آیت اللہ العظمی خامنہ ای: کل درس کے بعد ایک صاحب آگے تشریف لائے۔ درس کے بعد آپ دیکھتے ہی ہیں کہ ہماری جانب لوگ دوڑ پڑتے ہیں (1)۔ انہوں نے بڑی تلخی اور افسوس کے ساتھ کہا کہ قانون کے مطابق ریٹائرڈ افراد کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جاتا ہے مگر کچھ ریٹائرڈ افراد کو دوبارہ کام پر رکھا جا رہا ہے اور اس کے لئے آپ کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ البتہ یہ ان کی محبت ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس بات پر ناراض ہیں کہ ایسی چیز کی نسبت اس حقیر سے دی جا رہی ہے جسے وہ پسند نہیں کرتے۔ مگر مشکل یہ تھی کہ وہ جناب مجھ پر چیخ رہے تھے (2)۔ میں نے بھی قدرے تند لہجے میں ان سے کہا کہ جناب! آپ چیخ کیوں رہے ہیں؟! بہرحال میں چاہتا ہوں کہ ان سے معذرت خواہی کر لوں۔

سوال کرنے والے طالب علم: آقا میں معذرت چاہتا ہوں، معاف کیجئے گا۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای: ٹھیک ہے، ہم بھی آپ سے معذرت چاہتے ہیں۔

جو ریٹائرڈ ہو گئے ہیں انھیں کام پر رکھنے سے روکنے والا قانون بہت اچھا ہے۔ یہ ان قوانین میں ہے جن کی ہمیں ضرورت ہے اور اس کی واقعی بڑی احتیاج تھی۔ یہ قانون در حقیقت اعلی عہدوں کے گرد برسوں سے قائم حصار کو توڑنے والا ہے اور اس بند حصار کو ختم کے کرکے نوجوانوں کو راستہ دینے والا ہے کہ وہ خود کو اعلی عہدوں پر پہنچا سکیں۔ بنابریں یہ قانون اپنے آپ میں بہت اچھا ہے۔ لیکن اس قانون کو نافذ کرنے کا طریقہ مناسب نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہر ریٹائرڈ شخص عہدے سے ہٹا دیا جائے۔ اس میں جو اطلاق اور عمومیت رکھی گئی ہے یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس لئے کہ بعض افراد ایسے ہیں جنہوں نے مثال کے طور پر تیس سال کام کیا ہے، ریٹائرڈ ہو گئے ہیں، مثلا وہ بیس کی عمر میں یا اٹھارہ سال کی عمر میں ملازمت میں آ گئے۔ اس وقت وہ اڑتالیس سال یا پچاس سال کی عمر کے ہیں۔ یہ ان کے کام کا وقت ہے، ان کے پاس اچھا تجربہ بھی ہے اور کوئی ان کا نعم البدل بھی نہیں ہے۔ ایسا ہوتا ہے۔ اس قانون کا اطلاق ایسے شخص پر بھی ہوگا، ممکن ہے کہ ان کی تعداد زیادہ نہ ہو لیکن بہرحال کچھ لوگ ہیں۔ ایسے افراد کے سلسلے میں اس قانون پر عمل ٹھیک نہیں ہے۔ اب وہ شخص یا وہ عہدیدار اس قانون کے خلاف کیا کر سکتا ہے؟ اس کے ذہن میں آتا ہے کہ ولی فقیہ سے سوال کرے اور ولی فقیہ سے اجازت حاصل کر لے۔ آتے ہیں، ہم سے سوال کرتے ہیں۔ جن کے بارے میں اس حقیر سے سوال کئے جاتے ہیں ان سب کو تو میں نہیں پہچانتا۔ ان میں سے شاید چند افراد ہوں گے، ممکن ہے کہ دو تین لوگ ایسے ہوں جن کو میں پہچانتا ہوں۔ جنہیں نہیں پہنچانتا اگر ان کے سینیئر عہدیدار سے واقفیت ہوتی ہے تو اس کی تجویز پر اعتماد کرتا ہوں۔ سارا ماجرا یہی ہے۔ ورنہ خود یہ قانون بہت اچھا ہے۔ اس پر عمل ہونا چاہئے۔ بہتر یہ ہوگا کہ خود ارکان پارلیمنٹ اس طرح قانون سازی کریں، اس میں ایسی اصلاحات کریں کہ اس طرح کی مشکلات پیش نہ آئيں۔ لوگوں کو رہبر انقلاب کی مدد لینے کی ضرورت نہ پڑے۔

۱) حاضرین کی ہنسی

۲) حاضرین کی ہنسی