بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ ‌العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

برادران عزیز، خواہران گرامی، حقیقی معنی میں افتخار آفریں نوجوانو! آپ کا خیر مقدم ہے۔ ورزش ایک خصوصیت ہے۔ عام افراد کی سطح پر بھی اگر کوئی شخص ورزش کرتا ہے تو وہ ورزش نہ کرنے والے شخص کے مقابلے میں ایک اضافی خصوصیت کا مالک ہے۔ اسی طرح قومی سطح پر اور ملکی سطح پر بھی یہ ایک الگ خصوصیت ہے۔ جس ملک میں ورزش کا ماحول ہے، عمومی ورزش ہے اور مقابلہ جاتی ورزش جو عمومی ورزش کے لئے نمونہ عمل ہوتی ہے، وہ موجود ہے تو دیگر ممالک کے مقابلے میں اس ملک کی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے۔ آج دنیا میں یہ چیز رائج ہو چکی ہے۔ اسے سب جانتے ہیں اور سب سمجھتے ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا کے ممالک مقابلہ جاتی کھیلوں کے لئے اور اپنے چیمپیئنوں کی مدد کے لئے کتنا پیسہ خرچ کرتے ہیں، کتنی محنت کرتے ہیں؟! اتنا ہی نہیں بسا اوقات تو اس کو مد نظر رکھ کر پالیسی سازی کرتے ہیں۔ آج دنیا میں یہ نعرہ تو بہت لگایا جاتا ہے کہ کھیلوں کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہئے، اسپورٹس میں سیاست کا دخل نہیں ہونا چاہئے، دنیا میں اس طرح کے نعرے ہیں، لیکن کبھی کبھی وہ ورزش کی آڑ میں سیاسی پالیسیاں بناتے ہیں۔ کس لئے؟ اس مقصد سے کہ اپنے ملک کو ورزش کی برکت سے اور ورزش کی دلکشی سے سنواریں۔ ورزش کی یہ اہمیت ہے۔ لہذا آپ لوگ جو اسپورٹس کے شعبے میں مصروف ہیں، محنت کر رہے ہیں تو آپ کو یہ احساس رہنا چاہئے اور حقیقی معنی میں اس پر یقین رکھنا چاہئے کہ آپ بڑا اہم روحانی عمل انجام دے رہے ہیں۔ اگر آپ کی نیت ملک اور اسلامی جمہوریہ کی خدمت کرنا ہو تو یقینا یہ عمل صالح اور روحانی فعل قرار  پائے گا۔ یعنی اس پر ثواب ملے گا۔ عبادت جیسا ہو جائے گا، یہ عبادت قرار پائے گا۔ خود ورزش کا معاملہ یہ ہے۔

آپ سب کے بارے میں بھی چند نکات میں نوٹ کرکے لایا ہوں جو آپ کی خدمت میں عرض کرنا ہے۔ مقابلہ جاتی ورزش خود اعتمادی کی مظہر ہے، عزم و ارادے کی نشانی ہے۔ ساری دنیا کے چیمپیئن ایسے ہی ہوتے ہیں۔ چیمپيئن شپ اور چیمپیئن بننے کی ان کی توانائی ان کے محکم ارادے اور پختہ عزم کی علامت ہوتی ہے۔ جو افراد جسمانی طور پر معذور یا جنگ میں زخمی ہوکر معذور ہو جانے والے جانباز ہیں ان کے سلسلے میں یہ خصوصیت دگنی ہوتی ہے بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ ہے۔ یعنی آپ فرض کیجئے کہ کوئی شخص ہے جس میں کسی طرح کا کوئی نقص نہیں ہے، اگر وہ کسی کھیل میں چیمپیئن بن جائے اور کوئی پوزیشن حاصل کر لے اور دوسری طرف کوئی شخص ایسا ہے جو جسمانی طور پر معذور ہے اگر وہ بھی وہی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے اور اسی توانائی کا مظاہرہ کرے تو یہ اس شخص کے غیر معمولی طور پر پختہ عزم کی نشانی ہے۔ بنابریں اس کارکردگی کی اہمیت دگنا یا کئی گنا ہے۔ آپ جسمانی مشکل کے باوجود اس میدان میں درخشاں کارکردگی انجام دینے میں کامیاب ہوئے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ بنابریں جو لوگ معذور ہیں ان کا کھیل اور ان کی چیمپیئن شپ ان لوگوں کے کھیل اور چیمپيئن شپ کے مقابلے میں جنہیں کوئی جسمانی عذر نہیں ہے دو گنا یا اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ یہ آپ کے پختہ عزم کی علامت ہے۔ آپ کے اندر جیسے ہی کوئی جسمانی مشکل پیدا ہوئی، آپ کے ہاتھ میں، آپ کے پیر میں یا جسم میں کسی اور جگہ پر تو آپ اسی وقت خود کو کھیلوں اور مقابلوں سے الگ کر سکتے تھے اور یہ عذر پیش کر سکتے تھے کہ مجھے جسمانی مشکل ہے۔ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ میدان میں اترے، محنت کی، سعی و کوشش کی، مشق کی، خود کو سخت دباؤ میں ڈالا، پختہ عزم کا مظاہرہ کیا اور اس کھیل کی بلند چوٹی تک خود کو پہنچایا۔ مقابلہ جاتی ورزش چوٹی کا درجہ رکھتی ہے جبکہ عمومی ورزش پہاڑ کے دامن کی مانند ہوتی ہے۔ ہر شخص اس چوٹی کی جانب جانا چاہتا ہے۔ سب اس چوٹی کو دیکھتے ہیں اور اس سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح آپ کے عمل کی قیمت دوسرے چیمپیئنوں سے زیادہ ہے جن کے یہاں جسمانی طور پر کوئی نقص نہیں ہے۔ یہ تو رہی پہلی بات۔

