رہبر انقلاب اسلامی نے اس خط کے کچھ حصوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ علوی حکومت کی منطق یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو عہدہ ملنے کی وجہ سے امتیاز و احترام حاصل ہو تو اس سے عوام الناس کے ساتھ اس کے سلوک اور اخلاق میں کوئی تبدیلی نہیں آنا چاہئے اور یہ عہدہ اس شخص کی عوام سے دوری کا سبب نہیں بننا چاہئے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی نظام کے عہدیداران یاد رکھیں کہ عہدہ ملنے کی نعمت کا شکرانہ یہ ہے کہ اللہ کے بندو‎ں سے زیادہ قریب ہوں، ان کے ساتھ نشست و برخاست کریں، ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں اور ان پر زیادہ توجہ دیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد عہدیداران کی کارکردگی کی شفافیت کے بارے میں اس خط میں بیان کئے گئے نکتے کا ذکر کیا؛ «اَلا وَ اِنَّ لَکُم عِندِی اَن لَا اَحتَجِبَنَّ دُونَکُم سِرّاً اِلّا فی حَرب».

رہبر انقلاب اسلامی نے حضرت علی علیہ السلام کے خط کے اس فقرے کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: "یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ آجکل شفافیت کا لفظ سب کی زبان پر رہتا ہے کہ جناب شفافیت ہونا چاہئے۔ یہ امیر المومنین علیہ السلام کے کلام میں مذکور ہے۔ بعض لوگوں کی عادت ہو گئی ہے کہ اسلامی معاشرے میں جب بھی کوئی اچھی چیز نظر آئے تو اس کا کریڈٹ مغرب کو دیتے ہیں۔ واقعی انسان بعص لوگوں کی کوتاہ فکری پر تعجب کرتا ہے۔ عوام کا خیال، عوام کی آراء کا خیال، عوام پر توجہ، ان چیزوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم نے اہل مغرب سے یہ چیزیں سیکھی ہیں۔ جب آپ اسلامی کتب اور مآخذ کا مطالعہ نہیں کریں گے، جب امیر المومنین اور رسول اکرم کے فرمودات نہیں پڑھیں گے، جب آپ ان چیزوں سے واقف نہیں ہیں تو پھر ظاہر ہے آپ کو اہل مغرب سے ہی سیکھنا پڑے گا۔ بعض لوگ کہتے ہیں، آپ بھی سنتے ہوں گے کہ شفافیت کا سبق ہمیں انھیں اہل مغرب سے ملا ہے۔ جی نہیں، شفافیت کا درس ہمیں امیر المومنین علیہ السلام نے دیا ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ آپ عوام الناس کا میری گردن پر یہ حق ہے کہ آپ سے کوئی راز پنہاں نہ رکھوں، آپ سے کوئی بات نہ چھپاؤں، سوائے جنگی مسائل کے، ان مسائل کے علاوہ جن میں ہمارا مقابلہ دشمن سے ہے۔ ایسے معاملات میں باتوں کو برملا نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے کہ اگر ہم نے بات بیان کر دی، آپ نے سن لی تو دشمن بھی اس سے باخبر ہو جائے گا۔ حرب کے مسائل، جنگ کے مسائل جن میں فوجی جنگ اور اس سے مربوط دیگر تمام مسائل شامل ہیں، حفاظتی امور، عسکری امور، دوسرے گوناگوں مسائل جو دشمن کے ساتھ جنگ کے دوران در پیش رہتے ہیں، دشمن سے مقابلے کے وقت جن کا سامنا رہتا ہے، انھیں برملا نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے مواقع پر شفافیت برتنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ لیکن ان مسائل کے علاوہ عوام سے مربوط دیگر تمام مسائل و امور میں؛ اَن لَا اَحتَجِبَنَّ دُونَکُم سِرّاً"

رہبر انقلاب اسلامی نے اس نکتے پر تاکید فرمائی کہ ملک کے عہدیداران دفاعی اور سیکورٹی سے متعلق مسائل، دشمن سے مقابلہ آرائی سے متعلق مسائل کے علاوہ دیگر تمام امور میں شفافیت برتیں اور عوام سے کچھ نہ چھپائیں۔

۱) امالی طوسی، صفحہ ۲۱۷