بسم‌ اللَّه‌ الرّحمن ‌الرّحیم‌

الحمد للَّه ربّ العالمین. و الصّلاة و السّلام علی حبیبه و نجیبه و خیرته فی خلقه. حافظ سرّه و مبلّغ رسالاته. بشیر رحمته و نذیر نقمته. سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الأطیبین الأطهرین المنتجبین. الهداة المهدیّین المعصومین. سیّما بقیّة اللَّه فی‌ الأرضین. قال اللَّه الحکیم فی کتابه: بسم ‌اللَّه ‌الرّحمن‌ الرّحیم. انّا اعطیناک الکوثر. فصلّ لربّک و انحر. انّ شانئک هو الأبتر.(۱)

آپ تمام عزیز نمازی بھائيوں اور بہنوں کو، اسی طرح خود کو تقوی و پرہیزگاری اور رضا و ارادہ خداوندی پر توجہ مرکوز کرنے کی دعوت دیتا ہوں، مقدس شریعت کی جانب سے ممنوع قرار دی جانے والی چیزوں سے اجتناب اور تقوی و پرہیزگاری کے دائرے سے باہر نکلنے سے اجتناب کی دعوت دیتا ہوں۔

آج کا دن بڑا عظیم دن ہے۔ سیدہ نساء العالمین، پیغمبر اکرم کی عظیم الشان شخصیت کی مالک بیٹی اور پوری تاریخ اسلام میں عورتوں اور مردوں کے لئے بہترین نمونہ عمل ہستی کی ولادت کا دن ہے۔ فاطمہ زہرا، صدیقہ کبری، راہ خدا کی مجاہد اور مظلوم شہید خاتون کے یوم ولادت پر آپ ہی کی پاکیزہ نسل کی ایک ایسی ممتاز اور درخشاں ہستی کی پیدائش ہوئی ہے جو تاریخ اسلام میں بہت نمایاں ہے۔ تو یہ کوثر فاطمی کی ولادت کا بھی دن ہے اور کوثر روح اللہی کی پیدائش کا بھی دن ہے۔

جب مکے میں نبی اکرم کے بیٹے یکے بعد دیگر دنیا سے رخصت ہو گئے تو اسلام اور پیغمبر کے کینہ پرور دشمنوں نے جن کے تمام تر اقدار کا انحصار مال و دولت، اولاد اور دنیاوی جاہ و حشم پر ہوتا تھا، پیغمبر کو طعنہ دیا اور کہا کہ آپ تو مقطوع النسل ہیں۔ یعنی آپ کی نسل آگے بڑھنے والی نہیں ہے۔ آپ کی موت کے ساتھ ہی آپ کے وجود کے تمام آثار اور تمام نشانیاں مٹ جائیں گی۔ اللہ تعالی نے پیغمبر پر یہ سورہ نازل فرمایا تاکہ پیغمبر کے دل کو بھی تسلی ہو جائے اور انھیں اور تمام مسلمانوں کو ایک نئی حقیقت کا علم بھی ہو جائے۔ چنانچہ ارشاد ہوا؛ «انّا اعطیناک الکوثر» ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا، ایک عظیم، وسیع اور مسلسل بڑھنے والی حقیقت عطا کی۔

