بسم اللہ الرحمن الرحیم

 سبھی بہنوں اور بھائیوں، بالخصوص اس مجمع میں موجود شہیدوں کے لواحقین، جانبازوں ( ایران میں جانباز ان سپاہیوں کو کہا جاتا ہے جو انقلابی تحریک کے دوران یا جنگ میں جسمانی لحاظ سے معذور ہو گئے ہیں)  آزادگان (آزادگان آزادہ کی جمع ہے اور آزادہ اس سپاہی کو کہا جاتا ہے جو جنگ کے دوران دشمن فوج کے ذریعے قیدی بنالئے گئے تھے)  اور ان تمام لوگوں کو جنہوں نے  دوسرے شہروں سے اور دور دراز کی مسافتیں طے کرکے یہاں تشریف لانے کی زحمت کی ہے،  خوش آمدد کہتا ہوں۔  آپ مومن، بیدار اور انقلابی  نوجوان اس ملک کا سرمایہ ہیں، خداوند عالم آپ کو  اس ملک کے لئے، اسلام اور مسلمین کے لئے محفوظ رکھے اور آپ کے لئے اپنے لطف و کرم میں روز افزوں اضافہ کرے۔   

عشرہ فجر آگیا۔ یہ ایام ایرانی قوم کے لئے ناقابل فراموش ہیں۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ایران آنے سے لیکر اس وقت تک جب اس ملک میں طاغوت کی کمر پوری طرح توڑ دی گئی، ایرانی قوم نے انتہائی پرشکوہ اور یادگار انقلابی ایام گزارے ہیں۔ عشرہ فجر ایرانی قوم کی اسی فداکاری، عظمت اور شکوہ کا مظہر ہے۔ اس عشرے میں  ایران کی بہادر، دلیر اور محکم و پائیدار قوم نے اپنی اور ایران بلکہ اسلام اور مسلمین کی  عزت و عظمت  کی بنیاد رکھی۔  بیس سال سے، عشرہ فجر شروع ہوتے ہی ایرانی قوم کی بے مثال مجاہدت کی یاد منائی جاتی ہے اور کتنا اچھا ہے کہ ان عظیم ایام میں باخبر اور وہ لوگ جو ان حوادث سے باخبر ہیں، انہیں مو بہ مو نئی نسل کے لئے بیان کرتے ہیں۔  

میرے عزیزو! یہ بیس سال جو 1357 (ہجری شمسی مطابق 1979 عیسوی) کے عشرہ فجر سے شروع ہوئے، یہ بیس سال ایک طرف ایرانی قوم کے قابل فخر کارناموں اور اس کی صلاحیتوں میں نکھار آنے کے سال ہیں اور دوسری طرف اس بیس سال میں اس پر بے شمار مصیبتیں اور مشکلات بھی مسلط کی گئی ہیں۔ یہ مصیبتیں جو ہماری قوم پر مسلط کی گئيں، جن میں سے ایک آٹھ سالہ جنگ تھی اور اقتصادی، سیاسی اور تشہیراتی ناکہ بندی اور انواع و اقسام کے دباؤ ہیں جو بیس سال سے آج تک جاری ہیں، یہ کس لئے ہیں؟ سامراج، عالمی تسلط پسند حلقے اور دنیا کے بڑے سرمایہ دار جو بہت سے مغربی ملکوں پر حکومت کر رہے ہیں، ایرانی قوم کی جان کے درپے کیوں ہیں؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اس دشمنی کی اصلی وجہ یہ ہے کہ ایرانی قوم نے اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کر دیا اور بتا دیا کہ وہ اغیار کے تسلط میں نہیں رہنا چاہتی۔ اس لئے کہ یہ قوم برسوں اغیار کے تسلط کے دردناک نتائج دیکھ چکی ہے۔ آج ایرانی قوم کی بہت سی پریشانیاں اغیار کے دور تسلط کی ہی دین ہیں۔ جب کوئی حکومت اور طاقت کسی قوم پر مسلط ہو جاتی ہے تو اس کی کسی چیز پر رحم نہیں کرتی۔ اس کی دنیا پر، نہ دین پر، نہ عزت و شرف پر، نہ ناموس پر، نہ سرمائے اور قومی ذخائر پر، نہ تیل پر اور نہ افرادی قوت پر، کسی پر بھی رحم نہیں کرتی۔ ان سب کو غارت اور  تباہ و برباد کر دیتی ہے۔  انہیں بربادیوں کے نتیجے میں ایرانی قوم آج تک مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہے۔

