رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ 11 فروری کو جشن انقلاب کے جلوس حد درجہ حیرت انگیز چیزوں میں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جن ملکوں میں انقلاب آئے ہیں وہاں انقلاب کے سالانہ جشن چند افراد کے سامنے مسلح فورسز کی پریڈ تک محدود ہیں لیکن سربلند مملکت ایران میں چالیس سال سے عوام پورے ملک میں سڑکوں پر نکلتے ہیں اور راہ انقلاب پر گامزن رہنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں، یہ انقلاب کا حیرت انگیز اعجاز ہے اور اسے بھرپور انداز میں اسی طرح جاری رکھنا چاہئے۔ (1)

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آله الطّیبین الطّاهرین المعصومین.

میرے عزیزو! خوش آمدید! اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کی فضائيہ اور فضائی دفاعی شعبے کے محترم عہدیداران اور جوانوں کا خیر مقدم ہے۔ آپ سے یہ سالانہ ملاقات حقیقی معنی میں مسرت بخش ہے۔ نوجوان چہرے، امیدوں سے آراستہ چہرے، خوش اور امید افزا چہرے۔ آپ جہاں بھی ہوں آپ کی موجودگی امید بخش اور اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ محترم کمانڈر نے جو تقریر کی اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں، یہ مسرت بخش تقریر تھی۔ اس مختصر رپورٹ میں جن کاموں کا ذکر کیا گیا وہ بہت اہم شروعات ہے، اس پر مسلسل کام کرنا اور اس کی نگرانی کرتے رہنا ضروری ہے۔ کسی بھی اقدام کی شروعات ایک چیز ہوتی ہے اور اسے جاری رکھنا اور اس کا ثبات ایک دوسری چیز ہے جو بہت اہم ہے۔ اسی طرح میں شکریہ ادا کرتا ہوں رزمیہ ترانہ پیش کرنے والوں کا۔ اشعار بھی بہت اچھے تھے، ترانہ بھی بہت اچھا تھا۔ اللہ آپ کو کامیاب کرے۔

میرے عزیزو! میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس ملت کے حق میں اللہ کی ایک نعمت یہ تھی کہ ملک کی فوج عوام کے ساتھ ہو گئی۔ یہ بہت بڑی نعمت تھی۔ انقلاب میں اگر فوج عوام کے ہمراہ اور ساتھ نہ ہوتی تو حالات کچھ اور ہو جاتے، بڑی عجیب مشکلات پیدا ہو جاتیں۔ فوج کے عمائدین کو ایک حکم ملتا اور اہلکاروں کو کوئی اور حکم ملتا۔ فوج کے تمام شعبوں نے ایک اہم رول ادا کیا۔ فضائیہ کے رول کو میں چند جملوں میں بیان کرنا چاہوں گا۔

فضائیہ کا کردار بہت نمایاں تھا۔ انقلاب کے تعلق سے فضائیہ کا سب سے پہلا کردار یہی 8 فروی 1979 کا واقعہ تھا۔ یہ واقعہ خود اپنے آپ میں ایک انقلاب تھا۔ جس طرح خود انقلاب بڑا حیرت انگیز واقعہ تھا اسی طرح 8 فروری کا واقعہ بھی بڑا حیرت انگیز تھا۔ میں وہاں موجود تھا جب سڑک سے یہ جوان آ رہے تھے۔ بعض افسر تھے، بعض عہدیدار تھے، بعض اہلکار تھے۔ جن عمارتوں میں ہم اپنے کاموں میں مصروف تھے انھیں میں سے ایک کی چھت سے میں نے دیکھا۔ میں فورا وہاں پہنچا (2) جہاں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) موجود تھے۔ اس کے بعد وہ سب پہنچے اور باقی سارے واقعات ہوئے۔ یہ واقعہ حقیقت میں بڑا حیرت انگیز تھا۔ اس نے دشمن کو مایوس بھی کر دیا اور اس کے حوصلے پست کر دئے اور انقلابیوں کو بڑی خوشی بھی عطا کی اور حوصلہ بڑھایا۔ واقعی بڑی حیرتناک چیز تھی۔ فضائیہ سے تعلق رکھنے والے کئی گروپس، مثال کے طور پر چند کمپنیاں آکر مدرسے میں کھڑی ہو گئیں اور انھوں نے ترانہ پیش کیا، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو سلام پیش کیا۔ یہ اس انقلاب کے لئے، مجاہدین کے لئے اور بزرگوار امام کے لئے نعمت غیر مترقبہ تھی۔ وَ مَن یَتَّقِ اللَّهَ یَجعَل لَهُ مَخرَجًا * وَ یَرزُقهُ مِن حَیثُ لا یَحتَسِب-(۳) یہ حقیقت میں ایسا رزق تھا جس کی پہلے سے امید نہیں تھی۔ یہ ایک مرحلہ تھا۔