نبی اکرم کے لئے کوثر کی مصداق گوناگوں چیزیں ہیں۔ کوثر کا ایک بہت نمایاں مصداق حضرت فاطمہ زہرا کا مقدس وجود ہے۔ اس مبارک وجود میں اللہ تعالی نے پیغمبر کے مادی اور روحانی سلسلے کو قرار دیا۔ طعنے دینے والے دشمنوں کے تصور کے برخلاف یہ بابرکت بیٹی اور یہ وجود ذی جود اس انداز سے پیغمبر کے نام، ان کے ذکر، ان کے مکتب فکر اور تعلیمات کی بقا کا ضامن بنا کہ کسی بھی ممتاز اور با عظمت اولاد میں یہ خصوصیت نہیں دکھائی دی۔ پہلی بات تو یہ کہ ان کی نسل سے گيارہ اماموں اور درخشاں آفتابوں نے بشریت کے دلوں پر اسلامی تعلیمات کی روشنی بکھیری، اسلام کو زندہ کیا، قرآن کو بیان کیا، تعلیمات کی ترویج کی، اسلام کے دامن سے تحریفوں کا غبار ہٹایا اور چیزوں کے غلط استعمال کا سد باب کیا۔ ان گیارہ اماموں میں سے ایک حسین ابن علی علیہ السلام ہیں۔ روایت کے مطابق پیغمبر اکرم نے فرمایا؛ «انا من حسین (۲) و حسین سفینة النّجاة و مصباح الهدی» (۳) یہ عظیم ہستی بے پناہ برکتوں کا سرچشمہ ہے، ان کی شہادت اور ان کے قیام کے اثرات پوری تاریخ اسلام پر پڑے۔ یہ عظیم ہستی حضرت فاطمہ زہرا کی نشانی ہیں۔ ان درخشاں آفتابوں میں سے ایک حضرت امام باقر ہیں، انھیں میں سے ایک حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام ہیں جنہوں نے اسلامی معارف و تعلیمات کو اپنی مشقتوں اور زحمتوں سے پھیلایا۔ صرف شیعہ تعلیمات کی بات نہیں ہے۔ اہل سنت کے معروف امام بھی براہ راست یا بالواسطہ طور پر ان کے فیض علم سے مستفیض ہوئے۔ یہ مسلسل بڑھتا ہوا کوثر روز بروز زیادہ درخشاں ہوتا جا رہا ہے اور دنیا کے گوشے گوشے میں پیغمبر کی نسل کو پھیلا رہا ہے۔ آج تمام عالم اسلام میں ہزاروں لاکھوں شناختہ شدہ خاندان ہیں جو انھیں بزرگوار کی نسل کی بقا کی علامات ہیں۔ اسی طرح دنیا میں ہدایت کی ہزاروں مشعلیں آپ کے مکتب اور آپ کے مقدس وجود کی روحانی بقا کی علامتیں ہیں۔ یہ کوثر فاطمہ زہرا ہیں۔ اللہ کا سلام ہو ان پر، تمام انبیا و اولیا، فرشتوں اور اللہ کی تمام مخلوقات کا تا قیامت ان پر سلام ہو۔

آپ کے عالی مرتبت فرزند بھی اپنے آپ میں ایک کوثر ہیں۔ کوثر روح اللہی۔ ایک شخص بالکل اکیلا میدان میں اتر پڑا۔ اللہ تعالی نے فطری اور کسبی خصوصیات کی برکتوں سے جو عظیم کشش اس کے وجود میں رکھی تھی اس کی وجہ سے دل اس کی جانب کھنچتے چلے گئے۔ ہاتھوں اور پیروں میں حرکت پیدا ہوئی، دماغوں کو سوچنے کی ترغیب ملی اور یہاں یہ عظیم تحریک وجود میں آ گئی جبکہ دنیا میں بھی ایک عظیم تحریک اور اسلامی بیداری کی لہر پیدا ہوئی۔

«باش تا صبح دولتش بدمد / کاین هنوز از نتایج سحر است»

مستقبل میں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا راستہ، ان کی حکمت، ان کا مکتب فکر اور ان کا طرز فکر دنیا میں اپنا اثر دکھائے گا اور آئندہ نسلیں اسے آزمائیں گی۔

میں آج پہلے خطبے میں اس عظیم شخصیت کے گوناگوں پہلوؤں اور باطن کا ایک الگ زاوئے سے جائزہ لوں گا اور اختصار کے ساتھ کچھ باتیں آپ کی خدمت میں عرض کروں گا۔ اس بارے میں گوناگوں پہلوؤں سے کچھ باتیں بیان کی گئیں، میں بھی کچھ باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ آج میں دنیائے اسلام کی اس کم نظیر شخصیت یعنی ہمارے بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے محور پر ایک الگ نقطہ نگاہ سے بحث کرنا چاہوں گا۔

اس عظیم ہستی میں موجود تمام خصوصیات کے ساتھ ہی تین بڑی ممتاز خصوصیات ان کی شخصیت میں تھیں جو آپس میں ایک دوسرے سے متصل تھیں اور ان کی وجہ سے اس عظیم انسان کے اندر بڑی عجیب تاثیر اور کوشش پیدا ہو گئی تھی۔

پہلی خصوصیت تھی ان کی دانشمندی اور دانائی۔ وہ دانا، خردمند، عاقل اور بہت گہری فکر کے مالک انسان تھے۔ ان کے وجود میں حقیقی معنی میں دانائی کا گوہر موجود تھا؛ «هر که در او جوهر دانایی است / بر همه کاریش توانایی است» چنانچہ جہاں بھی ان کے وجود سے کوئی چیز سامنے آئی یہ دانائی اور خردمندی اس میں صاف نظر آئی۔ خود علمی میدان یعنی فلسفے، فقہ، عرفان، اصول فقہ اور اخلاق میں ہر جگہ یہ دانائی اور گہرا تدبر، خردمندی کا یہ درخشاں گوہر واضح طور پر نظر آیا۔ آپ نے نئی باتیں اور نئے نظریات پیش کئے، صرف پیشروؤں کی باتوں کا اعادہ کرنے پر آپ نے اکتفا نہیں کیا۔

