بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین

ممتاز علمی صلاحیت رکھنے والے نوجوانوں سے ملاقات واقعی مسرت بخش اور امید افزا ہے۔ میں اگر آپ سے بالمشافہ نہ مل سکوں تب بھی خوش ہوتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے وجود کی برکت سے، آپ کی محنت سے، ملک میں الیٹ نوجوانوں کی پرورش کے لئے جو عظیم مہم شروع ہوئی ہے اس سے میں باخبر ہوں، تاہم آپ کو دیکھ کر ہمیں زیادہ خوشی حاصل ہوتی ہے۔ میں آپ سب کا بہت شکر گزار ہوں کہ یہاں تشریف لائے۔ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ آج اس نے ہمیں یہ توفیق عطا کی۔ اس سے انسان کے اندر بڑی امیدیں جاگ جاتی ہیں۔ امید کے معاملے میں میں ایسا ہی ہوں۔ میں کبھی مایوس نہیں ہوتا اور کبھی مایوس نہیں رہا اور نہ ان شاء اللہ کبھی مایوس رہوں گا۔ تاہم جب انسان آپ کو قریب سے دیکھتا ہے اور آپ کی ان نہایت اہم باتوں کو جو یہاں بیان کی گئيں، سنتا ہے تو فطری طور پر امید بڑھ جاتی ہے۔

میں نے آپ کی خدمت میں عرض کرنے کے لئے چند نکات نوٹ کئے ہیں۔ ایک بحث خود الیٹ نوجوانوں کے بارے میں ہے۔ ایک بحث یونیورسٹی سے متعلق ہے۔ اگر وقت بچا تو ملک کے مجموعی مسائل کے بارے میں بھی بحث کریں گے۔ میں پہلے ہی عرض کر دوں کہ بعض چیزیں جو یہاں بیان کی گئيں ان سے میں سو فیصدی اتفاق رکھتا ہوں، اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ البتہ بعض باتیں ٹیکنیکل تھیں جو اس حقیر کی اطلاعات و معلومات کے دائرے سے باہر تھیں، لیکن بعض چیزیں جو احباب نے یہاں بیان کیں، خواتین و حضرات نے جن کا ذکر کیا وہ بہت محکم اور سنجیدہ باتیں تھیں۔ ان میں بعض چیزوں کا تعلق ہم سے ہے تو ہم اس سلسلے میں کام کریں گے۔ بعض باتوں کا تعلق محترم عہدیداران سے ہے جو اس اجلاس میں تشریف فرما ہیں، محترم وزرا، محترم نائب صدر کو ان باتوں کے تعلق سے مخاطب قرار دیا گیا ہے۔ خاص طور پر یہ شکوہ جو اس نوجوان نے آخر میں کیا۔ یہ بہت اہم باتیں ہیں۔ ان کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ میں سب کے بارے میں یہ بات نہیں کہتا، ویسے اس نوجوان نے تو سب کے بارے میں یہی رائے ظاہر کی تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی چیزیں موجود ہیں، ہمارے محترم عہدیداران ان چیزوں پر ان شاء اللہ توجہ دیں اور کام کریں۔

سب سے پہلے الیٹ نوجوانوں کا موضوع، الیٹ نوجوانوں پر کئی پہلوؤں سے نظر ڈالی جاتی ہے۔ ایک پہلو مسرت، افتخار اور امید و نشاط کے احساس کا پہلو ہے۔ در حقیقت ملکی حالات کی صحیح تصویر۔ یعنی جب انسان دیکھتا ہے اور ملک بھر میں اسے دسیوں ہزار الیٹ نوجوان نظر آتے ہیں جو الگ الگ شعبوں میں مصروف عمل ہیں تو یہ منظر ملکی مسائل کے بارے میں انسان کے تصور کی تصحیح کرتا ہے اور صحیح تصویر انسان کے سامنے پیش کرتا ہے۔ الیٹ نوجوانوں کے سلسلے میں ایک زاویہ نگاہ یہی ہے جو انسان کو مسرت بخش حقائق سے روشناس کراتا ہے۔

ایک زاویہ نگاہ ملکی امور کے لئے منصوبہ بندی کا زاویہ نگاہ ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ملک کے اندر سرگرم اور مفکر دماغ موجود نہیں ہوتے تو پھر انسان ملکی مسائل کے بارے میں ایک خاص انداز سے منصوبہ بندی کرتا ہے، لیکن کبھی ایسا نہیں ہے بلکہ ہزاروں نوجوان، جوش و جذبے سے سرشار، اعلی افکار کے مالک اور ان میں سے بعض انتظامی صلاحیتوں کے حامل دماغ موجود ہیں، یہ نکتہ بھی ہے کہ اعلی فکر ضروری نہیں ہے کہ ہمیشہ انتظامی صلاحیت کی بھی حامل ہو، اس سرمائے کو انسان مد نظر رکھ کر منصوبہ بندی کرنا چاہتا ہے۔ تو اس پہلو سے بھی ممتاز صلاحیت والے افراد پر توجہ دینا چاہئے اور یہ کلیدی نکتہ ہے۔ ملکی مسائل کے لئے منصوبہ بندی میں الیٹ نوجوانوں کی تاثیر۔ یا مثال کے طور پر تیل پر منحصر معیشت کو آزاد معیشت بنانے، نالج بیسڈ اکانومی بنانے، مزاحمتی معیشت بنانے کے عمل میں الیٹ نوجوانوں کے اثرات پر توجہ دینا۔ اگر ہمارے پاس جوش و جذبے والے، محنتی، ہمدرد الیٹ افراد نہ ہوں تو ہم اپنی معیشت کی ماہیت بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ لیکن جب ہمارے پاس اچھے افراد، محنتی لوگ اور کام سے لگاؤ رکھنے والے افراد موجود ہیں تو ہم یقینا اس کے لئے اقدام کریں گے۔ کبھی یہ صورت ہے کہ ہمارے پاس اچھے دماغوں کی کمی ہے مثال کے طور پر آئل انجینیئرز کی کمی ہے تو ہم یہی سوچیں گے کہ ٹھیک ہے تیل کے کنؤوں کا جس طرح اب تک استعمال ہوتا رہا ہے اسی طرح یہ سلسلہ جاری رکھتے ہیں لیکن کبھی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انجینیئرنگ کے شعبے میں، آئل انجینیئرنگ کے شعبے میں غیر معمولی پیشرفت حاصل ہو چکی ہے اور ہم محسوس کر رہے ہیں کہ تیل کے استعمال کے سلسلے میں نیا ماڈل سیٹ کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ ایک انتباہ تھا جو میں نے ملک کے تیل کے شعبے کے عہدیداران کو دیا تھا۔ جب گزشتہ سال انھوں نے تیل کے سودوں کا نیا ماڈل پیش کیا تو میں نے کہا کہ ٹھیک ہے پہلے آپ ان معاملات کو ہمارے اپنے نوجوانوں کے سامنے پیش کیجئے اور کہئے کہ جناب تیل کے کنؤوں سے ہمارا پروڈکشن تیس فیصدی ہے اسے ہم ساٹھ فیصدی تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ان سے کہئے کہ آپ اس پروجیکٹ پر کام کیجئے اور اس کے لئے دو سال کی مہلت دیجئے یا تین سال کی مہلت دیجئے۔ یقینا ہم اس منزل تک پہنچ جائیں گے۔ مختصر یہ کہ الیٹ نوجوانوں کی موجودگی کا منصوبہ بندی کے نظام میں خاص اثر ہوتا ہے۔ یہ رہا دوسرا زاویہ نگاہ۔