ایرانی قوم نے اپنے انقلاب میں ایک بڑی بات کہی کہ ایران اور ایرانی اغیار کے تسلط میں نہیں جانا چاہتے۔ یہ غیر چاہے امریکا ہو، چاہے برطانیہ ہو اور چاہے روس ہو، کوئی بھی ہو، ایرانی آزاد اور خود مختار رہنا چاہتے ہیں۔ آزادی و خود مختاری چاہنے کی وجہ سے ہی وہ ایران کے دشمن ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایرانی قوم کی یہ حریت پسندی اسلام اور دینی جذبے کی وجہ سے ہے۔ اس لئے وہ اسلام کے دشمن ہیں۔ جو بھی اسلام سے زیادہ نزدیک ہو، اس کے اندر خودمختار رہنے کا جذبہ زیادہ قوی ہو، اس سے ان کی دشمنی زیادہ ہوتی ہے۔ بیس سال سے جاری یہ دشمنی یہ کینہ اور یہ بدخواہی انہی باتوں کی وجہ سے ہے۔ لیکن ایرانی قوم  نے اپنے استحکام، استواری اور استقامت سے دوسروں کو بھی درس دیا ہے۔

ہماری ایرانی قوم اور ہمارے عزیز نوجوان جان لیں کہ جو درس آپ نے دیا ہے وہ دوسری اقوام نے حاصل کر لیا ہے، صرف عوام نے ہی نہیں بلکہ ان کے دانشوروں نے بھی حاصل کر لیا ہے۔ ایرانی قوم کے رزمیہ کارنامے آج بہت سے ملکوں کی ادبیات، نثر  و نظم اور آرٹ میں جلوہ گر ہو رہے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ایرانی قوم نے اپنی استقامت اور شجاعت سے ثابت کر دیا کہ بڑی طاقتیں جتنا ظاہر کرتی ہیں، اتنی طاقتور نہیں ہیں۔ ان کی طاقت توپوں اور ٹینکوں کی طاقت ہے اور توپ اور ٹینک اقوام کے دل، جذبات اور ایمان سے جنگ نہیں کر سکتے۔ جب کوئی قوم استحکام کے ساتھ کھڑی ہو جائے تو عالمی طاقتیں اس کے مقابلے کی تاب نہیں لا پاتیں۔ ایرانی قوم نے آج یہ بات ثابت کر دی ہے۔ ایرانی قوم نے بارہا اپنی استقامت اور پیشرفت سے دشمن کو عملی طور پر پسپا اور ناکام  کیا ہے۔ آج بھی ہمارے تسلط پسند دشمنوں کا اصلی مقصد یہی ہے۔ آج ایرانی قوم کی حیثیت سے ہم  پر افتخار راستے پر چل رہے ہیں، بڑے بڑے حوادث سے گزر رہے ہیں اور اپنی تاریخ کے اہم باب خود رقم کر رہے ہیں۔

