بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المعصومین المکرّمین سیّما بقیّة الله فی الارضین. السّلام علیک یا ابا عبد الله و علی الارواح الّتی حلّت بفنائک علیک منّی سلام الله ابداً ما بقیت و بقی اللّیل و النّهار و لا جعله الله آخر العهد منّی لزیارتک السّلام علی الحسین و علی علیّ بن الحسین و علی اولاد الحسین و علی اصحاب الحسین.

امام سید الساجدین حضرت علی ابن الحسین علیہ السلام کی شب شہادت کا موقع ہے۔ عاشور کے بعد کے یہ بہت اہم ایام ہیں۔ در حقیقت یہ زینبی پیکار کے ایام ہیں۔ ان دنوں کربلا، کوفہ، شام اور اس کے بعد مدینہ کا راستہ حضرت زینب کبری، امام زین العابدین اور بقیہ اسیران کربلا کے نورانی و پرشکوہ مشن کا راستہ قرار پایا۔ ان ہستیوں نے اپنے اس پیکار سے عاشور کے واقعے کو ابدیت بخشی، اسے لازوال بنایا، دوام عطا کیا۔ ہم بھی ان ایام میں ان عظیم الشان شہیدوں سے قلبی رابطے کا زیادہ احساس کرتے ہیں۔ اربعین بھی آنے والا ہے۔ ہماری قوم، عراق کے عوام، دیگر اقوام سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد اربعین کے عظیم الشان پروگرام کی تیاری میں مصروف ہیں۔ اربعین کا عظیم الشان پروگرام ایک غیر معمولی روایت ہے جو لطف و فضل خداوندی سے ایسے حالات میں نمایاں ہوئی ہے جب عالم اسلام کو اس پرشکوہ عمل کی سخت ضرورت ہے۔ ہم اپنے دل و دماغ میں سید الشہدا کی اس یاد کی قدردانی کرتے ہیں۔ ہم ان بزرگوار، ان عظیم ہستیوں اور شہدا کی پاکیزہ خاک کو درود و سلام بھیجتے ہیں اور یہ عرض کرنا چاہتے ہیں؛

ای صبا ای پیک دور افتادگان - اشک ما بر خاک پاکشان رسان (۲)

آج کا یہ عظیم الشان اجتماع، یہ جوش و جذبے سے بھرے رضاکار نوجوانوں کا اجتماع سنہ 1980 کے عشرے میں (3) اسی اسٹیڈیم میں ہونے والے اجتماع کی یاد تازہ کر رہا ہے۔ اس اجتماع میں شرکت کرنے والے نوجوان گئے اور فتحیاب ہوئے۔ ان شاء اللہ آپ بھی در پیش میدانوں میں مکمل کامیابی حاصل کریں گے۔

یہ عظیم اجتماع بڑے حساس حالات میں منعقد ہوا ہے۔ وطن عزیز کے حالات، علاقے کے حالات، دنیا کے حالات بہت حساس ہیں، خاص طور پر ہم ملت ایران کے لئے۔ حساس اس پہلو سے ہیں کہ ایک طرف استکبار کے عمائدین اور دنیا کو ہڑپ جانے کا خواب دیکھنے والے امریکی سیاستدانوں کی دہاڑیں ہیں اور دوسری طرف مختلف میدانوں میں مومن نوجوانوں کی توانائیوں کے جلوے اور پیہم حاصل ہونے والی فتوحات ہیں۔ ایک طرف ملک کی اقتصادی مشکلات اور عوام کے ایک بڑے حصے کی معیشتی سختیاں ہیں اور دوسری جانب ملک کے مفکر اور دانشور طبقے کا متحرک ہو جانا ہے جو ان حالات میں اپنے فریضے کو محسوس کرتے ہوئے فکری و عملی تگ و دو میں مصروف ہو گئے ہیں۔ مشکلات در پیش ہونے کی وجہ سے وطن عزیز غنودگی اور بے عملی کی حالت سے نکل آیا ہے۔ بہت سے لوگ جو اب تک تماشائی تھے، اپنے فرائض کو محسوس کرتے ہوئے محنت میں لگ گئے ہیں۔ اس کے گوناگوں پہلو ہیں۔ یہ بڑے خاص حالات ہیں اور ان حالات میں یہ اجتماع تشکیل پایا ہے۔

آج میری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے؛ ایک تو ایران کی عظمت، دوسرے اسلامی جمہوریہ کی قدرت و توانائی اور تیسرے مملکت ایران کا ناقابل تسخیر ہونا۔

یہ رجز خوانی نہیں ہے۔ یہ محض نعرے بازی نہیں ہے۔ یہ کھوکھلی باتیں اور کھوکھلے نعرے نہیں ہیں جو کچھ دوسرے افراد کے منہ سے سنائی دیتے ہیں۔ یہ ایسے حقائق ہیں کہ جن کے بارے میں ملت ایران کے دشمنوں کی آرزو یہ ہے کہ ہم ان سے ناواقف رہیں، ان کی طرف سے غافل رہیں اور اپنے ملک اور اپنی قوم کے بارے میں کسی اور سوچ اور کسی اور طرز فکر میں مبتلا رہیں۔ مگر یہ حقائق اتنے واضح ہیں کہ کسی کے لئے بھی ان کا انکار ممکن نہیں ہے۔

میں نے ایران کی عظمت کی بات کی ہے تو صرف زمانہ حال کی بات نہیں ہے۔ ایران کی عظمت ایک تاریخی حقیقت ہے۔ تاریخ میں ہمارے وطن عزیز نے علم کے میدانوں میں، فلسفے کے میدانوں میں، سیاست کے میدانوں میں، فن و ہنر کے میدانوں میں، مسلم اقوام کے درمیان اسلامی علوم کی علمبرداری کے میدانوں میں اور ایک دور میں تو پوری دنیا کی اقوام کی علمبرداری کے میدان میں کامیابی و سربلندی حاصل کی اور اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ ایران کی عظمت ایک واضح حقیقت ہے جس کی ہر منصف مزاج انسان تصدیق کرتا ہے۔ البتہ یہ خصوصیت ہمارے اس زمانے کی اور تاریخ کے ادوار کی ہے۔ اس پوری تاریخ میں دو سو سال مستثنی ہیں۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے کے دو سو سال، قاجاریہ دور کے اواسط سے لیکر پہلوی دور کے اختتام تک اس دو سو سالہ مدت میں، ایران کی عظمت کو بد قسمی سے گرہن لگ گیا، البتہ ہماری اس وقت کی بحث کا اس سے کوئی ربط نہیں ہے۔