تیسرا زاویہ نگاہ۔ تیسرا زاویہ نگاہ ملکی پیشرفت کے مسئلے سے متعلق ہے۔ ہمیں علمی و سائنسی اعتبار سے پیشرفت کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری حتمی ضرورت ہے۔ اگر ہم علمی و سائنسی اعتبار سے پیشرفت نہیں کریں گے تو ہمارے تمدنی دشمنوں، ثقافتی و سیاسی دشمنوں کے خطرات دائمی طور پر موجود رہیں گے۔ اگر ہم نے علمی و سائنسی اعتبار سے پیشرفت حاصل کر لی تو یہ خطرہ یا تو ختم ہو جائے گا یا بہت کم ہو جائے گا۔ میں نے کئی بار اس نکتے پر زور دیا ہے۔ تقریبا بیس سال سے میں اس پر زور دے رہا ہوں اور میں نے بارہا اس حدیث شریف کا بھی حوالہ دیا ہے کہ؛ «اَلعِلمُ سُلطان» (۲) علم طاقت ہے۔ اس اعتبار سے بھی ممتاز صلاحیت والے نوجوانوں پر توجہ کی اہمیت ہے۔ صاحب استعداد نوجوان ملک کے اندر علم و سائنس کو آگے لے جائیں اور ملک کو ایسی مستحکم اور پر وقار پوزیشن میں پہنچا دیں کہ اسے نقصان پہنچانے کی گنجائش ہی نہ رہے۔ یہ تیسرا زاویہ نگاہ ہے۔

چوتھا زاویہ نگاہ علم و دانش کی حدوں کو آگے لے جانے سے متعلق ہے۔ آج ملکی سطح پر نہیں بلکہ پوری بشریت کی سطح پر علم و دانش کی معینہ حدود ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ان حدوں کو عبور کرکے آگے بڑھنے اور حدود کی توسیع میں کردار ادا کریں۔ حالیہ صدیوں میں اس میدان میں ہمارا کردار بہت محدود رہا ہے۔ ہم اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بھاپ کی طاقت کا انکشاف دوسروں نے کیا۔ الیکٹریسٹی کی طاقت کا انکشاف دوسروں نے کیا۔ جدید اختراعات دوسروں نے کیں۔ اس میں ہماری بھی شراکت ہونا چاہئے۔ ہمیں ملک کی علم و دانش کی حدود کو کھول کر آگے بڑھنا چاہئے۔ اس خداداد نیچر کے اندر بے پناہ توانائیاں پنہاں ہیں۔ ہمارے ممتاز دماغ بیٹھ کر غور کریں، نیچر کی جدید توانائیوں کا انکشاف کریں۔ یہ الیکٹریسٹی اس دنیا کی تخلیق کے آغاز سے ہی موجود تھی مگر ہم اس سے باخبر نہیں تھے، انسانوں کو اس کا علم نہیں تھا، چنانچہ وہ اس سے استفادہ نہیں کر پاتے تھے۔ بعد میں اتفاقیہ طور پر ایک ممتاز دماغ نے، ایک چنندہ ذہن نے اس کا انکشاف کیا جو آج پورے انسانی تمدن کا محور بن گئی ہے۔ اس میں کیا حرج ہے کہ آپ اس نہج پر غور کریں کہ اسی نیچر کے اندر دیگر دس بیس طرح کی انرجی موجود ہے جو انسانی زندگی میں، انسان کی پیشرفت میں، انسان کی خوش بختی میں موثر واقع ہو سکتی ہے؟ اس پنہاں انرجی اور وسائل کے بعض اقسام کا انکشاف ہمارے ممتاز دماغوں کے ذریعے انجام  پائے! ہمیں چاہئے کہ انکشافات اور دانش کی حدود میں توسیع کریں۔ الیٹ طبقے کو اس نظر سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ دیکھئے کہ میں الیٹ نوجوانوں کے لئے خاص اہمیت اور خاص احترام کا قائل ہوں تو وہ اسی نقطہ نگاہ کی بنیاد پر ہے۔ ہمارے ممتاز دماغ زندگی کے حالات کے سلسلے میں، منصوبہ بندی کے عمل میں، ملکی پیشرفت اور بشریت کی پیشرفت میں اپنا موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

یہاں ایک نکتہ اور ہے جسے میں نظر انداز نہیں کر سکتا اور وہ ہے وطن عزیز کا گزشتہ دو سو سال کا تلخ ماضی۔ آپ نوجوان خاص طور پر وہ افراد جو علمی میدانوں میں کام کر رہے ہیں، اس سلسلے میں محدود  اطلاعات رکھتے ہیں، کیونکہ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ تاریخ نہیں پڑھتے۔ ہم دنیا کے علمی کارواں سے دو سو سال  پیچھے ہیں، علمی ہستیوں اور علمی استعداد کو نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے۔ آج آپ ملک میں جس استعداد کا مشاہدہ کر رہے ہیں یہ یکبارگی وجود میں نہیں آئی ہے۔ یہ استعداد پوری تاریخ میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔ اس کا ثبوت فارابی، ابن سینا، خوارزمی اور دوسری سیکڑوں عظیم علمی ہستیاں ہیں جو ایران ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی عظیم علمی ہستیاں تھیں، ان کا تعلق ایران سے ہے۔ یہ استعداد موجود تھی۔ تو پھر ماضی کے دو سو سال میں ہم علم و دانش کے میدان میں پیچھے کیوں رہ گئے۔ اتنے پیچھے رہ گئے کہ قاجاریہ دور کے اواخر میں اور پورے پہلوی دور میں علم و دانش کے اعتبار سے ہم دنیا کے سب سے پسماندہ ممالک میں شامل ہو گئے۔ یہ بڑا تلخ اور عجیب ماضی ہے۔