مستقبل قریب میں ایرانی عوام کے سامنے پارلیمنٹ کے انتخابات ہیں۔ انتخابات کے بارے میں میں سب سے بالخصوص آپ نوجوانوں سے کچھ باتیں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اگرچـہ ہمارے عوام بہت سے مسائل سے باخبر ہیں لیکن ان باتوں کی یاد دہانی میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ الیکشن بہت اہم ہے۔ ایران قوم کے لئے بھی اہم ہے اور دشمن کے لئے بھی اہم  ہے۔ ایرانی قوم کے لئے کون سی چیز اہمیت رکھتی ہے؟ ایرانی عوام کے لئے یہ بات اہم ہے کہ ثابت کر دیں کہ بیس سال گزرنے کے بعد بھی  سیاسی میدان میں، پرشکوہ انداز میں اور جوش و خروش کے ساتھ موجود ہیں اور اپنے ووٹوں سے قانون ساز ادارے کے اراکین کو منتخب کریں گے۔ یہ الیکشن دشمن کے لئے کیوں اہم ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ دشمن یہ چاہتا ہے کہ الیکشن میں عوام کی مشارکت زیادہ نہ ہو تاکہ یہ کہہ سکے کہ عوام انقلاب اور اسلامی نظام سے نالاں ہیں۔ دوسرے دشمن چاہتا ہے کہ عوام اس کے شور شرابے، الزامات اور افواہوں سے متاثر ہو جائيں، دہشت زدہ ہو جائيں اور پارلیمنٹ میں اپنے حقیقی نمائندے نہ بھیج سکیں۔ پر فریب اور رنگارنگ پروپیگنڈوں کے زیر اثر اپنے دل پسند اور  قابل اطمینان افراد کو منتخب کرکے پارلیمنٹ میں بھیجنے میں ناکام رہیں۔ اسی لئے آپ نے دیکھا کہ حال ہی میں ایک امریکی عہدیدار نے کہا ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایران کی پارلیمنٹ کیسی ہوگی۔ بہت خوب، دیکھو، انتظار کرو اور دیکھو کہ ایرانی  قوم ایک بار پھر کس طرح تمہیں دنداں شکن جواب دیتی ہے! البتہ میں نے اس سے پہلے بھی سنا تھا کہ انھیں لوگوں نے، جن میں زیادہ تر امریکی تھے، اور ان کے بعض زرخرید افراد نے کسی نشست میں کہا ہے کہ ہم ایران کے انتخابات کے منتظر ہیں۔ لیکن یہ حضرت ایک بار پھر حماقت کر بیٹھے، خصوصی نشست کی بات برملا اور ایرانی عوام کے سامنے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی حقیقت بیان کر گئے۔ وہ مداخلت کرنا چاہتے ہیں، ان کی حریص نگاہیں گڑی ہوئی ہیں لیکن جان لیں کہ ایرانی عوام ہوشیار ہیں۔

سبھی  ہوشیار رہیں؛ ذمہ دار افراد بھی، سیاسی شخصیات بھی اور عوام بھی۔ انتخابات سے تعلق رکھنے والے ذمہ دار افراد پوری ہوشیاری کے ساتھ اپنا کام اس طرح انجام دیں کہ ان کے کام میں معمولی سا بھی نقص نہ رہے۔ یعنی قانون کی پوری پوری رعایت کریں۔ میں وزارت داخلہ اور آئين کی نگراں کونسل، دونوں کا دفاع کروں گا۔ دونوں ہی اسلامی نظام کے اہم ادارے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے اپنے اپنے فرائض ہیں۔ وزارت داخلہ پوری طرح قانون کے مطابق عمل کرے اور عوام کے ووٹوں میں خیانت نہ ہونے دے۔ جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے ووٹ جمع کریں اور پوری امانت داری اور توجہ کے ساتھ ان کی گنتی کریں تاکہ نتیجہ معلوم ہو سکے۔ نگہبان کونسل بھی پوری توجہ اور دیانت داری کے ساتھ نگرانی کرے تاکہ انتخابات میں کسی بھی قسم کی کوئی خلاف ورزی نہ ہونے پائے۔ یہ عوام کا حق ہے کہ نگہبان کونسل قوم کے بدخواہوں کو قانون ساز ادارے میں نہ پہنچنے دے۔ انقلاب کے بدخواہوں کو اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ)  کے بدخواہوں کو ملک کے قانون ساز ادرے میں پہنچنے سے روکے۔  یہ وہ پارلیمنٹ ہے جس کے انتخابات امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی برسی کے موقع پر ہونے جا رہے ہیں۔ نگراں کونسل اور وزارت داخلہ، دونوں اداروں کو اس تعلق سے اپنے فرائض پر عمل کرنا چاہئے۔ ہم سب کو دعا کرنا چاہئے اور خداوند عالم سے ان کے لئے توفیق اور نصرت طلب کرنا چاہئے۔