دوسرا مرحلہ 10 فروری سے پہلے والی شب کو پیش آیا جس کے بارے میں کم بات ہوتی ہے۔ دس فروری سے پہلے والی رات کو اسی واقعے کا انتقام لینے کے لئے فضائیہ پر ٹینکوں سے حملہ کیا گيا۔ البتہ عوام الناس ان کی مدد کے لئے پہنچے اور وہ خود بھی پامردی سے ڈٹے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنے ڈپو میں رکھے اسلحے عوام کو دے دئے، عوام کو مسلح کیا اور حملہ آوروں پر غلبہ پا لیا۔ بندوقوں، جسموں اور جذبہ قربانی نے ٹینکوں اور شدید غصے میں ڈوبے ہوئے اس سسٹم پر جو فضائیہ پر حملہ آور ہوا تھا غلبہ پا لیا۔ یہ دوسرا مرحلہ تھا۔ وہ رات بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ ملک کے نوجوان سڑکوں پر منجملہ ایران روڈ پر جہاں ہم موجود تھے، دوڑ رہے تھے اور چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ "فضائیہ کا قتل عام کر رہے ہیں، لوگو! باہر نکلو، آؤ باہر آؤ!" اس طرح کی باتیں کر رہے تھے۔ ہمارے نوجوان فضائیہ کی مدد کے لئے دوڑے۔ یہ بھی ایک اہم مرحلہ تھا۔

ایک اور اہم مرحلہ تھا اسی چھاونی یعنی شہید نوژہ چھاونی میں بغاوت کی سازش کا بے نقاب کیا جانا۔ اس سازش کو فضائیہ کے ہی ایک افسر نے بے نقاب کیا تھا۔ فضائیہ کے نوجوان پائلٹ نے۔ میں نے بعد میں جنگ کے دوران اس افسر کو دیکھا جو زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو گیا تھا۔ وہ افسر سحر کے وقت، تقریبا آدھی رات کو میرے گھر آکر مجھ سے ملا اور یہ اطلاع دی کہ یہ ماجرا ہے، بغاوت ہونے والی ہے۔ ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس نوجوان نے آدھی رات کو یہاں وہاں ہر جگہ خود کو پہنچایا، اس کی داستان بھی طولانی ہے، کہ کسی طرح وہ امام کے پاس پہنچ جائے اور امام کو بتا دے۔ مگر وہ نہیں پہنچ سکا۔ لوگوں نے اس سے میرے پاس آنے کو کہا اور وہ میرے پاس آیا اور بتایا کہ یہ ماجرا ہے۔ تھکن سے چور، خوف کے عالم میں وہ افسر آیا میں نے انٹیلیجنس سے تعلق رکھنے والے افراد کو بلایا اور انھیں بتایا کہ یہ افسر ایسا کہہ رہا ہے۔ انھوں نے اسی دن جاکر حالات کو دیکھ لیا۔ یعنی اس کے اگلے دن تہران میں بغاوت ہونے والی تھی مگر فضائيہ کے ایک نوجوان افسر نے تمام منصوبوں کو ناکام کر دیا۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انقلاب کی تاریخ، جو واقعات پیش آئے ان کی تاریخ اور اس انقلاب میں جو کلیدی کردار ادا کیا گيا اس کی تاریخ بہت سے افراد کے لئے نا شناختہ ہے۔ میں اس کا کریڈٹ بھی فضائیہ کو دوں گا، یہ کریڈٹ بھی فضائیہ کے نام ہے۔ یہ عظیم اقدام، یہ عظیم کارنامہ فضائیہ نے انجام دیا۔

ایک اور اہم مسئلہ خود کفائی کے جہاد کا ہے۔ خود کفائی کا جہاد فضائیہ کی جدت عملی تھی۔ اس زمانے میں میں وزارت دفاع میں تھا اور انقلاب کونسل کی جانب سے وہاں عسکری امور میں مصروف کار تھا۔ یہ تجویز ہماری نہیں تھی، بلکہ خود ان کی تجویز تھی۔ فضائیہ کے لوگوں نے کہا کہ ہم خود کفائی کا جہاد عنوان سے ایک سسٹم قائم کر سکتے ہیں۔ اس کا نام بھی خود انھوں نے منتخب کیا، ہم نے اس کی تائید کی اور منظوری دی، اس کی حمایت کی۔ یہ کام خود فضائیہ کے نوجوانوں نے انجام دیا تھا۔ ان جوانوں میں کچھ افسرے تھے، البتہ بیشتر ٹیکنیشیئن تھے۔ ایک تعداد جمع ہو گئی اور انہوں نے محنت شروع کر دی، فوج کے اندر خود کفائی کا جہاد شروع ہو گیا۔ آپ میں جو ٹیکنیشیئن ہیں وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ خود کفائی ان چند عشروں میں ملک کے اندر انجام پانے والا کتنا عظیم کارنامہ ہے۔ تو فضائیہ کی یہ ایک اور اہم خدمت ہے۔

ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ مسلط کردہ جنگ میں سب سے پہلے جوابی کارروائی فضائیہ نے ہی انجام دی۔ جنگ کے دوسرے دن، یعنی پہلے دن تو دشمن نے حملہ کیا، اس کے بعد دوسرا یا تیسرا دن تھا کہ حیرت انگیز تعداد میں آپریشنل پروازیں انجام دی گئیں، بغداد پر حملہ ہوا، عراق پر اس طرح جوابی حملے کئے گئے کہ سب حیرت میں پڑ گئے۔ دشمن کو اس کی توقع نہیں تھی۔ ہمارے یہاں وسائل کی کمی تھی، بہت شدید قلت تھی، کچھ ضروری وسائل نہیں تھے، بعض وسائل ایسے تھے جن کی ہمیں شناخت نہیں تھی۔ ہمارے پاس موجود تھے لیکن ہمیں ان کی شناخت ہی نہیں تھی۔ ہمارے کمانڈروں کو بھی ہنوز ان کی ٹریننگ نہیں تھی۔ مگر اس کے باوجود ایک بڑی تعداد، مثال کے طور پر ایک سو چالیس پروازیں یا اس سے زیادہ عراق کے اندر ایک دن میں انجام دی گئیں۔ ہمارے ایئرپورٹوں پر ہونے والے حملے کے جواب میں ان کے ہوائی اڈوں پر یہاں وہاں ہر جگہ بمباری کی گئی۔ تو اس طرح مسلط کردہ جنگ میں پہلی منہ توڑ جوابی کارروائی فوج کی طرف سے اور فضائیہ کی جانب سے انجام پائی۔

اس کے بعد آٹھ سالہ جنگ میں فوج کی آپریشنوں کی ایک اہم مثال والفجر آپریشن ہے۔ اللہ رحمتیں نازل کرے شہید ستاری پر۔ شہید ستاری اس وقت ٹیکنیشئن تھے۔ فضائیہ میں ٹیکنیکل شعبے کے عہدیدار تھے۔ ہنوز وہ کمانڈر بھی نہیں بنے تھے۔ انھوں نے والفجر 8 آپریشن میں وہ کمال دکھایا کہ ہمارے مجاہدین دریائے اروند سے گزر گئے اور دریا کو عبور کرکے انھوں نے فاؤ پر قبضہ کر لیا۔ وہ جو اہم واقعات ہوئے ان سے دنیا ہل کر رہ گئی۔ وہاں کئی شب و روز شہید ستاری اور ان کے ساتھیوں کو ایک لمحہ بھی نیند نہیں آئی۔ وہ ایئر ڈیفنس سسٹم کو مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے رہتے تھے۔ مسلسل فائرنگ کرتے تھے، جنگی طیارے مار گراتے تھے اور فورا سسٹم کو کسی اور جگہ منتقل کرتے تھے کہ کہیں دشمن اس سسٹم کی جگہ کی نشاندہی کرکے اس پر حملہ نہ کر دے۔ بے مثال کام کیا جو ناقابل بیان ہے۔ جو اہل قلم ہے، جو اہل سخن ہیں، جو ترانے لکھتے ہیں، انھیں چاہئے کہ اس کی توصیف کریں، اس پر اشعار لکھیں۔ یہ بہت بڑے کارنامے ہیں جو انجام دئے گئے۔ ہمارے عوام کی اکثریت یعنی ہمارے نوجوانوں کو اطلاع نہیں ہے کہ کیا کچھ ہوا؟! اس کی ایک مثال والفجر 8 ہے۔ دوسرے مواقع پر بھی ایسے ہی کارنامے انجام دئے گئے۔

ایک اور اہم کام طیارہ بنانا ہے۔ ملک کے اندر پہلا جنگی طیارہ جو بنایا گیا وہ فضائیہ کے ذریعے بنایا گیا۔ میں نے وہاں جاکر دیکھا۔ ہمارے پاس جو جنگی طیارے تھے ان میں تبدیلیاں کی گئیں، محنت کی گئی اور ملک کے اندر ڈبل کیبن جنگی طیارے بنائے جانے لگے۔ یہ کام فضائیہ کے اندر انجام دیا گيا جو بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ حالیہ کارنامہ پاسبان حرم مجاہدین کی سپورٹ کا کام تھا جو بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں بھی بہت اہم کام انجام دئے گئے۔

یہ آپ نوجوانوں کے ماضی کا ایک مختصر حصہ ہے۔ آپ لوگ جو یہ باتیں سن رہے ہیں آپ کی اکثریت اس وقت نہیں تھی۔ آپ نے وہ زمانہ نہیں دیکھا۔ اس وقت آپ کی پیدائش نہیں ہوئی تھی۔ یہ واقعات تب ہوئے۔ یہ آپ کی تاریخ ہے۔ یہ آپ کا ماضی ہے۔ یہ آپ کا تشخص ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اس تشخص کی حفاظت کیجئے۔ میرا یہی کہنا ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سب سے اہم چیز جو کہ ان تمام چیزوں کا جو میں نے بیان کیں اور اس سے بھی دس گنا زیادہ چیزوں کا سرچشمہ ہے، وہ ہے انسان سازی، افرادی قوت، کسی بھی جماعت اور اس میں شامل افراد کی شخصیت اور تشخص کی قوت، یہ چیز سب سے اہم ہے۔ انسان سازی کیجئے۔ فضائیہ میں شہید بابائی جیسا شخص پیدا ہوا، شہید ستاری جیسا شخص سامنے آیا، اسی طرح دوسرے بھی بہت سے شہدا ہیں جن کی خاصی تعداد ہے، عظیم شہدا یہ سب اسلامی انقلاب کی برکت سے ہوا۔ طاغوتی شاہی دور میں بھی یہ ساری صلاحیتیں موجود تھیں لیکن وہ بروئے کار نہیں آ پاتی تھیں۔ تانبے کو سونا جس چیز نے بنایا، جس چیز نے ماہیت کو تبدیل کیا اور انسانوں کو عظیم شخصیات میں تبدیل کر دیا وہ اسلامی انقلاب اور ملت ایران کی عظیم تحریک تھی۔  