آپ توجہ فرمائیے! ہماری آبادی دنیا کی آبادی کا ایک فیصدی ہے۔ ہمارے ملک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا ایک فیصدی ہے۔ انقلاب سے پہلے کے عشروں میں بھی تقریبا یہی صورت حال رہی ہے۔ کبھی تھوڑی کمی بیشی ہوئی ہوگی۔ مگر ہماری آبادی دنیا کی آبادی کا ایک فیصدی رہی ہے۔ تو اس طرح عالمی سطح پر مشترکہ علمی و سائنسی کاوشوں اور ایجادات میں ہمارا حصہ بھی کم از کم ایک فیصدی ہونا چاہئے۔ پہلوی دور کے اواخر میں یعنی اس دو سو سالہ دور میں جو آکر 1979 میں آنے والے اسلامی انقلاب پر ختم ہوا، علم و دانش اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ہمارا شیئر اعشاریہ  ایک فیصدی رہا۔ یعنی 1979 میں جب اسلامی انقلاب آیا تو عالمی سطح پر ہمارا علمی و سائنسی تعاون اعشاریہ ایک فیصدی تھا۔ آپ دیکھئے کہ ہم کتنے پیچھے تھے؟! یہ حکمرانوں کی نااہلی کا نتیجہ تھا۔ اس کی کوئی اور وجہ نہیں تھی۔ نا اہل، دنیا پرست، مادہ پرست، اغیار کے غلام، نالائق، متکبر، مغرور حکام جو بڑا تکبر کرتے تھے لیکن اغیار کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے تھے، انھیں اپنی قوم کے مفادات کی کوئی فکر نہ تھی۔ یہ ہمارے ملک کی حالت تھی۔ یہ بڑے تلخ اعداد و شمار تھے۔ اب البتہ ہم فضل پروردگار سے آج دنیا میں اپنے حصے سے زیادہ علمی و سائنسی تعاون کر رہے ہیں۔ یعنی ہم اپنے حصے کی نسبت دگنا تعاون کر رہے ہیں۔ یعنی علمی و سائنسی ایجادات و تعاون میں ہمارا حصہ ایک فیصدی ہونا چاہئے جبکہ یہ تقریبا دو فیصدی ہے۔ یعنی ایک اعشاریہ 9 فیصدی علمی و سائنسی ایجادات ہماری جانب سے ہیں۔ علمی و سائنسی خدمات میں ہمارا حصہ ایک فیصدی ہونا چاہئے لیکن یہ تقریبا دو فیصدی ہے۔ البتہ ہم اس پر مطمئن نہیں ہیں۔ ہماری شراکت اس سے زیادہ  ہونا چاہئے۔ تاہم اس وقت ہماری شراکت کی شرح یہ ہے۔ بعض اعداد و شمار ڈاکٹر غلامی صاحب نے پیش کئے اور بعض اعداد و شمار دیگر افراد نے بیان کئے۔ اگر وقت ملا تو میں بھی کچھ اعداد و شمار پیش کروں گا۔

فروری سنہ 1935 میں، آپ ان چیزوں پر توجہ رکھئے، آپ اچھے، مومن، صاحب فکر اور ذی فہم نوجوانوں کو اپنے ملک کے بارے میں ان تمام معلومات کا علم ہونا چاہئے، تہران یونیورسٹی یعنی ملک کی پہلی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آيا۔ 44 سال بعد یعنی 1979 میں انقلاب آنے سے پہلے پورے ملک میں یونیورسٹی طلبہ کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی۔ اسی طرح فارغ التحصیل افراد کی بھی ایک تعداد تھی۔ ملک میں چوالیس سال سے یونیورسٹی ہونے کے باوجود یونیورسٹی طلبہ کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی۔ آج اسلامی انقلاب کو چالیس سال کا عرصہ گزرا ہے اور ہمارے یونیورسٹی طلبہ کی تعداد چالیس لاکھ سے زیادہ ہے اور دسیوں لاکھ افراد فار التحصیل ہو چکے ہیں۔ آپ دیکھئے کہ یہ دو طرح کی حکومتیں اور دو طرح کے نظام ہیں جن کا فرق ان چیزوں میں پتہ چلتا ہے۔ یہ ہمارے ملک میں علم و دانش اور علمی شخصیات کے تعلق سے بڑا تلخ اور  تاریک ماضی ہے۔ الیٹ طلبہ کی پرورش نہیں کی جاتی تھی۔ اگر امیر کبیر جیسی کوئی شخصیت پیدا ہوئی تو اس کا بہت برا حال کر دیا۔ پہلوی دور میں صورت حال اس سے بھی زیادہ خراب تھی، تاہم کسی حد تک ظاہرداری اور دکھاوا کیا جاتا تھا۔ علمی پسماندگی، ثقافتی پسماندگی، اخلاقیاتی پسماندگی اور سیاسی پسماندگی تھی۔ ہمیں اسلامی جمہوریہ، اسلامی انقلاب اور امام خمینی کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس عظیم تحریک کے باعث۔

میں الیٹ نوجوانوں کے بارے میں کچھ سفارشات کرنا چاہتا ہوں۔ ایک چیز تو یہ ہے کہ الیٹ نوجوانوں اور ملک کے انتظامی ڈھانچے کے مابین دو طرفہ تعاون ہونا چاہئے۔ دو طرفہ لین دین ہونا چاہئے۔ البتہ اس کی کوشش ہو رہی ہے، جناب ستاری صاحب کی تقریر میں بھی اس بات کا ذکر کیا گیا لیکن اس سلسلے میں مزید سنجیدگی کے ساتھ کام ہونا چاہئے۔ میں بعد میں شاید مزید تفصیل کے ساتھ اس پر روشنی ڈالوں گا۔ دو طرفہ تعاون۔

اس دو طرفہ تعاون کا مطلب الیٹ نوجوانوں کے اعتبار سے یہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر توانائیوں کو ملکی پیشرفت کے لئے وقف کر دیں۔ البتہ کبھی تو یہ کام وہ خود کر سکتے ہیں اور کبھی حکومتی عہدیداران کو اس کام میں ان کی مدد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ الیٹ نوجوانوں کا رول یہ ہے کہ اپنے ملک کو آگے لے جائیں۔ اپنے وسائل، اپنی صلاحیتیں اور اپنی توانائیاں وطن عزیز کے لئے استعمال کریں۔ حکومتی اداروں اور انتظامی ڈھانچے کا رول یہ ہے کہ سروسیز فراہم کرے، رکاوٹوں کو دور کرے، اس کو چاہئے کہ الیٹ نوجوانوں کو اپنا رول ادا کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آنے دے۔  اگر ہمارے الیٹ نوجوان اپنا رول ادا نہ کر سکے تو ملک پیچھے رہ جائے گا۔ الیٹ نوجوانوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کی سرگرمیاں جاری رہیں، ان میں پیشرفت ہوتی رہے، ورنہ صرف الیٹ ہونا کافی نہیں ہے۔ متحرک، آگے بڑھنے والا، سرگرم عمل الیٹ نوجوان ملک کے لئے بہت عظیم سرمایہ ہے۔ یہ تو رہا ایک نکتہ۔

