سے تعاون کرتے ہیں، امریکہ کا ساتھ دیتے ہیں، تا حال یہی ہوتا رہا ہے۔ یہ بھی ایک تجربہ ہے، اسے بھی نہیں بھولنا چاہئے۔ یہ لوگ باتوں کی حد تک تو کچھ کہتے ہیں لیکن جب عمل کی باری آتی ہے تو اب تک ہم نے نہیں دیکھا ہے، یعنی میری نظر میں تو اب تک ہم نے ایسا نہیں دیکھا اور مجھے یاد نہیں پڑتا کہ یورپی ممالک حقیقی معنی میں امریکہ کے مقابل کھڑے ہوکر حق کا دفاع کر رہے ہوں۔

ایٹمی ڈیل کے معاملے میں ایک اہم تجربہ یہ ہوا کہ ملکی مسائل کے تصفئے کو ایٹمی ڈیل اور اس جیسے دیگر معاہدوں یا خارجہ مسائل سے جوڑنا بہت بڑی غلطی ہے۔ ہمیں ملکی مسائل کو، ملک کے اقتصادی امور اور دیگر مسائل کو کسی ایسی چیز سے وابستہ نہیں کرنا چاہئے جس کا اختیار ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اس کے بارے میں انتظامات اور فیصلہ بیرون ملک ہوتا ہو۔ جب ہم ملکی معیشت کے امور کو، ملک کے روزگار کے مسئلے کو ایٹمی ڈیل سے جوڑ دیں گے تو سرمایہ کار اور صاحبان صنعت کو مہینوں یہ انتظار کرنا پڑے گا کہ غیر ممالک، ایٹمی ڈیل کے مسئلے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ کئی مہینے وہ سوچتے رہیں، تحمل کرتے رہیں، انتظار کرتے رہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ بیرونی ممالک ایٹمی ڈیل میں باقی رہیں گے یا نکل جائیں گے۔ دستخط کریں گے یا نہیں کریں گے؟ اگر دستخط کر دئے تو اپنے دستخط پر قائم رہیں گے یا نہیں رہیں گے؟ ملک کا عوامی اقتصادی نیٹ ورک غیر ملکیوں کے اقدامات کے انتظار میں رہے گا۔ ہم ملک کی توانائیوں اور صلاحیتوں کو ایٹمی ڈیل کے بھروسے روک کر نہیں رکھ سکتے۔ کچھ عرصہ ایٹمی ڈیل کے انتظار میں تعطل رہے، پھر ایٹمی ڈیل سے باہر نکلنے یا باہر نہ نکلنے کے انتظار میں رہیں، وہ بھی ایسے وقت جب سامنا امریکہ جیسے دشمن سے ہے۔ یہ ہمارے تجربات کا ایک حصہ ہے۔ ہمیں ان تجربات کو مد نظر رکھنا چاہئے تاکہ یہ غلطی نہ دہرائیں اور ایک ہی سوراخ سے دو بار نہ ڈسے جائیں۔ آئندہ کے مسائل میں ان تجربات کو پوری طرح استعمال کریں۔

اگر ہم نے ان تجربات سے استفادہ نہ کیا اور معمولی اہمیت کی چیزوں پر خوش ہو گئے تو ہمیں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ جیسا کہ صدر محترم نے کہا، واقعی اس قضیئے میں امریکیوں کو اخلاقی اعتبار سے، قانونی اعتبار سے اور سیاسی آبرو کے اعتبار سے دنیا میں شکست کا سامنا ہوا۔ جی ہاں بالکل، امریکہ بے آبرو ہو گيا۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کیا ہم نے مذاکرات اس لئے شروع کئے تھے کہ امریکہ رسوا ہو جائے؟ ہمارے مذاکرات کا مقصد یہ تھا؟ ہم نے مذاکرات اس لئے کئے کہ پابندیاں ہٹیں اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ بہت سی پابندیاں نہیں ہٹی ہیں۔ اب وہ دھمکی دے رہے ہیں کہ ایران پر ایسی پابندیاں اور ویسی پابندیاں لگا دیں گے۔ وہ دوسرے درجے کی پابندیاں بھی جو ایٹمی ڈیل سے متعلق قرارداد اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد سے ہٹی تھیں، وہ دوبارہ عائد کرنے کی کوشش میں ہیں۔ کیا مقصد یہ تھا؟ یا کہا جاتا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے مابین خلیج پیدا ہو گئی ہے۔ جی ہاں بالکل، ممکن ہے کہ ان کے درمیان ظاہری اور معمولی شگاف پیدا ہو گیا ہو۔ لیکن ہم نے مذاکرات اس لئے تو نہیں کئے تھے۔ کیا ہم نے مذاکرات اس لئے کئے تھے کہ امریکہ اور یورپ کے مابین شکر رنجی ہو جائے؟ ہم نے مذاکرات اس لئے کئے کہ پابندیاں ہٹیں۔ مذاکرات کا آغاز اسی مقصد کے لئے ہوا تھا۔ مذاکرات کا سلسلہ اگر آگے بڑھا تو اسی مقصد کے لئے بڑھا اور یہ مقصد پورا ہونا چاہئے۔ اگر یہ مقصد پورا نہ ہوا تو باقی جو چیزیں حاصل ہوئی ہیں ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہے گی۔ میں نے عرض کیا کہ یورپی ممالک مخالفت نہیں کرتے، یورپی ممالک امریکہ کے راستے پر چلتے ہیں۔ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ : وَ کَذالِکَ جَعَلنا لِکُـلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیاطینَ الاِنسِ وَ الجِنِّ یوحی بَعضُهُم اِلیٰ بَعضٍ زُخرُفَ القَولِ غُرورًا؛(۱۷) وہ ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ ایک دوسرے کو پیغام دیتے ہیں، ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے ہیں، ایک دوسرے کی نفسیاتی طور پر تقویت کرتے ہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جنھیں ایٹمی ڈیل کے تجربات کے طور پر ہمیں پیش نظر رکھنا چاہئے۔

ایک اور اہم نکتہ ہے جو میں یہاں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایٹمی ڈیل کے معاملے میں۔ ایٹمی معاہدے کے قضیئے سے نمٹنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ سیاسی افراد، انتظامی عہدیداران، میڈیا سے وابستہ افراد اور علمی و ثقافتی شخصیات ایک دوسرے کی سرزنش کرنے سے گریز کریں۔ یہ کام نہ کریں۔ نکتہ چینی، صحیح تنقید، منصفانہ، عاقلانہ تنقید میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عہدیداران کے لئے بھی ضروری ہے کہ تنقیدوں پر توجہ دیں۔ مگر یہ کہ ہم ایک دوسرے کی سرزنش شروع کر دیں، ایک دوسرے کی توہین کریں، ایک دوسرے کی بے عزتی کریں، الزام تراشی کریں! یہ چیزیں ختم ہونی چاہئیں۔ ایٹمی ڈیل کی بنیاد پر دو محاذ نہیں بننے چاہئیں۔ کچھ اقدامات ہیں جو ہمیں انجام دینے ہیں۔ کچھ سرگرمیاں ہیں جو ہمیں انجام دینی ہیں۔ میں نے اشارہ کیا اور مزید عرض کروں گا۔ یہ سب اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن اتحاد کو، یکجہتی کو،  ہمدلی کو، بیانوں کی ہم آہنگی کو اس قضیئے میں توڑنا نہیں چاہئے۔ یہ بھی ایک بنیادی نکتہ ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم نے جو باتیں عرض کی ہیں ان کے پیش نظر ایٹمی ڈیل کے سلسلے میں ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہئے؟ میں نے یہاں چند نکات معین کئے ہیں۔

