بسم الله الرّحمن الرّحیم

آج کا دن میرے لئے بڑا شیریں اور ناقابل فراموش ہے۔ سب سے پہلے تو میں اللہ تعالی کا شکر بجا لاتا ہوں کہ محرم کے ایام، عشرہ عاشور پوری عظمت و شوکت کے ساتھ، عوام کی زیادہ بامعنی اور وسیع تر شرکت کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، اس پر شکر ادا کرنا چاہئے۔ آپ اسلام، عاشورا اور اسلامی اقدار کے فرزند ہیں۔ ہمیں آپ پر ناز ہے۔

دو روز قبل اہواز میں پیش آنے والے اس تلخ واقعے کا بھی ذکر کرتا چلوں۔ یہ حملہ اس بات کی علامت ہے کہ جس راہ پر ہم رواں دواں ہیں، جو افتخار، رفعت اور پیشرفت کا راستہ ہے، اس میں ہمیں بہت سے دشمنوں کا سامنا ہے۔ یہ بات آپ سب ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھئے کہ ہمارے بہت سے دشمن ہیں۔ البتہ جو اقدام انھوں نے کیا وہ ایک بزدلانہ اقدام ہے۔ جب آپ مشین گن سے حملہ کرتے ہیں ایسے لوگوں پر جن کے پاس نہ اسلحہ ہے، نہ دفاعی توانائی ہے تو ظاہر ہے کہ کچھ لوگ شہید ہوں گے، مگر یہ عمل شجاعانہ عمل نہیں بلکہ بزدلانہ عمل ہے۔ شجاعانہ کام تو ہمارے نوجوانوں نے کیا۔ آپ نے اسپورٹس کے میدان میں، ایک جماعت نے مقدس دفاع کے میدان میں، ایک جماعت نے علم و دانش کے میدان میں، یہ شجاعانہ اور قابل قدر کام ہیں۔ مجھے اب تک جو اطلاعات ملی ہیں ان کے مطابق یہ کام انھیں لوگوں کا ہے جو شام میں، عراق میں کہیں پھنس جاتے ہیں تو امریکی جاکر انھیں نجات دلاتے ہیں۔ وہی لوگ جنہیں سعودی عرب اور امارات سے مالیاتی مدد ملتی ہے۔ البتہ ہم ان کی گوشمالی کریں گے، ان شاء اللہ ان کی سخت گوشمالی کریں گے۔

آپ نے جو کامیابی حاصل کی اس کے بارے میں میں نے کچھ نکات نوٹ کئے ہیں جو آپ کی خدمت میں عرض کروں گا۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے کہا حقیقی میڈل تو خود آپ ہیں۔ ماہر، مومن، ذی فہم، سنجیدہ، محنتی افرادی قوت کسی بھی ملک کے لئے سب سے گراں بہا سرمایہ ہوتی ہے ایسی افرادی قوت۔ ایسی افرادی قوت کے ساتھ ہم جس میدان میں بھی قدم رکھیں گے، ہمیں پیشرفت حاصل ہوگی۔ چنانچہ اسپورٹس کے میدان میں الحمد للہ ہمیں پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ جو کھیل ہمارے یہاں ماضی میں نہیں تھے ان میں ہم ان ملکوں پر فتحیاب ہوتے ہیں جنہوں نے اس کی بنیاد رکھی ہے۔ خواتین، لڑکیاں، لڑکے کھیل کے مختلف شعبوں میں میڈل جیت رہے ہیں جو باعث افتخار ہے۔ الحمد للہ آپ فتحیاب ہوئے۔

ایک نکتہ یہ ہے کہ آپ جان لیجئے، ویسے آپ اس سے آگاہ ہیں کہ عالمی استکبار کا محاذ ہمیں حاصل ہونے والی ہر فتح و کامرانی سے خشمگیں و غضبناک ہوتا ہے۔ خواہ وہ اسپورٹس کے میدان کی فتح ہو، یا جنگ کے میدان کی کامیابی ہو، یا علم و دانش کے میدان کی پیشرفت ہو۔ ہم کسی بھی میدان میں فتحیاب ہوتے ہیں تو وہ سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ یعنی آپ کی یہ فتح در حقیقت استکبار کے محاذ کے خلاف فتح بھی ہے۔ آپ نے انھیں بھی شکست دی، چراغ پا کر دیا اور اب وہ خون دل پینے پر مجبور ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو آپ کو فتح سے روکنے کے لئے ریفری کو پیسے تک دینے پر آمادہ رہتے ہیں۔ یہ ایسے دشمن ہیں۔ جب آپ کو فتح ملتی ہے تو وہ در حقیقت ذہنی اور جذباتی اعتبار سے ہزیمت اٹھاتے ہیں۔ شکست صرف اس حریف کو نہیں ہوتی جو آپ کے مد مقابل میدان میں ہے۔ پس پردہ ایک وسیع محاذ کو بھی آپ کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے۔ اسی لئے مجھے آپ پر فخر ہے۔

