بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّیّبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں آپ حاضرین محترم کو اور اس نشست میں تشریف فرما اسلامی ممالک کے سفیروں، ایران کی مومن و با عظمت قوم اور پوری امت مسلمہ کو۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اس عید کو اصلی معنی میں امت اسلامیہ کے لئے با برکت اور حقیقی عید قرار دے۔

عید فطر جیسا کہ اس کی نماز کے قنوت میں بھی وارد ہوا ہے اور ہم پڑھتے ہیں؛ «وَ لِمُحَمَّدٍ صَلَّی‌ اللهُ ‌عَلَیهِ ‌وَ آلِهِ ذُخراً وَ شَرفاً وَ کَرامَةً وَ مَزیدا»، (۲) باعث شرف ہے، باعث عظمت ہے اور ذخیرہ ہے نبی اکرم کے وجود مقدس کے لئے۔ یعنی اسلام اور اسلامی معاشرے کے لئے۔ ایسا لگتا ہے کہ رسول اسلام کے لئے، مسلمان عوام کے لئے، اسلامی سماج اور امت مسلمہ کے لئے جو چیز سب سے زیادہ باعث شرف و عظمت ہو سکتی ہے وہ ہے امت اسلامیہ کا اتحاد اور اختلافات کا خاتمہ۔

عزیز بھائیو اور بہنو! آج استکباری قوتوں کی اسٹریٹیجییہ ہے کہ مسلمان اقوام کے مابین، اسی طرح قوموں کے اندر اور ہر ملت کے افراد کے درمیان خلیج اور اختلاف پیدا کیا جائے۔ آج ان کی پالیسییہی ہے۔ یہ منصوبہ اور یہ سازش جرائم پیشہ امریکی منصوبہ سازوں اور صیہونیوں نے ہمارے اس علاقے کے لئے تیار کی ہے جو اسلامی خطوں میں بہت اہم علاقہ ہے اور آپ ان سازشوں کی علامات آج دیکھ رہے ہیں۔ یمن کے اندوہناک واقعات، شام کے سانحات، عراق میں جو کچھ حالات پیش آئے اسی طرح دیگر مسلم ممالک کی صورت حال۔

راہ حل یہ ہے کہ مسلمان اقوام اس کی جڑ تلاش کریں۔ اس کی جڑ ہے اسلامی معاشرے اور امت اسلامیہ سے استکبار کی دشمنی۔ اصلی ماجرا یہ ہے۔ استکبار کی پالیسیوں کے مد مقابل سب کھڑے ہو جائیں۔ یہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ سیاسی عہدیداران کی ذمہ داری ہے۔ یہ دینی و ثقافتی و سیاسی شخصیات کا فریضہ ہے پورے عالم اسلام میں۔ ایک اور بنیادی مسئلہ صیہونی حکومت کا ہے جسے دنیائے اسلام کے قلب کا درجہ رکھنے والے اس علاقے میں لاکر بٹھا دیا گيا ہے اختلافات کی آگ بھڑکانے کے لئے، فتنہ پھیلانے کے لئے اور مسائل پیدا کرنے کے لئے۔

صیہونی حکومت ہمیشہ باقی رہنے والی نہیں ہے۔ تمام تاریخی تجربات ہمیں اس حقیقت سے باخبر اور آگاہ کرتے ہیں۔ صیہونی حکومت کو اصولی مشکل در پیش ہے۔ امریکی اور خود صیہونی حکومت کے افراد اسی طرح کچھ کمزور اور امریکہ کے اشارے پر کام کرنے والی حکومتیں آج یہ سمجھ رہی ہیں کہ صیہونی حکومت سے خفیہیا آشکارا سفارتی تعلقات قائم کرکے وہ  مشکلات سے اپنی گلو خلاصی کرا سکتی ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ صیہونی حکومت کی مشکل یہ نہیں ہے کہ دیگر حکومتوں سے اس کے سفارتی روابط ہیںیا نہیں ہیں کہ کوئییہ سوچے کہ اگر دو تین حکومتوں نے یا اس سے کچھ کم زیادہ سرکاروں نے اسرائیل سے روابط قائم کر لئے تو اسرائیل سے رشتے رکھنے کی قباحت ختم ہو جائے گی اور صیہونی حکومت سے دوستی کا رشتہ قائم کرکے اس حکومت کی مشکلات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ بالکل نہیں، صیہونی حکومت کی مشکل اس حکومت کی غیر قانونی حیثیت ہے۔ صیہونی حکومت غیر قانونی ہے۔ اس کی تشکیل ایک باطل بنیاد پر کی گئی۔ ایک قوم کو اس کے گھر بار سے جبرا بے دخل کر دیا جاتا ہے، قتل عام کے ذریعے، دھمکیاں دیکر، مسلح فورسز کی مدد سے۔ طویل تاریخ رکھنے والی قوم کو، ملت فلسطین کو جو کوئی جعلی اور نو تشکیل شدہ قوم نہیں تھی اسے باہر نکال دیا ہے۔ فلسطینی ریاست کے ساتھ بھییہی کیا۔ لیکن کیا دنیا کے جغرافیا کے حافظے سے فلسطین کے نقشے کو مٹایا جا سکتا ہے؟ کیایہ ممکن ہے؟ اگر وہ آکر علاقے کے چار کمزور قوت ارادی والے ملکوں کو تیار کر لیتے ہیں کہ وہ صیہونی حکومت سے سفارتی روابط قائم کر لیں تو اس سے مشکل حل ہونے والی نہیں ہے۔ ان کی مشکل ہے غیر قانونی وجود۔