ایک نکتہ اور بھی ہے، اس پر بھی آپ ضرور توجہ دیجئے۔ وہ یہ ہے کہ آج دنیا میں ثابت ہو چکا ہے کہ انسانی وسائل سے بڑھ کر کوئی بھی چیز کسی ملک کی پیشرفت میں موثر نہیں ہوتی۔ یہ بالکل واضح ہے۔ اگر انسانی وسائل اچھے اور مناسب مقدار میں ہوں تو ملک ترقی کرے گا۔ ورنہ نہیں۔ افرادی قوت اور انسانی وسائل کسی بھی ملک منجملہ ہمارے ملک کے لئے بہت عظیم سرمایہ ہے۔ جب یہ خزانہ ہے، سرمایہ ہے تو ظاہر ہے کہ ہر سرمائے کے لوٹے جانے، غارت اور غصب کر لئے جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ دشمن اس سرمائے کو اس ملک سے چھین لینا چاہتا ہے۔ البتہ یہ صرف ہمارے ساتھ نہیں ہے، تاہم ہمارے ملک کے معاملے میں زیادہ شدت کے ساتھ یہ کام کیا جا رہا ہے۔ بلکہ تسلط پسندانہ نظام، تسلط پسنداںہ سسٹم اس کوشش میں ہے کہ تمام اقوام سے ان کا یہ سرمایہ چھین لے۔ کیوں چھین لینا چاہتا ہے؟ اس لئے کہ وہ خود اسے استعمال کرے؟ نہیں، قضیہ صرف یہ نہیں ہے۔ بے شک وہ استعمال کر سکے گا تو ضرور کرے گا لیکن اس کا بنیادی ہدف ہے اجارہ داری۔ تسلط پسندانہ نظام اجارہ داری کی فکر میں ہے۔ سائنسی اجارہ داری، ٹیکنالوجی کے میدان میں اجارہ داری، دولت پیدا کرنے والے وسائل پر اجارہ داری، طاقت پیدا کرنے والے وسائل پر اجارہ داری۔ وہ اس کوشش میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ کسی ملک میں آکر سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کرواتے ہیں۔ ہمارے ایٹمی سائنسدانوں کو انھوں نے قتل کروایا۔ اس لئے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اس ملک کے پاس یہ سرمایہ نہ رہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ صرف ہمارے ساتھ نہیں ہو رہا ہے۔ عراق میں بھی، اس تین چار سال کی مدت میں جب عراق کے تمام امور براہ راست امریکیوں کے ہاتھ میں پہنچ گئے تھے صدام کے چلے جانے کے بعد تو اس دوران انھوں نے درجنوں عراقی سائنسدانوں کو قتل کر دیا۔ امریکیوں کو معلوم تھا کہ اگر صدام کے خاتمے کے بعد یہ سائنسداں ملک کے اندر موجود ہوں گے تو وہ اس ملک کو متحرک کر دیں گے، آگے لے جائيں گے۔ اسی لئے ان کی شناخت کرکے ان سائنسدانوں کو چن چن کے مار دیا۔ دوسری جگہوں پر بھی یہی ہو رہا ہے۔ اجارہ داری کا معاملہ ہے۔ توجہ کیجئے! الیٹ نوجوان نظر میں رہتا ہے۔ میں آپ کو ڈرانا نہیں چاہتا، میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ آپ اس پر توجہ دیجئے کہ استکباری نظام اور تسلط پسندانہ نظام کسی بھی دوسرے ملک میں الیٹ نوجوانوں کی موجودگی کا مخالف ہے جو اس ملک کی پیشرفت کا ذریعہ اور اس کی سب سے بڑی دولت شمار ہوتے ہیں۔ وہ ملک سے ان الیٹ نوجوانوں کو چھین لینے کے لئے ہر طرح سے کوشش کرتے ہیں۔ یا تو انھیں مار ڈالتے ہیں، یا ثقافتی طور پر انھیں منقلب کر دیتے ہیں، یا ان کی فکر بدل دیتے ہیں یا انھیں ذاتی مسائل میں الجھا دیتے ہیں جن کا ملکی مسائل سے کوئی ربط نہ ہو۔ اس قسم کے اقدامات کرتے ہیں تو آپ اس پر توجہ رکھئے۔

تسلط پسندانہ نظام کا کیا مطلب ہے؟ تسلط پسندانہ نظام کی اصطلاح جو ہمارے سیاسی ادبیات میں اور ہمارے بین الاقوامی سیاسی بیانوں میں برسوں سے استعمال ہو رہی ہے اور بڑی مستحکم اور پرمغز اصطلاح ہے، اس کے عمائدین وہ لوگ ہیں جن کے پاس طاقت کے وسائل موجود ہیں لیکن کنٹرول کرنے کے وسائل ان کے پاس نہیں ہیں۔ طاقت کے وسائل سے مراد ہے سیاست، میڈیا، ہتھیار، پیسہ، ڈھٹائی ہے، یہ طاقت کے وسائل ہیں۔ کنٹرول کے وسائل سے مراد ہے دین، اخلاقیات، شرافت اور یہ ان کے پاس نہیں ہے! یہی وجہ ہے کہ وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ تسلط پسندانہ نظام کا مطلب ہے دنیا کو تسلط پسند اور تسلط کے شکار ملکوں میں تقسیم کرنا۔ اس کے عمائدین یہی لوگ ہیں جن کے صفات میں نے بیان کئے۔ تسلط پسندانہ نظام کی طرف سے ہوشیار رہئے۔

اس ضمن میں  اگلا نکتہ یہ ہے کہ ملک کے الیٹ نوجوانوں کو دشمن کے بہکاوے میں آنے سے بچانے کا طریقہ ہے الیٹ نوجوانوں کے اندر قومی تشخص کی تقویت اور اعلی اہداف و مقاصد کی تلقین۔ ملک کے الیٹ نوجوانوں کے اندر قومی تشخص کا جذبہ محکم ہونا چاہئے۔ انھیں اس کا احساس ہونا چاہئے کہ وہ ایرانی مسلمان ہیں اور ایرانی مسلمان ہونے پر انھیں فخر ہو۔ یہ جذبہ ان کے اندر محکم ہونا چاہئے۔ انھیں اس پر فخر ہونا چاہئے کہ وہ بڑی قیمتی اور شرافت مندانہ تاریخ کا تتمہ اور اس کی اگلی کڑی ہیں۔ ہمارے علم و دانش نے ایک زمانے میں دنیا پر راج کیا ہے۔ ہمارا فلسفہ ایک زمانے میں دنیا کا سب سے برتر فلسفہ تھا۔ ہمارے دانشور، ہمارے قوانین اور ہماری فقہ کا یہ مقام تھا اور ہم اسی تاریخ سے وابستہ اگلی کڑی ہیں۔ البتہ بیچ میں ایک فاصلہ پیدا ہوا۔ میں نے عرض کیا کہ کم از کم دو سو سال کا ایک خلا پیدا ہوا۔ لیکن اس کے بعد اسلامی انقلاب کامیاب ہوتے ہی وہ عظیم تاریخی سفر پھر سے شروع ہو گيا اور تمام تر مشکلات اور رخنہ اندازیوں کے باوجود ہم آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہمیں فخر ہونا چاہئے قومی تشخص اور اعلی اہداف پر۔

آپ الیٹ نوجوانوں کے دوش پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ آپ کی علمی استعداد اور ممتاز علمی صلاحیت آپ کے دوش پر کچھ ذمہ داریاں عائد کرتی ہے۔ البتہ یہ ذمہ داری بھی دیگر ذمہ داریوں کی مانند دنیا و آخرت میں باعث عزت و شرف ہے۔ آپ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس سے ان شاء اللہ سربلندی حاصل کریں گے۔  اسے آپ یاد رکھئے! دشمن کا ایک منصوبہ اعلی اہداف و مقاصد سے توجہ ہٹانا اور قومی تشخص کے احساس کو مٹانا ہے۔ یہ دشمن کا ایک منصوبہ ہے۔ آپ دشمن کے اس وار پر ہمیشہ توجہ رکھئے۔

