بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمدلله ربّ العالمین والصّلاة و السّلام علی سیّدنا ابی ‌القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی ‌الارضین (ارواحنا فداه و عجّل الله فرجه و صلوات الله علیه).

محترم حاضرین! آپ کا خیر مقدم ہے۔ میں شکر گزار ہوں کہ آپ نے زحمت فرمائی اور دو دن کے مصروف اجلاس کے بعد آج آپ مہربانی کرکے یہاں تشریف لائے۔

یہ بڑے اہم ایام ہیں۔ ذی الحجہ کا یہ آخری عشرہ بلکہ اس مہینے کا دوسرا نصف حصہ تاریخ اسلام اور اسلام کے تاریخی واقعات کے اعتبار سے بڑے اہم دنوں کا حامل ہے۔ کل چوبیس تاریخ تھی، مشہور روایت کے مطابق یہ مباہلہ کا دن ہے۔ اسی طرح یہ امیر المومنین سلام اللہ علیہ کی شان میں آیت ولایت کے نزول کا دن بھی ہے: اِنَّما وَلِیُّکُمُ اللهُ وَ رَسولُه وَ الَّذینَ ءامَنُوا الَّذینَ یُقیمونَ الصَّلاةَ وَ یُؤتونَ الزَّکاةَ وَ هُم راکِعون (۲) آج کا دن سورہ هل ‌اَتی (3) کے نزول کا دن ہے۔ ایک روایت کے مطابق آج کا دن مباہلہ کا دن ہے۔ بڑے اہم ایام ہیں۔ مباہلہ جس کی  ہمیشہ یاد منانا چاہئے اور یہ بڑا اہم واقعہ ہے، یہ در حقیقت ایمانی اطمینان و اقتدار اور حقانیت پر یقین کا مظہر ہے اور یہ ایسی چیز ہے جس کی ہمیں ہمیشہ ضرورت پڑتی ہے۔ آج بھی اسی ایمانی اقتدار اور اپنی حقانیت پر اعتماد کی ہمیں ضرورت ہے۔ اس لئے کہ ہم راہ حق پر گامزن ہیں۔ ہمیں دشمنوں کی دشمنی اور استکبار کے عناد کے مقابلے میں اسی قوت کو اپنا تکیہ و سہارا بنانا چاہئے۔ الحمد للہ ہم اسی قوت پر تکیہ کر بھی رہے ہیں۔ ملت ایران، رائے عامہ اور وطن عزیز کا کلی عوامی رجحان یہی ہے کہ چونکہ حق پر ہیں، راہ حق پر گامزن ہیں، اس لئے ایک عمومی طمانیت بحمد اللہ موجود ہے۔ سورہ هل ‌اَتی بھی ایک پرخلوص عمل کی برکت کا مظہر ہے۔ ایک مخلصانہ ایثار کا مظہر ہے، یہ ایثار اہل بیت علیہم السلام نے کیا اور اس کی وجہ سے اللہ تعالی نے ان کی شان میں ایک سورہ نازل فرمایا سوره‌ هل‌ اَتی۔ یہ بھی اپنی جگہ پر بڑا اہم اور افتخار آفریں واقعہ ہونے کے ساتھ ہی ایک اہم درس بھی ہے کہ جب ایثار پورے خلوص کے ساتھ انجام دیا جائے تو اللہ کی نظر میں وہ دنیوی و اخروی پاداش کا ذریعہ بنتا ہے۔

اس دفعہ آج کا جو اجلاس تھا، جیسا کہ جناب جنتی صاحب کی رپورٹ میں اور جناب موحدی صاحب کی رپورٹ میں تھا اور خود میں نے بھی اجلاس میں آپ حضرات کی تقاریر کی جو رپورٹ پڑھی اس میں بھی نظر آیا کہ بڑے اہم مسائل و موضوعات کو آپ نے اٹھایا۔ جناب موحدی صاحب نے بہت اچھی درجہ بندی کی اور جناب جنتی صاحب نے صاحب نظر ٹیموں کے بارے میں جو رپورٹ پیش کی وہ بھی بہت اچھی ہے کہ آپ نے یہ کام شروع کر دیا ہے۔ یہ عمل جتنا آگے بڑھے گا اور اس پر جتنا کام کیا جائے گا، فکری و افرادی سرمایہ کاری کی جائے گی، اس کی برکتوں میں اتنا ہی اضافہ نظر آئے گا۔ اہل علم، اہل فکر اور ملت کے ان ماہرین کے تدبر اور فکر و نظر کا عمل بہت اہم ہے۔ البتہ ان شرطوں کے ساتھ جو معین کی گئی ہیں اور ان شاء اللہ انھیں ملحوظ بھی رکھا جاتا ہوگا۔

میں بھول نہ جاؤں اسلئے پہلے ان دو برادران عزیز کو یاد کرنا چاہوں گا جو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ جناب ایمانی صاحب (4)  اور جناب مہمان نواز صاحب (5) دو بڑے قابل احترام اور کامیاب امام جمعہ۔ اللہ تعالی انھیں غریق رحمت کرے اور اللہ تعالی ہمارے برادر عزیز جناب شاہرودی صاحب (6) کو شفائے عاجل و کامل عطا فرمائے۔

آج میں جو عرض کرنا چاہتا ہوں وہ ایک نکتہ ہے اور اسی نکتے کے ذیل میں کچھ گفتگو کروں گا اور اپنے معروضات پیش کروں گا۔ یہ نکتہ ہے قومی اتحاد و یکجہتی اور اسی اتحاد کے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنا۔ یہ حقیر کی آج کی بحث کا موضوع ہے۔ کچھ باتیں میرے ذہن میں ہیں وہ میں پیش کرنا چاہوں گا۔

