بسم اللّه الرّحمن الرّحیم

میں قزوین کے امام جمعہ اور محترم کمانڈر کی تقاریر گفتگو کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ محترم امام جمعہ کی گفتگو قرآن کی آیات کریمہ سے آراستہ تھی۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ آپ شروع سے آخر تک اپنی گفتگو، حتی مجالس عزا کو قرآنی بنائیں۔ یہ بڑی اچھی روش ہے، اسے ہرگز ترک نہ ہونے دیجئے۔ البتہ یہ آیہ کریمہ؛ «اَلَّذینَ استَجابوا لله وَ الرَّسولِ مِن بَعدِ ما اَصابَهُمُ القَرح» (۲) شہدا سے مربوط نہیں ہے۔ اس کا تعلق جنگ کے زخمیوں سے ہے، یعنی ان لوگوں سے جو جنگ احد میں زخمی ہو گئے تھے۔ بعد میں کچھ لوگ آئے اور کہنے لگے کہ؛ اَلَّذینَ قالَ لَهُمُ النّاسُ اِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لکُم فَاخشَوهُم فَزادَهُم ایمانا وَ قالوا حَسبُنَا اللهُ وَ نِعمَ الوَکیلُ * فَانقَلَبوا بِنِعمَةٍ مِنَ اللهِ وَ فَضلٍ لَم یَمسَسهُم سوء؛ (۳) یہ آیت ان سے مربوط ہے کہ جو زخمی ہونے کے باوجود جب پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ جو لوگ زخمی ہیں وہ آئیں اور اس عمل میں شامل ہوں تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور جاکر انھوں نے دشمن کو جواب دیا اور واپس آئے۔ بہرحال آپ نے جو گفتگو کی اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں اسی طرح محترم گورنر کی گفتگو کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

قزوین جیسا کہ آپ نے اشارہ کیا کہ جغرافیائی اعتبار سے بھی، تاریخی مقام و منزلت کے اعتبار سے بھی، ثقافتی بلندی کے اعتبار سے بھی، اسی طرح انقلاب کی تحریک اور آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران سخت آزمائشوں میں اپنی خدمات کے اعتبار سے بھی افتخارات سے آراستہ ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ قزوین کی بزرگ ہستیاں خواہ وہ قدیمی علما رہے ہوں جیسے یہی برغانی برادران، شہید ثالث، ملا صالح مرحوم یعنی جناب صالحی صاحب کے جد اور دوسرے افراد جو ہمارے اس زمانے تک وہاں موجود رہے ہیں۔ اسی طرح وہاں کے معروف شہدا، شہید بابائی، شہید لشگری، شہید رجائی، آقا ابو ترابی رضوان اللہ علیہ باپ بیٹے دونوں، اسی طرح دیگر افراد باعث فخر ہیں۔ واقعی ایسا ہی ہے جیسا آپ نے بیان کیا۔