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ میں نے حرکات و سکنات میں، اس دفعہ بھی دیکھا جہاں تک مجھے ٹی وی دیکھنے کا موقعہ مل پایا اور اس سے پہلے بھی دیکھا کہ آپ فتح ملنے کے بعد اللہ کا شکر کرتے ہیں، آپ میں سے کچھ سجدہ کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس فتح کو اللہ کی دی ہوئی نعمت سمجھتے ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ سرکش اور مغرور انسانوں کی مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی قوت و توانائی اور خصوصیات کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں، لطف خداوندی اور عنایت پروردگار کی جانب ان کی کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ آپ اپنے اس عمل سے، اپنی اس توجہ سے، اپنے اس توسل سے، اپنے سجدے سے، ہاتھ بلند کرکے دعا کرنے سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ غفلت کا شکار نہیں ہیں بلکہ بخوبی جانتے ہیں کہ جس نعمت سے آج اس وقت سرخرو ہوئے ہیں وہ اللہ کی دی ہوئی ہے۔ یہ شکر کا بڑا اہم مرتبہ ہے۔ یہی عمل ان شاء اللہ آپ کی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہنے کا سبب بنے گا اور آپ کی توانائیوں میں بھی برکت ہوگی۔ اس لئے کہ ارشاد ہوتا ہے؛ لَئِن شَکَـرتُم لَاَزیدَنَّکُم (۲) اگر شکر کرو تو اللہ نعمت میں اضافہ کرتا ہے۔ آپ کا یہ عمل جو نعمت خداوندی کے سلسلے میں آپ کے ادراک کی علامت ہے یہ شکر کا بہت اہم مرتبہ ہے۔

ایک نکتہ اور بھی جو میری نظر میں بہت اہم ہے، وہ خود اعتمادی ہے جس کا مظاہرہ آپ نے اپنی اصلی ماہیت کے دفاع کے لئے کیا۔ اس کا ایک نمونہ یہ تھا کہ آپ میں پرچم جس خاتون نے اٹھایا وہ چادر میں تھی۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس خاتون نے جو چادر پہنے ہوئے تھی اور ہاتھ میں پرچم لیکر افتتاحیہ تقریب میں اور اختتامی تقریب میں کارواں کے آگے آگے چل رہی تھی، اس پر توجہ دی یا نہیں کہ اس کے اس عمل کی حد درجہ اہمیت اور قدر و قیمت ہے؟ یہ عمل کتنا با عظمت تھا؟! اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ دنیا کی روز افزوں ثقافتی یلغار اور اخلاقی کجروی کی ترویج کی مہم کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ اس کا یہی مطلب ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ صیہونیوں اور دنیا میں اخلاقی بے راہروی کی ترویج کرنے والے اداروں کی پالیسیوں کے خلاف جو مرد عورت سب کو اخلاقی پستی میں دھکیلنے کے لئے کوشاں ہیں، ثابت قدمی سے کھڑے ہیں۔ آپ نے اپنے حجاب کے ذریعے، اپنی چادر کے ذریعے اپنے دین کا، اسلامی تعلیمات کا ایک بین الاقوامی فورم پر، ایک عالمی فورم پر دفاع کر رہی ہیں اور ذرہ برابر ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو متزلزل ہو جاتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ اس طرح کے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر کفر و استکبار کے محاذ کی لا متناہی توقعات کے سامنے کمزور پڑ جاتے ہیں، پسپائی اختیار کر لیتے ہیں۔ مگر آپ نے ثابت قدمی دکھائی۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ آپ نے جماعت سے نماز ادا کی۔ نماز جمعہ میں بھی شرکت کی۔ یعنی اپنے دین، اپنی تعلیمات، اپنے قومی اقدار، اپنے قومی لباس، چادر ہمارا قومی لباس ہے، اپنے دین اور اپنے حجاب و عفت کا دفاع کیا۔ میرے لئے یہ چیز حد درجہ اہمیت کی حامل ہے۔ میں آپ سب کا، کھلاڑیوں کے کارواں کے سربراہ کا اور ان خواتین کا جنہوں نے ان چیزوں کی رعایت کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ یہ ثقافتی توانائی کا مظاہرہ تھا۔ آپ دیکھئے کہ اس سے ثقافتی استحکام کی نمائش ہوتی ہے۔ یہ ثقافتی خود مختاری کا مظہر ہے۔ یہ محکم ارادے کی نمائش ہے۔ آج دنیا میں جنگ ارادوں کی جنگ ہے۔ جس فریق کے پاس محکم اور پختہ ارادہ ہوگا، زیادہ ثبات قدم ہوگا میدان میں فتح اس کے قدم چومے گی۔ آپ نے یہاث ثابت کر دیا کہ آپ کے اندر توانائی ہے، قوت ہے۔

