عن جعفر ‌بن ‌محمّد علیهما ‌السّلام عن ابیه عن جدّه علیهم ‌السّلام قال قالَ رَسولُ‌ اللّهِ صَلَّی‌ اللّهُ ‌عَلَیهِ وَ ‌آلِهِ: اَقرَبُکُم غَداً مِنّی فِی المَوقِفِ اَصدَقُکُم‌ لِلحَدِیثِ وَ آداکُم لِلاَمانَةِ وَ اَوفاکُم بِالعَهدِ وَ اَحسَنُکُم خُلُقاً وَ اَقرَبُکُم مِنَ النّاسِ. (۱)

 

اَقرَبُکُم غَداً مِنّی فِی المَوقِفِ اَصدَقُکُم‌ لِلحَدِیث

قیامت کے میدان میں انسان کو تمام سختیوں، وحشتوں، خوف و ہراس کا سامنا ہوگا۔ مومن اور غیر مومن میں اس سلسلے میں فرق نہیں ہے؛ یَومَ یَفِرُّ المَرءُ مِن اَخیـهِ * وَ اُمِّه وَاَبیهِ * وَ صاحِبَتِه وَ بَنیهِ ‌‌* لِکُلِّ امرِئٍ مِنهُم یَومَئِذٍ شَأنٌ یُغنیه (۲) قیامت کا دن اس طرح کا دن ہے۔ قرآن کے سوروں میں خاص طور پر قرآن کے آخری حصے کے سوروں میں قیامت کے دن کے خوف و ہراس کا بہت ذکر ہے۔ ایسے سخت معرکے کے وقت جس کی شدت و سختی ہمارے تصور سے پرے ہے، انسان کسی محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں ہوگا۔ ایسی پناہ گاہ جہاں اسے قرار آ سکے، جس پر تکیہ کر سکے، جس کے سائے میں سکون  حاصل کر سکے۔ وہ شخص اور وہ پناہ گاہ جس سے تمام انسانوں کو زیادہ تحفظ مل سکتا ہے وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات ہے۔ اگر کوئی شخص خود کو ان بزرگوار کی بارگاہ تک پہنچانے میں کامیاب ہو جائے تو اسے اطمینان ہو جائے گا، اسے سکون مل جائے گا۔ جس طرح دنیا میں ہوتا ہے۔ آپ دنیا کے حالات دیکھئے! اگر کسی جگہ بڑی سختی ہے، مشکلات ہیں، یلغار ہے، چوری ہے، رذالت ہے، اگر کوئی انسان ایسے حالات میں پھنسا ہوا ہے اور خود کو نجات دلانا چاہتا ہے تو کسی ایسی شخصیت کو تلاش کرے گا جو طاقتور ہو، محکم ہو اور فورا اس کے پاس جاکر کھڑا ہو جائے۔ قیامت میں جو شخص بھی نبی اکرم کے قریب پہنچ جانے میں کامیاب ہوا اسے احساس تحفظ حاصل ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ نبی اکرم کے قریب کون جا سکے گا؟ وہاں تو اولین و آخرین کے تمام انس و جن جمع ہوں گے۔ سب ان بزرگوار کے قریب پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ آنحضرت کے مقام و منزلت کو دیکھیں گے، ان کا وہ مرتبہ ہوگا کہ؛ یَغبِطُهُ بِهِ الاَوَّلونَ‌ وَ الآخِرون‌» (3) سب دیکھیں گے اور اس کی آرزو کریں گے لیکن کیا اسے حاصل بھی کر پائیں گے؟ نہیں، سب کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ روایت کہتی ہے کہ وہ وسیلہ جس کے ذریعے آپ خود کو پیغمبر کے قریب پہنچا سکتے ہیں کیا ہے؟ ہمیں اسی کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔

یہ عمل کی جگہ ہے اور وہ نتیجہ کی جگہ ہے۔ یہاں ہمیں کچھ کاموں کی  تعلیم دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کاموں کو انجام دو۔ اب اگر یہاں ہم نے اس کوتاہ مدت میں، ظاہر ہے کہ کوتاہ مدت ہی تو ہے، یہ دنیا تو ابدی زندگی کے مقابلے میں ایک لمحے کے برابر ہے، بس ایک لحظہ ہے، نوے سال، سو سال اگر کسی کی عمر ہے تو وہ عالم آخرت کی اس ابدی زندگی کے مقابلے میں ایک لمحہ ہی تو ہے! کچھ کام انجام دئے ہیں، اگر انسان اس لمحہ بھر کی زندگی میں ان باتوں کو ملحوظ رکھتا ہے تو اس سخت گھڑی میں یہ چیز اس کے کام آئے گی۔ یہ کیا چیزیں ہیں؟ کچھ چیزوں کو بیان کیا گیا ہے۔ خود حضرت فرماتے ہیں: اَقرَبُکُم غَداً مِنّی، قیامت میں تم میں سے میرا سب سے قریب ترین شحص یہ ہوگا؛ اَصدَقُکُم‌ لِلحَدیث؛ جو سب سے زیادہ سچا ہے۔ باتوں میں سچا ہو، سب کچھ صداقت کے ساتھ بیان کرے، جھوٹ، تہمت، افواہ، کمزور باتیں، بغیر آگاہی کی باتیں یہ سب اس کے اندر نہ ہو۔ صدق یعنی عین حقیقت سے مطابقت۔ وہی بیان کرے جو حقیقت ہے، جسے وہ حقیقت سمجھتا ہے۔؛ اَصدَقُکُم‌ لِلحَدیث.