دوسری خصوصیت تھی دینداری اور بصیرت آمیز ایمان۔ وہ عبادت گزار انسان تھے لیکن ایسے عبادت گزار جو رجعت پسندی اور جمود سے دور تھے۔ وہ دینی بحثوں میں روشن خیالی، روشن فکری اور جدت  پسندی کے قائل تھے لیکن ان کی جدت پسندی میں قیود و شرائط سے بے اعتنائی نہیں تھی۔ بہت سے لوگ دینی مسائل میں کوئی نئی بات پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان کی یہ نئی بات اور نئی فکر حقیقی اسلامی تعلیمات سے وفاداری کے سلسلے میں ان کے عدم التزام اور لا ابالی پن کی علامت ہوتی ہے۔ یہ ان کی اپنی بات ہوتی ہے دین کی بات نہیں! امام خمینی کی روشن خیالی اور جدت پسندی دین اور دینی اصولوں پر استوار تھی۔ چنانچہ آپ نے اسلام کے فقہی، اخلاقی اور عقائد سے متعلق مسائل کے بارے میں جو نظریات اور نئے افکار پیش کئے وہ ایسے تھے کہ ان علمی میدانوں کے ماہرین اور متبحر افراد بھی انھیں تسلیم کرتے تھے اور انھوں نے ان افکار کو مستحکم بنیادوں والے افکار و نظریات کے طور پر قبول کیا، انھیں اصولوں اور بنیادوں سے عاری نظریات کے طور پر نہیں دیکھا۔ بنابریں وہ دیندار، اللہ کے اطاعت شعار بندے تھے تاہم ساتھ ہی ساتھ روشن فکر، آگاہ، تدبر کے حامی اور عمل و عقیدے سے متعلق امور میں بہت وسیع افق رکھنے والے انسان تھے۔ ان کی دینداری عصر نبوت کی دینداری اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے زمانے کے مناظر کی یادیں تازہ کرنے والی تھی۔

تیسری خصوصیت ان کی شجاعت، دلیری اور جاں نثاری تھی۔ اگر حق کی بات آ جائے تو حق کی مخالفت کرنے والی ساری دنیا سے وہ اکیلے مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ تھے۔ آپ نے جو اپنے ایک بیان میں فرمایا تھا؛ "اگر عالمی استکبار ہمارے دین کے لئے خطرہ پیدا کرے گا تو ہم اس کی ساری دنیا کے لئے خطرہ پیدا کر دیں گے۔" تو یہ بالکل صحیح فرمایا تھا۔ وہ دنیا کے مد مقابل ڈٹ جانے والے انسان تھے۔ چنانچہ جب 1962 میں قم میں آپ نے یہ آواز اٹھائی تو اس وقت آپ کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا۔ البتہ اس کے فورا بعد مومنین، پاکیزہ دل افراد گروہ در گروہ ان کی جانب بڑھے، سب ان کے گرویدہ ہو گئے۔ لیکن شروع میں جب آپ نے میدان میں قدم رکھا تو اکیلے تھے، آپ کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ انھیں تنہائی کا احساس بھی تھا لیکن اتنی شجاعت تھی کہ اکیلے ہی میدان میں اتر پڑے۔ اگر انسان ایسے میدان میں اتر رہا ہے جہاں فریق مقابل کے طور پر عسکری قوتیں ہیں، سخت گیر سیکورٹی فورسز ہیں جن کے پاس نہ ضمیر ہے، نہ دین ہے اور نہ جنھیں کسی چیز کا کچھ خیال ہے اور انھیں عالمی سیاست اور استکباری سیاست کی حمایت بھی حاصل ہے تو ایسے میدان میں اترنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان کو اپنی جان کی پروا نہ ہو، وہ اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہو اور تمام خطرات مول لینے کے لئے آمادہ ہو۔ یعنی اس کے لئے جان اور اس کی دوسری تمام خصوصیات کی کوئی فکر نہ ہو۔ بعض افراد کہتے ہیں کہ ہمیں تو اپنی جان کی پروا نہیں ہے۔ لیکن جب عملی میدان میں آپ دیکھئے تو وہ اپنے جھوٹے وقار اور احترام کو بھی قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ایسا شخص اپنی جان کیسے قربان کر سکتا ہے؟ پیسہ اور آرام و آسائش کو قربان کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہے، ایسا شخص اپنی جان کیسے قربان کر دے گا؟! امام خمینی بالکل صحیح فرماتے تھے، وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر پوری طرح امادہ تھے اور میدان میں اترے تھے؛