پہلا نکتہ یہ ہے کہ اس قضیئے میں ہمیں چاہئے کے معاملات کو حقیقت بینی کی بنیاد پر پرکھیں۔ امکانات اور زبان سے کہہ دی جانے والی باتوں پر خوش نہ ہو جائیں۔ ذکر کر دیا جاتا ہے لیکن یہ نہیں طے ہے کہ اس بیان کے پس منظر میں حقیقت بھی ہے یا نہیں، اس پر اطمینان کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ حقیقت پسندی کے ساتھ ہم پرکھیں اور عوام کے سامنے بھی ہر بات حقیقت پسندی کی بنیاد پر کریں۔ یہ جو مذاکرات کے اوائل کے مسائل کے بارے میں کچھ باتیں ہمارے ذہن میں تھیں، ہم نے تصور کر لیا تھا اور دوسروں سے بھی کہہ دیا تھا کہ 'جی ہاں، اگر ہم نے مذاکرات کر لئے تو 100 ارب ڈالر کی رقم ملک کے اندر آ جائیں گی۔' طاہر ہے اس کا ایک مطلب ہے۔ ہمارے ملک کے لئے 100 ارب ڈالر کی رقم ایک قابل لحاظ رقم ہے، ایک بڑی رقم ہے۔ یہ رقم یکبارگی ملک کے بہت سے مسائل کا ازالہ کر سکتی ہے، لیکن اس میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ امریکہ کا بے شرم صدر اب بھی کہتا ہے کہ ہم نے 100 ارب اور کبھی کہتا ہے کہ 150 ارب ڈالر کی رقم ایران کو دی ہے۔ آپ بکواس کر رہے ہیں! آپ نے کب ایران کو پیسہ دیا؟ آپ نے ایران کو ایک ڈالر بھی نہیں دیا ہے۔ خود ہم نے بھی ایک طرح سے 100 ارب ڈالر والی بات پر یقین کر لیا۔ یہ گمان کی بات تھی، ایک تصور تھا، ایک توہم تھا اس میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ ہمیں خیال رکھنا چاہئے کہ ہم اپنے مستقبل کے لئے، اپنے مفادات کے لئے اور ہم جو قیمت چکاتے ہیں اس کے بدلے میں ایسی چیزوں کا تعین کریں جس میں کوئی حقیقت ہو اور اسی حقیقت کو عوام کے سامنے صراحت کے ساتھ پیش کریں۔

میں آپ کی خدمت میں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج ملکی معیشت کو یورپ کے ساتھ ایٹمی ڈیل جاری رکھنے کی مدد سے پٹری پر نہیں لایا جا سکتا۔ ملکی معیشت اس طرح ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ بہت سے قرائن موجود ہیں جن کا آپ اس وقت بھی مشاہدہ کر رہے ہیں؛ مغرب کی بعض اہم کمپنیاں اعلان کر رہی ہیں کہ وہ چلی جائیں گی۔ بعض چلی گئی ہیں۔ بعض ہیں جو کہتی ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کیا کریں؟! مغربی ممالک کی حکومتوں کے سربراہان اور عہدیداران اسی طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ فرانس کسی انداز میں، جرمنی کسی اور طریقے سے اور وہ تیسرا ملک اپنے الگ انداز میں۔ ملکی معیشت کی اصلاح کے قضیئے کو یورپ کے ساتھ ایٹمی ڈیل کی مدد سے پٹری پر نہیں لایا جا سکتا۔ یورپی ایٹمی ڈیل تو ایک اصطلاح ہے لیکن ملکی معیشت کے سلسلے میں اس پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ معیشت کے لئے دوسرے راستے موجود ہیں جن کا میں ابھی ذکر کروں گا۔ یہ پہلا نکتہ ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ان تین یورپی ممالک نے تیرہ چودہ سال قبل اسی ایٹمی معاملے میں ہمارے ساتھ ایک وعدہ خلافی اور بہت بڑی بد دیانتی کی تھی۔ وہ ثابت کریں کہ اس کا اعادہ نہیں کریں گے۔ یہ ان کی عہد شکنی ہے۔ یورپی حکومتوں کو چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ کے لئے ثابت کریں کہ اس وقت کی وعدہ خلافی اور بد دیانتی کو دہرائیں گی نہیں۔ اس کی تلافی کریں۔ یہ دوسرا نکتہ ہے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ گزشتہ دو سال میں امریکہ نے ایٹمی ڈیل کی خلاف ورزی کو بار بار دہرایا ہے۔ متعدد اقدامات کئے، جیسا کہ میں نے عرض کیا، سفارت کار حضرات کے بقول ایٹمی ڈیل کی روح اور جسم دونوں کی خلاف ورزی کی مگر یورپی ممالک خاموش رہے۔ انھیں امریکہ کو روکنا چاہئے تھا۔ امریکہ پر اعتراض کرنا چاہئے تھا۔ اگر وہ اعتراض کرتے تو ممکن ہے کہ یہ نوبت نہ آتی کہ امریکہ بڑے آرام سے اپنے دستخط پر خط تنسیخ کھینچ دے اور کہے کہ میں تو نکل رہا ہوں۔ دو سال کے دوران انھوں نے جو غفلت برتی ہے اس کی تلافی کریں۔

اگلا نکتہ؛ امریکہ نے قرارداد 2231 کی خلاف ورز کی ہے (18)۔ جو ممالک سلامتی کونسل کے رکن ہیں انھیں چاہئے کہ امریکہ کی اس حرکت کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کریں۔ ایک قرارداد لائیں اس مضمون کی کہ اس ملک نے قرارداد 2231 کی خلاف ورزی کی ہے۔ جو کام انھیں کرنا ہے ان میں سے ایک یہ ہے۔

یورپ وعدہ کرے کہ میزائل کا موضوع اور علاقے میں اسلامی جمہوریہ کی موجودگی کا موضوع نہیں اٹھائے گا۔ وہ اس کا وعدہ کریں۔ یہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے کہ تھوڑے تھوڑے دن پر کوئی بیان دے دیں اور الگ الگ شکلوں میں میزائل کے مسئلے کو اٹھائیں۔ ان تینوں ممالک کے سربراہان وعدہ کریں اور تسلیم کریں کہ میزائل کے مسئلے کو ہرگز نہیں چھیڑیں گے۔

اسلامی جمہوریہ کے خلاف ہر طرح کی پابندی کا مقابلہ کریں۔ یعنی اس وقت جب وہ کہہ رہا ہے کہ ہم ایران پر پابندیاں لگائیں گے تو ان ملکوں کو چاہئے کہ صریحی طور پر امریکہ کی پابندیوں کے مقابلے میں کھڑے ہوں۔ اگر یورپی ممالک اور ہمارے درمیان ایٹمی معاہدہ باقی رہنا ہے تو اس کی شرطوں میں سے ایک یہ بھی ہے۔