ہم بڑے حساس دور سے گزر رہے ہیں۔ اس وقت جس دور سے ہم گزر رہے ہیں وہ بڑا حساس دور ہے۔ اس معنی میں نہیں کہ ہمارے دشمن زیادہ ہیں یا ہمارے دشمن طاقتور ہیں۔ نہیں، آج جتنے بھی دشمن ہیں، یہ سب انقلاب کے پہلے دن سے تھے، ان میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ ماضی میں جو دشمن تھے وہ آج کے دشمن سے زیادہ طاقتور تھے۔ اس میں بھی آپ کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ چیز صیہونی حکومت کے سلسلے میں بھی ہے اور امریکہ کے سلسلے میں بھی ہے، اسی طرح علاقے کی بعض رجعت پسند حکومتوں کے سلسلے میں بھی ہے۔ آج کی جو حکومتیں ہیں ان کے مقابلے میں ماضی کی حکومتیں زیادہ طاقتور اور تجربہ کار تھیں، مگر پھر بھی انقلاب کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ حالانکہ شروع میں انقلاب ایک نازک پودا تھا، ایک نیا پودا تھا جسے زمین سے اکھاڑ پھینکنا آج کے اس شجرہ طیبہ کو اکھاڑ پھینکنے سے بالکل الگ تھا جو اب بہت پھیل چکا ہے۔ «اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِی السَّماء» (7)۔ لہذا میں جو 'حساس دور' کہہ رہا ہوں تو وہ اس لحاظ سے نہیں ہے۔ اس زمانے میں انھوں نے کچھ شدید اقدامات بھی کئے۔ ہمارے مسافر طیارے کو مار گرایا، طبس پر حملہ کیا، علاقے کے ایک دیوانے کے ذریعے ہمارے اوپر آٹھ سالہ جنگ مسلط کر دی، اقتصادی محاصرہ کیا۔ بہت کچھ کیا۔ یہ سارے اقدامات اس وقت کئے گئے جبکہ آج ان میں بہت سے اقدامات ایسے ہیں جو انجام نہیں دئے جا سکتے یعنی ان کے اندر یہ اقدامات انجام دینے کی طاقت نہیں ہے۔ تو میں اس اعتبار سے نہیں کہہ رہا ہوں کہ خطرناک دور ہے۔ یہ میں اس اعتبار سے کہہ رہا ہوں کہ جب کوئی سماج اور کوئی نظام حکومت کسی نئے راستے پر قدم رکھتا ہے، کوئی غیر معمولی اور مختلف قسم کا مدعا پیش کرتا ہے اور اس نئے مدعا اور نئی راہ کے ساتھ بین الاقوامی تضادات کے اس لق و دق جنگل میں اپنی ان خصوصیات کے ساتھ قدم رکھتا ہے تو فطری طور پر اسے الگ الگ ادوار میں مختلف طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور خود کو حالات کے مطابق تیار کرنا ہوتا ہے اور اسی کے مطابق آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ صدر اسلام میں بھی ایسا ہی ہوا، آج بھی ایسا ہی ہے۔ عالمی تضادات موجود ہیں۔ بین الاقوامی سیاست کی یہ دنیا ایک بہت بڑا جنگل ہے اور ہم بہاؤ کے رخ کی مخالف سمت میں چل رہے ہیں۔ دنیا کا کلی سفر استکبار اور تسلط پسندانہ نظام کے رخ کے مطابق ہے۔ یعنی کچھ سامراجی طاقتیں ہیں اور کچھ ممالک سامراج کے شکار ہیں،  ان کے تسلط کو قبول کر لینے والے ہیں۔ ہم اس پورے عمل سے ہٹ کر نئی سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ چالیس سال تک ہم اسی سمت میں آگے بڑھتے رہے ہیں۔ ہم نے اسی انداز سے سفر کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے لئے خاص طرح کے حالات پیش آتے ہیں، ہمارے لئے ضروری ہے کہ پیش آنے والے ان حالات کی طرف متوجہ رہیں، بہت دھیان سے عمل کریں، قضیئے کے مختلف پہلوؤں پر دائمی نظر رکھیں اور اس کا جائزہ لیتے رہیں۔

میں نے عرض کیا کہ صدر اسلام میں بھی یہ حالات تھے۔ وہاں بھی الگ الگ تقاضوں اور گوناگوں حالات میں الگ الگ فرائض اور ذمہ داریاں ہوتی تھیں۔ ایک دن اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے؛ «اِن یَکُن‌ مِنکُم‌ عِشرونَ‌ صابِرونَ‌ یَغلِبوا مِائَتَین» (8) ایک دن ارشاد ہوتا ہے؛ فَاِن ‌یَکُن مِنکُم مِائَةٌ صابِرَةٌ یَغلِبوا مِائَتَین (9) یعنی ایک دن دس گنا زیادہ فوج سے لڑنا ہے اور ایک دن دو گنا فوج سے لڑنا ہے۔ حکمت خداوندی میں تو کسی خلل کی گنجائش نہیں ہے، یہ تو واضح ہے، یہ حالات کے تقاضے ہیں۔ کبھی حالات ایسے ہیں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم میں سے ایک شخص دس لوگوں سے لڑے اور کبھی حالات ایسے پیش آتے ہیں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم میں ہر ایک شخص دو سے جنگ کرے۔ حالات کا یہ تغیر، احکام اور فرائض میں بھی تبدیلی کا سبب بنتا ہے۔ کسی دن بدر ہے اور وہ خاص حالات ہیں، کبھی فتح مکہ جیسے واقعات ہیں، ایک دن ایسا ہے کہ «اِذ اَعجَبَتکُم کَثرَتُکُم» حنین کے دن یہ ہوا۔ وَ یَومَ حُنَینٍ اِذ اَعجَبَتکُم کَثرَتُکُم فَلَم تُغنِ عَنکُم شَیئًا (10) ایسا ہوتا ہے۔ ہر جگہ ایک خاص حالات ہوتے ہیں، ان حالات کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ اگر حالات کی طرف سے غفلت برتی گئی تو ہمیں نقصان ہوگا، خواہ عوام کو ان حالات کا علم نہ ہو، یا اہم شخصیات ان حالات کی طرف متوجہ نہ ہوں۔ خاص طور پر اگر دانشور طبقہ اور اہم شخصیات موجودہ حالات اور در پیش مسائل سے، اسی طرح اسلامی نظام کی جو پوزیشن اس سے غافل رہ گئے تو ہمیں نقصان اٹھانا پڑے گا۔