اس علاقے میں صیہونی حکومت کی بنیادیں کمزور، متزلزل اور غلط ہیں۔ اس مشکل کا حل حکومتوں کے ہاتھ میں نہیں ہے کہ وہ اس کا تصفیہ کر سکیں۔ صیہونی حکومت سے علاقے کے بعض ممالک کے تعلقات کی تاریخ پرانی ہے۔ میں نام نہیں لینا چاہتا۔ مگر ان ملکوں کے عوام کے اندر صیہونی حکومت کے خلاف جذبات دوسرے ملکوں سے زیادہ مشتعل ہیں۔ یہ معاملہ قوموں کا ہے۔ صیہونی حکومت کا غیر قانونی ہونا امت اسلامیہ کے دل میں نقش ہو چکا ہے جسے زائل نہیں کیا جا سکتا۔ وائٹ ہاؤس کی کوششوں سے، سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کر دینے سے یا اس طرح کی دوسری باتوں سے اس مشکل کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مشکل حل ہونے والی نہیں ہے۔ بلا شبہ یہ حکومت جو باطل بنیاد پر تشکیل پائی ہے، توفیق خداوندی سے اور مسلم اقوام کی بلند ہمتی کی برکت سے نابود ہو جائے گی، مٹ جائے گی۔

دنیا کے تمام آزاد ممالک کی طرح فلسطین کے عوام، حقیقی فلسطینیوں سے ان کی رائے پوچھی جانی چاہئے۔ خواہ وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یایہودی ہوں، وہ جو فلسطینی ہیں، وہ نہیں جو دوسری جگہوں سے فلسطین آئے ہیں۔ جو لوگ اصلی فلسطینی ہیں ان سے پوچھا جانا چاہئے اور ان کی مرضی معلوم کی جانی چاہئے۔ مملکت فلسطین کے حکومتی نظام کی تشکیل ان کے ذریعے ہونی چاہئے۔ پھر وہ حکومتی سسٹم اس علاقے میں باہر سے وارد ہونے والوں کے بارے میں،یعنی صیہونیوں، ان کے عمائدین اور بقیہ لوگوں کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ مسئلہ فلسطین کا یہی حل ہے اوریہ حل بر سر اقتدار باطل و جعلی صیہونی حکومت کی نابودی اور خاتمے کے معنی میں بھی ہے۔  یہ چیز مستقبل قریب میں، وقت کا تعین نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ دن بہت دور نہیں ہے کہ نصرت خداوندی عملی جامہ پہنے گی۔ اگر یہ ہو گیا تو پھر اس علاقے کی مسلم اقوام ان شاء اللہ اپنی وحدت و یکجہتی قائم کرنے میں کامیاب ہوں گی۔

اس علاقے میں اختلافات کی جڑ یہی دشمن ہے۔ عام طور پر مشترکہ دشمن لوگوں کو متحد کر دیتا ہے لیکنیہاں الٹا ہو رہا ہے۔ یہ دشمن اختلافات، نفاق اور بعض اسلامی ممالک کے حکام کی طرف سے خیانت و غداری کا باعث بنا ہے۔ جب اس کا خاتمہ ہو جائے گا تو پھر ملکوں کے لئے ایک دوسرے کے قریب آنا اور آپس میں اتحاد و اتفاق قائم کرنا اور اس کی حفاظت کرنا ممکن ہوگا۔ اسلامی وقار کا ضامن امت مسلمہ کا اتحاد ہے۔ اتحاد کے زیر سایہ امت مسلمہ ان شاء اللہ اوج پر پہنچے اور یقینا پہنچے گی۔

دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اس عید فطر اور تمام با برکت ایام میں امت اسلامیہ کے لئے نیکیاں مقدر کرے اور مسلم امہ کے تمام افراد کو اور تمام مسلم اقوام کو اس راہ پر سنجیدگی سے آگے بڑھنے کی توفیق دے۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة ‌الله و‌ برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو عید فطر کی مناسبت سے انجام پائی صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے تقریر کی۔

۲) اقبال الاعمال، جلد ۱، صفحہ ۲۸۹