جہاں تک اس وقت ملک کے گوناگوں مسائل کے بارے میں میرے تاثرات کی بات ہے تو یہ تاثرات میری گفتگو میں پوری طرح نمایاں ہیں۔ آپ سب نے یہ گفتگو سنی ہے۔ میرے تاثرات یہ ہیں کہ میں بہت پرامید ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ مجھے حالات کی شناخت نہیں ہے اور میں ان سے آگاہ نہیں ہوں۔ مجھے مہنگائی نظر نہیں آ رہی ہے۔ کیوں نہیں، یہ ساری چیزیں بالکل واضح ہیں۔ ہمارے پاس دوسری جگہوں کی بھی کافی  خبریں آتی ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر جب ہم حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہی نظر آتا ہے کہ ملت ایران آج خبیث اور عیار دشمن کے معاندانہ محاذ کے مد مقابل کسی چیمپیئن اور برتر شخصیت کے طور پر کھڑی ہے اور اسے بخوبی پتہ ہے کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ ہمارا ہدف کیا ہے۔ اہداف ہمارے سامنے بالکل واضح ہیں، مقصد واضح ہے۔ ملت ایران اپنی پوری توانائی سے اس انقلاب کی پشت پر کھڑی ہے، اس نظام کی پشت پر کھڑی ہے۔ بے شک کچھ جگہوں پر گلے شکوے بھی ہیں، کہیں ناراضگی بھی ہے، توقعات بھی ہیں، لیکن یہ شکوے اور یہ توقعات اس بات کا باعث ہرگز نہیں بنیں کہ ملت ایران خود مختاری سے، عزت سے، سربلندی سے جو اسے انقلاب سے حاصل ہوئی ہے، روگرداں ہو جائے اور نہ کبھی روگرداں ہوگی۔ یہاں ہم سب کی ذمہ داریاں ہیں۔

میں ان حالات کی عکاسی اس طرح کرتا ہوں کہ آپ کسی کوہ پیما کو نظر میں رکھئے جو کسی موڑ سے گزر رہا ہے۔ اس موڑ کا بڑا حصہ کافی دشوار گزار ہے، لغزش کا ڈر ہے، بڑا گھماؤ دار اور خطرناک راستہ ہے جس سے وہ اوپر گیا ہے، خطرات بہت زیادہ تھے لیکن اس نے ان خطرات کا سامنا کیا اور آگے بڑھتا گیا۔ اس لئے کہ اسے چوٹی پر پہنچنا ہے۔ جب تک چوٹی پر نہیں پہنچ جاتا خطرات در پیش رہیں گے۔ چوٹی پر پہنچ جانے کے بعد خطرات بے اثر ہو جائیں گے۔ سب کو ہمت دکھانی ہوگی۔ یہ صرف مسلح فورسز کی بات نہیں ہے، یہ صرف فضائیہ کی بات نہیں ہے، یہ صرف معاشرے کے کسی ایک حصے، کچھ خاص عہدوں اور بعض نوجوانوں تک محدود نہیں ہے۔ سب! ہر شخص وہ جہاں کہیں بھی ہے ہمت دکھائے، کام کرے، محنت کرے، اپنے فرائض کو پہچانے اور فرائض کو ان خانوں میں جو اس کا خانہ ہے اسے پر کرے۔ یہ خاکہ اس طرح پر ہوگا۔ آپ اپنے فریضے پورے کریں گے تو ایک خانہ پر ہوگا، دوسرا شخص دوسرے خانے کو پر کرے گا، کوئی اور شخص کسی اور خانے کو پر کرے گا۔ جب اس نقشے کے سارے خانے پر ہو جائیں گے تو کام انجام پا جائے گا، مکمل ہو جائے گا، منزل مقصود تک رسائی ہو جائے گی۔ یہ سب کا فریضہ ہے۔