البتہ یہ بات بھی سب سن لیں کہ ہم نے یہ کہا تو ہے کہ میزائلی توانائی کا موضوع نہ اٹھائیں، لیکن اسلامی جمہوریہ اپنی قوت کے عوامل سے ہرگز دست بردار نہیں ہوگی۔ قوت کے عوامل میں سے ایک دفاعی فورس ہے۔ فاصلے سے دفاعی کارروائی۔ طاقت کا ایک عنصر ہے دفاعی فورس، طاقت کا ایک عنصر ہے اسٹریٹیجک ڈیپتھ۔ علاقے میں موجودگی اور علاقے کی اقوام کا اسلامی جمہوریہ کی حمایت کرنا، یہ اسلامی جمہوریہ کی اسٹریٹیجک گہرائی ہے۔ اسلامی جمہوریہ اس سے بھی ہرگز صرف نظر نہیں کر سکتی۔ کوئی بھی سمجھدار حکومت اس سے صرف نظر نہیں کر سکتی۔ یا عوام کا سماجی سرمایہ، پرچم اسلام تلے عوام کا اتحاد و اجتماع، اسلامی نعروں پر اسلامی جمہوریہ کا کاربند رہنا اور اسلام پسندی پر فخر کرنا، یہ ایسی چیزیں ہیں جو اسلامی جمہوریہ کی بنیاد، ڈھانچہ اور ستون ہیں۔ سب سن لیں کہ ان چیزوں سے ہرگز دست بردار نہیں ہوا جا سکتا۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ یورپ ایران کے تیل کی، پورے تیل کی فروخت کی ضمانت دے۔ یعنی اگر امریکیوں نے اسلامی جمہوریہ کے تیل کی فروخت پر وار کیا تو یورپی ممالک کو چاہئے کہ جتنا اسلامی جمہوریہ چاہتا ہے اتنا تیل ایران سے خریدیں۔ ممکن ہے کہ ہم خود تیل کی کم فروخت پسند کریں، اس کا تعلق حکومت کی پالیسیوں سے ہے، ممکن ہے کہ حکومت اس نتیجے پر پہنچے کہ ہم تیل کی فروخت جتنی کم کریں اور تیل پر انحصار سے جتنا دور رہیں اتنا ہمارے لئے نفع بخش ہے، ممکن ہے کہ ہم اس نتیجے  پر پہنچیں۔ لیکن اگر یہ نہ ہوا اور فیصلہ یہ کیا گیا کہ تیل کو اسی موجودہ مقدار میں فروخت کریں گے اور امریکیوں کے اقدامات سے اس میں رکاوٹ پیدا ہوئی تو یورپی ممالک کے لئے ضروری ہوگا کہ یقینا اس کی تلافی کریں اور تیل کی خریداری کی گیرنٹی دیں۔

اگلا نکتہ؛ یورپی بینک اسلامی جمہوریہ کی حکومتی اور پرائیویٹ سیکٹر کی تجارت سے متعلق ٹرانزیکشن کی ضمانت دیں۔ ہم اگر کہہ رہے ہیں کہ گیرنٹی دیں تو گیرنٹی یہی چیزیں ہیں، ان چیزوں کی گیرنٹی دیں۔ میں نے عرض کیا کہ ان تین ملکوں سے ہمارا کوئی تنازعہ نہیں ہے لیکن ان پر اعتماد بھی نہیں ہے۔ ہمارا ارادہ جھگڑا کرنے اور اختلاف پیدا کرنے کا نہیں ہے۔ مسئلہ اعتماد نہ ہونے کا ہے۔ ان ملکوں پر ہمیں اعتماد نہیں ہے اور اس کی وجہ ماضی کا ریکارڈ ہے۔ اس لئے یہ گیرنٹی اور ضمانت حقیقی طور پر انجام پانی چاہئے۔

اگلا نکتہ یہ ہے کہ اگر یورپی ممالک نے ان مطالبات کو ماننے میں لیت و لعل سے کام لیا تو معطل ایٹمی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کا ہمارا حق محفوظ رہے گا۔ ہمارے ایٹمی توانائی کے ادارے کے عہدیداران پوری طرح تیار رہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ابھی جائيے اور 20 فیصدی کے گریڈ کی یورینیم افزودگی شروع کر دیجئے۔ تاہم ہمارا یہ کہنا ہے کہ تیاری مکمل رکھئے۔ اسلامی جمہوریہ کی نظر میں جب مناسب ہوگا اور ضرورت محسوس ہوگی تو معطل شدہ سرگرمیاں، جو ایٹمی ڈیل کی وجہ سے اور ایٹمی ڈیل کی قیمت کے طور پر روک دی گئی تھیں، جب ہم دیکھیں گے کہ ایٹمی معاہدے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور ہم اب مزید کوئی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو فطری طور پر اس کا ایک راستہ یہی ہے کہ جو چیزیں اور سرگرمیاں معطل کر دی گئی ہیں ہم ان کا رخ کریں گے۔ تو یہ کچھ باتیں تھیں ایٹمی ڈیل کے تعلق سے۔

دوسرے حصے میں ہمارے معروضات کا  تعلق داخلی مسائل اور ملک کے اندر ہمارے فرائض سے ہے جو اقتصادی مسائل سے مربوط ہیں۔ ملک کا اولیں موضوع معیشت ہے۔ حکومت جن اقدامات اور سرگرمیوں میں مصروف ہے ان شاء اللہ وہ اسی مضبوطی کے ساتھ جاری رہیں گی۔ یہی سروسز کی توسیع اور دیگر اقدامات جو حکومت انجام دے رہی ہے، اسے بدستور جاری رکھا جانا چاہئے۔ البتہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی اقتصادی حالت اطمینان بخش نہیں ہے۔ یہ تمام تر کوششیں جو انجام دی جا رہی ہیں ان کے باوجود اقتصادی حالت اطمینان بخش نہیں ہے۔ بہت سارے افراد اقتصادی اعتبار سے دباؤ میں ہیں۔ مہنگائی وغیرہ کے مسائل سے آپ کم و بیش واقف ہیں اور عوام کا بڑا حصہ ان مسائل کو اپنے پورے وجود سے محسوس کر رہا ہے۔ تو یہ ملک کی ایک بنیادی مشکل ہے۔

ہم ان مشکلات کو حل کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے دل سے کچھ حقائق کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ایک تو یہ کہ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ملکی اقتصادی مسائل ملک کے اندر موجود توانائیوں کی مدد سے حل ہو سکتے ہیں۔ اس پر ہمیں باور ہونا چاہئے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ بعض لوگ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے اور بعض کو ان توانائیوں کی خبر ہی نہیں ہے۔ ملک کے اندر ہمارے  پاس توانائیاں بہت زیادہ ہیں جنھیں اب تک بروئے کار نہیں لایا گیا ہے۔ میں بعد میں اسی سلسلے میں غیر ایرانی ماہرین کی رائے نقل کروں گا۔

دوسرا اہم نکتہ جس کو ہمیں باور کرنا چاہئے یہ ہے کہ ہم یہ جانیں کہ مغربی نسخے ہمارے لئے قابل اعتماد نہیں ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اسے سرے سے مسترد کر دیا جانا چاہئے۔ نہیں، ہمیں پرکھنا چاہئے۔ مغربی نسخوں کو بے چوں و چرا قبول کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ نہ تو اقتصاد کے میدان میں اور نہ آبادی وغیرہ جیسے دیگر مسائل کے بارے میں۔ آبادی کا نسخہ بھی انھیں مغربی نسخوں میں سے ایک ہے۔ حال ہی میں خبیث برطانوی حکومت کے تشہیراتی ادارے نے ایک نسخہ تجویز کیا ہے کہ ایران تین کروڑ کی آبادی کے لئے بہت اچھا ملک ہوگا! تمہاری آنکھیں بھوٹ جائیں! ان شاء اللہ یہ آبادی پندرہ کروڑ تک پہنچے گی۔ آبادی کے سلسلے میں ملک کی پالیسی جس پر ہم عمل پیرا تھے غلط  پالیسی تھی۔ میں یہ بات پہلے کہہ چکا ہوں (19)۔ البتہ شروع میں ٹھیک تھی، آغاز ٹھیک تھا۔ لیکن آگے بڑھنے کے بعد پالیسی ٹھیک نہیں تھی، غلط تھی۔ اس سلسلے میں ہم سے غفلت ہوئی جس کا تدارک کیا جانا چاہئے۔ ملک کی اقتصادی مشکل بھی ایسی ہی ہے۔ اسے مغربی نسخوں سے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی کے ان برسوں میں اب تک جب بھی ہم نے کسی بھی مغربی نسخے پر عمل کیا ہے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے۔ بلکہ کہیں نہ کہیں سے  ہمیں نقصان ہی پہنچا ہے۔ جب 'گراس پرافٹ' کا موضوع 1990 کے عشرے میں زیر بحث آیا تو اس سے حقیقت میں سماجی مساوات کو نقصان پہنچا۔ طبقاتی فاصلہ پیدا ہوا۔ ممکن ہے کہ اس کے کچھ فوائد بھی رہے ہوں لیکن اس نے ہمیں بڑے نقصان پہنچائے۔