میں اس تمہید کے بعد یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج ہماری جنگ کہاں ہو رہی ہے؟ یہ جو اقتصادی جنگ کی بات کی جاتی ہے یہ بالکل صحیح ہے۔ دشمن نے ہمارے خلاف ایک ہمہ جہتی اقتصادی جنگ شروع کر دی ہے۔ وار روم بھی ہے۔ بڑی باریکی سے وہ جائزہ بھی لے رہے ہیں، ان کے مامور کردہ افراد ہیں اور وہ مسلسل کام کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ ہمارے سامنے ایک ایسی جنگ ہے لیکن ایک جنگ اور بھی ہے جس سے ہم بسا اوقات غافل رہ جاتے ہیں اور اس جنگ کی اہمیت اقتصادی جنگ سے کم نہیں ہے۔ بلکہ یہ دوسری جنگ کبھی کبھی اقتصادی جنگ کے اثرات کو بڑھا دیتی ہے۔ وہ جنگ کیا ہے؟ وہ جنگ ہے تشہیراتی جنگ، فضا سازی کی جنگ، میڈیا کی جنگ۔ یہ بہت اہم ہے۔ جی ہاں، اور یہ بہت پہلے سے چلی آ رہی ہے۔ ہمارے خلاف زہریلا پروپیگنڈا ہمیشہ بہت شدید رہا ہے، آج اس کی شدت میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ جیسے اقتصادی جنگ میں پہلے بھی پابندیاں تھیں لیکن آج ان کی شدت بڑھ گئی ہے۔

اس دوسری جنگ میں، اس دوسرے میدان میں، دشمن کی سرگرمیوں اور نقل و حرکت کی شدت زیادہ ہو گئی ہے، کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ ہمیں اس جنگ سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔ ہماری اطلاعات یہ بتاتی ہیں، یعنی یہ اطلاعات ہیں تجزیہ اور تخمینہ نہیں ہے، کہ ایک نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے صیہونی حکومت کے خفیہ ادارے اور امریکی خفیہ ادارے کی طرف سے۔ انھوں نے نیٹ ورک بنایا ہے اور علاقے میں جو قارون بیٹھے ہیں ان کی طرف سے فنڈنگ ہو رہی ہے۔ وطن عزیز کے گرد و پیش، ہماری سرحد کے قریب واقع بعض ممالک میں بیٹھے ہوئے ہیں اور منصوبہ بناتے رہتے ہیں، بڑی تندہی سے کام کر رہے ہیں۔ ان میں کچھ کے لئے اگر زبان سیکھنا ضروری ہوتا ہے تو وہ زبان سیکھتے ہیں، بعض کے لئے ہمارے ملک کے حالات سے آگاہی ضروری ہوتی ہے تو پیسے دیکر وہ کام بھی کروایا جاتا ہے تاکہ ملک کی فکری و تشہیراتی فضا کو آلودہ کر سکیں۔ یہ مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ نہایت حساس معاملہ ہے۔ اگر ملک کی تشہیراتی فضا ایسی ہوتی ہے کہ عوام کو اضطراب میں مبتلا کرتی ہے، یا مایوسی اور ناامیدی میں مبتلا کرتی ہے، یا بد گمانی کا شکار بناتی ہے ایک دوسرے کے بارے میں یا اداروں کے بارے میں، یا عوام میں یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ بند گلی میں پہنچ گئے ہیں، یا اقتصادی مشکلات کو بڑھاتی ہے۔ آپ نے ذکر کیا سونے کے سکے اور فارن کرنسی کی قیمتوں میں اضافے، قومی کرنسی کی مالیت میں کمی اور غیر ملکی زر مبادلہ کی قیمتوں میں اضافے کا۔ جی ہاں، یہ بات صحیح ہے۔ اس قضیئے کا بڑا حصہ اسی پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے۔ یعنی یہی پروپیگنڈا اور یہی میڈیا ہے جو اس کے لئے زمین ہموار کر رہا ہے۔ آج یکبارگی دیکھتے ہیں کہ کسی چیز کی قیمت دگنا ہو گئی ہے۔ یعنی چند دن میں قومی کرنسی کی قیمت نصف رہ گئی۔ تھوڑی سی مدت میں قومی کرنسی کی قوت خرید آدھی ہو گئی۔ ذرائع ابلاغ یہ کام مستقل طور پر انجام دے رہے ہیں۔

