بسم الله الرّحمن الرّحیم

ہمارے اس زمانے میں ایک انتہائی اہم اور باشرف عمل شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں دینی و انقلابی امور کی جانب عوام کا رجحان زیادہ ہے، اس عمل میں زیادہ رونق اور شکوہ دیکھنے میں آتا ہے۔ بحمد اللہ آپ کا صوبہ ایسے ہی صوبوں میں ہے۔ میں بیرجند اور اس مومن خیز اور علما خیز علاقے سے قدیمی آشنائی رکھتا ہوں۔  جنوبی خراسان ایسا ہی رہا ہے۔ اس صوبے میں بڑے مومن افراد رہے ہیں۔ خود بیرجند میں بھی، قائن میں بھی اسی طرح صوبے کے دیگر شہروں میں بھی بڑے ممتاز اور جید علمائے کرام رہے ہیں۔ ہمارے زمانے میں اور جن لوگوں کو ہم نے قریب سے دیکھا ہے ان میں آقا تہامی مرحوم، آقا آیتی مرحوم، آقا عارفی مرحوم، یہ تینوں ہستیاں نجف سے تعلیم حاصل کرنے والی عظیم علمی ہستیاں تھیں۔ آقا آیتی مرحوم آقا ضیاء مرحوم کے شاگرد تھے۔ آقا تہامی مرحوم آقا نائینی کے شاگرد تھے۔ آقا عارفی قم میں الحاج شیخ مرحوم (2) کے شاگرد تھے جو قم کے افاضل میں شمار ہوتے تھے۔

ہم نے اس علاقے کے عوام کی بھی دینداری دیکھی۔ 1963 میں جب وہاں انقلابی تحریک کا کوئی نام و نشان نہیں تھا میں وہاں گیا تھا اور میں نے وہاں پر منبر سے انقلابی تحریک کے بارے میں لوگوں کو بتایا تو لوگوں میں ایک ایسا جوش و جذبہ اور پذیرائی کا انداز نظر آیا کہ حیرت انگیز تھا! یہ ان کے لگاؤ اور رجحان کی علامت تھی۔ بحمد اللہ مقدس دفاع کے دوران بھی یہاں کے لوگوں نے بڑی محنت کی، کام کیا اور دو ہزار سے زیادہ شہیدوں کی قربانی پیش کی۔ جو لوگ زخمی ہوئے، دشمن کی قید میں رہے یا لا پتہ ہو گئے ان کے علاوہ اس صوبے نے دو ہزار سے زیادہ شہیدوں کی قربانی دی ہے۔ یہ شہدا مشخص ہو چکے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ان شہیدوں کی برکتیں اس صوبے کے عوام، یہاں کے مستقبل اور جوش و جذبے پر اپنا اثر ڈالیں گی۔

آج ہمارے وطن عزیز کو ان ہستیوں کی یاد میں پروگرام کرنے کی ضرورت ہے۔ روحانی و معنوی سطح پر دشمن کے حملے عام مسائل میں ہونے والے اس کے حملوں اور فوجی منصوبوں سے زیادہ خطرناک اور پیچیدہ ہوتے ہیں۔ آج دشمن اسی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ البتہ جس طرح دشمن عسکری، سیاسی اور اقتصادی دباؤ ڈالنے میں اب تک ناکام رہا ہے اس معاملے میں بھی وہ ناکام ہی رہا۔ اس معاملے میں بھی بحمد اللہ ملکی سطح پر انقلاب کا نمو واضح طور پر نظر آتا ہے۔ لیکن اس کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔ محنت کے نتیجے میں آج یہ حالات ہیں اور اگر مزید محنت کی جائے تو یہ نمو اسی طرح جاری رہے گا اور آگے بڑھے گا۔ ان شاء اللہ اس میں پیشرفت حاصل ہوگی۔ اس میں کوئی شک و شبہ ہے ہی نہیں۔ اسی لئے اس طرح کے جلسوں کا انعقاد اور شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنا خاص اہمیت اور قدر و منزلت رکھتا ہے۔

آپ اس عمل کو جاری رکھئے۔ شہیدوں کی یاد میں سیمیناروں کو بہترین معیار اور کیفیت کے ساتھ منعقد کیجئے۔ ان شہیدوں کے حالات زندگی کو لکھئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا شہید جس کی شناخت نہیں ہو سکی، جو کمانڈر یا افسر نہیں تھا اور نہ معروف شخصیت کا حامل تھا، لیکن جب اس کے حالات زندگی لکھے جاتے ہیں اور تحریر لوگوں کی نظر کے سامنے آتی ہے تو دلوں کو منقلب کر دیتی ہے۔ البتہ یہ تب ہوتا ہے جب درستگی کے ساتھ اور گوناگوں پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر یہ تحریر آمادہ کی گئی ہو۔ آپ یہ کام انجام دیجئے۔

جنگ کو ختم ہوئے تیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن مقدس دفاع کے واقعات اور امور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے عزیز شہدا جس زمانے میں بقید حیات تھے انھوں نے ملک کا دفاع کیا، جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان جہاد میں اترے، وہ آج بھی اپنے تشخص کے ذریعے، اپنی روحانیت کے ذریعے ملک کے تشخص کا دفاع کر رہے ہیں، اسلام کا دفاع کر رہے ہیں، یہ بہت اہم بات ہے۔ شہدا کے ماں باپ سے جاکر ملئے۔ بد قسمتی سے اب بہت سے شہدا کے والدین اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ مگر شہدا کے جو والدین زندہ ہیں ان سے ملئے، ان کے ماں باپ اور بیوی سے ملئے۔ جائیے اور سوال کیجئے، ان سے شہید کے حالات زندگی پوچھئے اور اسے ضبط تحریر میں لائیے۔ کوشش کیجئے کہ بہترین کیفیت میں یہ کام انجام پائے۔ تعداد کی اہمیت نہیں ہے، تعداد سے زیادہ اہم کوالٹی ہے۔ اس کا آپ خیال رکھئے۔

بہرحال ہم عزیز شہیدوں اور ان کے اہل خانہ کو دل سے سلام کرتے ہیں۔ خراسان جنوبی صوبے، بیرجند اور بقیہ شہروں کے شہیدوں اور وہاں کے عوام کو بھی ہم سلام کرے ہیں۔ جناب عبادی صاحب ہمارا سلام بیرجند کے عوام اور خراسان جنوبی صوبے کے عوام تک پہنچائیں اور دعا ہے کہ آپ پر الطاف الہیہ کا نزول ہو۔ جناب گورنر صاحب جیسا کہ انھوں نے کہا، عوام کی مشکلات پر توجہ دیں اور لازمی کاموں کو وہاں انجام دیں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) یہ ملاقات اجتماعی ملاقتوں کی شکل میں انجام  پائی۔

۲) شیخ عبد الکریم حائری