میں بعض اوقات آپ کی فتح پر آپ کے لئے پیغام جاری کرتا ہوں اور اظہار تشکر کرتا ہوں، در حقیقت یہ میرے دل سے نکلنے والی بات ہوتی ہے۔ یعنی میں دل کی گہرائی سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس لئے کہ آپ ملت ایران کو در حقیقت ایک ملی فتح عطا کرتے ہیں، عوام کو خوش کرتے ہیں۔ یہ ایک نکتہ ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کھیل کے ہمارے بعض مقابلوں میں ہماری فتح سے دنیا کے دیگر ممالک میں بھی دسیوں لاکھ افراد مسرور و شادماں ہوتے ہیں۔ ایران اور امریکہ کے تاریخی میچ، فٹبال کے مشہور میچ سے مصر میں، بیروت میں اور بہت سے دیگر ممالک میں لوگ خوش ہوئے۔ ان کی ہم سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے لیکن ہماری فتح پر وہ خوش ہوتے ہیں۔ تو آپ کی فتح ایک وسیع محاذ کو غمزدہ کرتی ہے اور بہت اچھا ہے کہ غمزدہ کرتی ہے کیونکہ وہ محاذ ساری انسانیت کا دشمن ہے، جبکہ یہی فتح عوام کی بہت بڑی تعداد کو مسرت عطا کرتی ہے، کیونکہ یہ ان عوام کی بھی فتح شمار ہوتی ہے۔

ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ دشمن کے تشہیراتی اداروں کے ذریعے عام طور پر ہماری کامیابیوں کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ سائنسی میدان میں ہم بہت بڑی کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں۔ ہمارے عوام میں بھی بہت سے لوگ نہیں جانتے، ہمیں اطلاع ہے۔ دنیا کے جدید علوم کے متعدد شعبوں میں علمی سطح پر صف اول کے دس ملکوں میں ہم شامل ہیں۔ یعنی دو سو سے زائد ملکوں میں ہم پہلے دس ملکوں میں شامل ہیں۔ بعض میدانوں میں تو دنیا کے پہلے چھے سات ملکوں میں ہمارا نام ہے۔ ان چیزوں کو عام طور پر چھپاتے ہیں، بتانے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے۔ مختلف میدانوں میں حاصل ہونے والی گوناگوں کامیابیوں کو چھپاتے ہیں۔ مگر اسپورٹس کے میدان میں ملنے والی فتح کو کوئی چھپا نہیں سکتا۔ یہ آپ کے شعبے کی خصوصیت ہے۔ یعنی آپ جب اسپورٹس کے میدان میں کامیابی حاصل کرتے ہیں تو کوئی بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ اسے ساری دنیا، کروڑوں لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ آپ کے شعبے کی خوبی ہے۔