دشمن کا کام ہے خوف پھیلانا۔ دشمن کا کام ہے اضطراب پھیلانا، ڈرانا، مایوس کرنا۔ یہ دشمن کا کام ہے۔ شیطان کا کام ہے۔ یہ صرف آج کی بات نہیں ہے۔ ہمیشہ سے یہ سلسلہ رہا ہے۔ پوری تاریخ میں، پوری تاریخ اسلام میں یہ سلسلہ رہا ہے۔ إِنَّما ذٰلِکُمُ الشَّیطانُ یُخَوِّفُ أَولِیاءَهُ، یہ قرآن کی آیت ہے۔ یہ شیطان ہے جو اپنے دوستوں اور پیروی کرنے والوں کو ڈراتا ہے۔ فَلا تَخافوهُم وَ خافونِ إِن کُنتُم مُؤمِنینَ (4) اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم جو مومن ہو تو شیطان کے دوستوں سے، شیطان کے پیروکاروں سے، ان طاقتوں سے جو شیطانی طاقتیں ہیں نہ ڈرو۔ مجھ سے ڈرو۔ صراط مستقیم سے منحرف ہو جانے سے ڈرو۔ اگر کوئی صراط مستقیم سے بھٹک جائے تو یہ ڈرنے کی بات ہے۔ اس لئے کہ جب آپ صحیح، اچھے، درست اور مستقیم راستے سے منحرف ہو گئے تو بیابان میں پھنس جائیں گے۔ اس چیز سے ڈرئے لیکن دشمن سے ہرگز نہ ڈرئے۔ دشمن سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک جگہ اور ارشاد ہوتا ہے؛ فَلا تَخشَوهُم وَاخشَونِ (5) یا یہ آیت «قالَ لَهُمُ النّاسُ إِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لَکُم فَاخشَوهُم فَزادَهُم ... وَ قالوا حَسبُنَا اللَّهُ وَ نِعمَ الوَکیلُ» (6) آپ دیکھئے کہ قرآن کی یہ آیتیں ایک درس ہیں۔ زندگی کا درس دیتی ہیں۔ پیشرفت کا درس دیتی ہیں۔ جنگ احد کے بعد جس میں مسلمان شہید ہوئے، سید الشہدا حمزہ جیسی شخصیت کی شہادت ہوئی، دوسرے افراد بھی شہید ہو گئے، زخمی ہو گئے۔ بہرحال جنگ ختم ہو گئی، وہ دن ختم ہو گیا اور سب مدینہ لوٹ آئے۔ مدینہ کے قریب ہی تھے، مدینہ کے باہر احد کے مقام پر تھے، کچھ لوگ زخمی تھے، پریشان تھے کہ دشمن جو مدینہ سے دور ہو گيا ہے، اس لئے کہ آخری مرحلے میں مسلمانوں نے دشمن پر زوردار وار کیا اور اسے مدینہ سے دور کر دیا۔ دشمن کے ذہن میں ایک منصوبہ آیا کہ اب جب مسلمان مدینہ واپس چلے گئے ہیں، انھوں نے تلواریں رکھ دی ہیں تو یکبارگی حملہ کر دیا جائے اور مسلمانوں کا کام تمام کر دیا جائے۔ مسلمانوں کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کے لئے دشمنوں نے یہ خبر عمدا لیک بھی کر دی کہ بس اب دشمن حملہ کرنے ہی والے ہیں، تاکہ مسلمان ڈر جائیں۔ مسلمانوں میں کچھ لوگ زخمی حالت میں ہیں، کچھ بے حد تھکے ہوئے ہیں۔ «قالَ لَهُمُ النّاسُ إِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لَکُم» مسلمانوں کے درمیان پھیلے ہوئے دشمن کے افراد نے کہا کہ ہاں، مدینہ کے باہر دشمنوں کا لشکر موجود ہے اور تمہارے اوپر حملہ کرنا چاہتا ہے تو؛ -فَاخشَوهُم- ان سے ڈرو، تمہاری حالت خراب ہو جائے گی، بلکہ حالت خراب ہو چکی ہے۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ جو لوگ آج احد میں زخمی ہوئے ہیں بس وہی لوگ تلوار اٹھائیں اور مدینہ سے باہر آئیں، دوسروں کو ساتھ آنے کا حق نہیں ہے۔ آپ دیکھئے کہ یہ صورت حال ہے۔ آپ زخمی ہوئے، بدن پر زخم لگے ہیں تب بھی آپ تلوار اٹھائیے اور باہر نکلئے۔ جو لوگ زخمی ہوئے تھے ظاہر ہے وہ مومن افراد تھے۔ پیغمبر پر ایمان رکھتے تھے، پیغمبر کے فرماں بردار تھے۔ انھوں نے تلواریں اٹھائیں اور باہر نکلے۔ مدینہ سے باہر نصف فرسخ یا ایک فرسخ کی دوری پر جو لوگ جمع ہوئے تھے ان پر حملہ کر دیا اور ان کے چھکے چھڑا دئے۔ فَانقَلَبوا بِنِعمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَ فَضلٍ لَم یَمسَسهُم سوءٌ (7) پہلے کہا کہ؛ قالوا حَسبُنَا اللهُ وَ نِعمَ الوَکیلُ، اس کے بعد باہر نکلے «فَانقَلَبوا بِنِعمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَ فَضلٍ» اور واپس آئے تو مال غنیمت بھی ساتھ لائے، دشمن کو شکست بھی دی اور سربلند ہوکر لوٹے۔ یہ اسلام کی روش ہے۔