البتہ دشمن سے کیا توقع کی جا سکتی ہے، یعنی دشمن سے رذالت کے علاوہ کسی چیز کی توقع نہیں ہے۔ دشمن تو دشمن ہوتا ہے۔ جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس ماحول سازی میں مدد نہ کریں، میں یہی بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میری گفتگو کا اصلی نکتہ یہی ہے۔ ہم اس تشہیراتی فضا میں مددگار نہ بنیں۔ عوام کے ذہنوں کو آلودہ کرنے کی اس فضا میں ہم مددگار نہ بنیں۔ یعنی ہمیں برعکس سمت میں عمل کرنا چاہئے۔ بعض اوقات ہم توجہ نہیں رکھ پاتے اور ہم سے یہی غلطی ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات کچھ مشکلات کو بیان کرنے میں مبالغہ کر دیتے ہیں، کبھی کسی ادارے یا شخص کے بارے میں اگر تنقید کرتے ہیں تو اس میں مبالغہ کر دیتے ہیں۔ یہ مبالغہ مضر ہے۔ یہ مبالغہ عوام الناس کے فکر و ذہن کو مزید مضطرب کرنے اور فضا کو مزید آلودہ بنانے کا کام کرے گا۔ یہ ایسی چیز ہے جس پر توجہ دینا ضروری ہے۔ بدگمانی کا وائرس نہیں پھیلانا چاہئے۔ آپ دیکھئے کہ میں خود بھی تنقید کرنے والا انسان ہوں۔ اس حقیر نے یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک جو بھی حکومتیں اقتدار میں آئی ہیں ان پر الگ الگ مسائل میں اعتراضات کئے، تنقیدیں کیں۔ میری تنقید بعض اوقات بہت تند بھی ہوتی تھی، سخت تنقید ہوتی تھی، میں نے یہ تنقیدیں کیں۔ میں ذمہ دار اداروں کی کوتاہی کو نظر انداز کرنے والا شخص نہیں ہوں، لیکن کہنے کا طریقہ، اقدام کرنے کا طریقہ، پیش آنے کا انداز ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ عوام الناس بدگمانی کی بیماری میں مبتلا ہو جائیں۔ بدگمانی پیدا ہو جائے تو دور نہیں ہوتی۔ ایسا نہ ہو کہ عوام کی ایسی حالت ہو جائے کہ ایک طرف سے چاہے جتنی مثبت تشہیراتی کوششیں ہوں عوام کے لئے ان پر بھروسہ کرنا ممکن نہ رہے مگر دشمن کی طرف سے جیسے ہی کوئی جھوٹ پھیلایا جائے عوام فورا اس پر یقین کر لیں۔ یہ بہت خطرناک چیز ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونے دینا چاہئے۔ ہم اس میدان میں موثر انداز سے کام کر سکتے ہیں۔ بدگمانی کا وائرس بہت بری شئے ہے۔ پاسداران انقلاب فورس سے بدگمانی، حکومت سے بدگمانی، پارلیمنٹ سے بدگمانی، عدلیہ سے بدگمانی، انقلابی اداروں سے بدگمانی، انقلابی ستونوں سے بدگمانی، ان چیزوں سے بدگمانی۔

بے شک تنقید میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ ضروری ہے۔ اصلاح کی غرض سے تنقید ضروری ہے۔ تنقید ایک دوستانہ عمل ہے، معاندانہ اقدام نہیں ہے۔ جب آپ تنقید کرتے ہیں تو یہ آپ کا ایک دوستانہ عمل ہوتا ہے۔ یہی؛ «اَلمُؤمِنُ مِرآةُ المُؤمِن» (11) یعنی فریق مقابل کے اندر اگر کوئی عیب ہے اور آپ اس پر تنقید کرنا چاہتے ہیں تو آپ اس عیب کی نشاندہی کرتے ہیں، اس کے گوش گزار کرتے ہیں، یہ بہت اچھا فعل ہے۔ تنقید ہونا چاہئے۔ کبھی کبھی تنقید منظر عام پر ہونا چاہئے۔ ہمارا یہ نظریہ نہیں ہے کہ  ہمیشہ تنقید خاموشی سے کان میں بیان کر دی جائے۔ نہیں، کبھی منظر عام پر بھی ہونا چاہئے۔ لیکن اگر ہم تنقید ایسے انداز سے کریں کہ سننے والے کا جگر پارہ پارہ ہو جائے اور کہنے پر مجبور ہو جائے کہ اب تو سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا، ہم تو تباہ ہو گئے! تو یہ ٹھیک نہیں ہے، ایسی تنقید نہیں کرنا چاہئے۔ ہم کبھی کبھی تنقید کرنے کی نوعیت میں غلطی کر دیتے ہیں اور نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ جن اداروں پر تنقید کی جاتی ہے وہ بہت اچھے کام بھی کر رہے ہیں، انھیں بھی بیان کیا جانا چاہئے۔ میں نے چند دن قبل مجریہ کے عہدیداران سے اپنی ملاقات میں (12)  کہا کہ مثبت کاموں کو بھی نظر میں رکھنا چاہئے اور منفی کاموں کو بھی نظر میں رکھنا چاہئے۔ یہ مناسب نہیں کہ ہم صرف منفی کاموں کو دیکھتے رہیں۔ حکومت تعمیری اور مثبت کام بھی کر رہی ہے اور اس کے کاموں میں خامیاں بھی ہیں۔ پارلیمنٹ کی بھی یہی صورت حال ہے۔ عدلیہ کی بھی یہی صورت حال ہے اور دیگر اداروں کی بھی یہی صورت حال ہے۔ ہم سب ایسے ہی ہیں، کچھ اچھے کام کرتے ہیں: خَلَطوا عَمَلًا صالِحًا وَ ءاخَرَ سَیِّـئًا عَسَی اللهُ اَن یَتوبَ عَلَیهِم (13) نیک اعمال اور برے اعمال کو مخلوط کر دینا ایسی چیز ہے جو سب میں  پائی جاتی ہے، ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ ہم اگر برے عمل کو ذکر کریں تو عمل صالح کو بھی ضرور بیان کریں۔ اس سے یہ ہوگا کہ عوام کو معلوم ہوگا کہ ہاں کچھ خرابیاں ہیں۔ مگر ایسی صورت میں یہ نہیں ہوگا کہ عوام پوری طرح مایوس ہو جائیں اور کہنے لگیں کہ جناب! اب تو سب کچھ ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اچھے کام ہیں اور برے کام بھی ہیں۔ انسان کو چاہئے کہ ان سب کو دیکھے۔ آیہ کریمہ کہتی ہے؛ یا اَیُّهَا الَّذینَ ءامَنُوا اِتَّقُوا اللهَ وَ قولوا قَولًا سَدیدًا * یُصلِح لَکُم اَعمالَکُم وَ یَغفِرلَکُم ذُنوبَکُم (14) اگر ہم چاہتے ہیں کہ 'قول سدید' زبان سے نکلے، قول سدید یعنی حقیقت پر مبنی بات، تو ہمیں اسی طرح عمل کرنا چاہئے۔ لَولا یَنهاهُمُ الرَّبانِیّونَ وَ الاَحبارُ عَن قَولِهِمُ الاِثمَ وَ اَکلِهِمُ السُّحت (15) اس آیت میں دو اہم نکتے یہ ہیں کہ قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ احبار اور رہبانیوں کو ان دونوں چیزوں سے روکا کیوں نہیں گیا۔ ان دونوں چیزوں میں ایک ہے «قَولِهِمُ الاِثم» یعنی جھوٹ، دروغ، بغیر سوچے سمجھے بولنا، بغیر علم کے بولنا۔ دوسری چیز ہے؛ «اَکلِهِمُ السُّحت» یعنی یہی اقتصادی مسائل۔ غلط اقتصادی روابط، یہی بدعنوانی اور بے ایمانی وغیرہ۔ ان دونوں چیزوں کا مکمل علاج ہونا چاہئے۔