اسلامی جمہوریہ کی قدرت و توانائی ثابت کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ اسلامی جمہوریہ نے ایران کو برطانیہ اور امریکہ کے تسلط سے آزاد کرا دیا۔ یہ تسلط تقریبا انیسویں صدی کے اوائل سے شروع ہوا اور ملک کے تمام امور بے رحم اور متکبر بیرونی عناصر کی مٹھی میں چلے گئے۔ اسلامی جمہوریہ کی قوت و طاقت کے ثبوت کے لئے یہی کافی ہے کہ اس نے اس ملک کو اور اس قوم کو اس ظالمانہ تسلط سے نجات دلا دی۔ اسی طرح اسلامی جمہوریہ کی طاقت کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے موروثی استبدادی سلطنتی نظام سے نجات دلا دی۔ اسی طرح اسلامی جمہوریہ نے اپنی اس چالیس سالہ زندگی میں دشمنوں کی جارحیتوں کا ڈٹ کر سامنا کیا اور ان حالیہ صدیوں میں پہلی دفعہ یہ منظر دیکھنے میں آیا کہ اسلامی جمہوریہ نے ملک کو تقسیم ہونے سے بچا لیا۔ اسلامی جمہوریہ کا دور شروع ہونے سے پہلے پہلوی دور میں اور قاجاریہ دور میں جب بھی کوئی جنگ ہوئی تو دشمنوں نے یا تو ملک کے ایک حصے کو اس سے الگ کر دیا یا دشمن فوج ملک پر مسلط ہو گئی اور اس نے عوام کی تحقیر کی۔ ایسا پہلی دفعہ ہوا کہ ملت ایران نے آٹھ سالہ جنگ میں دشمن کو بڑے وسیع محاذ پر ہر جگہ شکست دی، دشمنوں کو ملک سے باہر نکالا، ملک کی ارضی سالمیت کی حفاظت کی گئی۔ قوت و طاقت کا یہی مطلب ہوتا ہے۔ قوت و طاقت کا ثبوت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ نے اس علاقے اور ساری دنیا میں اس ملک کا وقار بڑھایا ہے اور استکبار کے وسیع محاذ کے مقابلے میں اکیلے پامردی کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے۔

ہم نے ملت ایران کے ناقابل تسخیر ہونے کی بات کہی۔ البتہ یہ اسلام کی برکت سے ہوا ہے۔ ناقابل تسخیر ہونے کی علامت اور اس کا ثبوت ہے اسلامی انقلاب لانے میں ملت ایران کی کامیابی، مقدس دفاع میں ملت ایران کی فتحیابی، پچھلے چالیس سال کے دوران دشمنوں کی سازشوں کے مقابلے میں ملت ایران کی استقامت و مزاحمت۔ ہماری قوم پسپا نہیں ہوئی، شکست سے دوچار نہیں ہوئی، دشمن کے سامنے کبھی بھی شکست و ریخت کے آثار اس کے اندر نمایاں نہیں ہوئے۔ یہ ملت ایران کی فتح ہے۔ یہ وطن عزیز کی حالت ہے۔ البتہ اس بارے میں مزید تفصیلات ان شاء اللہ پیش کروں گا۔ یہ ہماری آج کی پوزیشن ہے۔

 لیکن پیارے بھائیو اور بہنو! عزیز ملت ایران! سیاسی جنگ اور اقتصادی پیکار کے میدان میں بھی فوجی تصادم کے میدان کی طرح اگر خود کو فتحیاب سمجھنے والا محاذ خود پسندی میں مبتلا ہو جائے تو اس کی فتح کا راستہ مسدود ہو جاتا ہے۔ فتح پر مغرور ہو جانا، منصوبے کا فقدان، فتوحات کا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے جدت عملی کا فقدان دشمن کے مقابلے میں پیچھے رہ جانے اور دشمن کی پیش قدمی کا باعث بنتا ہے۔ اگر ہم مغرور ہو گئے، اگر ہم بے عملی کا شکار اور جدت عمل کے فقدان میں مبتلا ہو گئے تو ہم ناکام رہیں گے۔ مساعی، مجاہدت، جدت عمل، وسائل کے استعمال کے سلسلے کو پوری طرح جاری رکھنا ضروری ہے۔ ہم ابھی بیچ راہ میں ہیں، اوائل سفر میں ہیں، ہمیں اس بلند چوٹی پر پہنچنا ہے جو اسلامی انقلاب کے مد نظر ہے۔ اس کے لئے محنت بھی ضروری ہے، علم و آگاہی بھی ضروری ہے، شجاعت بھی ضروری ہے، تدابیر بھی ضروری ہیں، تاہم آپ نوجوانوں کے لئے جس چیز پر سب سے زیادہ توجہ دینا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اس عظیم قومی مشن کا ہراول دستہ آپ نوجوان ہیں، بند راستے کھولنے والے آپ ہیں۔ تجربہ کار بزرگ اگر تھکے نہیں ہیں، اگر ان کی ہمت نے جواب نہیں دیا ہے، اگر کاموں سے کنارہ کش نہیں ہوئے ہیں تو وہ رہنمائی کر سکتے ہیں لیکن اس ریل گاڑی کو آگے لے جانے والا انجن آپ نوجوان ہیں۔

