بسم اللہ الرحمن الرحیم

جن عزیزوں کے فارغ التحصیل ہونے کا جشن ہے اور جو عزیز نوجوان آج سے اپنے کندھوں پر بیج لگاکے علمی اور تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کریں گے ان سب کو اور اسی طرح  اس یونیورسٹی کے اساتذہ اور ذمہ دار عہدیداروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے محنتیں کی، زحمتیں برداشت کیں، پلاننگ کی اور اپنی ان تمام محنتوں کا نتیجہ آپ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ میں اسی کے ساتھ انیس بہمن مطابق آٹھ فروری کی بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ یہ دن اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج اور فضائيہ کے لئے بہت ہی یادگار دن ہے۔ میں فضائیہ کے عظیم شہیدوں، شہید ستاری، شہید بابائی اور دوسرے تمام شہیدوں کو جو اس ملک کی تاریخ کی یادگار ہستیاں اور آسمان افتخار کے روشن ستارے ہیں، ان پر دورود و سلام بھیجتا ہوں۔

انیس بہمن (مطابق آٹھ فروری) اور اس دن فضائیہ نے جو کام کیا ہے اس کا صحیح جائزہ لیا جائے تو اس دن اور تحریک سے متعلق بہت سے مفاہیم سامنے آئيں گے۔ اس دن فوج آکے عوام کے ساتھ اگلے محاذ پر کھڑی ہو گئی۔ انہیں اہداف، انہیں امنگوں، انہیں جذبات اور انہیں طریقوں کے ساتھ ۔ عوام تکلیف میں تھے۔ یہ عظیم انقلاب تھا جو عوام نے رنج و الم اور تکلیفوں سے نجات پانے اور مستقبل کی تعمیر کے لئے برپا کیا تھا۔ اس ملک پر مسلط حاکم کے  کالے استبداد سے عوام مصیبت میں تھے۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ صورت حال سلطنت کا لازمہ تھی۔ اس لئے نظام بادشاہی، مالکیت اور عوام کی زندگی کے تمام ستونوں کو اپنے چنگل میں لینے کا نظام اور اس کو برداشت کرنا بہت مشکل ہے۔ دوسرے یہ حکمراں طاغوتی خاندان استبداد اور خودسری کے ساتھ  اخلاقی کجروی اور  بدعنوانیاں پھیلانے میں مصروف تھا اور سب سے بدتر یہ تھا کہ اس نے ملک و قوم کو دشمنوں اور اغیار کے حوالے کر دیا تھا۔عوام کو اس کی بھی تکلیف تھی ۔ جب کوئی قوم کسی بیرونی طاقت کے ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور فوجی تسلط میں ہو تو ترقی کرنے اور اپنی امنگوں کی طرف آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔ ہر زندہ مخلوق نمو کے مراحل طے کرنا چاہتی ہے۔ آپ کسی پودے کا نمو روکنے کی کوشش کریں تو اس کے اطراف میں جو چیزیں آپ رکھتے ہیں انہیں توڑ کے اور پتھر میں سوراخ کرکے وہ پودا نمو حاصل کرتا ہے۔ انسان اور سماج بھی ایسا ہی ہے۔ تسلط پسند طاقتوں نے قوم کے جذبات و احساسات کو ختم کرنے کے لئے جو راستے سوچے ہیں، وہ اقوام کو بے حس، بے خود اور بد مست رکھنا ہے۔ فاسد اور مفسد پہلوی حکومت تمام وسائل کو بروئے کار لاکر یہ کام کر رہی تھی۔ عوام میں بے حسی، بیخودی اور غفلت پھیلا رہی تھی اور انہیں توہمات میں غرق کر رہی تھی۔ البتہ بعض اوقات ملمع کاری اور 'میک اپ' کے ساتھ یہ کام کئے جاتے تھے۔ اس زمانے میں فوج کو بھی اسی مصیبت میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ فوج نے اس کو برداشت نہیں کیا اور حصار توڑ دیا۔ اس دن فضائيہ کے جوانوں کا علوی کالج میں آنا حصار توڑنے کے ہی مترادف تھا۔ میں اس دن علوی کالج میں موجود تھا اور نزدیک سے فضائیہ کے جوانوں کے اس کارنامے اور جوش وجذبے کا مشاہدہ میں نے کیا تھا۔