جو آپ کو ڈرا رہا ہے، مایوس کر رہا ہے، ناامیدی پھیلا رہا ہے وہ شیطان ہے۔ آج یہ شیطان ریڈیو کے ذریعے، ٹیلی ویژن کے ذریعے، سائیبر اسپیس کے ذریعے، سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعے مسلسل آپ کو ڈرانے میں لگا ہوا ہے۔ ہرگز نہیں، آپ بالکل نہ ڈرئے۔ فَلا تَخافوهُم (8)، ان سے نہ ڈرئے۔ اللہ کے راستے سے منحرف ہو جانے سے ڈرئے۔ اگر آپ صراط مستقیم سے بھٹک گئے تو ہمارا انجام ان ملکوں جیسا ہوگا جو امریکہ کے زیر تسلط ہیں۔ سعودی عرب جیسا انجام ہوگا، شاہی حکومت جیسا انجام ہوگا۔ ایسے ملکوں اور حکومتوں میں تمام وسائل پر دشمن کا قبضہ ہوتا ہے اور وہاں کے عوام دشمن کے سامنے حقیر و ذلیل اور بے یار و مددگار ہوتے ہیں۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سال 8 فروری کا دن ہمیں ایک اہم فریضے کا احساس کرا رہا ہے، خود اعتمادی اور اپنی طاقت کا احساس کرا رہا ہے۔ اس سال کا 8 فروری کا دن بھی ایسا ہی تھا۔ ان جوانوں کا 8 فروری کا وہ دن جب وہ فضائیہ کے اندر سے نکلے اور آکر انھوں نے امام کی بیعت کی، ظاہر ہے ان کے لئے خطرہ تھا، اس وقت خطرہ موجود تھا، ہنوز طاغوتی حکومت موجود تھی۔ ان جوانوں نے اپنے ڈر پر قابو پایا اور اللہ پر توکل کیا اور شیطان سے نہیں ڈرے۔ یہ عمل پنہاں بھی نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے، یہ پوری طرح میری نگاہ کے سامنے تھا، ان میں بہت سے جوانوں نے اپنے شناختی کارڈ بھی اپنی جیب سے نکال لئے تھے اور شناختی کارڈ ہاتھ میں اٹھا کر چل رہے تھے۔ یعنی میں فلاں ہوں، اگر پہچاننا ہے تو مجھے پہچان لو۔ ڈر پر قابو پا لیا تھا۔ اللہ پر توکل اور امید کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ آج بھی ملت ایران کے پاس اور ملت ایران کی عظیم تحریک منجملہ آپ عزیزوں کے پاس یہی چارہ کار ہے۔ یہ 11 فروری کا جلوس بھی ایسا ہی ہوگا۔ میں جشن انقلاب کے جلوسوں کے بارے میں دو  تین نکتے بعد میں عرض کروں گا۔ 11 فروری کے جلوس حقیقت میں دشمن کی کمر توڑ دینے والے ہیں۔ یہ قومی مہم کا مظہر ہیں۔ چالیس سال سے ہر دفعہ 11 فروری کا دن جب بھی آتا ہے یہ قوم سڑکوں پر نکل پڑتی ہے۔ صرف تہران میں نہیں، ملک کے تمام شہروں میں۔ دس ہزار بیس ہزار کی تعداد میں نہیں۔ بلکہ ایک عظیم تعداد میں، کچھ جگہوں پر دسیوں لاکھ لوگ ہوتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سال یہ جلوس گزشتہ برسوں سے زیادہ پرشکوہ انداز میں نکلیں گے۔

امریکی رژیم حقیقی معنی میں شر اور شیطنت کا مجسمہ ہے، تشدد کا مجسمہ  ہے، بحران ساز ہے، جنگ آفرین ہے۔ صرف آج نہیں، بلکہ ان تمام برسوں میں جس کا ایک حصہ ہم نے خود اپنی آنکھ سے دیکھا ہے بقیہ حصوں کے بارے میں الگ الگ جگہوں پر پڑھا ہے۔ امریکی رژیم کی زندگی شروع ہی سے بالکل ابتدائی دور کی بات نہیں کر رہا ہوں جب انھیں برطانیہ سے آزادی ملی تھی، اس کے کچھ عرصہ بعد ان کی زندگی اس طرح چلی کہ دنیا میں کبھی کہیں تو کبھی کہیں جارحیت کا ارتکاب کیا کہ اپنے مفادات حاصل کر سکیں۔ ظاہر ہے ایسے میں قومیں پیروں تلے روند اٹھتی ہیں۔ یہ شیطنت کا مظہر ہے اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ رژیم اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران کی شان میں گستاخی کرتی ہے! شکایت کرتے ہیں کہ ایران کے عوام کیوں نعرے لگاتے ہیں: "امریکہ مردہ باد"۔ پہلے تو میں امریکہ کے یہ جو عہدیدار حضرات ہیں ان کو بتا دوں کہ امریکہ مردہ باد کا مطلب ہے ٹرمپ مردہ باد، جان بولٹن مردہ باد اور پومپئو مردہ باد! ان کو مردہ باد کہنے کا مطلب ہے امریکی عمائدین مردہ باد۔ ہمیں امریکہ کے عوام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ امریکہ مردہ باد کا مطلب ہے آپ چند افراد مردہ باد اور وہ گروہ مردہ باد جو اس ملک کو چلا رہا ہے۔ ہماری مراد یہی لوگ ہیں۔ اس وقت یہ عہدیداران ہیں، کسی اور دور میں دوسرے عہدیداران ہوتے ہیں۔ ہماری بحث امریکہ کے عوام سے نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب تک امریکی حکومت اور امریکی رژیم یہ شر پسندی، یہ مداخلت، یہ خباثت اور یہ رذالت جاری رکھے گی تب تک ملت ایران کی زبان سے امریکہ مردہ باد کا نعرہ ہٹنے والا نہیں ہے۔