شہدا ملک کے اندر روحانی زندگی میں رونق کا ذریعہ ہیں۔ روحانی زندگی یعنی جذبہ، یعنی تشخص کا احساس، یعنی با ہدف زندگی، یعنی اعلی اہداف و مقاصد کی سمت پیش قدمی کرنا اور بیچ میں نہ رکنا۔ یہ شہدا کا کام ہے۔ ہمیں اس کی تعلیم قرآن سے ملتی ہے۔ شہدا جب تک اس دنیا میں ہیں وہ اپنی جسمانی قوت کے ذریعے دفاع کرتے ہیں اور جب رخصت ہو جاتے ہیں تو؛ وَ یَستَبشِرونَ بِالَّذینَ لَم یَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم اَلّا خَوفٌ عَلَیهِم وَ لا‌ هُم یَحزَنون (۴) آپ دیکھئے کہ یہ بشارت اس دنیا سے چلے جانے کے بعد کی ہے۔ جب تک زندہ ہیں اس وقت تک ان کی جان، ان کا جسم، ان کے جسمانی حرکات و سکنات سب اسلام کی خدمت کے لئے وقف ہوتے ہیں، اسلامی معاشرے کی خدمت کے لئے ہوتے ہیں اور جب وہ رخصت ہو جاتے ہیں تو اب ان کی روحانیت اور ان کی آواز، ان کے چلے جانے کے بعد گونجتی ہے۔ شہید ہونے کے بعد شہدا کی قوت ناطقہ متحرک ہوتی ہے۔ وہ عوام الناس سے گفتگو کرتے ہیں۔ بِالَّذینَ لَم یَلحَقوا بِهِم- وہ ہم لوگوں سے کہہ رہے ہیں۔ ہماری سماعتوں میں اگر نقص نہ ہو تو ہم ان آوازوں کو سن نکتے ہیں۔ جو کام آپ کرتے ہیں، شہدا کے معزز اہل خانہ کرتے ہیں یا مختلف شہروں جیسے قزوین، بیرجند (5) اور دیگر جگہوں پر شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے والے کرتے ہیں وہ ہماری ناقص سماعتوں تک ان آوازوں کو پہنچانے کا کام ہے۔ سب سے اہم نکتہ یہی ہے کہ ہم ان آوازوں کو سنیں۔ اللہ تعالی نے اس آواز میں خاص اثر رکھا ہے۔ واقعی بڑا خاص اثر ہے۔ ایسا ہو گيا ہے کہ جب کسی شہید کے بارے میں کوئی بات نقل کی جاتی ہے، کوئی سنجیدہ اور متین بات نقل کی جاتی ہے تو دلوں پر اس کا اثر ہوتا ہے اور لوگوں کے دل منقلب ہو جاتے ہیں۔ یہی نوجوان شہدا جو ان دنوں حرم اہل بیت کے دفاع کے لئے جاتے ہیں، جو گئے اور شہید ہوئے، منجملہ آپ کے یہی عزیز قزوینی شہید، ان کی باتیں، ان کے عمل، ان کا فعل، ان کی یادیں، ان کے بارے میں بیان کی جانے والی باتیں، یہ سب کچھ بیدار کرنے والی ہیں، یہ سب متنبہ کرنے والی چیزیں ہیں۔ یہ ہماری سماعتوں کا بہرا پن ہے کہ ہم ان پیغامات کو بخوبی سن نہیں پاتے۔ اگر یہ پیغامات ہمیں سنا دئے جائیں تو پھر مشرق کی جانب، مغرب کی جانب، دشمن کی جانب، کفر کی جانب الحاد وغیرہ کی جانب رجحان کی ہمارے درمیان کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔ ہمارے اندر آپ جو یہ کمزوریاں دیکھتے ہیں وہ اس وجہ سے ہیں کہ ہم ان پیغامات کو نہیں سن پاتے۔ اگر ہم ان پیغامات کو سن سکیں تو جذبات کو تقویت ملے گی اور ہمارے عمل میں استحکام پیدا ہوگا۔ آپ شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا جو کام کر رہے ہیں یہ بہت قیمتی اور گراں قدر ہے۔ میں نے عرض کیا کہ مقدس دفاع کے اختتام کو تیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن اگر تین سو سال گزر جائیں تب بھی ہمارے یہ عزیز شہدا ہرگز فراموش نہیں کئے جائیں گے۔ ان کی یادیں روز بروز زیادہ زندہ اور تازہ ہوتی جائیں گی۔ بحمد اللہ ہمارے معاشرے میں ان کی یادیں اور بھی تازہ ہوتی جا رہی ہیں۔ البتہ بعض لوگ شہدا کو فراموش کروا دینے کی کوشش کر رہے تھے، ان شہیدوں کے کارناموں کی عظمت کو مخدوش کرنے کی کوشش کر رہے تھے، ان کے بارے میں تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر وہ کامیاب نہیں ہو پائے۔ نتیجہ بالکل برعکس نکلا۔ آج بحمد اللہ شہدا ہمارے نمونہ عمل بن چکے ہیں۔ خداوند عالم ان شاء اللہ ہمارے عزیز شہدا کو پیغمبر کے ساتھ محشور فرمائے۔ اللہ تعالی آپ حضرات کو جو ان عزیزوں کی قدردانی کو اپنا فریضہ جان کر اس میدان میں اترے ہیں، توفیق عطا فرمائے، آپ کو اجر دے کہ آپ اس کام کو بنحو احسن ان شاء اللہ انجام دے سکیں۔

 جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بیرجند کے شہیدوں کی تعلق سے عرض کیا، ان شہیدوں کی یادوں سے جہاں تک ہو سکے بھرپور استفادہ کیجئے۔ جہاں تک ممکن ہو ان کے بارے میں لکھئے، سنئے، درج کیجئے، ضبط تحریر میں لائيے، اس پر فنکارانہ کام کیجئے۔ ان کے بارے میں کوئی مبالغہ آرائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ بعض اوقات کچھ لوگ مبالغہ آرائی کرتے ہیں، اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ خود ان کا عمل اس قدر عظمت کا حامل ہے کہ اس میں کچھ بڑھانے، اسے سنوارنے اور اس کے بارے میں مبالغہ وغیرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے ذریعے انجام پانے والے کام بہت اہم ہیں۔ کون ہے جو اپنی جان کی پروا نہیں کرتا؟ ہم دنیا کے معمولی انسان چھوٹے سے فائدے کے لئے خلاف قانون کام کرنے پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں اور ایک یہ ہیں جو کسی بھی انسان کی سب سے قیمتی اور پیاری شئے یعنی اپنی عمر اور جان کو اللہ کے لئے قربان دیتے ہیں، وہ بھی نوجوانی کے سن میں۔ ایسے سن میں جب انسان کے اندر گوناگوں چاہتیں بڑی مستحکم ہوتی ہیں، جب انسان کے اندر آرزوئیں اور تمنائیں اوج پر ہوتی ہیں، انھوں نے ان تمناؤں کو نظرانداز کیا، آرام و آسائش سے منہ موڑ لیا، راہ خدا میں نکل پڑے اور جاکر اپنی جان قربان کر دی۔ خود یہ عمل اپنے آپ میں اتنا عظیم ہے، اس قدر باشکوہ ہے کہ کسی مبالغہ آرائی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ آپ یہ کام اسی توجہ اور اسی استحکام کے ساتھ جاری رکھئے۔ اللہ تعالی آپ کی مدد فرمائے اور آپ کو نیکیاں عطا کرے۔

و السّلام علیکم و رحمة‌ اللّه و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو اجتماعی ملاقات کی شکل میں انجام پائی، قزوین کے امام جمعہ حجت الاسلام و المسلمین عبد الکریم عابدینی نے کچھ نکات پیش کئے۔

۲) سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۱۷۲ کا ایک حصہ

۳) سوره‌ آل‌ عمران، آیت نمبر ۱۷۳  اور آیت نمبر ۱۷۴ کا ایک حصہ

۴) سوره‌ آل ‌عمران، آیت نمبر ۱۷۰ کا ایک حصہ

۵) خراسان جنوبی صوبے کے شہدا پر سیمینار کی منتظمہ کمیٹی کے ارکان بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