یہ جو میں عرض کر رہا ہوں اور بتا رہا ہوں کہ انقلاب اور ملک پیشرفت کی راہ پر گامزن ہے، یہ ایسی چیز ہے کہ جو میں رجز خوانی کے طور پر بیان نہیں کر رہا ہوں۔ یہ بات میں مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ ملک پیشرفت کر رہا ہے۔ انقلاب اور انقلابی بنیادیں مستحکم ہو رہی ہیں۔ بے شک انقلاب مخالف باتیں بھی کچھ لوگوں کے منہ سے سنائی دیتی ہیں، کچھ باتیں کہی جاتی ہیں، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز انقلابی مفاہیم کی جانب، انقلابی امنگوں کی جانب اور انقلابی حقائق کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اب ممکن ہے کہ پیش قدمی کے اس عمل میں وہ رفتار نہ ہو جس کی ضرورت ہے، لیکن پیش قدمی جاری ہے، یہ سفر جاری ہے۔ وطن عزیز آگے بڑھ رہا ہے۔ ہم مختلف میدانوں میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ علمی میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں، صنعتی میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں، سیاسی وقار کے میدان میں ہمیں پیشرفت حاصل ہو رہی ہے، فکری نمو کے میدان میں ہمیں پیشرفت حاصل ہو رہی ہے، روحانی میدانوں میں ہمیں ارتقاء حاصل ہو رہا ہے۔ میں ابھی اپنی گفتگو کے آخر میں ایک نمونہ بھی پیش کروں گا۔ اس طرح کے نمونوں کی کوئی کمی نہیں ہے، ہمیں پیشرفت حاصل ہو رہی ہے۔ ملک میں اس کثرت کے ساتھ اچھے نوجوان موجود ہیں۔ آپ سائیبر اسپیس کا جائزہ لیجئے اور دیکھئے وہاں کیا صورت حال ہے؟! سائیبر اسپیس میں کتنے؛ «مُضِلّاتُ الفِتَن» (16) ہیں؟! سائیبر اسپیس میں، سیٹیلائٹ چینلوں میں اور اس پورے نظام میں کتنے فتنے ہیں اور نوجوان ان سب کے نشانے پر ہے لیکن اس کے باوجود آپ دیکھتے ہیں کہ اربعین کا پیدل مارچ کس انداز سے انجام پاتا ہے، اعتکاف میں کیا منظر ہوتا ہے، یونیورسٹیوں میں نماز جماعت میں کیا عالم ہوتا ہے۔ یہ بڑی اہم چیزیں ہیں۔ ہم ان چیزوں کو کیوں نہ دیکھیں؟ یہ اس بات کی علامتیں ہیں کہ روحانیت و معنویت کے میدان میں بھی جو کافی سخت ہے یعنی ثقافت کا روحانی پہلو، ہمیں اس میں بھی پیشرفت حاصل ہو رہی ہے۔ ماہ رمضان کے جلسوں کو آپ دیکھئے۔ میں خاص طور پر ماہ رمضان اور اسی طرح ماہ محرم و صفر میں ان چیزوں کے بارے میں استفسار کرتا رہتا ہوں۔ میں کچھ لوگوں کو بھیجتا ہوں کہ تحقیق کریں، کام کریں اور دیکھیں کہ سال گزشتہ کی نسبت اس سال ماہ رمضان کے جلسوں کی کیا کیفیت رہی۔ وہ جاتے ہیں اور رپورٹیں لیکر آتے ہیں۔ یہ پیشرفت دیکھ کر، یہ ارتقا دیکھ کر انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ جن لوگوں کے پاس بڑے عوامی پلیٹ فارم ہیں انھیں چاہئے کہ ان چیزوں کو بیان کریں، ان کا ذکر کریں۔