تیسرا نکتہ جس پر ہمیں توجہ دینا چاہئے اور یقین رکھنا چاہئے یہ ہے کہ اب تک غیر ملکیوں کی جو وعدہ خلافیاں ہم نے دیکھی ہیں ان کے  پیش نطر اپنے کاموں اور امور کو ان کے سپرد کرنا بس مجبوری کی صورت میں ہی ہونا چاہئے۔ یعنی اسی وقت یہ کام کیا جائے جب ہم داخلی توانائیوں کی طرف سے پوری طرح مایوس ہو جائیں۔ تب ہمیں دوسروں سے مدد لینی چاہئے۔ ورنہ داخلی توانائیوں کو جو حقیر کی نظر میں بہت زیادہ ہیں، ترجیح دینا چاہئے۔

اگلا نکتہ داخلی توانائیوں کے بارے میں ہے جس کا میں نے ذکر کیا۔ داخلی توانائیاں بہت زیادہ ہیں۔ عالمی بینک میں ایک ماہرانہ اسٹڈی کی گئی۔ یہ ہمارا ایشو نہیں ہے، ایک ماہرانہ جائزہ ہے جو عالمی بینک انجام دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران انسانی استعداد کا خزانہ اور ایسی سرزمین ہے جس سے ہنوز استفادہ نہیں کیا گيا ہے۔ توجہ کیجئے! کہتے ہیں کہ انسانی توانائیوں اور سرزمین کی توانائیوں کے عدم استفادے کے اعتبار سے ایران دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ یعنی بے پناہ توانائیاں ہمارے پاس موجود ہیں جن سے ہم نے اب تک استفادہ نہیں کیا ہے۔ ہم سے کوتاہی ہوئی ہے۔

افرادی قوت، کام کے لئے آمادہ افرادی قوت کی کثرت، خاص طور پر نوجوان اور تعلیم یافتہ افرادی قوت۔ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل 1 کروڑ افراد ہیں اور چالیس لاکھ سے زیادہ یونیورسٹی طلبہ اس وقت زیر تعلیم ہیں۔ حکومت میں ہمارے باخبر دوستوں نے جو بتایا ہے اس کے مطابق انجینیئروں کی تعداد کے اعتبار سے وطن عزیز عالمی سطح پر بہت اہم ممالک میں شامل ہے۔ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو دنیا کے بہت سے بڑے اور معروف ممالک سے بھی ہمارے انجینیئروں کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ سب توانائیاں ہیں۔

زمین کی توانائياں؛ سرزمین کی وسعت، بین الاقوامی پانیوں تک رسائی، پڑوسی ممالک کی تعداد، علاقے کا بازار، غیر ملکی نقل و حمل کے راستے پر واقع ہونا، یہ وہ تمام خصوصیات ہیں جن کا ذکر عالمی بینک کے ماہرین نے کیا۔ یہ ہماری سرزمین کی توانائیاں ہیں جنہیں ہنوز ہم نے بخوبی استعمال نہیں کیا ہے۔

انسانی توانائیاں؛ کام کے قابل آبادی کا حصہ، اس کی تعلیمی لیاقت وغیرہ؛ انھیں ماہرین نے یہ بھی کہا کہ اگر ایران ان توانائیوں کو بخوبی استعمال کرے تو دنیا کی تیز رفتار معیشتوں میں شمار ہوگا۔ یہ ہمارے وسائل ہیں، ہمارے پاس بہت بڑا سرمایہ موجود ہے۔

البتہ اس ماہرانہ تخمینے میں قدرتی ثروت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ صرف انسانی سرمائے اور سرزمین سے متعلق سرمائے، سرزمین کے وسائل اور توانائیوں کا ہی ذکر کیا گيا۔ قدرتی وسائل اور قدرتی دولت بھی غیر معمولی ہے۔ میں نے کئی سال پہلے اسی اجلاس میں (20) کہا تھا کہ ہمارے پاس دنیا کی ایک فیصدی آبادی ہے۔ اب اگر ہمارے پاس صنعتوں کی ضرورت کی اہم، بنیادی اور کلیدی دھاتوں کے ذخائر کا ایک فیصدی حصہ موجود ہو تو کافی ہوگا لیکن ہمارے پاس یہ ذخائر ایک فیصدی سے زیادہ ہیں۔ بعض ذخائر تین فیصدی ہیں، بعض ذخائر چار فیصدی ہیں اور بعض ذخائر پانچ فیصدی ہیں۔ تیل اور گیس کی مقدار تو بہت زیادہ ہے۔ ہم دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔ تیل میں چوتھے نمبر پر، گیس میں پہلے نمبر پر اور تیل اور گيس کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس اعتبار سے بھی پہلے نمبر پر ہیں۔

یہ ہمارے پاس موجود وسائل ہیں۔ ہمیں ان وسائل کو استعمال کرنا چاہئے اور استعمال کیا بھی جا سکتا ہے۔ بیٹھ کر سوچا جا سکتا ہے، تدابیر وضع کی جا سکتی ہیں، منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ البتہ یہ چیزیں ایسی نہیں ہیں جو فوری طور پر حاصل ہو جائیں گی۔ اس کے لئے کچھ وقت درکار ہے۔ لیکن ہم جب بھی اس کا آغاز کر دیں گے تو آخرکار نتیجہ ہمیں ملے گا۔ ہم نے یہاں دو تین ہفتہ پہلے ایک اجلاس منعقد کیا ملک کے اقتصادی مسائل کے بارے میں۔ تینوں شعبوں کے سربراہان موجود تھے۔ حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ میں اقتصادی شعبے میں سرگرم عمل عہدیداران بھی موجود تھے۔ اجلاس میں نسبتا بڑی اچھی بحث ہوئی، کچھ باتیں رکھی گئيں۔ البتہ حقیر کوئی اقتصاد داں نہیں ہے، جو بھی باتیں تھیں وہ ماہرین کی تجاویز کی بنیاد پر تھیں۔ جو باتیں ہم نے بیان کیں ان کے بارے میں کچھ اقدامات انجام دینے پر اتفاق ہوا۔ احباب کو چاہئے کہ انھیں چیزوں پر کام کریں۔ تینوں شعبوں کے سربراہان موجود ہیں، وہی حضرات جو اس اجلاس میں موجود تھے اس وقت یہاں بھی موجود ہیں۔ میں اس وقت یہ سفارش کرنا چاہتا ہوں کہ جو باتیں اس رات ہوئیں اور جو فیصلہ کیا گيا اور جس پر زور دیا گيا، اس پر سنجیدگی سے کام کیجئے۔ یقینا اقتصادی امور آگے بڑھیں گے۔ ہمیں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ حکومت کے اندر موجود اقتصاد دانوں نے بھی اس کی حمایت کی۔ اس رات اجلاس میں جس چیز کے بارے میں گفتگو ہوئی، جو باتیں کہی گئیں اور جو فیصلہ کیا گيا اس کی حمایت کی۔

میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے دشمن نے اپنا 'وار روم' وزارت خزانہ میں منتقل کر دیا ہے۔ ہمارے خلاف اب 'وار روم' وزارت دفاع کے بجائے ان کی وزار خزانہ میں قائم کیا گيا ہے اور وہاں بڑی تندہی سے وہ مصروف ہیں۔ اس سے پہلے بھی یہی صورت حال تھی۔ 2011 اور 2012 میں جب انھوں نے پابندیوں کا آغاز کیا، تب بھی وہ وہیں پر سرگرمیاں کر رہے تھے، بخیال خویش انھوں نے کمر شکن پابندیاں لگائی تھیں لیکن وہ اسلامی جمہوریہ کو مفلوج نہیں کر سکے۔ یہ نوبت تھی کہ امریکی وزیر مختلف ممالک کے مختلف بینکوں کے سربراہوں سے خود گفتگو کرتے تھے۔ یعنی اس حد تک سرگرمیاں کر رہے تھے۔ شب و روز مصروف رہتے تھے۔ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے یہاں بھی دشمن کی اس شیطنت کا مقابلہ کرنے کے لئے اقتصادی شعبے کے اندر ایک کمیشن تشکیل دیا جائے۔ وزیر خارجہ بھی اس کی پشت پناہی کریں، ایک معاون کار کی طرح مدد کریں، تاہم اس کمیشن کی  تشکیل حکومت کے اقتصادی مرکز کے اندر عمل میں آئے اور اس ہدف کے تحت کام کیا جائے۔ البتہ استقامتی معیشت ان تمام مشکلات کا حل ہے جس پر پوری سنجیدگی سے کام ہونا چاہئے۔

معیشت کے تعلق سے ایک اور نکتہ یہ ہے کہ سرکاری اقتصاد کارگر نہیں ہے۔ عوام کو اس میدان میں لانا ہوگا۔ آرٹیکل 44 کی پالیسیوں پر کام کرنا ہوگا۔ گزشتہ حکومت سے بھی ہم نے یہی بات کہی۔ جناب روحانی صاحب کی حکومت سے بھی میں نے بار بار یہ بات کہی اور پھر کہتا ہوں۔ آرٹیکل 44 کی پالیسیوں پر سنجیدگی سے توجہ دیجئے۔ پرائیویٹ سیکٹر کو اس میدان میں لائیے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی مدد کیجئے۔ یہ قومی ترقیاتی فنڈ اسی مقصد کے لئے ہے۔ ابھی ڈاکٹر روحانی صاحب نے ذکر کیا کہ زر مبادلہ کی شکل میں جو آمدنی ہوتی ہے اس کا ایک حصہ حکومت کو نہیں دیا جاتا۔ یہ حصہ قومی ترقیاتی فنڈ میں جاتا ہے۔ نیشنل ڈیولپمنٹ فنڈ حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی کوئی بھی چیز حکومت سے باہر نہیں ہے۔ خود یہ فنڈ حکومت کے اختیار میں ہے۔ نیشنل ڈیولپمنٹ فنڈ کے عہدیداران کو حکومت منصوب کرتی ہے، اس کی پالیسیاں، فنڈ سے بجٹ نکالنا، سب کچھ حکومت کے ہاتھ میں ہے، البتہ بعض مواقع پر حکومت کو اس فنڈ سے غیر قانونی طریقے سے کچھ پیسے نکالنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور اتنی مہلت نہیں ہوتی کہ جاکر پارلیمنٹ سے اجازت لے تو حکومت اس حقیر سے رجوع کرتی ہے۔ حقیر سے اجازت نامہ لے لیتے ہیں کہ کسی کام کے لئے اس فنڈ سے پیسہ حاصل کر لیں۔ ویسے یہ فنڈ پوری طرح حکومت کے اختیار میں ہے۔ یہ فنڈ بہت اہم ہے اور ہماری تاکید یہ ہے کہ کرنٹ اخراجات اور کرنٹ خرچوں کے لئے اس فنڈ کو استعمال نہ کیا جائے۔ یہ فنڈ صرف اور صرف پرائیویٹ سیکٹر کے افراد کو دیا جانا چاہئے کہ وہ کام کر سکیں۔ اس معاملے کو اس طرح دیکھنے کی ضرورت ہے۔

اقتصاد کے تعلق سے اگلا نکتہ؛ آئل اکانومی کا مطلب ہے کہ اصلی سہارا خام تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی ہو۔ یہ ہماری معیشت کی ایک بنیادی خامی ہے۔ میں نے جو بات بیس سال پہلے کہی تھی اور اس وقت کی حکومتوں کے عہدیداران نے متعجبانہ نظر سے دیکھا اور مسکرا کر آگے بڑھ گئے تھے، وہ بات یہ تھی کہ ہمیں ایسی پوزیشن میں خود کو پہنچانا ہے کہ جب بھی ہم چاہیں اپنے تیل کے کنوئیں بند کر دیں اور اعلان کر دیں کہ ہم تین مہینے تک تیل نہیں فروخت کریں گے۔ ہمیں اس کا اختیار حاصل ہو جائے۔ کاش ہم ایسا کر سکتے اور یہ کرنا ممکن بھی ہے۔ اس کو بعید نہی‎ سمجھنا چاہئے۔ یہ ہمارے امکان میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خریدار ہاتھ سے نکل جائیں گے اور اسی طرح کی دوسری باتیں۔ جی نہیں، ان ساری چیزوں کے لئے راستے موجود ہیں۔ ہم تیل کے یرغمال بننے پر مجبور نہ ہوں۔ آج ہم تیل کے یرغمال ہیں، اپنے تیل کی مٹھی میں ہیں۔ تیل ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اس کی پیداوار تو ہمارے ہاتھ میں ہے، لیکن اس کی قیمت کا تعین دوسروں کے اختیار میں ہے۔ اس کی فروخت کے امکانات دوسروں کے ہاتھ میں ہیں۔ اس پر پابندیاں لگا دینا دوسروں کے اختیار میں ہے۔ ہم در حقیقت تیل کے یرغمال ہیں جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ تیل ہمارے اختیار میں ہو۔ یہ ایک حتمی پالیسی ہے۔ تیل قومی سرمایہ ہے۔ البتہ بہت برسوں کے بعد یہ سرمایہ ختم ہوگا مگر بہرحال ختم تو ہوگا۔ ہماری عادت ہو گئی ہے کہ تیل کو، یعنی اس قومی سرمائے کو زمین کے اندر سے باہر نکالیں اور اسی خام شکل میں اسے فروخت کر دیں۔ ہم کو چاہئے کہ اس پر کم از کم کچھ کام کریں۔ اس کے لئے Value added تیار کریں۔ تیل کے لئے بھی اور گیس کے لئے بھی۔ البتہ گیس کے لئے تو پیٹروکیمکل وغیرہ کی شکل میں کچھ Value added تیار کی جاتی ہے لیکن تیل تو یونہی خام فروخت کر دیا جاتا ہے۔ یہ ہماری بنیادی خامیاں ہیں۔ تیل پر انحصار روز بروز کم ہونا چاہئے۔ یہ رہا ایک اور نکتہ۔

اگلا نکتہ یہ ہے کہ نالج بیسڈ اکانومی کو اہمیت دیں۔ تیز رفتار اقتصادی ترقی نالج بیسڈ اکانومی سے ممکن ہوگی۔ آج ہمارے پاس اس کے امکانات موجود ہیں۔ کثیر تعداد نوجوانوں کی ہے جو آمادہ ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، ایسے تعلیم یافتہ ہیں کہ بہت سے کام انجام دے سکتے ہیں۔ کبھی کبھار آپ سنتے ہیں، کبھی ٹی وی پر کسی نوجوان انٹرپرینیور کو دکھاتے ہیں جسے دیکھ کر واقعی لطف آتا ہے۔ بڑی خوشی ملتی ہے کہ یہ نوجوان آتا ہے، کسی میدان میں، زراعت میں، ڈیری فارم میں، صنعت میں، چھوٹی صنعتوں میں، سروسز وغیرہ کے میدان میں بہت تھوڑے سے سرمائے کے ساتھ کام شروع کرتا ہے اور لگن سے کام کرکے کسی مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ فکری توانائی کی مدد سے، علم کی مدد سے سرمایہ پیدا کرنا بھی ایک اہم موضوع ہے۔