ماضی میں بھی یہی ہوا۔ جہاد کے تمام میدانوں میں یہی ہوا۔  تقریبا اس چالیس سال کی مدت میں بہت سے جہاد پیش آئے۔ ان تمام جہادوں میں نوجوان پیش پیش رہے۔ نوجوانوں نے بند راستے کھولے، نوجوان ہراول دستہ ثابت ہوئے۔ طاغوتی شاہی حکومت سے جہاد میں، انقلاب کی فتح سے قبل کے دور میں ہونے والی جدوجہد کے دوران، اسلامی انقلاب کی فتح کے فورا بعد ملک کے مشرق، مغرب اور شمال میں علاحدگی پسندی کی تحریکوں کے خلاف جہاد میں، علاحدگی پسندوں کے خلاف جد و جہد میں نوجوان ہی پیش پیش تھے (4)۔ تعمیراتی جہاد میں جو انقلاب کے شروعاتی ثمرات میں سے تھا، نوجوان پیش پیش رہے۔ انھوں نے ہی تعمیراتی جہاد کا عظیم مشن شروع کیا۔ انیس سو اسی کے عشرے کے اوائل میں منافق اور خیانت کار عناصر کی دہشت گردی کے خلاف جہاد میں، آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران جارح قوتوں کے خلاف جہاد میں، 1988 میں جنگ ختم ہو جانے کے بعد تعمیر نو کے جہاد میں، 1990 کے عشرے میں ثقافتی یلغار کے مقابلے میں ثقافتی جہاد کے دوران یہ نوجوان نسل ہی تھی جس نے ان دشوار حالات کا رخ انقلاب اور اسلام کی جانب موڑا۔ سنہ 2000 کے عشرے کے آغاز کے ساتھ ہی علمی جہاد میں بھی نوجوان نسل نے مختلف یونیورسٹیوں میں، مختلف تحقیقاتی مراکز میں، ملک کی علمی پیشرفت کی ضرورتوں پر توجہ دی اور ملک کے اندر سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں برق رفتاری سے سفر کیا اور 2010 کے عشرے میں تکفیری دہشت گردی کے خلاف جہاد میں بھی اپنا رول ادا کیا۔

آج بھی اقتصادی مشکلات کی گرہیں کھولنے کے لئے فکری و عملی جہاد کا موقع ہے تو ایک بار پھر نوجوان مصروف عمل ہیں۔ ملک کو در پیش اقتصادی مشکلات کے سلسلے میں ہمیں تجاویز دیتے ہیں اور ہم یہ تجاویز عہدیداران کو دے دیتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ان پر کام کریں۔ ان میں سے بہت سی تجاویز نوجوانوں کی طرف سے ہوتی ہیں مگر بالکل پختہ، کارگر اور کارساز۔ بحمد اللہ ہمارے نوجوان ملک کو در پیش مسائل کے سلسلے میں سوچتے بھی ہیں، حل کرنے کا جذبہ بھی رکھتے ہیں اور جیسا کہ میں نے اشارہ کیا مشکلات نے سب کو متحرک کر دیا ہے، ہمارے نوجوانوں کو بھی ذمہ داری کا احساس ہے، وہ بھی اپنا فریضہ محسوس کرتے ہیں۔

اس وقت ملک بھر میں تقریبا دس ہزار جہادی ٹیمیں مصروف عمل ہیں۔ یہ در حقیقت ملک کے مستقبل کے لئے بہت بڑی نوید ہیں، ملک کے مستقبل کے لئے یہ عظیم سرمایہ ہیں۔ یہ ٹیمیں کام میں مصروف ہیں، محنت میں لگی ہوئی ہیں۔ شاید ملک کے دور دراز کے علاقوں میں کمزور طبقات کے لاکھوں کام انھیں ٹیموں نے انجام دئے ہوں اور انجام دے رہی ہوں۔ چھوٹے بڑے کام، عوام کی ضرورت کے مطابق۔ یہ ملک کے لئے ایک عظیم سرمایہ ہے۔ یہاں بھی نوجوانوں کا عظیم کردار ہے جو ملک کے بہتر مستقبل کی ہمیں نوید دیتا ہے۔

آپ نوجوان اس ملک کے مالک ہیں۔ اپنی گفتگو میں جب میں نوجوانوں کی تعریف کرتا ہوں تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ ان صاحب کو منحرف، لا ابالی اور خلاف ورزیاں کرنے والے نوجوانوں کی کوئی خبر ہی نہیں ہے۔ جی نہیں، حقیر کو اس کی بھی اطلاع ہے۔ یقینا ملک کے اندر ایسے بھی کچھ نوجوان ہیں جن کے اندر یہ مثبت خصوصیات نہیں ہیں۔ وہ درخت سے سوکھ کر گر جانے والے پتوں کی مانند ہیں۔ مگر میں یہ کہتا ہوں کہ درخت پر نکلنے والی نئی کونپلیں زیادہ ہیں اور انھیں غلبہ حاصل ہے۔ جس تعداد میں لوگ لا ابالی پن کی جانب جاتے ہیں ان سے کہیں زیادہ  تعداد فرض شناسی کی طرف، اہداف کی راہ میں فکر و عمل کی طرف گامزن ہوتی ہے اور یہ ملک کے مستقبل کے لئے بہترین نوید ہے۔ کچھ لوگ اسے سمجھ نہیں پاتے، ملک کے مستقبل کے تعلق سے بلکہ زمانہ حال میں بھی نوجوانوں کے کردار پر بخوبی توجہ نہیں دیتے۔ بعض لوگ تو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ نوجوان ملک کے لئے ایک مسئلہ اور مشکل ہیں۔ نوجوانوں کو ملک کے لئے ایک مشکل میں تبدیل کر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں اس کے بالکل برعکس نوجوانوں کو مشکل نہیں سمجھتا بلکہ مشکلات کا حل مانتا ہوں۔

اب آپ عزیز نوجوانوں سے جو میرے پیارے بچوں کی مانند ہیں کچھ باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ ان پر توجہ کیجئے۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ نوجوان یہ نہ سوچئے کہ جو راستہ ہمارے سامنے ہے وہ ایک پختہ شاہراہ ہے جس پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ہمارے سامنے پیشرفت کا راستہ تو کھلا ہوا ہے لیکن یہ پیچ و خم سے بھرا ہوا راستہ ہے۔ اس راستے میں نشیب و فراز ہیں۔ اس راستے میں رکاوٹیں ہیں، ہمارے خلاف دشمن پوری طرح سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ ہمیں رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اس راستے کو طے کرنا ہے۔ اس کے لئے کچھ شرطیں ہیں۔ اس راستے پر صحیح طریقے سے آگے بڑھنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ دشمن کے وجود کو ہم محسوس کریں۔ وہ راحت طلب، ریاکار، منافق روشن فکر نما افراد جو سرے سے امریکہ کی دشمنی کا ہی انکار کرتے ہیں، جو اس دشمنی کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور ملت اور حکومت کو امریکہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے کا نسخہ تجویز کرتے ہیں، وہ اس میدان کے آدمی نہیں ہیں۔ اگر وہ دشمن کے آلہ کار نہیں تو کم از کم یہ کہنا چاہئے کہ ملک کی پیشرفت کے اس اہم میدان کے آدمی نہیں ہیں۔ تو سب سے پہلا قدم دشمن کے وجود کو محسوس کرنا ہے۔ جب تک انسان کو یہ نہ معلوم ہو کہ دشمن اس کے مد مقابل کھڑا ہے تب تک وہ اپنے لئے محاذ، بنکر اور حفاظتی وسائل کا انتظام نہیں کرے گا اور ضروری ہتھیار نہیں اٹھائے گا۔