بسا باشد که مردی آسمانی    به جانی بر فرازد لشکری را

نهد جان در یکی تیر و رهاند   ز ننگ تیره روزی کشوری را

امام خمینی اپنے وجود کی این تین بہم متصل خصوصیات کے ساتھ میدان میں اترے۔ ویسے امام خمینی کے اوصاف کی تو طولانی فہرست ہے تاہم میں نے ان تین خصوصیات کا انتخاب اس لئے کیا کہ یہ آپس میں متصل اور ہم آہنگ ہیں اور ان کی تاثیر بہت نمایاں ہے۔

وہ اس میدان کو طے کرتے ہوئے فتح کے قریب یعنی سنہ 1979 کے قریب پہنچے۔ اب امام خمینی کے سامنے ایک بڑی عجیب حقیقت موجود تھی۔ وہ حقیقت تھی ملت کی اپنے پورے وجود سے کی جانے والی حمایت کے نتیجے میں تحریک کی کامیابی۔ یہ فتح و کامرانی صرف ایک رجعت پسند اور بد عنوان حکومت کے خلاف فتح تھی نہیں، بلکہ وہ حکومت چونکہ اس زمانے کی تمام سامراجی قوتوں کی حمایت یافتہ تھی لہذا یہ فتح ان تمام استکباری قوتوں کے خلاف فتح شمار ہوتی تھی۔ وہ اس مملکت کو اسلام کے نقطہ نگاہ سے، اسلامی طرز پر اور اسلامی نسخے کی بنیاد پر چلانا چاہتے تھے۔ ان کے سامنے کیا چیز ہے؟ ایسا ملک ہے جس پر تقریبا دو سو سال سے ہر طرف سے دباؤ ڈالا گیا ہے کہ ایک عظیم الشان ملت اور اس کی ممتاز خصوصیات کو کچل دیا جائے، اسے کمزور بنا دیا جائے اور اس کی سرکوبی کی جائے۔ اگر اس دو سو سالہ دور کی تاریخ پر ہم نظر ڈالیں تو آپ کو امام خمینی کے اس کارنامے کی عظمت کا اور بہتر انداز میں ادراک ہوگا۔ میں تاکید کے ساتھ کہوں گا کہ ہمارے نوجوان تاریخ کے اس دور کا مطالعہ ضرور کریں۔ تشہیراتی ادارے بھی اس مدت میں اس ملک پر جو مصیبتیں پڑیں ان کی حقیقت سے عوام الناس کو آگاہ کریں۔ میرے خیال میں اس سلسلے میں بہت کم کام ہوا ہے۔

انیسویں صدی کے اوائل میں جب برطانیہ کا افسر سر جان میلکم ہندوستان کی سرحد سے ایران میں داخل ہوا، یعنی فتح علی شاہ قاجار کی حکومت کے زمانے میں درباریوں اور بدعنوان سیاست دانوں کے لئے گراں قیمت اور پرکشش تحفوں کے ساتھ ایران میں وارد ہوا اور برطانوی استعمار نے بلکہ یوں کہا جائے کہ تباہ کن برطانوی اثر و نفوذ نے، کیونکہ استعمار کے جو رائج معنی ہیں ان معنی میں ایران میں استعمار نہیں رہا لیکن جو کچھ تھا وہ استعمار سے بدتر تھا، ایرانی حکومتوں کو بڑی سختی سے اپنے چنگل میں جکڑ لیا اور ان حکومتوں کے ذریعے جو چاہا وہ ایران میں انجام دیا۔ اس وقت سے لیکر انقلاب کے کامیاب ہونے تک تقریبا ایک سو ستر، ایک سو اسی سال تک یہ سلسلہ چلا۔ اس پوری مدت میں قوت و توانائی کے تمام پہلوؤں، عسکری، سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، اخلاقی تمام پہلوؤں پر انھوں نے کام کیا کہ اس عظیم، شجاع، قدیمی تاریخ اور ثقافت کی مالک قوم کو اس طرح کمزور، کوچک، ناامید اور مایوس بنا دیں کہ اس کی طرف سے بڑی طاقتوں کو کوئی خطرہ نہ رہے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے سامنے ایک ایسی صورت حال تھی۔ البتہ اس ایک سو ستر، ایک سو اسی سالہ مدت میں بیشتر حصہ برطانوی حکومت نے، 1953 سے بعد تک امریکی حکومت نے اور بیچ بیچ میں روسی حکومت نے اپنا اثر و رسوخ قائم کیا۔ ایران میں روس اور برطانیہ کے درمیان رقابت ہوتی تھی۔ قاجاریہ دور میں الگ انداز سے اور پہلوی حکومت کے دور میں کئی گںا زیادہ سخت اور خطرناک انداز سے۔