اگلا نکتہ؛ صلاحیت و استعداد کا مظہر بے شک اسپیشلائیزیشن ہے۔ اس کی بہت اہمیت بھی ہے۔ وہ تمام مہارتیں اہم ہیں جو ملک چلانے کے لئے اور انسانی معاشروں کا نظم و نسق چلانے کے لئے ضروری ہوتی ہیں، اس کی بہت اہمی ہے اس میں کوئی شک نہیں، لیکن الیٹ طبقے کو اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ اس طبقے کو چاہئے کہ اس سے زیادہ بلند اہداف پر بھی نظر رکھے۔ اس سے برتر اہداف بھی موجود ہیں۔ ممتاز صلاحیتوں والا نوجوان اپنے اسپیشلائیزیشن کے میدان میں اس طرح غرق نہ ہو جائے کہ گرد و پیش کے ماحول، سماج کے حالات اور عوام الناس کی اسے خبر ہی نہ رہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ممتاز صلاحیتوں والے شخص کو عوام الناس کے مسائل سے لا تعلق نہیں ہو جانا چاہئے۔ قوم کے اہم اور بنیادی مسائل سے، خود مختاری، مساوات، پیشرفت، سماجی نقائص کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ وہ صرف اپنی مہارت والے میدان پر توجہ مرکوز رکھے۔ اگر آپ نے اپنی مہارت والا کام انصاف پسندی کے پرچم تلے انجام دیا تو اس کی قدر و قیمت بہت بڑھ جائے گی۔ قومی خود مختاری اور قومی تشخص کے زیر پرچم یہ خدمت انجام دی تو اس کی اہمیت دگنی ہو جائے گی۔ ہمارے خلاف اقتصادی، سیاسی اور سیکورٹی جنگ چل رہی ہے۔ آپ اس جنگ سے خود کو لا تعلق نہیں رکھ سکتے۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ جب سب نے آکر امیر المومنین علیہ السلام کو گھیر لیا کہ آپ کو خلافت قبول کرنی ہی پڑے گی، آپ نے فرمایا کہ؛  لَو لا حُضورُ الحاضِرِ وَ قیامُ الحُجَّةِ بِوُجودِ النّاصِرِ وَ ما اَخَذَ اللهُ عَلَى العُلَماءِ اَلَّا یُقارُّوا عَلى کِظَّةِ ظالِمٍ وَ لا سَغَبِ مَظلوم‌ (3) اگر یہ ذمہ داریاں نہ ہوتیں تو میں قبول نہ کرتا۔ لیکن یہ ذمہ داری موجود ہے۔ ذمہ داری کیا ہے؟  اَلّا یُقارُّوا عَلى کِظَّةِ ظالِم؛ عربی میں «کِظَّة» کہتے ہیں زیادہ کھانے اور گنجائش سے زیادہ پیٹ بھر لینے کو، جس کی وجہ سے انسان ناکارہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ البتہ یہ کنایہ ہے۔ یہاں زیادہ کھانے سے مراد خورد و نوش کی اشیا سے پیٹ بھرنا نہیں ہے۔ یہاں مراد ہے زیادہ وسائل ہڑپ لینا، بڑے بڑے وظیفے وصولنا اور بھاری بھرکم تنخواہیں لینا۔ اگر یہ چیز نہ ہوتی، وَ لا سَغَبِ مَظلوم، عربی میں «سَغَب» کا مطلب ہوتا ہے بھوک۔ امیر المومنین فرماتے ہیں کہ اگر ایک طرف گنجاش سے زیادہ کھانے والوں، بیجا مراعات وصولنے والوں اور دوسری طرف محروموں کی مجھے فکر و تشویش نہ ہوتی تو میں خلافت قبول نہ کرتا۔ اس کے بعد فرماتے ہیں؛ وَ ما اَخَذَ اللهُ عَلَى العُلَماء؛ یعنی آپ اہل دانش کی ذمہ داری صرف پڑھنا پڑھانا اور تحقیق کرنا نہیں ہے۔ آپ کا ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ؛ « اَلَّا یُقارُّوا عَلى کِظَّةِ ظالِمٍ وَ لا سَغَبِ مَظلوم» توجہ کی آپ نے؟ ایک اہم نکتہ یہ بھی تھا۔

ایک اور مسئلہ دشمن کی تصویر سازی کا ہے۔ اس وقت ہمارے خلاف بڑی سخت اور تیز تشہیراتی جنگ چل رہی ہے، بالکل مسلط کردہ جنگ کی طرح۔ مسلط کردہ جنگ میں شروعاتی دور میں ہمارے پاس آر پی جی تک نہیں تھی، آر پی جی! ہمارے مقابلے میں ایک بڑی مسلح فوج صف آرا تھی۔ میں اہواز میں تھا۔ دشمن کی فوجیں، ڈویژن اور بٹالینیں مسلسل آتی جا رہی تھیں۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اینٹی ٹینک ہتھیاروں کی ضرورت تھی۔ معمولی ٹینکوں کو روکنے کے لئے جو بالکل معمولی اسلحہ استعمال ہوتا ہے وہ آر پی جی ہے اور ہمارے پاس آر پی جی بھی نہیں تھا! فوجی ہتھیار نہیں تھے، ہمارے پاس وہ بھی نہیں تھا۔ دشمن کے پاس انواع و اقسام کے ہتھیار تھے۔ اس وقت بھی یہی صورت حال ہے۔ آج دشمن کے مقابلے میں ہمارے پاس میڈیا اور ابلاغیاتی وسائل مسلط کردہ جنگ کے زمانے میں دشمن کے مقابلے میں ہمارے ہتھیاروں والی حالت میں ہیں۔ البتہ اس زمانے میں بھی ہم نے دشمن پر غلبہ حاصل کیا تھا اور آج بھی دشمن کو مغلوب کریں گے، بلا شبہ ہم اسے شکست دیں گے، لیکن صورت حال یہی ہے۔ ان وسیع امکانات و وسائل کی مدد سے دشمن سب سے اہم کام یہ کرنا چاہتا ہے کہ ملکی حالات کے بارے میں غلط تصویر پیش کرے۔ صرف عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ ملک کے اندر موجود لوگوں اور رائے عامہ کو بھی گمراہ کر دینے کے لئے۔ خود وطن عزیز کے اندر! یعنی وہ بات کرتے ہیں اس مقصد سے کہ ہم اور آپ جو اس ملک کے اندر زندگی بسر کر رہے ہیں اور یہیں کی فضا میں سانس لے رہے ہیں، ہم بھی حقائق سے ہٹ کر کچھ اور سوچنے پر مجبور ہو جائیں۔ تو یہ جنگ جاری ہے۔ اگر ہم اس جنگ میں اپنا کردار ادا نہ کر سکیں، علمی شخصیات اگر اپنا کردار ادا نہ کر سکیں تو گویا انھوں نے اپنے فریضے پر عمل نہیں کیا ہے۔ بنابریں یہ آخری نکتہ جو میں نے عرض کیا اور انصاف پسندی، اجارہ داری کے خاتمے، ظلم سے پیکار، ارد گرد رہنے والے افراد کے مسائل پر توجہ کے ساتھ علمی سعی و کوشش بہت ضروری ہے۔ یہ کچھ باتیں الیٹ نوجوانوں کے بارے میں تھیں۔