ان دنوں ملک کے اندر یورپی ممالک کی بات ہو رہی ہے، ان کی تجاویز کی بات ہو رہی ہے۔ میری سفارش یہ ہے کہ یورپیوں پر بھی اعتماد نہ کیجئے۔ میں امریکہ کے بارے میں بھی اس دو تین سال کے دوران جب ایٹمی مسئلے کے تعلق سے بات چیت چل رہی تھی ہمیشہ عہدیداران سے اپنی ملاقاتوں میں بھی اور عمومی جلسوں کی تقاریر میں بھی بار بار کہہ رہا تھا کہ مجھے ان پر اعتماد نہیں ہے۔ اب نتیجہ یہ نکلا ہے کہ خود وہ عہدیداران جو اس وقت مذاکرات کر رہے تھے، آج خود کہہ رہے ہیں کہ امریکہ قابل اعتماد نہیں ہے۔ انھیں شروع ہی سے سمجھنا چاہئے تھا کہ وہ قابل اعتماد نہیں ہے اور اسی سوچ کے ساتھ کام کرنا چاہئے تھا۔ آج میں یورپ کے بارے میں وہی بات کہہ رہا ہوں کہ یہ ناقابل اعتماد ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ضرورت کے مسائل کے بارے میں ان سے رابطہ نہ رکھئے۔ میں یہ نہیں کہتا، ظاہر ہے ہماری بھی ایک حکومت ہے، ایسی حکومت ہے جو بحمد اللہ طاقتور بھی ہے، ہمارے پاس طاقت ہے، بحث یہ نہیں ہے۔ ساری بحث اس بات کی ہے کہ ان کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔ وہ کسی بھی چیز کے پابند نہیں ہیں۔ آپ دیکھ لیجئے! پیرس کی سڑکوں پر اپنے عوام کو اندھا کر دیتے ہیں۔ مظاہرے کرنے والے عوام جو پیرس کی سڑکوں پر نکلتے ہیں، ان پر فرانسیسی حکومت کی مسلح فورسز حملہ کرتی ہیں، بہت سے لوگ اندھے ہو جا رہے ہیں۔ یعنی اپنے عوام کے ساتھ ان کا یہ رویہ ہے اور اس کے بعد وہ آکر ہم سے انسانی حقوق کی پاسداری کا مطالبہ کرتے ہیں! یہ بتائیے کہ آپ ہوتے کون ہیں؟ آپ کا انسانی حقوق سے کیا لینا دینا ہے جو کسی اور ملک سے، کسی اور ملت سے انسانی حقوق کی پاسداری کا مطالبہ کر رہے ہیں؟! آپ کو پتہ بھی ہے کہ انسانی حقوق کیا ہیں؟! نہ آج آپ کو اس کی شناخت ہے اور نہ ماضی میں کوئی شناخت تھی۔ یہ مطالبہ بڑے خودسرانہ انداز اور تکبر آمیز لہجے میں کرتے ہیں! ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا احترام نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اسی قماش کے لوگ ہیں۔ ہم مختلف معاملات میں بارہا دیکھ چکے ہیں۔ فرانس کسی انداز سے، برطانیہ کسی اور انداز سے، وہ تیسرا ملک کسی اور انداز سے، ہر ایک کا اپنا الگ انداز ہے۔ ان کا یہی رویہ ہے۔ البتہ چند استثنائات کو چھوڑ کر باقی ساری دنیا سے ہمارے روابط ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ مگر ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا سامنا کس سے ہے، ہم کس سے بات کر رہے ہیں؟ کس سے معاہدہ کر رہے ہیں؟ کس چیز کے بارے میں معاہدہ کر رہے ہیں؟ یہ بھی بہت ضروری نکتہ ہے۔

چند باتیں جلوسوں کے بارے میں۔ 11 فروری کے جلوس اسلامی انقلاب کی حیرت انگیز خصوصیات میں سے ایک ہے۔ واقعی یہ بھی خود انقلاب کی مانند حیرت انگیز ہے۔ جن ملکوں میں انقلاب آیا وہاں انقلاب کا سالانہ جشن منایا جاتا تھا، ہم نے دنیا میں انقلابوں کے سالانہ جشن کم از کم ٹیلی ویزن پر دیکھے ہیں کہ چند لوگ اوپر کھڑے ہو جاتے ہیں اور مسلح فورسز ان کے سامنے پاسنگ آؤٹ پریڈ کرتی ہیں، بس یہی ہوتا تھا۔ یہی جشن ہوتا تھا۔ یہ چیز کہ عوام کئی گھنٹوں کے لئے سڑکوں پر نکلیں، وہ بھی شدید سردی کے موسم میں، اب یہ ملت ایران کی قسمت کی بات ہے کہ اس کا انقلاب بھی بہمن (جنوری- فروری) کے مہینے میں کامیاب ہوا جب شدید سردی ہوتی ہے، برف باری ہوتی ہے۔ برف ہو، بارش ہو، سردی ہو، کچھ بھی ہو عوام کا یہ عظیم سیلاب نکل پڑے، لوگ آکر تقریر سنیں اور یہ سلسلہ چالیس سال سے یونہی جاری رہے، یعنی ایک سال دو سال کی بات نہیں ہے اس سال چالیس سال ہو رہے ہیں، یہ اپنے آپ میں ایک معجزہ ہے۔ یہ بھی عظیم اسلامی انقلاب کی حیرت انگیز خصوصیات میں سے ایک ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح بھرپور انداز میں جاری رہنا چاہئے۔ یہ دشمن کی کمر توڑ دینے والی چیز ہے۔ خود یہ جشن دشمن کو خوفزدہ کر دیتا ہے۔ یہ قومی عزم کا آئینہ ہے، اس سے ملت ایران کا عزم نمایاں ہوتا ہے، یہ میدان میں ملت ایران کی ہمہ گیر موجودگی کی علامت ہے۔ اگر قوم میدان میں ڈٹی رہے تو اس سے دشمن کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔ 11 فروری کی یہ عوامی شرکت میدان میں قوم کی موجودگی کی علامت ہے، یہ قومی اتحاد کی علامت ہے، قومی یکجہتی۔ بے شک لوگوں کے مزاج میں فرق ہوتا ہے لیکن جب انقلاب کی بات آ جائے، جب 11 فروری کی بات ہو، جب اسلامی جمہوری نطام کی بات ہو تو یہ سارے اختلاف حاشئے پر چلے جاتے ہیں، سب ایک ساتھ باہر نکلتے ہیں۔