اس سال اسپورٹس ٹیم کے یہاں ایک اور اہم نکتہ یہ نظر آیا کہ اخراجات میں بڑی کفایت شعاری کی گئی۔ مجھے اس کی رپورٹ ملی، یہ بہت اچھی بات ہے۔ میں نے سنا کہ کھلاڑیوں کے کارواں کے محترم عہدیداران نے اخراجات میں بڑی کفایت شعاری سے کام کیا۔ ایسے بہت سے افراد کو اپنے ساتھ لے جانے سے اجتناب کیا جو بلا وجہ چلے جایا کرتے تھے۔ میں اس عمل کی حمایت کرتا ہوں۔ میں اس کی تعریف کرتا ہوں۔ میں حقیقت میں اس کی تعریف کرتا ہوں۔

جسمانی معذور افراد کے اسپورٹس اور مقابلوں کے بارے میں ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ یہ چیز انسان کے وجود میں پنہاں توانائیوں کو متحرک کرتی ہے۔ آج ملک کے اندر ہماری ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ہمارے پاس بے پناہ توانائیاں ہیں، قومی صلاحیتیں اور توانائياں موجود ہیں جنہیں ہم استعمال نہیں کرتے۔ جغرافیائی توانائیاں ہیں، ثقافتی توانائیاں ہیں، افرادی قوت کا سرمایہ ہے، زیر زمین ذخائر کی توانائياں ہیں، تجارت کی توانائیاں موجود ہیں، بین الاقوامی آمد و رفت، ٹرانزٹ اور مرکزیت کی توانائیاں ہیں، گوناگوں صلاحیتیں اور توانائیاں ہیں، لیکن ان میں بہت سی توانائياں استعمال ہی نہیں کی جاتیں۔ اگر انھیں استعمال کیا جائے تو ملک کی موجودہ اقتصادی مشکلات کافی حد تک حل ہو جائیں گی۔ جن چیزوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت  ہے ان میں ایک یہی ہے۔ انسانوں کے پاس کچھ صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ انسان ان صلاحیتوں سے غافل ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص کسی جسمانی معذور کو دیکھتا ہے جس کے جسمانی اعضا میں کوئی نقص ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس معذور شخص کے اندر ایک عام انسان کی بہت سی صلاحیتیں نہیں ہیں، لیکن اسی جسمانی معذور شخص کے اندر ایسی توانائی ہے کہ وہ چیمپیئن شپ جیت لیتا ہے۔ آپ نے چیمپیئن شپ جیتی، طلائی تمغہ حاصل کیا، سلور میڈل جیتا یا کوئی اور میڈل جیتا۔ یہ توانائی اور یہ صلاحیت ممکن ہے کہ کسی اور شخص میں بھی موجود ہو لیکن اسے بروئے کار نہ لایا گيا ہو، مگر آپ نے اس صلاحیت کو استعمال کیا۔ یہ اہم بات ہے۔ آپ کی ورزش اور آپ کی چیمپیئن شپ انسان کے وجود میں موجود پنہاں صلاحیتوں کو استعمال کئے جانے کے امکانات کا ثبوت ہے۔ یعنی آپ دوسروں کے لئے درس اور استاد ہیں۔ ہم سب کو واقعی سیکھنے کی ضرورت ہے۔ مختلف سن کے افراد، خاص طور پر نوجوانوں کو چاہئے کہ آپ سے سیکھیں اور یہ سمجھیں کہ ان کے وجود کے اندر، ان کے جسم کے اندر، ان کے ارادے اور روح کے اندر ایسی صلاحیتیں موجود ہیں جنہیں بروئے کار لایا جا سکتا ہے اور ان سے ملک کی پیشرفت میں مدد لی جا سکتی ہے۔ انھیں ملک، خود اس انسان اور دنیا و آخرت کی تعمیر و ترقی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔  میری نظر میں یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے۔ یعنی آپ توانائیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لائے جانے کا مظہر ہیں۔