دوسرا قدم ہے خود اعتمادی اور استقامت کا پختہ عزم۔ جوش و جذبے سے عاری، شک میں مبتلا، خوفزدہ، موقع پرست، احساس کمتری کے شکار افراد اس میدان میں کچھ نہیں کر پائیں گے، بلکہ دوسروں کے لئے رکاوٹیں پیدا کر سکتے ہیں۔ خود تو وہ کوئی بھی کام نہیں کر پائیں گے بلکہ بسا اوقات دوسروں کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں۔ وہ مایوس ہیں۔ دوسروں کو بھی مایوس کرتے ہیں۔ یہ سست لوگ ہیں اور دوسروں کو بھی سستی سکھاتے ہیں۔ قرآن کریم اس زمانے میں اس طرح کے افراد کا ایک گروہ تھا ان کے بارے میں کہتا ہے؛ لَو خَرَجوا فیکـُم ما زادوکُم اِلّاخَبالًا وَ لَاَوضَعوا خِلالَکُم‌ (۵) یعنی یہ لوگ اگر تمہارے ساتھ میدان جہاد میں آ بھی گئے تو تمہیں بھی فساد میں مبتلا کر دیں گے۔ اگر تمہارے ساتھ میدان جہاد میں آ گئے تو تمہارے کاموں میں خلل ڈالیں گے۔ مدد کرنا تو دور وہ رکاوٹیں کھڑی کریں گے۔ البتہ ہمارے نوجوان ان تمام جہادوں میں جن کا میں نے ذکر کیا، ایسی کسی بھی مصیبت میں مبتلا نہیں تھے۔ ان میں خود اعتمادی تھی، شجاعت تھی، شک و تردد نہیں تھا، وہ بزدل اور ڈرپوک نہیں تھے۔ اگر وہ ایسے ہوتے تو اتنی کامیابیاں نہ ملتیں۔ یہ رہا دوسرا قدم۔

تیسرا قدم حملے کے میدان اور جگہ کی شناخت۔ دشمن سے ہماری جنگ اور ہمارے خلاف دشمن کی یلغار کہاں ہو رہی ہے؟ اس کا ہمیں پوری طرح علم ہونا چاہئے۔ دشمن کے خطرات کا ہمیں بخوبی ادراک ہونا چاہئے۔ اس کا حجم ہمیں معلوم ہونا چاہئے اور یہ پتہ ہونا چاہئے کہ حملہ کس رخ سے ہو رہا ہے۔ اگر دشمن مشرقی سرحد پر حملہ کر رہا ہے اور آپ اپنی فورس مغربی سرحد پر تعینات کریں گے تو کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوگا، ان فورسز کے وجود سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ دشمن کہاں حملہ کر رہا ہے۔ پورا نظام، پورا ملک، سارے عوام دشمنوں سے جنگ کے میدان کا بخوبی ادراک رکھیں۔

جنگ کا میدان کہاں ہے؟ میں دشمن سے جنگ کے دو تین میدان بتا رہا ہوں۔ ایک ہے اسلام اور اسلامی عقیدہ۔ امریکہ کو اسلام سے ضرب کھانی پڑی ہے۔ وہ اسلام سے بغض رکھتا ہے۔ امریکہ کو اسلامی انقلاب سے طمانچہ پڑا ہے، اس کے دل میں اسلامی انقلاب کا کینہ ہے۔ ایران میں وہی سب کچھ تھے، سارے امور ان کے ہاتھ میں تھے، ملک کے عہدیداران ان کے فرماں بردار تھے، ملک کے ذخائر ان کے ہاتھ میں تھے، ملک کا سرمایہ ان کی مرضی سے منتقل ہوتا تھا، ملک کی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی پالیسیاں ان کی مرضی سے طے پاتی تھیں، مگر اب ان میں سے کچھ بھی ان کے ہاتھ میں نہیں رہا۔ ایسا کس نے کیا؟ اسلام نے کیا، اسلامی انقلاب نے کیا، اس لئے ان کے دل میں کینہ ہے۔ بعض لوگ خصوصا وہ لوگ جن کی رونے کی عادت ہے، کہتے ہیں کہ امریکہ کو برا بھلا نہ کہئے تاکہ وہ آپ سے دشمنی نہ کرے۔ امریکہ کی دشمنی صرف برا بھلا کہنے اور امریکہ مردہ باد کے نعرے لگانے کی وجہ سے نہیں ہے۔ امریکیوں کے دل میں انقلاب اور عظیم ملت ایران کی اس تحریک کی دشمنی ہے۔ ان کی سازشیں اور حیلہ و مکر اس وجہ سے ہے۔ تو یہ جنگ کا پہلا میدان ہے۔ انھیں خوف ہے کہ اس علاقے میں ایک بڑی اسلامی طاقت سربلند ہوگی تو اس پورے علاقے میں ان کے مفادات پوری طرح ختم ہو جائیں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایسا نہ ہونے پائے۔ انھیں اس سے خوف ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ صف آرائی کرتے ہیں، مخاذ بندی کرتے ہیں۔

وہ اسلامی طاقت سے اور انقلابی طاقت سے ڈرتے ہیں۔ اسی لئے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ قوت و طاقت کے عناصر اور ستونوں کو مشکوک بنائیں اور انھیں ختم کر دیں۔ قوت کے عناصر کیا ہیں؟ سیاسی ثبات و استحکام ہے، سماجی امن و سلامتی ہے، قومی اتحاد و یکجہتی ہے، انقلاب کے اصولوں اور معیاروں کی پابندی ہے، علمی و سائنسی ارتقا کی جانب جاری پیش قدمی، اسلامی و انقلابی ثقافت کی بڑھتی گہرائی و گیرائی، یہ طاقت کے عناصر و عوامل ہیں اور وہ ان کے دشمن ہیں۔ البتہ وہ ہماری دفاعی پیشرفت کے بھی مخالف ہیں، ہمارے میزائلوں کے مخالف ہیں، علاقے میں ہماری موجودگی کے مخالف ہیں، اس لئے کہ یہ چیز بھی ہماری قوت و طاقت کے عناصر و عوامل میں شامل ہے۔ اسے استکباری طاقتوں سے مقابلہ آرائی کے مراکز میں شمار کرنا چاہئے۔ یہ بھی تصادم کا ایک میدان ہے۔