ایک اور اہم نکتہ ملک کے انتظامی اداروں اور عوام الناس کی یکجہتی کا ہے۔ ملک کے جو انتظامی ادارے ہیں خواہ وہ عدلیہ ہو، مجریہ ہو یا بقیہ ادارے ہوں ان سے عوام کا بھرپور رابطہ ہونا چاہئے، یکجہتی ہونا چاہئے۔ البتہ اعتماد سازی کے اس عمل کا بیشتر حصہ خود اداروں کے ذمے ہے۔ یعنی خود حکومت، عدلیہ اور دیگر اداروں کو چاہئے کہ ان کا برتاؤ، ان کا عمل ایسا ہو کہ عوام کو ان پر اعتماد ہو۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ البتہ اس ذمہ داری کا ایک حصہ ہمارے اور آپ کے دوش پر بھی ہے، اس کا ایک حصہ ایسے افراد کے دوش پر ہے جن کے پاس پلیٹ فارم ہے، جن کی بات لوگ سنتے ہیں، انھیں چاہئے کہ رسمی یا غیر رسمی پلیٹ فارم سے کچھ باتیں بیان کریں۔ کوئی بھی حکومت عوام کی مدد اور پشت پناہی کے بغیر کچھ بھی کام نہیں کر سکتی۔ نہ ہماری حکومت اور نہ دنیا کی کوئی بھی حکومت۔ ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے جس سے حکومتی اداروں، اجرائی اداروں، خواہ وہ عدلیہ ہو یا مجریہ ہو یا دیگر شعبے جیسے مسلح فورسز ہیں، ان کی نسبت عوام کا اعتماد اور عوامی پشت پناہی ختم ہو جائے۔ مشکلات کا حل یہ نہیں ہے کہ حکومت کو تنہا چھوڑ دیں۔ مشکلات کا حل یہ نہیں ہے کہ ہم ذمہ دار اداروں کی سرگرمیوں سے اعلان لا تعلقی کر دیں۔ جی نہیں، علاج یہ ہے کہ ہم تنقید کریں، اپنی بات کہیں، مدد کریں، فکری مدد کریں، عملی مدد کریں، علاج یہ ہے۔

البتہ حکومت کے عہدیداران جن میں سے بعض خوش قسمتی سے آج یہاں تشریف فرما ہیں، انھیں چاہئے کہ عوام کے نظریات سے استفادہ کریں، ماہرین کے نظریات پر توجہ دیں۔ یہی باتیں جو یہاں بیان کی گئیں، یہ طویل فہرست جو پڑھی گئی، اس فہرست کی بعض چیزیں بہت زیادہ اہم ہیں۔ ملکی کرنسی کی قدر گرنے کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ واقعی کچھ ٹیمیں بنائیں جو بیٹھ کر غور کریں۔ صرف حکومتی ٹیمیں نہیں بلکہ حکومت سے باہر کی ٹیمیں۔ ماہرین اقتصادیات ہیں، ملک میں مالیاتی مسائل کے ماہرین ہیں، ان کے کچھ دعوے ہیں، وہ ہمیں بھی لکھتے ہیں، ہم سے بھی کہتے ہیں، کبھی کبھی اخبارات میں لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان  تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ اس کا ایک راستہ موجود ہے اور ہم وہ راستہ جانتے ہیں۔ اچھی بات ہے۔ ان کو بلائیے، ان سے بات کیجئے۔ وہ راستہ تلاش کیجئے اور اس مشکل کو حل کیجئے۔ یا مثال کے طور پر وہ مسئلہ جو ہم نے حکومت کے سامنے پیش کیا کہ ملک کے اندر موجود لکویڈٹی کو تعمیراتی کاموں اور پروڈکشن کی جانب لے جائیے۔ اس کے لئے ورکنگ کمیٹیوں کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگوں کی ضرورت ہے جو بیٹھیں اور غور کریں۔ اس کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔ یہ کام انجام دیا جانا چاہئے۔ یہ حکومتی عہدیداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان کاموں کو انجام دیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ حکومتی عہدیداروں کو اس جانب متوجہ کریں اور ان کی مدد کریں۔ ہمیں یہ کرنا چاہئے کہ عہدیداران کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے سلسلے میں عوام کو پرامید بنائیں۔ ان کو بھی نظر آئے کہ ہاں کوشش ہو رہی ہے۔ یہ چیز رائے عامہ کی اس فکری گرہ کو کھولے گی۔ بعض افراد رائے عامہ میں پائی جانے والی مشکلات کے سلسلے میں فکرمند ہیں اور یہ فکرمندی بجا بھی ہے، بے جا نہیں ہے۔ جو چیز اس مشکل کو حل کرے گی وہ یہی ہے کہ ہم رائے عامہ اور ذمہ دار محکموں کے درمیان صحیح اور صحتمند رابطہ و اعتماد قائم کریں۔ البتہ صرف خوش فہمی میں رکھنا مراد نہیں ہے۔