اگلا نکتہ یہ ہے کہ ہمیں داخلی پیداوار اور ایرانی مصنوعات کو تقویت پہنچانا چاہئے۔ حقیقی معنی میں ہمیں ایرانی مصنوعات کی حمایت کو اہمیت دینا چاہئے۔ یہ ایک واجب کام ہے۔ ضروری اور لازمی کام ہے۔ حکومتی عہدیداران، مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے حکام، مسلح فورسز، جن کے ہاتھ میں بنیادی خریداری ہے، اس طرح کی چیزوں کے اہم اخراجات ان کے ذمے ہیں، انھیں کوشش کرنا چاہئے کہ جہاں بھی ایرانی مصنوعات موجود ہوں وہاں ہرگز غیر ایرانی مصنوعات کو استعمال نہ کریں۔

یہ بھی ضروری ہے کہ معیشت کو جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ایٹمی ڈیل وغیرہ جیسی چیزوں سے نہ جوڑیں۔ اس طرح کی باتیں نہ کریں کہ اگر ایٹمی معاہدہ ہو گیا تو عوام کی معیشت اچھی ہو جائے گی، اگر ایٹمی معاہدہ نہ رہا تو معیشت خراب ہو جائیں گے۔ ہرگز نہیں۔ ایٹمی ڈیل ایک ایشو ہے، اس ایشو سے جیسا کہ کہا گیا خاص انداز میں نمٹنا ہے، مقتدرانہ انداز میں، عاقلانہ انداز میں، مدبرانہ انداز میں نمٹنا ہے، اسے معیشت سے نہیں جوڑنا چاہئے۔ اس طرح کی باتیں نہ کیجئے کہ اگر ایٹمی معاہدہ نہ رہا تو ہمارا اقتصاد خراب ہو جائے گا اور اگر باقی رہا تو ہمارا اقتصاد ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ معاہدہ ہوا، آپ نے دیکھا کہ ایٹمی معاہدہ ہو گیا، لیکن اقتصاد تب بھی ٹھیک نہیں ہوا۔ اقتصاد کو دیگر عناصر اور دیگر عوامل کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی چیزوں سے ٹھیک ہونے والا نہیں ہے۔

یہاں ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ مایوسی پھیلانے اور ملک میں تعطل کے حالات پیدا ہو جانے کا توہم پھیلانے کی پالیسی کا سختی کے ساتھ سد باب کیا جانا چاہئے۔ یہ ایک معاندانہ امریکی و مغربی پالیسی ہے کہ ملک کے اندر تعطل کا احساس پیدا کیا جائے، مایوسی پھیلائی جائے۔ اس مقصد کے لئے انواع و اقسام کے کام انجام دئے جاتے ہیں۔ اس سیاست کا بہت موثر انداز میں مقابلہ کرنا چاہئے۔ ناتوانی کا احساس، قنوطیت کا جذبہ اور بیچارگی کی کیفیت کا القاء کرنا دشمن کی حتمی سیاست ہے۔ دشمن کا مقصد یہ ہے کہ ملت ایران کے اندر افتخار کا جو جذبہ ہے، اسے سلب کر لے، افواہیں پھیلا کر، جھوٹ کے ذریعے خامیوں کے سلسلے میں مبالغہ آرائی کرکے، کامیابیوں اور حصولیابیوں کو معمولی ظاہر کرکے اس جذبے کو ملت ایران سے چھین لے۔ ملت ایران کے اندر آج افتخار کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ اسے احساس ہے کہ وہ پوری طرح خود مختار ہے، ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہے، اس کا ایک اعتبار ہے، دنیا میں اس کا وقار ہے، علاقے میں خاص اثر و رسوخ ہے۔ اس نے بہت اہم کارنامے انجام دئے ہیں اور انجام دے رہی ہے، اسی طرح آئندہ بھی انجام دے گی۔ ملت کے اندر افتخار کا احساس ہے۔ دشمن افتخار کے اس احساس کو ملت ایران سے سلب کر لینا چاہتا ہے، چھین لینا چاہتا ہے، فتوحات کو شکست ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ انقلاب کی برکت سے اور انقلاب کی وجہ سے پیدا ہونے والی خود اعتمادی کی برکت سے ہماری ملت اور ہمارے عہدیداران نے حقیقت میں اپنی غیر معمولی لیاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ گزرے ہوئے ان برسوں میں بڑے اہم کام انجام دئے گئے ہیں۔ ہمارے سامنے کتنی مشکلات تھیں، جنگ تھی، پابندیاں تھیں، اتنے مسائل تھے، لیکن اس کے باوجود آپ دیکھئے کہ زراعت کے میدان میں، علم و دانش کے میدان میں، ٹیکنالجی کے میدان میں، صحت عامہ اور میڈیکل سائنس کے میدان میں، عمومی شعور و ادراک کے ارتقاء کے لحاظ سے، بین الاقوامی ساکھ اور اعتبار کے لحاظ سے، حقیقی، صحیح اور قابل اطمینان جمہوریت کے میدان میں ملک بھر میں عمومی خدمات کے اعتبار سے، اس ملک میں کتنا کام ہوا ہے۔ حقیقت میں جو کچھ انجام دیا گيا ہے وہ بہت اہم اور قابل توجہ ہے۔ فتوحات کو بھی دشمن شکست ظاہر کرنا چاہتا ہے تاکہ بلند ہمتی اور اقدام کے جذبے کو جو ملک کی مشکلات کا حل ہے ختم کر دے اور ملت ایران سے سلب کر لے۔

بحمد اللہ ملک طاقتور ہے۔ بحمد اللہ اسلامی جمہوریہ مستحکم ہے۔ ہم اگر کمزور ہوتے تو ہمارے مقابلے کے لئے اتنے وسیع انتظامات کی ضرورت نہ ہوتی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دشمن نے ایک محاذ تیار کیا ہے اور گوناگوں تیاریوں کے ساتھ میدان میں اترا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اگر ہم کمزور ہوتے تو انھیں اس طرح جان دینے کی ضرورت نہ پڑتی، دشمن خود کو ہلاک کئے لے رہا ہے کہ میدان میں گوناگوں اقسام کے ہتھیار لا سکے۔ عسکری ہتھیار، تشہیراتی ہتھیار، اقتصادی ہتھیار وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ ہم طاقتور ہیں، ہم قوی ہیں۔ دشمن کوشش کرتا ہے لیکن کامیاب نہیں ہوتا، وہی صورت حال ہے جس کا میں نے ذکر کیا اور جس کی مثال دی۔ ہر دفعہ اسے شکست ہوئی، اس دفعہ بھی ان شاء اللہ باذن الہی اسے شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ملک کے اقتصادی مسائل کے سلسلے میں ہمارے معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ وطن عزیز اپنی صلاحیتوں کی برکت سے اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کی توانائی رکھتا ہے۔ صلاحیتوں کی ہم شناخت کریں، توانائیوں کی نشاندہی کریں، تجربات کو مد نظر رکھیں اور ان سب سے بالاتر نصرت خداوندی کو فراموش نہ کریں۔ ہم کلمۃ اللہ کے اعتلاء کے لئے کوشاں ہیں۔ ہم مادی قوت وغیرہ کے خواشمند نہیں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسلام سربلند ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے میں اسلامی شریعت کا نفاذ عمل میں آئے۔ ہم اس کوشش میں ہیں کہ اس دنیا میں جہاں مادہ پرستی، بدعنوانی اور انسانی خواہشات کے گوناگوں انحرافات کا غلبہ ہے، ایسی حکومت، ایسا سماج، ایسا ملک تعمیر ہو جو احکام دین کے مطابق چلے۔ ہم اس کوشش میں ہیں۔ کسی حد تک ہمیں کامیابی بھی ملی ہے اور کچھ چیزوں میں ہم ناکام رہے ہیں، ہم ان شعبوں میں بھی کامیابی کے لئے کوشاں ہیں جہاں ہنوز ہمیں کامیابی نہیں مل پائی ہے۔ ہمارا ہدف یہ ہے۔ ہدف یہ ہو تو نصرت خداوندی یقینی ہے۔ اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے اور اللہ کا وعدہ کبھی غلط نہیں ہوتا۔