مقابلہ آرائی کے میدان سے متعلق ایک اہم نکتہ ایران اور دنیا کے حقائق کا بخوبی ادراک ہے۔ اگر آپ اپنے ملک کے حقائق کے بارے میں صحیح ادراک کے مالک ہوں گے تو یہ دشمنوں کے نقصان میں ہے۔ وہ اس کے خلاف ہیں۔ وہ اس کا سد باب کرنا چاہتے ہیں۔ کس طرح؟ میڈیا کے خطرناک حربے کے ذریعے۔ خاص طور پر ان جدید ذرائع ابلاغ سے جو آجکل وجود میں آ گئے ہیں۔ غلط تصویر پیش کرکے وہ کوشش کرتے ہیں کہ ملت ایران کی رائے عامہ کو گمراہ کر دیں۔ وہ ایران کے بارے میں بھی غلط تصویر پیش کرتے ہیں، اپنے بارے میں بھی غلط تصویر پیش کرتے ہیں اور علاقے کے حالات کے بارے میں بھی غلط تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان کی ایک غلط تصویر کشی یہی ہے کہ وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بڑی مستحکم پوزیشن میں ہیں۔ جبکہ وہ مستحکم پوزیشن میں نہیں ہیں۔ بے شک ان کے عسکری اسلحہ جات نمائش کے قابل ہیں۔ یعنی ان کے پاس پیسہ ہے، عسکری وسائل ہیں، ابلاغیاتی وسائل ہیں، یہ طاقت کے وسائل شمار ہوتے ہیں۔ لیکن جب عالمی سطح کا مقابلہ ہوتا ہے تو سب سے اہم ہوتا ہے سافٹ پاور۔ سافٹ پاور یعنی منطق، یعنی استدلال، یعنی جدید پیغام، ایسا جدید پیغام جو زندگی کو نئی سمت دے سکتا ہو۔ نئی بات اور نیا نظریہ پیش کرنا۔ ان کے پاس کوئی نیا پیغام نہیں ہے۔ ان کے پاس منطق نہیں ہے۔ سافٹ پاور میں امریکہ بری طرح کمزور پڑ چکا ہے۔ اس کی ساری باتیں دھونس اور دھمکی تک محدود ہوتی ہیں۔ اس کی منطق کمزور ہے۔ اس کی لبرل ڈیموکریسی آج ساری دنیا میں رسوا ہو رہی ہے۔ لبرل ڈیموکریسی نافذ کرنے کے ان کے طریقے اور طرز عمل جس پر انھیں بڑا ناز ہے، آج ساری دنیا میں اہل نظر کی نگاہ میں پست و فرومایہ ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے، یہی سبب ہے کہ آپ آج دیکھ رہے ہیں کہ ایٹمی طاقت کا مالک امریکہ، پیشرفتہ ٹیکنالوجی کا مالک امریکہ، بے پناہ دولت کا مالک امریکہ، دنیا کے مختلف خطوں میں شکست سے دوچار ہو رہا ہے۔ اسے عراق میں شکست ہوئی، اسے شام میں شکست کا سامنا ہوا، اسے لبنان میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا، اسے پاکستان میں شکست کا مزہ چکھنا پڑا، اسے افغانستان میں شکست سے روبرو ہونا پڑا، دنیا کی بڑی طاقتوں کے مقابلے میں اسے شکست کا سامنا ہوا اور مسلسل اسے شکست پر شکست ہو رہی ہے۔ آج انسان واضح طور پر دیکھ سکتا ہے کہ امریکہ کو مزید ناکامیوں کا سامنا ہونے والا ہے۔ تو وہ اپنے بارے میں تصویر کشی کرتے ہیں جو سراسر غلط اور جھوٹی ہوتی ہے۔

وہ ایک تصویر کشی اور بھی کرتے ہیں۔ یہ بھی سراسر غلط اور گمراہ کن تصویر کشی ہے۔ یہ تصویر کشی ایران کے بارے میں ہے۔ وہ دنیا کی رائے عامہ کے سامنے بھی اور خود ہمارے سامنے بھی، ملت ایران کے سامنے بھی یہی غلط تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ دماغ میں اتار دینا چاہتے ہیں اور ہمارے وطن عزیز کے بارے میں اپنے غلط افکار و نظریات سے ہم کو قائل کرنا چاہتے ہیں۔ آج ہمارے ملک کے اندر جو اقتصادی مشکلات ہیں ان کی وجہ کچھ حقائق ہیں۔ ان کی بنیاد پر وہ دماغ سے خالی اور بے عقل سر میں کچھ خیالات کی پرورش کرتے ہیں۔ میں نے حال میں سنا ہے کہ امریکہ کے صدر نے بعض یورپی سربراہوں سے کہا ہے کہ آپ دو تین مہینہ انتظار کیجئے، دو تین مہینے کے اندر اسلامی جمہوریہ کا کام  تمام ہو جائے گا۔ ان سے یہ بات کہی ہے! مجھے وہ باتیں یاد آ گئیں جو چالیس سال قبل، چار عشرہ قبل یہی افراد جو ہمارے ملک کے اندر امریکہ کے مہرے تھے اور خود امریکی ایک دوسرے کو خوش خبری دیتے ہوئے رٹتے رہتے تھے۔ ایک دوسرے کو خوش خبری سناتے تھے کہ بس چھے مہینہ ٹھہر جائيے اسلامی جمہوریہ کا کام  تمام ہو جائے گا۔ چھے مہینے گزر گئے لیکن اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ نہیں ہوا تو اب کہنے لگے کہ بس ایک سال رکئے سارا ماجرا تمام ہو جائے گا۔ آج چالیس سال ہو چکے ہیں اور وہ نازک پودا تناور درخت بن چکا ہے تو اب یہ بیچارے اپنے آپ کو اور اپنے یورپی رفقا کو پھر خوش خبری دے رہے ہیں کہ دو تین مہینہ بس ٹھہر جائیے! مجھے یہ عامیانہ شعر یاد آ گیا؛ "شتر در خواب بیند پنبه‌ دانه - گهی لف ‌لف خورد گَه دانه ‌دانه" (۶)