البتہ الیٹ فاؤنڈیشن کا موضوع اپنی جگہ ایک الگ موضوع ہے۔ میں الیٹ فاؤنڈیشن کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ ہمیں شب و روز کام کرنا ہوگا۔ جناب ستاری صاحب نے یہاں 'و الفجر 8' (مسلط کردہ جنگ کے زمانے کا ایک فوجی آپریشن) کی مثال دی کہ چند دن کے اندر ہمارے اداروں اور ہمارے فوجیوں نے 80 پیشرفتہ طیاروں کو مار گرایا۔ جو شخص اس پورے عمل کا محور اور ستون تھا وہ خود جناب عالی کے والد محترم تھے شہید بریگیڈیئر ستاری مرحوم۔ یہ لوگ ہمیشہ جاگتے رہتے تھے۔ مجھے علم تھا۔ مجھے پوری اطلاعات تھیں۔ مثال کے طور پر بسا اوقات 48 گھنٹے گزر جاتے تھے اور انہیں سونے اور آرام کرنے کی فرصت نہیں ملتی تھی۔ پورے سسٹم کو ان لوگوں نے دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا تاکہ دشمن ہمارے اینٹی ایئڑکرافٹ سسٹم کا پتہ لگاکر اسے تباہ نہ کر سکے۔ وہ اپنا سسٹم استعمال کرتے تھے، میزائل فائر کرتے تھے اور فورا اسے سمیٹ کر وہاں سے کئی کلومیٹر دور لے جاتے تھے تاکہ دشمن فائرنگ کی جگہ کا اندازہ لگا کر اس پر حملہ نہ کر سکے۔ اس طرح کا طاقت فرسا کام وہ کر رہے تھے۔ وہ لوگ شب و روز کام کر رہے تھے جس کے نتیجے میں ہم جیسا کہ جناب ستاری صاحب نے بتایا اور انھوں نے بالکل صحیح فرمایا کہ دشمن کے اسی، نوے پیشرفتہ طیارے گرانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس وقت بھی اسی طرح کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج بھی جناب سورنا ستاری جو ان مرحوم شہید کے بیٹے ہیں اور ان کے دوست اور رفقائے کار دن رات کام کریں۔ نہ دن دیکھیں نہ رات بس کام کرتے جائیں۔ کام کیجئے تاکہ الیٹ نوجوانوں کی شناخت ہو، ان کی خدمات حاصل کی جائیں، ان کی رہنمائی کی جائے، انھیں سسٹم کا حصہ بنایا جائے۔ ان کی باتیں سنی جائيں، ان کا درد سنا جائے اور اس کا علاج کیا جائے تاکہ کوئی بھی الیٹ نوجوان اس تائیکوانڈو کے کھلاڑی کی طرح یہاں شکایت نہ کرے۔ یعنی نہ دن دیکھئے نہ رات مسلسل کام کرتے رہئے۔

ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ جو حضرات الیٹ نوجوانوں کے لئے مشاورتی خدمات فراہم کر رہے ہیں، اس میں سب سے اہم کردار الیٹ فاؤنڈیشن ادا کر رہی ہے، انھیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کا عمل روز مرہ کی عادت میں تبدیل نہ ہو جائے۔ انسان شروع میں کوئی کام بہت شوق اور دلچسپی سے کرتا ہے، لیکن تھوڑا وقت گزر جانے کے بعد وہ کام اس کے لئے ایک عام سا کام ہو جاتا ہے، روز مرہ کا کام بن جاتا ہے۔ ایسی حالت نہیں پیدا ہونا چاہئے۔ مستقل طور پر جدت عملی کی کوشش کرنا چاہئے۔ روشوں، طریقوں اور طرز عمل میں مسلسل تبدیلی ہونا چاہئے، اگر ضرورت پڑے تو ادارہ قائم کیا جائے۔

میں نے قومی تشخص کے موضوع کا ذکر کیا۔ اس پر بھی الیٹ فاؤنڈیشن کو منصوبہ بندی کرنا چاہئے اور یونیورسٹیوں میں رہبر انقلاب کے نمائندہ دفاتر سے بھی مدد لی جانی چاہئے۔

نالج بیسڈ کمپنیوں کو خاص اہمیت دیں۔ میں نے سنا ہے کہ ان کمپنیوں کے ضوابط میں تنزلی آئی ہے۔ میں نے پہلے ہی سفارش کر دی تھی کہ نالج بیسڈ کمپنیوں سے متعلق ضوابط میں تنزلی نہیں آنا چاہئے۔ تنزلی کے بارے میں ایک رپورٹ ملی ہے۔ اس پر ضرور توجہ دینا چاہئے۔ نالج بیسڈ کمپنیوں کے ضوابط میں تنزل نہیں آنے دینا چاہئے۔ زیادہ تعداد پر خوش نہ ہوئیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ہمارے پاس تین ہزار کے بجائے تیس ہزار نالج بیسڈ کمپنیاں ہوں تو یہ بہت اچھی بات ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ واقعی نالج بیسڈ ہوں اور ان میں ضروری ضوابط اور اصولوں کو مد نظر رکھا گیا ہو۔

الیٹ نوجوانوں کے بارے میں آخری نکتہ؛ آپ کوشش کیجئے کہ الیٹ نوجوانوں کو ملک کے انتظامی ڈھانچے میں استعمال کیا جائے۔ میانہ درجہ کے انتظامی عہدوں پر ان نوجوانوں کی بہت ضرورت ہے۔ آپ ممکن ہے یہ کہیں کہ اس نوجوان کے پاس پہلے درجے کے ڈائریکٹروں والے تجربات نہیں ہیں۔ لیکن میانہ سطح کے عہدوں پر یہ نوجوان خدمات انجام دے سکتے ہیں، ان سے استفادہ کیجئے۔ خاص طور پر ان نوجوانوں سے جو دیندار ہیں اور دینی و اسلامی امور کی فکر میں رہتے ہیں۔ الحمد للہ ان کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔ شاید الیٹ نوجوانوں میں اکثریت ایسے ہی افراد کی ہے۔