میری نظر میں ایک اور اہم نکتہ آپ کا برتاؤ ہے۔ کھیل کے میدان میں اس سال بھی اور گزشتہ برسوں میں بھی یہی ہوا کہ آپ نے اپنی ایرانی و اسلامی شناخت کو حقیقی معنی میں متعارف کرایا، اپنی ایرانی و اسلامی ماہیت کو آپ لڑکوں نے بھی اور لڑکیوں نے بھی بخوبی منعکس کیا۔ سجدہ کیا، دعا کی، ہماری ایرانی بچی نے صدر سے مصافحہ نہیں کیا کیونکہ وہ نا محرم تھے۔ ان چیزوں کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ یہ چیزیں بہت اہم ہیں۔ ٹیلی ویژن نے کبڈی ٹیم کی رکن ان لڑکیوں کی تصویر دکھائی جنہوں نے سجدہ کیا۔ ٹی وی پر یہ منظر نشر ہوا۔ یہ چیزیں بہت اہم ہیں۔ ان کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ مادی تخمینوں اور اندازوں سے بالاتر ہیں۔ ہماری لڑکیاں جو کھیل کے میدانوں میں اتریں وہ بہت وقار اور متانت کے ساتھ اتریں۔ سب اسلامی حجاب کے ساتھ اور بعض تو مخصوص ایرانی اسلامی چادر میں اتریں، چادر ساری دنیا میں ایرانی عورت کی شناخت ہے۔ یہ چیزیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ جو آپ نے اپنے میڈل شہید کو یا پاسبان حرم کو ہدیہ کر دئے، ایک چیمپیئن نے اپنا میڈل شہید پاسبان حرم کو ہدیہ کر دیا۔ ایک چیمپیئن نے اپنے شہید چچا کو ہدیہ کر دیا۔ ان چیزوں کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ یہ قدم آپ کی انقلابی، اسلامی ایرانی شناخت کو ثابت کرتا ہے۔ یہی چیزیں قوم کو رفعت دلاتی ہیں۔ استکبار کی مسلط کردہ روایات کے سامنے سر جھکا دینا افتخار کی بات نہیں ہے۔ افتخار تو یہ ساری چیزیں ہیں۔ یہی اصلی چیمپیئن شپ ہے۔ بعض ممالک میں کچھ چیمپیئن ہیں۔ مگر یہ کرائے پر حاصل کئے گئے چیمپیئن ہیں۔ کسی اور ملک سے کرائے پر انھیں حاصل کیا گیا ہے۔ کرائے پر حاصل کیا گيا چیمپیئن تو اس ملت کی شناخت و ماہیت کا آئینہ نہیں ہو سکتا۔ وہ اصلی چیمپیئن جو ملت کے درمیان سے نکل کر آیا ہے وہ اپنی قوم کی نمائندگی کر سکتا ہے اور اپنی ملت کی شناخت کا آئینہ قرار پا سکتا ہے۔ یہ کام آپ نے کیا ہے اور اس کی بہت اہمیت ہے۔

میں آپ سے یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی آپ کو خو‌فزدہ نہ کرنے پائے۔ آپ کو اس بات سے کوئی نہ ڈرائے کہ اگر آپ فلاں مقابلے میں شامل نہ ہوئے، فلاں کام آپ نے نہ کیا، اگر فلاں انداز میں ظاہر نہ ہوئے تو فلاں فیڈریشن یا فلاں بین الاقوامی ادارہ آپ سے ناراض ہو جائے گا! جہنم میں جائے! ناراض ہوتا ہے تو ہوا کرے! وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ہمارے اس علی رضا کریمی کو دھمکی دی۔ مگر وہ اس سال گیا اور جاکر چیمپیئن شپ جیت کر واپس آیا۔ سال گزشتہ اس مقابلے میں وہ شامل نہیں ہوا یعنی در حقیقت اس سے پہلے ہی اپنا مقابلہ عمدی طور پر ہار گيا(1)، اس قابل قدر عمل کے باعث اسے بھی دھمکی دی، کشتی فیڈریشن کو بھی دھمکی دی۔ ان دھمکیوں سے ہرگز متاثر نہ ہوئیے، آپ اپنا کام کرتے رہئے۔ آپ اپنے اس راستے پر گامزن رہئے۔ اپنے ہدف کی جانب بڑھتے رہئے۔ کھیل کا میدان، ڈر اور ہراس کا میدان نہیں ہے۔ یہ شجاعت، اقدام اور آگے بڑھنے کا میدان ہے۔ اقدار اور اصولوں کو اس لئے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کسی جگہ ہمیں کوئی میڈل حاصل ہو جائے۔ آپ جو اپے سینے پر لکھتے ہیں یا علی، یا زینب، یہ بھی بہت اہم ہے۔ اس کی بے پناہ اہمیت ہے۔ فتح ملنے کے بعد آپ جو سجدہ کرتے ہیں، اس کی نہایت درجہ اہمیت ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ان چیزوں کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔ حساب کتاب کے دائرے سے یہ چیزیں بہت بلند تر ہیں۔ اس پر آپ کی توجہ رہے۔ بہرحال ان خصوصیات کو آپ کچھ لوگوں کی مسلط کردہ، باطل، جھوٹی اور غلط روایات اور مطالبات کے سامنے ترک نہ کیجئے، ہرگز پسپائی مت اختیار کیجئے۔