وہ اس قوم کے ساتھ جو کچھ کر سکتے تھے انھوں نے کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے سامنے ایسا ملک تھا جو سیاسی اعتبار سے اغیار پر منحصر اور ان کا تابع تھا۔ اس مدت میں امریکی حکومت جو بھی چاہ لیتی تھی ایران میں وہی ہوتا تھا۔ اقتصادی میدان میں، تیل کے سلسلے میں، تقرریوں کے معاملے میں، حکومتوں کے معاملے میں، کون سی حکومت جائے اور کون سی حکومت آئے، بین الاقوامی تعلقات کے معاملے میں، عوام پر مسلط کئے جانے والے عادات و اطوار کے معاملے میں، یونیورسٹیوں کے معاملے میں جو کام بھی کرنا چاہتے تھے وہ کر سکتے تھے۔ ان کا جو دل چاہتا تھا وہ ایران میں کرتے تھے اور اس کے لئے ان کے ہاتھ کھلے ہوئے تھے۔ ہم پوری طرح منحصر اور تابع تھے۔ اقتصادی اعتبار سے ہم محض صارف اور غربت کا شکار تھے۔ ہر چیز ہمیں باہر سے خریدنی ہوتی تھی۔ میں نے ایک موقع پر کہا بھی، البتہ بعض لوگوں کو یقین نہیں آتا تھا، مگر آپ باور کیجئے کہ ہمارے ملک میں بیلچے کا دستہ بھی امپورٹ کیا جاتا تھا۔ سلائی کی سوئی بھی امپورٹ کی جاتی تھی۔ انواع و اقسام کی اشیائے خورد و نوش امپورٹ کی جاتی تھیں۔ انواع و اقسام کی صنعتی مصنوعات امپورٹ کی جاتی تھیں۔ صارف کلچر پھیلا ہوا تھا۔ یعنی یہ قوم، یہ صلاحیتیں، یہ دماغ، یہ نوجوان اس کا موقع ہی نہیں پاتے تھے کہ اپنی ضرورت کی بعض چیزوں کی خود پیداوار کریں اور یہ کہہ سکیں کہ ہم دوسرے ملکوں کے محتاج نہیں ہیں۔ اگر ملک کے اندر کوئی صنعت لاتے بھی تھے، جیسے آٹو موبائل انڈسٹری، اسٹیل انڈسٹری وغیرہ تو وہ بھی بالکل ناقص شکل میں لاتے تھے۔ وہ صنعت بھی شروع سے لیکر آخر تک بیرونی ملک پر منحصر ہوتی تھی۔ پیشرفتہ اور ماڈرن وسائل جیسے جنگی طیارے اگر فروخت کرتے تھے تو ملک کے اندر اس کی مرمت کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ اس کی تعمیر ملک کے باہر ہی انجام پاتی تھی۔ اقتصادی اعتبار سے پوری طرح بیرون ملک پر منحصر اور سو فیصدی صارف تھے۔ علمی اعتبار سے تقریبا صفر تھے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا میں اس ملت کی کوئی شراکت نہیں تھی۔ یونیورسٹیوں میں جن کی تعداد بھی بہت کم تھی، پہلوی حکومت کے آخری برسوں میں ملک میں طلبہ کی موجودہ تعداد کی دس فیصدی تعداد ہوتی تھی۔ اگر کلاس میں کوئی سبجیکٹ پڑھایا جاتا تھا، خواہ بشریات کا سبجیکٹ ہو یا کوئی ٹیکنیکل اور انڈسٹریئل سبجیکٹ ہو، یا سائنس کا سبجیکٹ ہو ساری باتیں اور نظریات دوسرے کے ہوتے تھے۔ علمی اعتبار سے کوئی نئی چیز نہیں ہوتی تھی۔ قومی ثروت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہم غارت شدہ اور لٹے ہوئے تھے۔ تیل وہ لے جاتے تھے، معدنیات وہ لے جاتے تھے، سب کچھ لے جاتے تھے اور جس قیمت پر چاہتے تھے لے جاتے تھے۔ سماجی اعتبار سے غربت و افلاس کے اعتبار سے ملک شدید مفلوک الحالی میں تھا۔ ہزاروں بلکہ دسیوں ہزار گاؤں ایسے تھے جہاں لوگوں نے بجلی اور پینے کا صاف پانی دیکھا تک نہیں تھا اور نہ ہی اس کی انھیں امید تھی۔ صرف تہران اور بعض دیگر بڑے شہروں پر توجہ دی جاتی تھی۔ اس کے باوجود یہ عالم تھا کہ تہران اس وقت دنیا کے سب سے برے اور گندے دار الحکومتوں میں سے ایک تھا۔ انھیں صرف اپنی فکر تھی۔ جس جگہ بھی ان کا آنا جانا ہوتا تھا وہاں وہ ہوائی اڈا بھی بنا دیتے تھے، آسائش کے وسائل بھی مہیا کر لیتے تھے، لیکن جہاں ان کی آمد و رفت نہیں ہوتی تھی اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ طبقاتی فاصلہ بہت زیادہ تھا۔