چند جملے یونیورسٹی کے تعلق سے بھی عرض کر دوں، وقت بھی اب ختم ہو رہا ہے۔ گزشتہ چار عشروں میں یونیورسٹیوں نے ملک کی خدمت کی ہے۔ کچھ لوگ یونیورسٹیوں پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ صرف آئی ایس آئی کے مقالوں کی فکر میں رہتی ہیں۔ بالکل یہ تو خود میرا بھی اعتراض ہے۔ میں نے بھی بارہا کہا ہے کہ آپ اسے نہ دیکھئے کہ جو آپ سے تحقیقاتی مقالہ چاہتا ہے آپ یہ دیکھئے کہ ملک کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ یہ ہم نے بارہا کہا ہے اور اس وقت ایک بار پھر اس پر تاکید کرتا ہوں۔ لیکن یہ خیال نہیں پیدا ہونا چاہئے اور یہ نہیں کہنا چاہئے کہ ملک کی یونیورسٹیوں کو ملکی مسائل کی فکر نہیں تھی۔ ملک میں بڑے پیمانے پر جو پیشرفت اور تعمیراتی کام ہوا ہے وہ کس نے انجام دیا ہے؟ یونیورسٹیوں سے پڑھ کر نکلنے والے نوجوانوں نے انجام دیا ہے۔ اکثریت نوجوانوں کی ہے جنہوں نے یہ کام انجام دئے ہیں۔ میں یہاں نوٹ کرکے لایا ہوں۔ ڈیم کی صنعت، بجلی گھر کی صنعت، پل سازی کی صنعت، سڑک سازی کی صنعت یہ صنعتیں ملک میں وجود میں آئیں۔ یہ کام کس نے کیا ہے؟

اوائل جنگ کا زمانہ تھا۔ میں فوجی علاقے میں گیا تھا معائنہ کرنے کے لئے۔ وہاں تعمیراتی جہاد سے وابستہ نوجوانوں نے آکر مجھے بتایا کہ ہم سیلوز تعمیر کر رہے ہیں۔ سیلوز کی تعمیر ظاہر ہے کہ ایک پیچیدہ کام ہے اس کی ظاہری شکل کے برخلاف جو ایک ستون کی شکل میں نظر آتا ہے، اس کی تعمیر بہت پیچیدہ اور بڑی ٹیکنیکل ہوتی ہے۔ ہمیں بتایا کہ ہم سیلوز کی تعمیر کر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ کر پائیں گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے جائيے تعمیر کیجئے۔ ہم اس کام میں آپ کی مدد کریں گے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم پورے علاقے میں سیلوز کی تعمیر میں ممتاز پوزیشن میں پہنچ گئے۔ توجہ فرما رہے ہیں؟ وہ چند نوجوان طلبہ تھے۔ جبکہ انقلاب سے پہلے ہم اپنی ضرورت کا گندم امریکہ سے خریدتے تھے اور گندم رکھنے کے لئے سوویت یونین ہمارے لئے سیلو کی تعمیر کرتا تھا۔ یہ وہی بات ہے جو ہم انقلاب سے پہلے حکومت پر اعتراض کے طور پر کہتے تھے کہ امریکی گندم اور روسی سیلو یا سوویت یونین کا سیلو۔ ہمارے اندر اس کی توانائی ہی نہیں تھی۔ مگر ان نوجوانوں نے ہمت دکھائی اور جاکر تیار کر لیا۔ اتنے سارے کام ہوئے۔ اس بڑے پیمانے پر کام ہوئے۔ یہ بہترین شاہراہیں، یہ حد درجہ خوبصورت اور مضبوط پل، تہران میں الگ انداز کے، دیگر صوبوں میں الگ شکل کے، بعض شاہراہوں پر الگ شکل کے۔ یہ سب کس نے تعمیر کیا ہے؟ یونیورسٹی کے نوجوانوں نے تعمیر کیا ہے۔

دفاعی صنعت، ہماری دفاعی صنعت بہت بلندی پر ہے۔ خوش قسمتی سے یونیورسٹی کے ساتھ بہترین تعاون کرنے والا شعبہ یہی ہمارا دفاعی صنعت کا شعبہ ہے۔ یعنی یہ شعبہ یونیورسٹی سے بھرپور تعاون کر رہا ہے۔ بد قسمتی سے دیگر شعبے، حکومتی ادارے کم تعاون کر رہے ہیں۔ مگر دفاعی شعبہ تعاون کر رہا ہے، دفاعی ساز و سامان میں، میزائل، ڈرون وغیرہ کی تعمیر میں تعاون کر رہا ہے۔ ایٹمی صنعت گوناگوں پہلوؤں کی حامل ہے۔ چند سال قبل، یہیں اسی حسینیہ میں ایک تفصیلی نمائش لگائی گئی۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ میں داخل ہوا، میں نے دیکھا، ایک دو گھنٹا میں اس نمائش کے اندر ٹہلتا رہا۔ سب کے سب نوجوان تھے۔ آپ لوگوں کے ہمسن رہے ہوں گے۔ وہ ساری چیزیں یونیورسٹی کے نوجوانوں نے بنائی تھیں، طلبہ نے بنائی تھیں، یونیورسٹی کے فارغ التحصیل نوجوانوں نے بنائی تھی۔ راڈار کی ٹیکنالوجی، ایروناٹیکل انڈسٹری، بایو لوجیکل سائنسز، بایو ٹیکنالوجی، ری کامبینینٹ ڈرگس کے درجنوں پیشرفتہ پروڈکٹس، بایولوجیکل پروڈکٹس، اسٹیم سیلز کی انتہائی اہم ٹیکنالوجی کہ جس کی مدد سے عالمی سطح پر بہت معیاری چیزیں تیار کی گئی ہیں، یہ سب مرحوم شہید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں کی دین ہے۔ انھوں نے ایجادات کیں اور ان ایجادات کو ٹیکنالوجی میں تبدیل کیا اور اس ٹیکنالوجی کو علاج معالجے کے لئے استعمال کیا۔ اس وقت اسٹیم سیلز کا شعبہ ملک کے اندر بہت اہم کامیابیوں والا شعبہ ہے، اس شعبے میں بہت اہم کام انجام دئے جا رہے ہیں۔ اس شعبے کے سائنسداں عالمی سطح پر صف اول کے سائنسداں شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح اور بھی بہت سی چیزیں ہیں۔ یہ سب یونیورسٹیوں کی خدمات ہیں۔ لہذا یونیورسٹیوں پر یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ انھوں نے ملک کی خدمت نہیں کی ہے۔ بالکل نہیں، حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے ملک کی خدمت کی ہے۔ البتہ یونیورسٹیوں کی کارکردگی میں بہت سی خامیاں ہیں۔ ابھی ہمارے عزیز بھائیوں اور بہنوں نے یہاں جو گفتگو کی اس میں بعض خامیوں کی نشاندہی کی گئی۔