ایک نکتہ ہے جس کے بارے میں میں آپ کو سفارش کرنا چاہوں گا، وہ یہ ہے کہ چیمپیئن پر لوگوں کی نگاہیں ہوتی ہیں۔ سب آپ کو دیکھتے ہیں۔ آپ ہمیشہ لوگوں کی نگاہ میں رہتے ہیں، لوگ آپ کو پہچانتے ہیں۔ صرف کھیل کے میدان میں آپ کو نہیں پہچانتے بلکہ سڑک پر، کام کی جگہ اور دیگر مقامات پر سب آپ کو پہچانتے ہیں۔ آپ نیکی، شرافت و نجابت اور طہارت کا نمونہ قرار پا سکتے ہیں۔ آپ چیمپیئن شپ کے مقابلے اور کھیل کے میدان کے باہر بھی ایسا سلوک اختیار کیجئے کہ وہ کھیل کے میدان میں آپ کے سلوک سے مطابقت رکھتا ہو۔ ہمارے ایسے بھی کچھ لوگ تھے جو کھیل کے میدان میں تو درخشاں کارکردگی کے مالک تھے لیکن بعد میں باہر انھوں نے ایسا عمل کیا جو ان کے شایان شان نہیں تھا۔

چیمپیئن رہتے ہوئے متواضع بھی رہا جا سکتا ہے، چیمپیئن رہتے ہوئے دیندار بھی رہا جا سکتا ہے، چیمپیئن رہتے ہوئے ایک اچھی ماں کا کردار بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔ ان خواتین میں سے ایک نے ثابت کر دیا کہ بہترین ماں ہیں۔ چیمپیئن رہتے ہوئے نمونہ انقلابی بھی ہوا جا سکتا ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں آپ ذہن نشین رکھئے اور ان پر توجہ دیجئے۔

میں یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ بعض اوقات مقابلے کے میدان میں جانے سے اجتناب بھی چیمپیئن شپ ہے۔ آپ دیکھئے کہ یہ جو ہنگامہ برپا کرتے ہیں کہ آپ صیہونی حکومت کے لوگوں سے کبھی کوئی میچ کیوں نہیں کھیلتے، اس سے کشتی کیوں نہیں لڑتے، فلاں کام کیوں نہیں کرتے؟ یہ سب اس لئے ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران کو اس کے محکم اور مستقیم راستے سے ہٹا دینا چاہتے ہیں جس پر وہ اول انقلاب سے گامزن ہے۔

ہم نے انقلاب کے شروع میں ہی اعلان کر دیا کہ دو حکومتوں کو ہم قبول نہیں کرتے۔ یہ نہیں کہ ہمارا رابطہ نہیں ہے، سرے سے ہم انھیں تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ایک صیہونی حکومت تھی اور دوسری جنوبی افریقا کی اپارتھائیڈ حکومت تھی۔ جو لوگ آج دنیا میں انسانی حقوق کا دم بھرتے ہیں اور بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، ان کے اس حکومت سے بھی جس کے پیچھے پیچھے وہ اب بھی رہتے ہیں اور جنوبی افریقا کی اپارتھائیڈ حکومت سے بھی آخری لمحے تک ان کے روابط تھے۔ یعنی وہ حکومت جو ان مٹھی بھر سفید فاموں نے تشکیل دی تھی جو دسیوں لاکھ سیاہ فام لوگوں اور سرزمین کے اصلی مالکان پر مسلط تھی، یہ سفید فام برطانیہ سے گئے تھے، وہ در اصل انگریز تھے، برسوں تک، شاید تقریبا سو سال تک، اس وقت مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے، وہ اس ملک پر مسلط رہے۔ ہم نے کہا کہ ہم اس کو نہیں مانتے۔ جنوبی افریقا وہاں کے عوام کی سرزمین ہے غاصب انگریزوں کی ملکیت نہیں ہے۔