سیاسی شخصیات اور عوام کے لئے یہ بات اہم ہے کہ انتخابات ایسے ماحول میں انجام پائيں جس میں جوش و خروش اور زندگی و نشاط کے ساتھ ہی سکون اور متانت بھی ہو۔ یعنی جوش و خروش ہو، کشیدگی نہ ہو، بلکہ متانت اور سکون ہو۔ انتخابات کے لئے یہ ماحول اچھا ہے۔ جو بھی اس طرح عمل کرے وہ خدمت کرےگا۔ جو بھی اس کے برعکس عمل کرے، یا عوام کو انتخابات سے بدظن کرے یا انتخابات کے نتائج کی جانب سے انہیں مایوس کرے، یا ماحول کو  بے جا الزامات، افواہوں اور جھوٹے تنازعات کے ذریعے پرآشوب کرے امن و سکون ختم کرے، وہ خیانت کرے گا، وہ  جو بھی ہو خائن ہوگا۔ سب اس کو جان لیں۔

عوام غور سے دیکھ رہے ہیں اور ان معاملات میں، دوستوں، دشمنوں، خیرخواہوں اور بدخواہوں کو پہچانتے ہیں۔ خیرخواہ وہ ہے جو ماحول میں جوش و خروش کے ساتھ ہی امن و سکون باقی رکھے۔ انتخابات کے لئے ماحول کو سازگار بنائے اور ایسا ماحول تیار کرے کہ عوام انتخابات میں شرکت کریں۔ ان شاء اللہ ان انتخابات میں اس سے پہلے کے انتخابات سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ عوام شرکت کریں گے۔ بدخواہ وہ ہے جو طعنے دیتا ہے اور عوام کو بدظن کرنے کی کوشش کرتا ہے، ماحول کو کشیدہ بناتا ہے یعنی تہمت لگانے، بدگمانی پیدا کرنے اور سیاسی کشیدگی پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بہت برے کام ہیں۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ہمیشہ لڑائی جھگڑا رہے۔ کیوں لڑائی رہے ؟ عوام آپس میں لڑکے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ عوام کی آرزوئیں اور خواہشات اتحاد، ہمدلی اور یک جہتی سے پوری ہوتی ہیں۔ بعض لوگ عوام کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے برائی کیوں پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ دلوں میں کینہ کیوں پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ ایک دوسرے کے خلاف مستقل طور پر الزام تراشی کی فضا کیوں وجود میں لانا چاہتے ہیں؟ اس سے خلوص، امانتداری اور صداقت سے ہاتھ خالی ہو جانے کے علاوہ عوام، مملکت، مستقبل اور ںظام کو کیا حاصل ہوگا؟ وہ لوگ کچھ بولنا چاہتے ہیں تو اس طرح بولتے ہیں اور اس طرح لکھتے ہیں۔ ملک کے ماحول میں جوش و جذبہ اور ہمدلی پیدا کریں؛ یہ سب کا فریضہ ہے۔