آخری نکتہ جو مجھے عرض کرنا ہے وہ ایسا موضوع ہے جس کا تعلق اقوام متحدہ سے ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ نے اس عرصے میں اپنا کردار بخوبی ادا نہیں کیا ہے۔ امریکہ کے دباؤ میں بات کی، اقدامات کئے، کام کیا۔ چنانچہ آپ نے دیکھا اور دیکھ رہے ہیں کہ ایک سکریٹری جنرل نے یمن میں سعودیوں کی کارروائی کی مذمت کی، اس کے اگلے ہی دن آکر اپنی اس مذمت کی مذمت کر دی اور اپنی بات واپس لے لی! جب سوال ہوا تو انھوں نے کہا کہ کیا کیا جائے دباؤ تھا، ایسا تھا ویسا تھا۔ دباؤ دو طرح کا ہوتا ہے۔ پیسے کا دباؤ اور طاقت کا دباؤ۔ پیسہ تو 'خلیج فارس کے قارون' پیٹرو ڈالر سے فراہم کر دیتے ہیں اور طاقت امریکہ کے پاس ہے۔ بد قسمتی سے اقوام متحدہ امریکہ کے دباؤ میں ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے سلسلے میں بھی اس نے بڑی کوتاہیاں کی ہیں جس کی اسے بھرپائی کرنا چاہئے۔ اس وقت مجھے جو بات عرض کرنی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ کے سلسلے میں انسانی حقوق کے کئی معاملات ہیں جن پر اقوام متحدہ کو سنجیدگی سے توجہ دینا چاہئے۔ یہ مسائل ہنوز حل نہیں ہوئے ہیں۔ ختم نہیں ہوئے ہیں۔ ادھورے پڑے ہیں اور بعض کے بارے میں تو شروع سے ہی کوئی کام نہیں ہوا ہے۔

یہ چند معاملات ہیں۔ ایک مسئلہ کلنٹن کے زمانے میں ڈیوڈیئن فرقے کے مرکز کو آگ لگانے کا ہے۔ اس قضیئے پر کیوں توجہ نہیں دی جاتی؟ ایک جماعت، ایک گروہ جس کا تعلق ایک عیسائی فرقے سے ہے ایک گھر میں جمع تھا۔ حکومت کچھ وجوہات کی بنیاد پر اس کے خلاف تھی، وہ وجوہات ہو سکتا ہے درست ہوں اور ہو سکتا ہے کہ درست نہ ہوں۔ اگر وجہ درست بھی ہو تب بھی اس طرح کے معاملات میں کیا کیا جاتا ہے؟ عام طور پر گرفتار کیا جاتا ہے، پکڑ کر لایا جاتا ہے۔ لیکن ان لوگوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس گھر کو آگ لگا دی۔ درجنوں افراد، عورتیں، مرد، بچے سب اس آگ میں زںدہ جل گئے، ہلاک ہو گئے، ختم ہو گئے! اس واقعے پر کیوں توجہ نہیں دی جاتی۔ ایسا ریکارڈ رکھنے والے امریکہ کو کیا یہ حق پہنچتا ہے کہ دوسروں کو انسانی حقوق کے معاملے میں ٹوکے؟ اقوام متحدہ کو چاہئے کہ اس پر توجہ دے۔ یہ ایک حتمی اور بنیادی قضیہ ہے جس پر توجہ دی جانی چاہئے۔

دوسرا مسئلہ گوانتانامو جیل کا ہے۔ گوانتانامو جیل ساری دنیا کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔ کیوں امریکیوں نے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا اور بغیر عدالتی کارروائی کے برسوں انھیں سخت ترین حالات میں رکھا؟ اوباما کی فتح کی ایک وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اپنے انتخابی کمپین میں وعدہ کیا تھا کہ گوانتانامو جیل کو بند کر دیں گے لیکن نہیں کیا! وہ آٹھ سال تک اقتدار میں رہے، مگر یہ جیل باقی رہی اور آج بھی ہے۔ اگر آج یہ جیل بند ہو جاتی ہے تب بھی اس جیل کا جو ریکارڈ ہے اور وہاں جو جرائم انجام دئے گئے ہیں ان پر توجہ دی جانی چاہئے۔ اقوام متحدہ کو چاہئے کہ اس مسئلے پر توجہ دے۔ کچھ لوگوں کو جن میں بیشتر کا تعلق افغانستان سے تھا اور بعض کا تعلق دیگر ممالک سے تھا، گرفتار کرکے وہاں لے جاتے ہیں اور بے حد سخت حالات میں انھیں قید رکھتے ہیں۔ ہتھکڑیاں، بیڑیاں اور آنکھوں پر پٹی، کھانے پینے کی بہت بری حالت اور بے حد خراب ماحول میں انھیں کئی سال تک رکھا جاتا ہے۔ یہ کوئی مذاق ہے؟ اقوام متحدہ کو چاہئے کہ ضرور اس مسئلے پر توجہ دے۔

ایک اور موضوع عراق کی ابو غریب جیل کا ہے۔ عراق کی ابو غریب جیل میں جو ایذائیں دی گئیں وہ دنیا میں ایذا رسانی کے سب سے بڑے اداروں جیسے صیہونی حکومت کی ایجنسیوں کی ایذارسانی کی تاریخ میں بھی کم نظیر ہیں۔ اسی طرح ایران میں پہلوی حکومت کے دور میں ایذارسانی کی جو ایجنسیاں تھیں، ان میں بھی منصوبہ ساز اسرائیلی ہی ہوا کرتے تھے، ان کی ایذارسانی کے جو واقعات ہیں وہ ابو غریب جیل کی ایذا رسانی کے سامنے کچھ نہیں ہیں۔ یہ ایذا رسانی سب سے بھیانک اور زیادہ تھی۔ بہرحال اب امریکیوں کو وہاں سے نکالا جا چکا ہے۔ ابو غریب جیل عراقیوں کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن یہ واقعہ اپنی جگہ موجود ہے اس پر توجہ دی جانی چاہئے۔ یہ ایک بڑا اہم معاملہ ہے۔ ابو غریب جیل جیسی ایک جیل افغانستان میں بھی تھی۔ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی جیل تھی جس پر افغان حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں تھا، وہ امریکیوں کے ہاتھ میں تھی۔ افغان حکام کو اس پر بڑی شکایتیں تھیں، افغان حکام اس بات سے ناراض تھے، ہم سے بھی ذکر کرتے تھے اور اس چیز سے سب واقف تھے۔ جو کچھ گوانتانامو اور ابو غریب جیلوں میں ہوتا تھا وہی سب افغانستان کی اس جیل میں بھی ہوتا تھا۔ یورپ میں بھی کچھ جیلیں تھیں جن کی ہمیں زیادہ اطلاعات نہیں ہیں۔

اقوام متحدہ کو جن موضوعات پر خاص توجہ دینی چاہئے ان میں سے ایک امریکہ کے اندر اسلحے کی آزادانہ فروخت ہے۔ انھیں ہتھیاروں سے اتنے سارے جرائم انجام دئے جا رہے ہیں۔ آپ سنتے ہی ہوں گے، دیکھتے ہی ہوں گے۔ آئے دن اسکول میں یونیورسٹی میں، بازار میں، سڑک پر کوئی بچہ، کوئی نوجوان، کوئی مرد، کوئی عورت کسی عارضے کی وجہ سے، اس کے حواس قابو میں نہیں ہیں، جنونی کیفیت ہے یا کوئی اور ذاتی مشکل ہے، جس کی وجہ سے کچھ لوگوں کو گولیوں سے بھون دیتا ہے۔ دس افراد، آٹھ افراد، بیس افراد، اس سے کم یا زیادہ نشانہ بنتے ہیں، خاندانوں کو سوگوار کر دیا جاتا ہے۔ کیوں اس پر قابو نہیں کیا جاتا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ اسلحہ ساز کمپنیاں کچھ کرنے نہیں دیتیں اور امریکی حکومتیں ان کمپنیوں کے دباؤ میں رہتی ہیں۔ یہ بہت اہم موضوع ہے۔ اس میں اقوام متحدہ کو مداخلت کرنی چاہے، اس پر کام کرنا چاہئے۔ یہ بھی ایک اہم موضوع ہے۔