دشمن آپ کو پہچان نہیں سکا۔ دشمن ملت ایران کو  پہچان نہیں سکا۔ دشمن انقلاب کو اور انقلابی و ایمانی جذبے کو پہچان نہیں سکا اور ان گزشتہ برسوں میں اس کے اسی غلط تجزئے نے اسے بار بار گمراہ کیا اور آج بھی گمراہ کر رہا ہے۔ اس دعا کے مطابق جو امام علیہ السلام سے منسوب ہے کہ ؛ «اَلحَمدُ لِلّهِ الَّذی جَعَلَ اَعدائَنا مِنَ الحُمَقاء»، اللہ نے ملت ایران کے دشمنوں کو نادان قرار دیا ہے، ملت ایران کے دشمن احمق ہیں۔

بے شک ہمارے سامنے مشکلات ہیں۔ اقتصادی مشکلات موجود ہیں۔ ہمارے عزیز نوجوان اور جوش و جذبے سے بھرے ہوئے  ہمارے عوام پوری توجہ سے سنیں! ہمارے سامنے اقتصادی مشکلات موجود ہیں۔ تیل کی مشکلات موجود ہیں جو اپنے آپ میں ایک بڑا نقص ہے۔ ہمارے یہاں کفایت شعاری کا کلچر نہیں ہے۔ ہمارے اندر کفایت شعاری کا کلچر بہت کمزور ہے۔ یہ ایک نقص ہے۔ فضول خرچی ایک عیب ہے۔ ہمارے اندر یہ عیوب ہیں۔ لیکن حقیقی نقص و عیب یہ نہیں ہے۔ حقیقی نقص و عیب ہے دیوار سے لگ جانا اور بحمد اللہ ہمارے یہاں یہ عیب نہیں ہے۔ ہم بند گلی میں نہیں پہنچے ہیں۔ اصلی نقص یہ ہے کہ ملک کا نوجوان یہ تصور کرنے لگے کہ دشمن کی پناہ میں چلے جانے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ عیب ہے۔ بعض لوگ یہی خیال ہمارے نوجوانوں کے ذہن میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور دشمن یہی چاہتا ہے۔ دشمن ملت ایران کو اس نتیجے پر پہنچا دینا چاہتا ہے کہ وہ دیوار سے لگ چکی ہے۔ اب اس کے پاس کوئی راہ حل نہیں ہے۔ بس ایک ہی راہ حل ہے کہ امریکہ کی پناہ میں چلی جائے، امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دے، اس کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔ میں صریحی طور پر اعلان کرتا ہوں، میں آشکارا طور پر اعلان کرتا ہوں کہ جو لوگ ملک کے اندر دشمنوں کی پسندیدہ اور مطلوبہ اس فکر کو رائج کرنا چاہتے ہیں وہ خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ ملک سے غداری ہے۔ اگر ہم دشمن کی مرضی کے مطابق یہ ترویج شروع کر دیں کہ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا ہے تو یہ ملت ایران کے ساتھ سب سے بڑی خیانت ہے۔ البتہ ایسا ہونے نہیں پائے گا۔ نصرت خداوندی سے اور آپ کے تعاون سے میں جب تک جان میں جان ہے وطن عزیز کے ساتھ ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔

یہ دشمن کی جانب سے کی جانے والی تصویر کشی ہے۔ یہ دشمن کی طرف سے اس کی اپنی حالت اور ہماری حالت کے بارے میں پیش کی جانے والی گمراہ کن تصویر ہے۔ یہ جھوٹی تصویر ہزاروں ٹی وی چینلوں، ریڈیو نشریات اور ویب سائٹوں کے ذریعے آج ملت ایران کے سامنے اور ہماری رائے عام کے درمیان پیش کی جا رہی ہے۔ یہ جھوٹی تصویر کشی ہے۔ حقیقی تصویر کیا ہے؟ حقیقی  تصویر یہ ہے کہ آپ اور ملک کے تمام نوجوان ملک کی موجودہ پوزیشن اور ملت ایران کی موجودہ پوزیشن سے آگاہ ہوں۔ یہ آپ کے موثر رول ادا کرنے کی پہلی شرط ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آج دنیا کے بڑے سیاست داں، پختہ اور تجربہ کار سیاسی دماغ آپ کے ملک اور آپ کی ملت کا اس کی چالیس سالہ استقامت کی وجہ سے احترام کرتے ہیں۔ یہ عین حقیقت ہے۔ یہ چیز ہم واضح طور پر اور نمایاں شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ مجھے اس کی خبر ہے اور میں آپ کو بھی آگاہ کر رہا ہوں۔ دنیا کے پختہ سیاسی دماغ، یہاں تک کہ امریکہ کے اندر موجود سیاسی رہنما، حتی کہ مغرب اور یورپی ممالک میں موجود سیاسی رہنما جن کے تعلقات ہم سے اچھے نہیں ہیں، تو دوسرے ملکوں کے دماغوں کی بات ہے الگ ہے، وہ ملت ایران کی تعریف کرتے ہیں اس لئے کہ چالیس سال سے یہ قوم دشمنوں کے ہر دباؤ کا مقابلہ کر رہی ہے اور اس نے پسپا ہونے کے بجائے مسلسل پیش قدمی کی ہے اور اس نے خود کو ایک بڑی طاقت میں تبدیل کر دیا ہے، یہ تحسین آمیز کامیابی ہے۔ میں نے کئی سال پہلے ذکر کیا کہ ایک اعلی صیہونی افسر نے کہا تھا کہ میں ایران کا مخالف ہوں لیکن میں اس شخص کے سامنے احترام سے کھڑا ہو جاؤں گا اور اس کے لئے اپنی ہیٹ اٹھاؤں گا جس نے یہ میزائل بنایا ہے۔ وہ درجنوں میزائلوں میں سے ایک میزائل کی بات کر رہا تھا۔ اس انداز سے اس ملک کا، اس ملت کا، اس استقامت کا، اس پیشرفت کا دنیا کے سیاسی دماغ احترام کرتے ہیں۔

ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک کے اندر بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں جو دنیا میں بہت کم ملکوں کے پاس ہیں۔ جغرافیائی صلاحیتیں، موسمیاتی صلاحیتیں، افرادی قوت، زیر زمین ذخائر اور روئے زمین پر موجود وسائل۔ جو صلاحیتیں اور توانائياں ملک کی معیشت کے لئے اور ملک کی پیشرفت کے لئے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں وہ بہت فراوانی کے ساتھ موجود ہیں۔ البتہ ہم نے ان توانائیوں کو بخوبی استعمال نہیں کیا ہے۔ میں نے ایک رپورٹ دیکھی اور ایک اجلاس میں اس کا ذکر بھی کیا اور یہ بات نشر بھی ہوئی (7)۔ دستیاب وسائل اور صلاحیتوں کو استعمال نہ کرنے کے اعتبار سے ہم دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں! وسائل کو استعمال نہ کرنے میں۔ عہدیداران کے لئے اس حقیر کی دائمی سفارش یہی ہے کہ ان وسائل اور توانائیوں کی شناخت کریں جو اب تک استعمال نہیں ہوئی ہیں اور انھیں ملک کے لئے اور قومی ثروت کی پیداوار کے لئے بروئے کار لائیے۔ یہ رہی دوسری بات۔

تیسری چیز یہ ہے کہ ملک کے زیر استعمال صلاحیتیں اور وسائل آپ مومن نوجوان ہیں۔ یہ حقیقی تصویر ہے۔ وہ مومن نوجوان جن کے اندر دفاعی توانائی بھی ہے، علمی توانائی بھی ہے، ثقافتی میدان کی توانائی بھی ہے، سماجی میدان کی توانائی بھی ہے اور بہت سے میدانوں میں ان کی توانائیاں پروان چڑھی ہیں۔ یہ وطن عزیز کی حقیقی تصویر ہے۔ دشمن جو ایران کے بارے میں اس انداز سے سوچ رہا ہے وہ در حقیقت مومن نوجوانوں کے اس عظیم ذخیرے کو دیکھ نہیں پا رہا ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ دشمن اسلامی جمہوریہ کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں بڑے غور و فکر کے بعد پابندیوں کی طرف آیا ہے۔ یعنی مقابلے کے دوسرے تمام راستے اس کے لئے مسدود ہیں۔ اس کے پاس اقتصادی پابندیوں کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کے سامنے دوسرے تمام راستے بند ہو چکے ہیں۔ لیکن میں آپ کی خدمت میں عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ ہماری قومی معیشت کے مقابلے میں اقتصادی پابندیاں بہت نازک اور کمزور ہیں۔ ہماری قومی معیشت پابندیوں کو شکست دے سکتی ہے اور لطف خداوندی سے، نصرت پروردگار سے ہم پابندیوں کو شکست دیں گے اور پابندیوں کی شکست امریکہ کی شکست ہوگی۔ پابندیوں کی شکست سے ملت ایران کا طمانچہ امریکہ کے منہ پر پڑے گا۔

ملک کی صورت حال کی صحیح تصویر کے سلسلے میں پانچواں نکتہ یہی مستضعفین کی رضاکار فورس ہے۔ یہ عظیم نیٹ ورک، یہ ملک گیر نیٹ ورک، یہ عظیم عوامی نیٹ ورک جو بعض دیگر ملکوں کے لئے نمونہ عمل بن گیا کہ کس طرح اپنے نوجوانوں کی مدد سے گوناگوں مشکلات کا حل نکالیں۔ رضاکار فورس اس آیہ کریمہ کی مصداق ہے؛ اَلَّذینَ قالَ لَهُمُ النّاسُ اِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لَکُم فَاخشَوهُم۔ جنگ احد کے بعد یہ افواہ پھیلائی گئی کہ دشمن مدینہ پر حملہ کرنے والا ہے تو دشمن سے ڈرو! فَزادَهُم ایمانًا۔ لیکن ان دھمکیوں اور اس دہاڑ سے مومنین کے ایمان میں اضافہ ہوا۔ وَ قالوا حَسبُنَا اللهُ وَ نِعمَ الوَکیل (۸) یہ ہے رضاکار فورس۔ رضاکار فورس اسی آیہ کریمہ کی مصداق ہے کہ وہ دشمن کی دھمکیوں سے پسپائی اختیار نہیں کرتی بلکہ «فَزادَهُم ایمانًا» اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ اہم خصوصیت ہے۔ رضاکار فورس ہمارے وطن عزیز کی حقیقی تصویر کا بہت اہم پہلو ہے۔ دشمن رضاکار فورس سے بہت برہم ہے اسی طرح دشمن کے آلہ کار بھی رضاکار فورس کے شدید مخالف ہیں۔

چھٹا نکتہ؛ یہ درخشاں اور نمایاں چیزیں ہیں جو پورے ملک میں سال بھر نظر آتی رہی ہیں۔ منجملہ جہادی گروپ، میں نے ذکر کیا کہ تقریبا دس ہزار جہادی گروپ سرگرم عمل ہیں۔ تعمیراتی رضاکار فورس، راہیان نور، انقلاب کی ریلیاں، اعتکاف، امام حسین اور عاشور سے متعلق پروگرام جن کی رونق میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ملک کی حقیقی تصویر ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کو مد نظر رکھ کر ہی ملت ایران کو پہچانا جا سکتا ہے۔ البتہ تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ رضاکار فورس کی بھی، جہادی گروہوں کی بھی، مجاہدانہ سرگرمیوں کی بھی اور راہیان نور کی بھی پشت پناہی کریں۔

میں اب اپنی گفتگو کو سمیٹ رہا ہوں اور آخر میں تین چار نکتے آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ اس وقت دشمن رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ کا استعمال کر رہا ہے۔ توجہ فرمائیے! ابلاغیاتی ذرائع بہت اہم اور اگر دشمن کے ہاتھ میں ہوں تو بہت خطرناک ذرائع ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی مثال عسکری جنگ میں کیمیکل ہتھیاروں سے دی جاتی ہے۔ جب کیمیکل ہتھیاروں سے حملہ کیا جاتا ہے تو یہ ہتھیار توپ اور ٹینک کو تباہ نہیں کرتے۔ یہ فوجی ساز و سامان بچا رہتا ہے، مگر انسان ختم ہو جاتے ہیں، ان کے پاس فوجی ساز و سامان استعمال کرنے کی توانائی ہی نہیں رہ جاتی۔ جنگ میں کیمیکل ہتھیاروں کا یہ اثر ہوتا ہے۔ ذرائع ابلاغ بھی ایسے ہی ہیں۔ آج ٹی وی چینلوں کو، ریڈیو نشریات کو، انٹرنیٹ کو، سوشل میڈیا کو، سائيبر اسپیس کے گوناگوں وسائل کو ہماری رائے عامہ کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس پر وہ لوگ بخوبی توجہ دیں جو ملک کے اس شعبے کو، مواصلات کے شعبے کو دیکھ رہے ہیں۔ ہم ان کے ساتھ اپنی میٹنگوں میں انتباہات دیتے رہتے ہیں، تاکید کرتے رہتے ہیں اور اس وقت بھی اس کا  اعادہ کرتے ہیں۔ وہ توجہ دیں کہ کہیں دشمن کے ہاتھ کا حربہ نہ بن جائیں اور دشمن آرام سے عوام کے خلاف اپنے کیمیکل ہتھیار استعمال کرے۔ اپنے فرائض کو سمجھیں اور ان پر بخوبی عمل کریں۔