میں ہر سطح پر ریسرچ کی خاص سفارش کرتا ہوں۔ ریسرچ کو خاص اہمیت دی جائے۔ صنعت سے رابطے پر توجہ، یونیورسٹی اور صنعتی مراکز میں رابطہ، اس صنعت میں زرعی صنعتیں بھی شامل ہیں، یہ بہت اہم موضوع ہے۔ یہ یونیورسٹی کے لئے بھی بہت اہم کامیابی ہے اور صنعت کے لئے بھی بہت بڑی کامیابی ہے۔ ہمیں اس مقام پر پہنچنا چاہئے کہ مختلف علمی شعبوں کے بارے میں طلبہ کی طرف سے جو تھیسس لکھے جاتے ہیں ان کے سلسلے میں ایسا ہو کہ ہر تھیسس کے لئے شروع میں ہی ایک اسپانسر مل جائے۔ خواہ پرائیویٹ سیکٹر سے یا سرکاری ادارے سے۔  ہمیں اس پوزیشن تک پہنچنا ہے۔ آج دنیا کے بہت سے ممالک میں یہی ہو رہا ہے۔ طلبہ جب اپنی تحقیق کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت اس تھیسس سے مربوط صنعتوں کے نمائدے بھی وہاں موجود ہوتے ہیں اور وہیں اس طالب علم کو لپک لیتے ہیں، وہیں‎ اس سے کنٹریکٹ کر لیتے ہیں اور اس کی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ صنعت یونیورسٹی سے بہت فائدے حاصل کر سکتی ہے اور یونیورسٹی کو بھی صنعتوں سے کافی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ یہ کام ہنوز اس طرح انجام نہیں پا سکا ہے جس کا ہم نے مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا۔

جامع علمی روڈمیپ کو 9 سال کے بعد اپ دیٹ کیا جائے۔ ویسے جامع علمی روڈ میپ بہت اچھا تیار ہوا ہے۔ لیکن اب نو سال گزر چکے ہیں اس کا اب نئے سرے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے، اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ نئے مسائل ہیں جنہیں اس میں جگہ دی جانی چاہئے۔ اسے سب اہمیت دیں۔

تیز رفتار پیشرفت کرنے والے ملکوں، یعنی ایشیا کے ملکوں سے رابطہ۔ بنیادی طور پر ہمارا رجحان مشرق کی جانب ہونا چاہئے۔ مغرب اور یورپ وغیرہ سے آس لگانا ہمارے لئے طوالت، درد سر، منت کشی اور تحقیر برداشت کرنے کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نہیں دے گا۔ ہماری نظر مشرق کی جانب ہونا چاہئے۔ ایسے ممالک ہیں جو ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ ہم ان سے برابری کی بنیاد پر بات کر سکتے ہیں۔ ہم ان کی مدد کریں اور وہ بھی ہماری مدد کریں، ان کے ساتھ علمی لین دین ہو۔

ضرورتوں اور ترجیحات کی شناخت کے بارے میں حکومت کے ساتھ تعاون۔ یعنی حکومت کے ساتھ یونیورسٹی کا تعاون اسی انداز کا ہونا چاہئے، یونیورسٹی حکومت کی ضرورت کے کاموں کو انجام دے۔ یہ کام جو اقتصادی مسائل کے بارے میں حال ہی میں اساتذہ کی چند ٹیموں نے انجام دیا اس نے اس حقیر کو واقعی بڑی مسرت عطا کی۔ یہ بہت اچھا کام تھا۔ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ حکومت ان سفارشات پر عمل کرے گی یا نہیں کرے گی ، کرے گی تو کس حد تک کرے گی اور کس حصے پر عمل نہیں کرے گی؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن یہ عمل اپنے آپ میں کہ ملک کے اساتذہ، ماہرین اقتصادیات اپنی ذمہ داری محسوس کریں بہت اہم ہے۔ مختلف گروہوں نے، خاص طور پر رضاکار اساتذہ نے ہمیں بہت سے خطوط ارسال کئے ہیں۔ ہم یہ خطوط حکومت کو بھجوا دیتے ہیں، اسے چاہئے کہ اس پر عمل کرے۔ خود حکومت کو بھی انھوں نے خطوط ارسال کئے ہیں۔ صدر محترم کو بھی خطوط بھیجے ہیں۔ بینکوں کے مسائل کے بارے میں، نقدی کے مسائل کے بارے میں، زر مبادلہ کے مسائل کے بارے میں، گروہی شکل میں بھی اور انفرادی شکل میں بھی۔ کچھ صاحب فکر و نظر نوجوانوں نے بھی سفارشات بھیجی ہیں۔ ہم نے اپنے دفتر میں کہا ہے کہ ان تمام سفارشات کا جائزہ لیا جائے، ان کا خلاصہ تیار کیا جائے اور اسے ملک کے اجرائی عہدیداروں کو بھیجا جائے کہ وہ اس سے استفادہ کریں۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ یونیورسٹی اور حکومت کے درمیان رابطے کی یہ تعریف بہت اچھی ہے۔ یہ بحث بھی اپنے اختتام کو پہنچی۔

میرے خیال میں اب وقت بھی ختم ہو چکا ہے، یعنی میں سمجھتا ہوں کہ اذان کا وقت ہے۔ میں نے ملکی مسائل کے بارے میں کچھ چیزیں نوٹ کی تھیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ دشمن وطن عزیز کی غلط اور بری تصویر پیش کرنا چاہتا ہے۔ یہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ وطن عزیز کی تصویر مختلف زاویوں سے بہت دلنشیں اور پرکشش ہے، ہر اعتبار سے۔ اب اگر چار دن فارن کرنسی کی قیمت اوپر چلی گئی، نیچے آ گئی، عوام کے لئے معیشتی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں، یہ چیزیں بھی ہیں، ہمیں ان کا علم ہے، لیکن جو تصویر دشمن پیش اور مسلط کرنا چاہتا ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ حقیقی تصویر اس کے بالکل برعکس ہے۔ اذان ہو گئی لہذا ہماری بحث بھی اب ختم ہے (4) ۔ اذان کے بعد کھانا ہے (5)۔ اذان کے بعد نماز اور ظہرانہ ہے۔ ملکی مسائل کے بارے آپ جو مطالبہ کر رہے ہیں تو اگر زندگی رہی اور آپ سے پھر ملاقات ہوئی تو ممکن ہے کہ اس کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ خداوند عالم آپ کی حفاظت فرمائے۔ آپ سب سرسبز و شاداب پودوں کی مانند ہیں۔ ان شاء اللہ آپ پھل دینے والے شجرہ طیبہ میں تبدیل ہوں اور ملک کو اپنے وجود سے فائدہ پہنچائیں۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة ‌الله و‌ برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں سائنس و ٹیکنالوجی کے امور کے نائب صدر ڈاکٹر سورنا ستاری اور وزیر علوم و تحقیقات و ٹیکنالوجی داکٹر منصور غلامی نے اپنی رپورٹیں پیش کیں، اسی طرح ملک کے گیارہ چنندہ دانشوروں نے مختلف علمی، سائنسی، تحقیقاتی اور انتظامی امور میں اپنی تشویش اور تجاویز کا ذکر کیا۔

۲) ابن ابی الحدید. شرح نهج ‌البلاغه، جلد ۲۰، صفحہ ۳۱۹

3) نہج البلاغہ خطبہ نمبر 3

4) حاضریں میں سے ایک نوجوان کا مطالبہ کہ اذان کے بعد گفتگو کو جاری رکھئے!

5) رہبر انقلاب اور حاضرین کی ہنسی