فوج کو اندر سے کھوکھلا کر رہے تھے۔ فوج ان کے جاہ و جلال اور ظاہری شان  و شوکت کے لئے تھی۔ فوج کو صرف  ظاہری شان و شوکت دے رکھی تھی۔ لیکن علم، ٹیکنالوجی اور فوجی وسائل کی تیاری کی کوئی خبر نہیں تھی۔ اس کی اجازت ہی نہیں تھی۔ اس زمانے میں بھی فضائیہ کے جوانوں کی استعداد و صلاحیت اج کے جوانوں کی طرح ہی تھی لیکن انہیں ان کاموں کی اجازت ہی نہیں تھی۔ انہیں ایک مخصوص دائرے میں اور ملک سے باہر مخصوص ماحول میں ٹریننگ اور تعلیم دی جاتی تھی۔ صرف فوجی معاملات میں ہی نہیں بلکہ ان کی ثقافت اور ان کے اعتقادات و نظریات میں بھی   معیارات اور طور طریقے غیر ملکیوں کے زیر اثر تھے۔ فوج کو جو چند فوجی وسائل   دیئے جاتے تھے (وہ بھی  ایسے تھے کہ خراب ہونے کی صورت میں فوجی انہیں ٹھیک نہیں کر سکتے تھے) جس فوج کے پاس ایسے اسلحے اور وسائل ہوں کہ ان کے پرزے ہل جائیں یا خراب ہو جائيں تو وہ انہیں ٹھیک نہ کر سکے تو وہ فوج کیا ہے اور کس حد تک خود مختار ہو سکتی ہے؟ صورتحال یہ تھی۔ اس زمانے میں یہ بات نہیں کی جاتی تھی کہ ایرانی فوج اپنے اسلحے اور وسائل خود تیار کرے اور اپنی تحقیقات کے نتائج سے استفادہ کرے۔ یہ بات ہرگز نہیں کی جاتی تھی۔ حتی یہ بات بھی نہیں کی جاتی تھی کہ جو جنگی طیارے یا راڈار یا جدید الیکٹرونک وسائل اس کے پاس ہیں انہیں اچھی طرح پہچانے۔ اس کی اجازت ہی نہیں تھی۔ یہ وہ پتھر، چٹانیں اور دیواریں تھیں جو فوج کی ترقی اور پیشرفت کو روکنے کے لئے کھڑی کی گئی تھیں۔ جس کے گرد بھی یہ حصار کھینچا جائے جب تک وہ بے حس اور بیخود ہے یہ حصار باقی رہے گا لیکن جب وہ ہوش میں آ جائے گا تو حصار توڑ دے گا اور رکاوٹیں ہٹا دے گا۔ یہی ہوا اور فوج حصار توڑ کے باہر آ گئی اور عوام کے ساتھ اگلے محاذ پر کھڑی ہو گئی ۔

عوام نے یہ حصار توڑ دیا اور وہ پردے ہٹا دیئے جو اس لئے لگائے گئے تھے کہ عوام حقیقت کو نہ دیکھ سکیں۔ جس چیز نے عوام کو بیدار کیا، وہ نام خدا، یاد خدا، اسلام اور وہ الہی و خدائی انسان (امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اعلی اسلامی اہداف اور اسلامی امنگوں کا زندہ ہونا اور مستقبل کی امید تھی۔ یہ راستہ عوام کے سامنے کھل گیا۔ حق تو یہ ہے کہ  مسلح افواج، فوج، پاسداران انقلاب فورس، عوام اور قوم کے مختلف طبقات گزشتہ بیس سال میں امتحان میں کامیاب رہے۔ ایرانی قوم آج تاریخ میں سرخ رو ہے۔

  آپ جانتے ہیں کہ یہی ختم ہونے والی بیسویں صدی انقلاب کی صدی تھی۔ اس صدی کے دوسرے عشرے سے بلکہ اس کے پہلے ہی عشرے سے سماجی اور سیاسی انقلابات شروع ہوئے اور یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا۔ دسیوں حوادث رونما ہوئے، جو واقعی انقلاب تھے یا انہیں انقلاب کا نام دیا گیا۔ بعض فوجی بغاوتیں تھیں جن کو انقلاب کہا گیا۔ میں کسی ایسی قوم کو نہیں جانتا ہوں جس نے ایرانی قوم کی طرح پوری آگاہی، اصولوں اور امنگوں کے ساتھ، ایسی بیداری اور بہادری کے ساتھ اپنے راستے، اپنے کام اور اپنی امنگوں کا دفاع کیا ہو۔ یہ آپ سے مخصوص ہے۔ یہ مبالغہ اور بیجا تعریف نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ جس کو بھی گزشتہ سو سال کی رودادوں کی اطلاع ہو وہ گواہی دے گا کہ ایرانی قوم، بہت عظیم، دلیر اور قابل فخر قوم ہے جس نے ترقی اور پیشرفت کی ہے۔ اسی طرح جس کو بھی اطلاع ہو وہ جانتا ہے کہ ایرانی قوم کی طرح کسی بھی قوم کو دشمنوں کی وحشیانہ اور ایسی روشوں کا سامنا نہیں  کرنا پڑا ہے جو شرافت اور اخلاق کے تمام معیاروں اور اصولوں سے دور ہیں۔  دشمن ہمارے ساتھ اس طرح پیش آئے ہیں۔ ہم نے ان رکاوٹوں کو اپنے راستے سے ہٹا دیا اور پیشرفت کی۔ 