دوسرا نکتہ؛ میرے عزیزو! اگر دشمن ہمارے اندر اتحاد و یکجہتی دیکھے گا، اگر ہمارے اندر قوت و طاقت کا احساس اسے نظر آئے گا، کہ ہمیں اپنی قوت کا بخوبی اندازہ ہے، اگر وہ ہمارے اندر پختہ عزم کا مشاہدہ کرے گا تو پسپائی اختیار کر لے گا۔ اگر دشمن یہ دیکھے گا کہ ملت ایران اور مومن ایرانی نوجوان میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں، اپنے فرائض کا انھیں بخوبی ادراک ہے اور پوری قوت سے میدان میں موجود ہیں تو دشمن پسپائی اختیار کر لے گا۔ لیکن اگر اسے ہماری کمزوری نظر آ گئی، اسے ہمارا اختلاف نظر آیا، اگر اسے محسوس ہو گیا کہ ملک کے عہدیداران کے درمیان ہمدلی اور ہم خیالی کا فقدان ہے یا عوام اور حکام کے مابین فاصلہ پیدا ہو گیا ہے تو اسے نیا حوصلہ ملے گا اور وہ اپنی ریشہ دوانیاں تیز کر دے گا۔ اس پر سب توجہ دیں۔ ملک کے عہدیداران بھی، عوام الناس بھی اور خاص طور پر عزیز نوجوان دشمن کو اپنی قوت کا احساس دلائیں، اپنی کمزوری کا احساس نہ دلائیں! ہماری باتوں میں، ہمارے اقدامات میں، ہمارے طرز زندگی میں دشمن کو یہ نظر آنا چاہئے کہ اس کا واسطہ ایک طاقتور مجموعے سے ہے۔ اگر اسے ہمارے اندر کمزوری نظر آئی تو اس کی جرئت بڑھے گی اور وہ اپنی سرگرمیاں تیز کر دے گا۔ آپ بہت خیال رکھئے۔ یہ دوسرا نکتہ ہے۔

تیسرا نکتہ؛ میں پورے وثوق کے ساتھ، چونکہ مجھے ملکی حالات کی بخوبی خبر ہے اس لئے پورے یقین سے کہتا ہوں کہ یہ قوم اور یہ نئی نسل فیصلہ کر چکی ہے کہ اب کوئی تحقیر برداشت نہیں کرے گی۔ اس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اغیار اور دشمنوں کے پیچھے چلنا گوارا نہیں کرے گی۔ اس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وطن عزیز ایران کو افتخار و عزت کی بلندی پر لے جائے گی اور اس کے اندر یہ توانائی بھی موجود ہے۔ اس کے اندر عزم بھی ہے، اس کا فیصلہ بھی ہے اور اس کے اندر توانائی بھی اور ان شاء اللہ اس منزل تک وہ ضرور پہنچے گی۔

اس اسٹیڈیم میں موجود یہ ایک لاکھ کا مجمع انیس سو اسی کے عشرے کے اواخر میں اسی جگہ پر ایک لاکھ کے اس مجمع کی یاد دلاتا ہے کہ جس کے درمیان ہم نے تقریر کی تھی اور اس کے بعد وہ محاذ جنگ کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے ملک کو بہت بڑی فتوحات دلائیں۔ آپ عزیز نوجوان بھی ان شاء اللہ علم کے میدان میں، عمل کے میدان میں، اقتصادی سرگرمیوں کے میدان میں، نئے روزگار پیدا کرنے کے میدان میں، انفرادی و اجتماعی سعی و کوشش کے میدان میں، ثقافتی اور سوشل میڈیا کے میدان میں، جہاں بھی ضرورت محسوس ہو وہاں مناسب سرگرمیاں انجام دینے کے میدان میں ان شاء اللہ فتحیاب اور کامیاب ہوں گے۔

و السّلام علیکم و رحمة‌ الله و برکاته

۱) تہران کے آزادی اسٹیڈیم میں منعقد ہونے والے اس پروگرام میں صوبہ تہران اور صوبہ البرز کی رضاکار جہادی ٹیموں کے افراد شامل ہوئے جہنوں نے رواں سال میں بیس روزہ رضاکارانہ خدمت کی مشقوں میں حصہ لیا اور تعمیراتی، طبی، ثقافتی و تعلیمی میدانوں میں سماج کے محروم طبقات کو اپنی گوناگوں خدمات پیش کیں۔

۲) علامہ اقبال (قدرے تفاوت کے ساتھ)

۳) مسلط کردہ جنگ کے دوران محاذوں پر جانے والے ایک لاکھ رضاکاروں کا اجتماع مورخہ 3 دسمبر 1986

۴) حاضرین نعرے لگانے لگے 'اے آزاد منش رہبر، ہم تیار ہیں تیار ہیں' اس کے جواب میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا؛ 'رک جائیے، آپ کی آمادگی کا مجھے علم ہے، توجہ کیجئے'

۵) سوره‌ توبہ، آیت نمبر ۴۷ کا ایک حصہ

۶) حاضرین نعرے لگانے لگے 'اے آزاد منش رہبر، ہم تیار ہیں تیار ہیں' اس کے جواب میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا؛ اللہ آپ کو نیکیاں عطا کرے، بہت بہت شکریہ، اللہ تعالی آپ کی حفاظت کرے۔'

۷) صدر مملکت اور کابینہ کے ارکان سے مورخہ 29 اگست 2018 کی ملاقات

۸) سوره‌ آل‌ عمران، آیت نمبر ۱۷۳