میں یہاں ایک سفارش بھی کرنا چاہوں گا۔ کبھی کبھی 11 فروری کے جلوسوں میں دیکھنے میں آتا ہے کہ آپ کو فلاں صاحب پسند نہیں ہیں اور وہ بھی جلوس میں آپ کی طرح شامل ہوئے ہیں تو آپ ان کے خلاف مظاہرہ شروع کر دیتے ہیں، نعرے بازی کرنے لگتے ہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ایک اختلاف رائے ہے، آپ کسی وجہ سے انھیں پسند نہیں کرتے، کسی عہدیدار کو، کسی سربراہ ہو، کسی صاحب کو آپ پسند نہیں کرتے، تو کوئی بات نہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن حساب چکتا کرنے کی جگہ 11 فروری کا جلوس نہیں ہے۔ میں یہ سفارش سبھی سے کرنا چاہوں گا۔ خیال رکھئے، نعرے بازی کیجئے، آپ کو جو کرنا ہے وہ کیجئے، آپ کا جو موقف ہے اگر وہ منطقی ہے تو اسے اپنائے رہئے لیکن 11 فروری کے جشن کو اختلافات کا مظہر نہ بنائيے، تصادم وغیرہ جیسی چیزوں کا مظہر نہ بنائیے۔ قومی عزم، ملی شراکت اور قومی یکجہتی کو نمایاں کرنے والے اس عمل کو اسی عظمت کے ساتھ باقی رہنے دیجئے۔

میرے عزیزو! ملت ایران کا مستقبل اس کے زمانہ حال سے بدرجہا بہتر ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز کا مستقبل بھی ان کے زمانہ حال سے بدرجہا بہتر ہے۔ آپ عزیز نوجوانوں کا مستقبل جو اپنے پیشروؤ کی جگہ بھرنے والے ہیں، ان سے بہتر ہے اور آپ مزید بلندی پر سفر کیجئے۔ سب اللہ پر توکل کیجئے، سب محنت کیجئے، جو بھی جہاں بھی ہے اپنی ذمہ داری اور اپنے فریضے کو محسوس کرے اور اس پر عمل کرے۔ اللہ تعالی آپ سب پر نظر کرم فرمائے گا اور ان شاء اللہ آپ کے راستوں کو کھولے گا۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی فضائیہ کے کمانڈر جنرل عزیز نصیر زادہ نے ایک رپورٹ پیش  کی۔

۲) مدرسہ علوی

۳) سوره‌ طلاق، آیت نمبر ۲ و ۳ کا ایک حصہ «.. جو اللہ کا خوف رکھے گا اللہ اس کے لئے راہ نجات پیدا کرے گا اور اسے ایسی جگہ سے روزی دے گا جس کے بارے میں اسے گمان بھی نہ ہوگا۔...»

4) سوره‌ آل‌ عمران، آیت ۱۷۵

5) سوره‌ مائده، آیت نمبر ۳ کا ایک حصہ «...تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو...»

6) سوره‌ آل‌ عمران، آیت نمبر ۱۷۳؛ «وہی لوگ جن سے کچھ لوگوں نے آکر کہا کہ لوگ آپ سے جنگ کے لئے جمع ہو گئے ہیں تو ان سے ڈرئے، مگر یہ سن کا ان کا ایمان اور بڑھ گيا اور انھوں نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین مددگار ہے۔"»

7) سوره‌ آل‌ عمران، آیت نمبر ۱۷۴ کا ایک حصہ؛ «تو اللہ کی نعمت اور بخشش کے ساتھ وہ میدان جنگ سے واپس لوٹے جبکہ انھیں کسی طرح کا کوئی نقصان بھی نہیں پہنچا تھا۔...»

8) سوره‌ آل‌ عمران، آیت نمبر ۱۷۵ کا ایک حصہ؛ «... تو ان سے ڈرئے. ...»