ایک اور مسئلہ ہے سیاہ فاموں کے ساتھ امریکی حکومت اور امریکی پولیس کا مجرمانہ برتاؤ۔ کوئي سیاہ فام اگر ملزم ہے، کوئی سیاہ فام اگر شک کے دائرے میں آ گیا ہے تو بے پناہ سختیاں یہاں تک کہ موت اس کا مقدر ہو جاتی ہے اور اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے! بعد میں کسی عدالت میں جمع ہوکر ایک ساز باز ہوتی ہے اور قاتل کو رہا کر دیا جاتا ہے اور اس مجبور کا خون رائیگاں چلا جاتا ہے۔ اس پر بھی توجہ دی جا سکتی ہے۔

ایک اور مسئلہ داعش کی تشکیل کا ہے۔ امریکہ کے اسی موجودہ صدر نے اپنی انتخابی کمپین میں یہ بات صراحت کے ساتھ کہی۔ البتہ ہمیں تو اس سے پہلے سے معلوم تھا کہ داعش کی تشکیل میں امریکیوں کا ہاتھ ہے اور وہی اس قضیئے میں ملوث ہیں۔ البتہ کچھ جگہوں پر وہ یہ کام بالواسطہ طور پر کرتے تھے اور کہیں کہیں تو براہ راست انجام دیتے تھے۔ ہمیں اطلاع تھی کہ انھوں نے عراق میں مختلف مواقع پر داعش کی مدد کی۔ داعش کے ذریعے تیل کی فروخت اور بعض اوقات محاصرے میں آ جانے والے داعشی سرغناؤں کو نجات دلانے جیسے تمام کاموں میں امریکی مدد کرتے تھے۔ اسی طرح وہ قتل عام کے واقعات میں صیہونی حکومت کی مدد کرتے ہیں، اس کی تازہ مثال غزہ میں ہونے والا حالیہ قتل عام ہے۔

ایک اور مسئلہ یمن کے عوام کے قتل عام میں سعودی حکومت کا ہاتھ بٹانا اور عوام کے خلاف مجرمانہ اقدامات کے سلسلے میں بحرین کی حکومت سے تعاون ہے۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن میں اقوام متحدہ کو مداخلت کرنا چاہئے۔ اقوام متحدہ اگر واقعی ملتوں کا ادارہ ہے ، اگر امریکی حکومت پر منحصر نہیں ہے تو اسے چاہئے کہ ان معاملات میں مداخلت کرے۔ اقوام متحدہ کو یہ کام انجام دینا چاہئے۔ کیا یہ کوئی غیر معمولی مطالبہ ہے؟

اسلامی جمہوریہ کا موقف بہت متین، مدلل اور قابل اثبات ہے۔ یہ تمام مسائل جن کا ذکر کیا گیا اگر ہم امریکہ کو ملزم قرار دیتے ہیں تو اس کا جرم ثابت کرنے کے لئے ٹھوس اور مسلمہ دلائل اور ثبوت موجود ہیں۔ اگر ہم یورپ پر اعتماد نہیں کر رہے ہیں تو اس کی بھی ٹھوس وجوہات اور دلائل موجود ہیں۔ اگر ہم اقتصادی مسائل کے سلسلے میں یہ کہتے ہیں کہ ہمیں داخلی توانائیوں پر تکیہ کرنا چاہئے، بھروسہ کرنا چاہئے تو اس کی بھی ٹھوس وجوہات ہیں۔ اقوام متحدہ سے اگر ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں تو اس کی بھی ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔ یہی ٹھوس موقف اور یہی صحیح استدلال فضل پروردگار سے تا حال اسلامی جمہوریہ کا محافظ و مددگار رہا ہے۔ اسی کے نتیجے میں وہ پورے استحکام اور پوری قوت کے ساتھ باقی ہے، بلکہ اسلامی جمہوریہ کے استحکام میں مسلسل اضافہ ہوا ہے او آج اسلامی جمہوریہ بیس سال، تیس سال قبل کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ طاقتور ہے۔ ان شاء اللہ مستقبل میں بھی ہم اسلامی جمہوریہ کے مزید استحکام کی سمت گامزن رہیں گے۔ داخلی ڈھانچے کے استحکام، اقتصادی، ثقافتی اور دیگر میدانوں میں عوام سے حکام کے صحیح برتاؤ کی سمت گامزن رہیں گے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہماری مدد کرے ہم اس سمت میں جس کا ہم نے ذکر کیا اور جسے ہم چاہتے ہیں، آگے بڑھ سکیں۔

پالنے والے! محمد و آل محمد کا صدقہ اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران کو روز بروز مزید سربلند فرما۔ پروردگار! ہمدرد، مخلص اور خدمت گزار عہدیداران کی تائید فرما۔ پروردگار! محمد و آل محمد کا واسطہ ہمارے بزرگوار امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ اس راہ کے شہیدوں کو صدر اسلام کے شہیدوں کے ساتھ محشور فرما۔ ہماری عاقبت سنوار دے۔ ماہ رمضان کو ہمارے لئے روحانی ارتقا اور معنوی صفا و پاکیزگي کا باعث قرار دے۔ پروردگار! ہم نے جو کہا اور سنا اسے اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے اور اسے اپنی نظر کرم سے قبول فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

۱)  اس ملاقات کے آغاز میں صدر جمہوریہ حجت الاسلام و المسلمین حسن روحانی نے تقریر کی۔

۲) سوره‌ مزّمّل، آیات ۱ تا ۴

۳) سوره‌ مزّمّل، آیت ۵

۴) باراک اوباما

۵) حاضرین ہنس پڑے

۶) سوره‌ محمّد، آیت نمبر ۷ کا ایک حصہ  «...  اگر اللہ کی مدد کرو گے وہ تمہاری نصرت فرمائے گا۔...»

۷) سوره‌ حج، آیت نمبر ۴۰ کا ایک حصہ «...اور یقینا جو دین خدا کی نصرت کرے اللہ اس کی نصرت کرتا ہے۔...»

۸) سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۱۲۶ کا ایک حصہ؛ «... نصرت صرف اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔..»

۹) امریکہ کا ایک سیاسی دھڑا نیؤ کنزرویٹیوز

۱۰) عربی ضرب المثل

۱۱) مصر کے معزول صدر

۱۲) جارج ڈبلیو بش

۱۳) ڈونلڈ ٹرمپ

۱۴) مائک پومپئو

۱۵) حجّت‌الاسلام والمسلمین اکبر هاشمی ‌رفسنجانی

۱۶) یورینیئم کنورجن فیسیلٹی (UCF)

۱۷) سوره‌ انعام، آیت نمبر ۱۱۲ کا ایک حصہ « اسی طرح ہم نے ہر پیغمبر کے لئے شیاطین انس و جن کو مقرر کیا۔ ان میں سے بعض دوسرے بعض کو فریب دینے کے لئے میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں۔..»

۱۸) وہ قرارداد جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سبھی 15 ارکان کی حمایت سے ایران پر عائد پابندیاں ہٹانے کے لئے منظور کی۔

۱۹) منجملہ اسلامی نظام کے عہدیداران اور کارگزاروں سے مورخہ 24 جولائی 2012 کا خطاب

۲۰) منجملہ اسلامی نظام کے عہدیداران اور کارگزاروں سے مورخہ 14 جون 2016 کا خطاب