عوام کا بھی شرعی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ انتخابات میں جو وقت باقی بچا ہے اس میں امیدواروں کے بارے میں جستجو کریں اور اپنے پسندیدہ امیدوار کا انتخاب کریں تاکہ جب خدا کے سامنے ان سے سوال کیا جائے کہ تم نے قانون ساز ادارے میں ان صاحب یا اس خاتون کو اپنا نمائندہ بناکے کیوں بھیجا تھا تو جواب دے سکیں کہ میری نظر میں ان کو اپنا نمائندہ بنانا مناسب اور مصلحت کے مطابق تھا۔ الیکشن، فریضہ ہے۔ الیکشن ایک بہت بڑا کام، ایک شرعی اور خدا کے لئے انجام پانے والا کام ہے۔ جستجو کیجئے اور اس کام کے لئے مناسب افراد کا انتخاب کیجئے۔ مناسب فرد کیسا ہوتا ہے؟ کارآمد ہو۔ یہ میرا بیس سال کا تجربہ ہے۔ صرف کارآمد ہونا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کو متدین بھی ہونا چاہئے۔ متدین انسان سے خیانت کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ متدین افراد سے اگر کبھی کوئی لغزش ہوتی ہے تو پہلے ان کا تقوی ختم ہوتا ہے اس کے بعد یہ لغزش ان کے پاس پہنچتی ہے۔ لہذا اس کو متدین اور متقی دونوں ہونا چاہئے تاکہ اس مملکت کے امور میں آپ اس پر اعتماد کر سکیں۔ اسی طرح اس کو دلیر اور بہادر بھی ہونا چاہئے جو لوگوں کے طعنوں، دھمکیوں، ملکی اور غیر ملکی متکبرین اور تسلط پسند طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے والا ہو۔ دھمکیوں سے جس کا دل لرز جائے، دستخط کرتے وقت جس کا ہاتھ کانپنے لگے، آگے بڑھنے میں جس کے پیر لرزنے لگیں اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ پارلیمنٹ میں عوام کے نمائندے کو شجاع، باشرف، امین اور کمزور طبقات کا طرفدار ہونا چاہئے۔ قانون کو ایسا ہونا چاہئے جو کمزوروں کا دفاع کر سکے۔ جس قانون سے پیسے والے مزید دولتمند بنیں وہ اسلامی مملکت کا قانون نہیں ہو سکتا۔ قانون ایسا ہونا چاہئے جو مشکلات اور محروم طبقات کے مسائل کو حل کر سکے۔ رکن پارلیمنٹ ایسا فرد ہونا چاہئے جو ان باتوں کو سمجھ سکے۔ حتی المقدور تجربہ کار افراد کا انتخاب کریں۔ ان بڑے کاموں میں تجربہ بہت اہم ہے۔ جستجو کیجئے، ان افراد کو تلاش کیجئے جن کے اندر یہ خصوصیات ہوں۔ متدین، پاکدامن، کارآمد، شجاع اور قوت استقامت کا مالک فرد اگر قانون ساز ادارے میں جائے تو ہمارا بیس سال کا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ حساس مواقع پر عوام اور ملک کے مفاد میں کام کر سکتا ہے۔ اس طرح کے افراد اہم ہوتے ہیں۔ البتہ ملک میں کہیں سے بھی منتخب ہوکے کوئی فرد جب پارلیمنٹ کی رکنیت حاصل کرتا ہے تو وہ پورے ایران کا نمائندہ ہوتا ہے صرف اس مخصوص جگہ کا نہیں جہاں سے اس کو منتخب کیا گیا ہے۔ لہذا اس کو پورے ملک کی مصلحت کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ اس بات پر بھی توجہ رکھیں۔ جستجو کریں اور ایسے افراد کو تلاش کریں اور ان کی شناخت حاصل کریں۔ اگر آپ خود اچـھی طرح جستجو کرنے اور پہچاننے سے قاصر ہوں تو امین اور متدین افراد سے جو آپ کے لئے قابل اعتماد ہوں، سوال کریں۔

خدا کے فضل سے مجھے امید ہے اور میں جانتا ہوں کہ انقلاب سے لے کے آج تک خدا نے  اس قوم کو اس کے حال پر چھوڑا نہیں ہے۔ ایک بار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے مجھ سے فرمایا اور میں نے خود بھی بارہا تجربہ کیا ہے کہ دست قدرت اور اس کی نصرت کا سایہ اس قوم کے سر پر ہے۔ یہ خلوص، یہ نیتوں کی پاکیزگی، یہ تمام طبقات کے لوگوں کے دلوں کی نورانیت جو بالخصوص، پورے ملک کے نوجوانوں کے دلوں میں پائی جاتی ہے، یہ رحمت الہی کے نزول کا ذریعہ بنتی ہے، حضرت بقیۃ اللہ (امام مہدی ) ارواحنا فداہ کی دعاؤں، عنایات اور نظر کرم کی برکت سے، خداوند عالم ان انتخابات کو بھی ان شاء اللہ اسلام اور مسلمین کے فائدے میں تکمیل کے مراحل تک پہنچائے گا، انقلاب کی سربلندی اور اسلامی انقلاب کے اہداف پورے ہونے کا سبب قرار دے گا اور ان شاء اللہ آئندہ پارلیمنٹ بہت اچھی ہوگی۔

جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ سب انتخابات میں شرکت کو اپنا فریضہ سمجھیں، ملک میں ہر جگہ عوام انتخابات میں بھر پور شرکت کریں اور ندائے انقلاب، ندائے اسلام اور ندائے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) پر لبیک کا ثبوت دیں تاکہ خداوند عالم شہیدوں کی ارواح پاک اور ان کے طیب و طاہر خون کی برکت سے اس قوم کی اس راہ پر چلنے کی ہدایت فرمائے جو صحیح اور اس کی مرضی کے مطابق ہے۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