آپ حضرات میں سے ایک نے، البتہ میں آپ سب کو قریب سے نہیں جانتا، چھے میڈل جیتے ہیں۔ غالبا تیراکی میں! یہ بہت اہم بات ہے۔ چھے میڈل! (3)، چھے میڈل آپ نے حاصل کیا ہے اس مقابلے میں جس کی مہارت آپ کے اندر ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ یعنی آپ نے عجیب توانائی کا مظاہرہ کیا۔ شاید ایک عرصہ قبل خود جناب عالی کو بھی اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ آپ کے اندر اس طرح کی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن آپ میدان میں اترے، محنت کی، عمل کیا، قوت ارادی استعمال کی، فیصلہ کیا اور اس منزل پر پہنچ گئے کہ چھے گولڈ میڈل جیت لئے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔

آخری نکتہ یہ ہے کہ عام لوگوں، عوام الناس کو جوش و جذبہ دلانے میں آپ کی تاثیر زیادہ ہے۔ میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ مقابلہ جاتی کھیل پہاڑ کی چوٹی کی مانند ہیں۔ اسے ملک میں رائج ہونا چاہئے تاکہ بقیہ لوگ بھی ورزش کریں۔ ورزش سب کے لئے ضروری ہے۔ نوجوان بھی ورزش کریں، بوڑھے افراد بھی ورزش کریں۔ نوجوان افراد الگ انداز سے، بوڑھے افراد ہم جیسے لوگ الگ انداز سے۔ مگر ورزش سب کریں۔ ورزش کی ترغیب کون دلا سکتا ہے؟ وہی جو اس چوٹی پر ہے۔ وہی دوسروں کو حوصلہ اور ترغیب دے سکتا ہے۔ آپ جو ترغیب اور جو حوصلہ دیتے ہیں وہ دیگر افراد کے مقابلے میں دگنا ہے۔ اس لئے کہ آپ جسمانی مشکل کے باوجول اس عظیم افتخار کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

بہرحال میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اتنی زحمت کی، آپ کے کارواں کے عہدیداران کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اسپورٹس کے شعبے کے عہدیداران کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جناب خسروی وفا صاحب (4) اور دیگر افراد کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ آپ ہمیشہ کامیاب ہوں اور اس روحانی جذبے کو، اس التزام کو اور اس پختہ عزم کو ان شاء اللہ ہمیشہ قائم رکھیں اور روز بہ روز زیادہ بہتر پوزیشن میں خود کو پہنچائیں۔ ہمارے ان برادر عزیز نے جو جنگی معذور ہیں اور جنگی قیدی بھی رہ چکے ہیں، جو مطالبہ کیا ہے، اس میں جس کا تعلق حکومت سے ہے جناب وزیر (5) یہاں موجود ہیں وہ اس پر توجہ دیں یعنی اس پر عمل کریں۔ ان کا مطالبہ کچھ زیادہ نہیں ہے۔ بالکل صحیح اور حقیقت پسندانہ مطالبہ ہے۔ اسے انجام دیجئے اپنے بعد والے وزیر کے لئے نہ جھوڑئے۔ ہم سے جو مطالبہ کیا ہے رومال اور انگوٹھی کا اس پر ہم عمل کریں گے۔ ان شاء اللہ آپ سب کو رومال بھی ملے گا اور اور انگوٹی بھی دی جائے گی۔

و السّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں میڈل جیتنے والے کھلاڑیوں مہدی علی زادہ، محترمہ الناز دارابیان اور عشرت کردستانی نے اپنی گفتگو میں کچھ نکات بیان کئے۔

۲) سوره‌ابراہیم،آیت نمبر ۷ کا ایک حصہ

۳) رہبر انقلاب اسلامی نے شاہین ایزدیار کو مخاطب کرکے پوچھا کہ آپ ہیں؟ ما شاء اللہ۔

۴)  جسمانی معذور کھلاڑیوں کی فیڈریشن کے سربراہ

۵) اسپورٹس اور نوجوانوں کے امور کے وزیر ڈاکٹر مسعود سلطانی فر