کبھی کبھی اس حقیر سے لوگ کہتے ہیں کہ آپ حکومت کو ناراضگی کیوں نہیں دکھاتے۔ وہ منظر عام پر ناراضگی دکھانے کی بات کر رہے ہیں، ورنہ جو خصوصی ملاقاتیں ہوتی ہیں ان کی تو انھیں خبر ہے نہیں! میں میڈیا میں جو آتا ہے اس سے کم از کم دس گنا زیادہ دوسری ملاقاتیں کرتا ہوں عسکری، سول، حکومتی اور عدلیہ کے حکام سے جس کی لوگوں کو خبر نہیں ہوتی۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ میں منظر عام پر ناراضگی دکھاؤں۔ لیکن اس طرح ناراضگی دکھانے کا فائدہ کیا ہے؟ اس کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کے دل کو ٹھنڈک پہنچے گی، بس یہی نا! یعنی اس سے زیادہ کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ ان نقصانات کا تخمینہ لگا لیجئے۔ جھگڑا کرنا اصلاح کا طریقہ نہیں ہے۔ اسی طرح حکومت کے موازی کوئی سسٹم قائم کر دینا بھی اصلاح کا طریقہ نہیں ہے۔ یہ جو جنتی صاحب نے جہادی عمل کی بات کی بالکل صحیح ہے۔ جہادی عمل ہونا چاہئے، لیکن کس کے ہاتھوں؟ خود عہدیداران کے ہاتھوں۔ قانونی دائرے میں یہ عمل انجام پانا چاہئے۔ بے شک یہ ممکن ہے کہ کسی مسئلے میں حکومتی عہدیدار قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اسے انجام نہ دے سکتا ہو، قانون کے دائرے سے باہر جاکر اسے کام کرنا پڑے، ایسی صورت میں اسے ہم سے اجازت لینے کی ضرورت پیش آئے۔ ایسی صورت میں ہم یقینا مدد اور  تعاون کریں گے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسے وہی اقدام جو عدلیہ کے محترم سربراہ نے کیا (17)۔ لیکن کام خود متعلقہ حکام کے ذریعے انجام پانا چاہئے۔ حکومتی سسٹم کے موازی سسٹم قائم کرکے کام انجام دینے سے کامیابی نہیں ملے گی۔ ان برسوں میں یہ اس حقیر کا یقینی تجربہ کہتا ہے۔ بے شک کام مجاہدانہ انداز میں ہونا چاہئے، لیکن جہادی فعل کسے انجام دینا ہے؟ متعلقہ حکام یہ کام انجام دیں۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ تھا۔

میں نے عرض کیا کہ دشمن کوئی اقدام کرتا ہے اور ہم یقینی طور پر دشمن کو اس مرحلے میں اور آئندہ کے تمام مراحل میں توفیق  خداوندی سے شکست سے دوچار کریں گے۔  وَ لَو قاتَلَکُمُ الَّذینَ کَفَروا لَوَلَّوُا الاَدبارَ ثُمَّ لا یَجِدونَ وَلِیًّا وَ لا نَصیرًا * سُنَّةَ اللهِ الَّتی قَد خَلَت مِن قَبلُ وَ لَن تَجِـدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبدیلًا.(18) اگر کافر دشمن آپ سے نبرد آزما ہو تو یقینا وہ پسپائی پر مجبور ہوگا۔ البتہ تب جب آپ پیکار کریں گے۔ جب آپ جدوجہد کریں گے، اگر آپ بیٹھے رہ گئے، آپ نے کچھ نہ کیا تب نہیں۔ لیکن اگر ہم نے اقدام کیا، اگر ہم کام کر رہے ہیں، تو دشمن کی شکست یقینی ہے۔ ہم نے گزشتہ مدت میں اس کا بارہا مشاہدہ کیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ روحانی میدانوں میں بھی یہی اصول ہے۔

یہاں میں ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے ایک کتاب (19) ابھی حال ہی میں پڑھی ہے جو مجھے بڑی دلچسپ لگی۔ نوجوان لڑکی اور لڑکا، میاں بیوی، 1990 کے عشرے کی پیدائش ہے، بیٹھ کر نذر کرتے ہیں کہ اگر ان کی شادی میں کوئی گناہ نہ ہوا تو تین مہینے روزہ رکھیں گے! میرے خیال میں اسے تو تاریخ میں درج کیا جانا چاہئے کہ ایک نوجوان لڑکی اور لڑکا اس لئے اللہ سے توسل کرتے ہیں کہ تین مہینہ روزہ رکھیں گے کہ ان کی شادی کے جشن میں غیر عمدی طور پر بھی کوئی گناہ نہ ہو۔ یہ لڑکا حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے روضے کی حفاظت کے لئے روانہ ہوتا ہے، لڑکی نہ چاہتے ہوئے بھی رونے لگتی ہے تو اس کا دل کانپ اٹھتا ہے۔ وہ اس لڑکی سے، یعنی اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تمہارے گرئے سے میرا دل لرز رہا ہے لیکن میرے ایمان میں کوئی لرزش نہیں ہے۔ وہ لڑکی کہتی ہے کہ میں تمہیں جانے سے نہیں روکوں گی، میں ان عورتوں جیسی نہیں ہونا چاہتی جو قیامت کے دن حضرت فاطمہ زہرا کی بارگاہ میں شرمندہ ہوں گی! آپ ذرا غور کیجئے کہ یہ سو سال پہلے اور دو سو سال پہلے کے واقعات نہیں ہیں۔ دو سال، تین سال قبل، انھیں حالیہ برسوں کے واقعات ہیں۔ انھیں گزرے ہوئے ایام کی بات ہے۔ آج یہ صورت حالت ہے۔ ہماری نوجوان نسل میں ایسے افراد موجود ہیں۔ ان کے درمیان ایسی درخشاں حقیقتیں موجود ہیں۔ انھیں نوٹ کرنا چاہئے۔ ان حقائق پر توجہ دینا چاہئے، انھیں سمجھنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ یہ ایسی صرف ایک مثال نہیں ہے کہ کوئی کہے کہ جناب ایک پھول سے تو بہار نہیں آتی! جی نہیں، یہ ایک گل کا واقعہ نہیں ہے ایسے پھولوں کا پورا گلستاں ہے۔ یہ دونوں میاں بیوی جن کا میں نے ذکر کیا طالب علم تھے۔ وہ لڑکا بعد میں جاکر شہید ہو جاتا ہے۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے روضہ اقدس کے گراں قدر شہید پاسبانوں میں شامل ہوتا ہے۔ حالات ایسے ہیں۔

ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم روحانی و مادی دونوں میدانوں میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ توفیق خداوندی سے ہم روحانی و مادی دونوں میدانوں میں استکبار کو شکست دیں گے اور اسے گھنٹے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔ ہم ثابت کر دیں گے کہ اسلام کے پاس ایسے طرفدار ہوں جو جہاد کے لئے اور دفاع کے لئے پوری طرح آمادہ ہوں تو وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں کامیاب و فتحیاب ہو سکتا ہے اور یہ تمام مسلمانوں کے لئے نمونہ عمل ہوگا۔

پروردگارا! ہم نے جو کچھ کہا، ہم جو کچھ کرتے ہیں، ہم نے جو کیا اور جو سنا وہ سب اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے۔ ہم نے جو کچھ کہا اور کہیں گے اس میں برکت عطا فرما۔ ہمیں اسلام کی راہ پر زندہ رکھ اور اسی راہ میں موت دے۔

 

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو پانچویں دور کی ماہرین اسمبلی کے پانچویں اجلاس کے اختتام پر انجام پائی، اسمبلی کے چیئرمین آیت اللہ احمد جنتی اور اسمبلی کے نائب ڈپٹی چیئرمین آیت اللہ محمد علی موحدی کرمانی نے رپورٹیں  پیش کیں۔

۲) سوره‌  مائده، آیت نمبر ۵۵؛ «تمہارا ولی صرف اللہ اس کے رسول اور وہ ہیں جو ایمان لائے، وہی لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات عطا کرتے ہیں۔

۳) سوره‌ دہر

4) آیت‌ الله اسد الله ایمانی (شیراز کے سابق امام جمعہ اور ماہرین اسمبلی کے سابق رکن)

5) آیت‌ الله حبیب ‌الله مہمان ‌نواز (بجنورد کے سابق امام جمعہ اور ماہرین اسمبلی کے سابق رکن)

6) آیت‌ الله محمود ہاشمی ‌شاہرودی (ماہرین اسمبلی کے نائب صدر اور نگراں کونسل کے رکن)

7) سوره‌ مبارکه‌ ابراهیم،  آيت نمبر ۲۴ کا ایک حصہ؛ «… کہ اسکی جڑ مستحکم اور شاخ آسمان میں ہے۔»

8) سوره‌ انفال، آیت نمبر ۶۵ کا ایک حصہ؛ «...اگر تمہارے درمیان بیس لوگ تحمل اور صبر کرنے والے ہوں تو دو سو پر غالب آ جائیں گے۔...»

9) سوره‌ انفال،  آیت نمبر ۶۶ کا ایک حصہ؛ «...تو اگر تمہارے درمیان سو افراد صبر و تحمل والے ہوں تو دو سو پر فتحیاب ہو جائیں گے۔..»

10) سوره‌  توبه، آیت نمبر ۲۵ کا ایک حصہ؛ «...اور جنگ حنین کے دن بھی، جب تمہاری بڑی تعداد نے تمہیں خوشکن حیرت میں ڈال دیا تھا لیکن اس بڑی تعداد نے تم سے خطرے کو دور نہیں کیا۔...»

11) تحف‌ العقول، صفحہ ۱۷۳

12) مورخہ 29 اگست 2018 کو صدر مملکت اور کابینہ سے خطاب

13) سوره‌ توبه، آيت نمبر ۱۰۲ کا ایک حصہ؛ «...اچھے کام کو برے کام سے ملا دیا ہے، امید ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے گا۔..»

14) سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۷۰ اور ۷۱؛ «اے وہ لوگو جو ایمان لائے، خدا کا خوف رکھتے ہیں، محکم بات کہو تاکہ تمہارے اعمال کی اصلاح کرے اور تمہارے گناہوں کو بخش دے۔..»

15) سوره‌ مائده،  آيت نمبر ۶٣ کا ایک حصہ

16) نهج ‌البلاغه، موعظه‌ ۹۳؛ «...گمراہ کن فتنے...»

17) مورخہ 11 اگست 2018  کو عدلیہ کے سربراہ کے خط کے جواب میں رہبر انقلاب اسلامی کے خط کی جانب اشارہ ہے۔

18) سوره‌  فتح، آیات ۲۲ و ۲۳؛ «اور اگر وہ لوگ جو کافر ہو گئے، تمہارے خلاف جنگ کے لئے کھڑے ہو جائیں تو یقینا وہ پیٹھ دکھائیں گے، پھر ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ شروع سے سنت خداوندی یہی رہی ہے۔ اور سنت الہیہ میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔

19) کتاب «یادت باشد» (یاد رکھنا) پاسبان حرم شہید حمید سیاہکلی مرادی کا زندگی نامہ۔