یہ جناب نیلسن منڈیلا (2)  جب جیل سے رہا ہوئے تھے تو آئے اور اسی کمرے میں بیٹھے، اسی جگہ جہاں آپ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں وہ بھی بیٹھے، صدر بننے سے پہلے۔ میں نے انھیں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا پورا ماجرا بتایا، میں نے امام (خمینی) کی جدوجہد کی تشریح کی، میں نے بتایا کہ امام (خمینی) کی جد و جہد ایسی تھی۔ آپ نے گولیوں، بندوقوں اور مسلحانہ بغاوت جیسی چیزوں کا سہارا نہیں لیا۔ عوام الناس کے سامنے اپنی بات پیش کی، عوام کے دلوں کو قائل کیا، عوام اپنے پورے وجود سے سڑکوں پر اتر پڑے۔ جب عوام اپنے پورے وجود سے شجاعت کے ساتھ سڑکوں پر نکل پڑیں تو کوئی بھی حکومت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی، ان پر غلبہ نہیں پا سکتی۔ میں نے محسوس کیا کہ اس بات سے نیلسن منڈیلا متاثر ہوئے۔ منڈیلا یہاں سے گئے تو جنوبی افریقا میں سڑکوں پر مظاہروں کا سلسلہ چل پڑا اور اپارتھائیڈ (3) حکومت کے خاتمے تک رکا نہیں۔ تو یہ حکومت بھی سرنگوں ہو جائے گی، یہ حکومت بھی واقعی نسل پرست، اپارتھائیڈ، غاصب، خبیث صیہونی حکومت ہے۔ یہ بھی سرنگوں ہو جائے گی۔ ہم اس کے افراد کے ساتھ کسی بھی مقابلے میں شرکت نہیں کریں گے۔ یہ چیز اپنے آپ میں چیمپیئن شپ ہے۔ ہمارا چیمپیئن اور ہمارا پہلوان اگر اس سے کشتی لڑنے یا میچ کھیلنے پر آمادہ نہ ہو تو یہ انکار اپنے آپ میں چیمپیئن شپ ہے۔ اگر  ہمارا پہلوان بین الاقوامی پروٹوکول کے مطابق صیہونی حکومت کے افراد سے مقابلہ کرنے سے اجتناب کی غرض سے پہلے ہی اپنا میچ عمدا ہار جائے تو یہ چیمپیئن شپ ہے۔ گزشتہ سال جب علی رضا کریمی صاحب یہاں آئے تھے تو میں نے ان سے کہا تھا، میں نے کہا کہ آپ چیمپیئن ہیں۔ یہ جو آپ نہیں گئے، یعنی اس انداز سے عمل کیا کہ صیہونی حکومت کے کھلاڑی سے مقابلے کی نوبت نہ آئے، خواہ اس کے لئے آپ کو عمدا شکست کھانا پڑے تو ظاہر ہے یہ ایک کشتی گیر کے لئے بہت سخت کام ہے۔ حریف مقابل کو شکست دے سکتا ہے لیکن شکست نہیں دیتا۔ یہ بہت دشوار کام ہے۔ آپ نے یہ سختی اٹھائی تو یہ چیمپیئن شپ ہے۔ اسی کو اصلی چیمپیئن شپ کہتے ہیں۔ بہر حال آپ سب بڑے قیمتی نوجوان ہیں۔ لڑکے لڑکیاں، آپ جس میدان میں بھی کام کر رہے ہیں، سب بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اسپورٹس کے میدان میں محنت کا سلسلہ جاری رکھئے۔ جب ممکن ہو اور جب تک دلچسپی رہے اس میدان میں کام کیجئے۔ اسپورٹس کسی پہاڑ کی چوٹی کی مانند ہے۔ اس شعبے کو اس انداز سے کام کرنا چاہئے کہ عوام الناس اس چوٹی کی جانب گامزن ہوں۔ یہ مراد نہیں ہے کہ سب مقابلوں میں شرکت کریں بلکہ مقصد یہ ہے کہ ورزش کی عادت سب کو رہے۔ عوام کی نگاہ میں ورزش ایک شیریں چیز بنے۔ نوجوانوں سے لیکر ہم جیسے بوڑھوں تک سب ورزش کریں۔ ہم بھی اپنے بڑھاپے کے مطابق ورزش کرتے ہیں البتہ بوڑھوں والی ورزش۔

اللہ آپ سب کو کامیابی دے۔ آپ سب کو اچھا اور خوش نصیب بنائے۔ میں نے ان سب سے انگوٹھیاں دینے کا وعدہ کیا ہے وہ انھیں دیجئے! جی ہاں، خواتین کو بھی اور مرد حضرات کو بھی۔ ہمیشہ کامیاب رہئے۔ میں بھی آپ کے لئے دعا کرتا رہوں گا۔

و السّلام علیکم‌

۱) علی رضا کریمی

۲) جنوبی افریقا کے مجاہد رہنما اور سابق صدر

۳) نسلی امتیاز کی ایک شکل