آج ہماری فوج ایک ترقی یافتہ، آگاہ اور صاحب علم و دانش فوج ہے۔ تحقیق و ریسرچ کی مالک ہے اور اسلحے نیز فوجی وسائل خود تیار کرتی ہے۔ آج ہماری فوج یک صالح فوج ہے۔ آج فوج میں ہمارے جوان مومن، صالح،  فداکار، دلیر اور قابل فخر ہیں۔ جو قوم بھی اپنی مسلح افواج کو ایسا پائے گی ، وہ خوشیوں سے سرشار ہو جائے گی۔ وہ قید و بند،  برائیاں اور رسوائیاں جو دوسری جگہوں پر دیکھنے میں آتی ہیں یا سنی جاتی ہیں،  الحمد للہ ہماری فوج اور مسلح افواج میں نہیں ہیں یا بہت کم ہیں۔ 

 ہمارے عزیز جوانو! عزیز کمانڈرو! اس حالت کو ختم نہ ہونے دیں۔ جہاں بھی ہوں، فضائیہ میں ہوں ، بری فوج میں ہوں یا بحریہ میں ہوں، یا دیگر مسلح فورسز میں، پاسداران انقلاب اسلامی فورس میں، یا پولیس فورس میں یا دوسری جگہوں پر، جہاں بھی ہوں، پاکیزگی اور تقدس کی یہ کیفیت جو ہماری مسلح افواج میں وجود میں آئی ہے، اس کو کم نہ ہونے دیں، ہر قیمت پر اس کی حفاظت کریں۔ خاص طور پر وہ نوجوان جو علمی مراکز میں ہیں آپ کے معلمین اور کمانڈر، سب اس بات کا خیال رکھیں کہ اس خلوص، نورانیت اور طہارت میں  روز افزوں اضافہ ہو۔ اس قوم کی مشکلات اس طرح دور ہوں گی، وہ اس راہ میں اپنے اہداف تک پہنچے گی اور سربلند و سرافراز ہوگی۔ کوئی بھی بڑی آرزو، صبر و تحمل، استقامت، انتھک کوششوں، توجہ، خدا پر توکل آلودگیوں سے دوری اور پاکیزگی و طہارت کے بغیر پوری نہیں ہوتی۔ آج دنیا میں جو ترقی و پیشرفت اور پسماندگی پائی جاتی ہے اگر ان کا تجزیہ کریں اور ان کے علل و اسباب کا پتہ لگائیں تو دیکھیں گے کہ حقیقت یہی ہے۔ جہاں بھی کسی گروہ یا جماعت نے کوئی بڑا ہدف حاصل کیا ہے، وہاں یہ ضروری چیزیں موجود رہی ہیں، جد و جہد، استقامت، پائیداری اور روز مرہ کی زندگی میں رکاوٹیں بننے والی چیزوں سے دامن کو پاک رکھنا۔ اجتماعی کاموں میں اس طرح کی چیزوں میں جو انفرادی زندگی میں بہت اچھی اور ضروری ہو سکتی ہیں، لیکن جب امنگوں اور اصولوں کی بات ہو تو رکاوٹ بن جاتی ہیں، ایسی چیزوں میں غرق نہیں ہونا چاہئے۔

خدا وند عالم آپ کو توفیق عنایت فرمائے۔ فضائیہ کے تعلق سے میں دیکھتا ہوں کہ میری بہت سے آرزوئيں پوری ہو گئی ہیں؛ لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ ابھی بہت سی آرزوئيں ایسی ہیں جو آپ پوری کر سکتے ہیں۔ یہ ذاتی آرزوئیں نہیں ہیں۔ یہ اس قوم کی آرزوئیں ہیں، مسلح افواج کی آرزوئيں ہیں۔ آپ کو بہت کام کرنے ہیں، بہت محنت کرنی ہے۔ جد و جہد اور راہ خدا کو ترک نہ کریں؛ اس راستے پر آگے بڑھتے رہیں۔ جس طرح اس وقت نظر آ رہا ہے،  ان شاء اللہ اس کے بعد بھی جب بھی یہاں کا مشاہدہ ہوگا پہلے سے بہتر، زیادہ پیشرفت، زیادہ شکوہ اور معنوی لحاظ سے زیادہ عظمت کا مشاہدہ کیا جائے گا۔ 

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