 

وَ آداکُم لِلاَمانَة

وہ شخص جو سب سے زیادہ امین ہو۔ میں نے بارہا عرض کیا کہ امانت داری صرف یہ نہیں ہے کہ آپ اس حقیر کے پاس کوئی پیسہ رکھوا دیں اور پھر میں وہ پیسہ آپ کو لوٹا دوں۔ یہ امانت داری کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ لوگ ہمیں جو کچھ بھی دیتے ہیں وہ ہمارے پاس ان کی امانت ہوتی ہے۔ ہمیں عہدہ دیتے ہیں، سیکورٹی کی ذمہ داری ہمیں دیتے ہیں، اپنے دین کے امور ہمیں سونپتے ہیں، اپنی ناموس کی حفاظت کی ذمہ داری ہمیں دیتے ہیں، یہ ساری چیزیں ہمارے ہاتھ میں عوام کی امانتیں ہیں۔ ہم حکومت کا حصہ ہیں۔ جو بھی جہاں بھی ہے، اس حقیر کی طرح اگر کسی بھی عہدے پر ہے، کوئی جج ہے، کوئی تعلیم و تربیت کے شعبے کا عہدیدار ہے، کوئی امام جماعت ہے تو یہ سارے عہدے امانت ہیں جو ہمیں سونپی گئی ہے۔ امانت ادا ہونی چاہئے۔ جو زیادہ امانت دار ہوگا، قیامت میں آنحضرت سے وہ زیادہ قریب ہوگا اور اسے زیادہ احساس تحفظ حاصل ہوگا۔

وَ اَوفَاکُم بِالعَهد

شخصی اور سماجی عہد و پیمان کے بارے میں ضروری ہے کہ اسے وفا کیا جائے۔ البتہ سماجی میثاق کی اہمیت زیادہ ہے۔ یہ سماجی امور، یہ شہری حقوق۔ یہی چیز جو آج کل انگریزوں نے سیکھ لی ہے اور ہمیشہ کہتے رہتے ہیں؛ 'انسانی حقوق' ہم بھی انھیں سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں! جو باتیں ہماری روایتوں میں اور قرآن میں ہیں وہ ہم اب اہل مغرب سے سیکھنا چاہتے ہیں۔ یہاں کہا جا رہا ہے؛ «اَوفاکُم بِالعَهد»؛ «عهد» معاہدہ، وہ میثاق جو آپ کے اور دوسروں کے مابین ہو۔ جب آپ کسی ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں تو آپ کے درمیان ایک عہد ہوتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ  جیسے کسی بلڈنگ میں اگر دس خاندان رہتے ہیں تو ان کے درمیان کوئی تحریری معاہدہ تو نہیں ہے مگر پھر بھی ایک دوسرے کے تعلق سے کچھ التزامات ہوتے ہیں۔ یہ تو بالکل فطری چیز ہے۔ مثلا یہ کہ شور شرابا نہ کرو کیونکہ فلاں صاحب کے گھر میں چھوٹا بچہ سو رہا ہے کہیں جاگ نہ جائے! وہ بھی شور شرابا نہ کریں کہ آپ کا سوتا ہوا بچہ بیدار نہ ہو جائے۔ یہ بالکل واضح معاہدہ ہے۔ شہریوں کے حقوق کا یہی مطلب ہے۔

 

وَ اَحسَنُکُم خُلُقاً

ایک چیز یہ بھی ہے کہ خوش اخلاق بنئے۔ بد اخلاق اور کرخت مزاج ہونا، گھر میں کوئی انداز، دفتر میں کچھ اور انداز، عام لوگوں کے ساتھ کچھ اور انداز، تکبر اور تلخی سے پیش آنا بہت بری بات ہے۔ جو لوگ «اَحسَنُهُم خُلقاً» کے مصداق ہیں وہ پیغمبر کے قریب جائیں گے۔

 

وَ اَقرَبُکُم مِنَ النّاس

عوام دوست ہونا۔ آپ دیکھئے کہ اسلامی طرز زندگی یہ ہے۔ عوام دوستی کے بارے میں بھی بہت سے جدت پسندوں کا یہی خیال ہے کہ اسے بھی انھوں نے غیروں سے سیکھا ہے۔ جی نہیں، یہ چیزیں ہماری روایتوں میں موجود ہیں۔ عوام دوست بنئے، عوام کا ساتھ دیجئے۔ عوام کا ساتھ دینے کام مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان رئیس طبقے کے چار افراد کو جمع کرکے کہہ دے کہ جناب یہ عوام الناس ہیں۔ جی نہیں۔ اس سے مراد ہے عام لوگ، سماج کے نچلے طبقات، عوام الناس۔ ان کے ساتھ رہئے، ان کے درمیان رہئے، ان کی طرح  زندگی بسر کیجئے، ان کی سطح کی زندگی گزارئے، ان کے سامنے تواضع سے پیش آئيے۔ عوام دوستی کا یہ مطلب ہے۔

 

۱) امالی طوسی، مجلس هشتم، صفحہ ۲۲۹؛ «امام صادق علیہ السلام اپنے اپنے پدر گرامی کے حوالے سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قول نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر نے فرمایا: قیامت میں تم میں مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو زیادہ سچا ہو، جو زیادہ امانت دار ہو، اپنے عہد و پیمان کا زیادہ پابند ہو، زیادہ خوش اخلاق ہو اور زیادہ عوام دوست ہو۔

۲) سوره‌ عبس، آیات۳۴ تا ۳۷؛ جس دن انسان اپنے بھائی سے، اپنی ماں اور اپنے باپ سے، اپنی زوجہ اور اپنی اولاد سے دور بھاگے گا۔ اس دن ہر شخص کے کچھ مسائل ہوں گے جن میں وہ  الجھا ہوا ہوگا۔

3) کافی، جلد ۴، صفحہ ۵۵۱