اخلاقی اعتبار سے دیکھا جائے تو بے راہروی بہت عام تھی۔ انقلاب سے پہلے کے دور میں، یعنی 1960 کے عشرے کے اواخر اور 1970 کے عشرے  کے اوائل میں نوجوانوں کے لئے میں جو تقریریں کرتا تھا ان میں شواہد اور قرائن کے طور پر میں کہتا تھا کہ بے راہروی، بے حجابی اور بدعنونی کے اعتبار سے ہمارے ملک میں جو حالت ہے وہ یورپی ملکوں میں بھی نہیں ہے! واقعی ایسا ہی تھا۔ مجھے اس کی اطلاع تھی۔ البتہ یورپی ممالک میں ممکن ہے کہ اخلاقی کرپشن کا کوئی مرکز ہو لیکن عوام کی جو عمومی زندگی تھی، خواتین کے لباس کی حالت اور ان کا جو طور طریقہ تھا وہ اس سے بہت بہتر تھا جو انسان ہمارے یہاں بعض شہروں میں دیکھتا تھا۔ اخلاقی اعتبار سے لوگ انواع و اقسام کی برائیوں میں مبتلا تھے۔ صرف شہوانی برائیاں نہیں تھیں۔ لوگوں کے آپسی روابط، آپسی تعلقات، ایک دوسرے پر اعتماد، سب کچھ تباہ ہو چکا تھا۔ ملک کو اس طرح چلایا تھا اور یہ حالت کر دی تھی۔ یہ سب عمدا کیا گيا تھا۔ وہ عوام الناس کو مایوس اور بے ارادہ بنا دینا چاہتے تھے۔ کسی بھی قوم کو آگے لے جانے والی چیزوں میں سب سے اہم اس کا جذبہ امید، جذبہ عمل اور لگن ہوتی ہے۔ جو قوم مایوس ہو، جو قوم اپنے مستقبل سے ناامید ہو، جو قوم خود کو حقیر سمجھے وہ پیشرفت کی منزلیں طے نہیں کر سکتی۔ جس چیز کے بارے میں بھی کہہ دیا جاتا تھا کہ یہ ایران کی بنی ہے، اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اگر ایران کی بنی ہے تو بے وقعت ہے! خود افراد، تعلیم یافتہ لوگ، دوسرے افراد آپس میں یہ بات کرتے تھے کہ ایرانی تو مٹی کا لوٹا بھی نہیں بنا سکتے! یعنی پیشرفتہ علمی نسل بھی ملک کے علمی مستقبل کے تعلق سے یہ رائے رکھتی تھی۔ یہ وہی اخلاقی مشکل ہے۔

دنیا کے علم و تمدن کے کارواں سے ہم بہت پیچھے چھوٹ گئے تھے۔ حکومت اور اس ملک کے امور چلانے والے حکام کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہماری حکومت حد درجہ رجعت پسند حکومت تھی۔ موروثی سلطنتی نظام تھا۔ ایک شخص مرتا تھا تو عوام اس کے بیٹے کو خواہ اس کی عمر کچھ بھی ہو، خواہ اس کی صلاحیت اور خصوصیات کچھ بھی ہوں، اسے مطلق العنان حکمراں کے طور پر قبول کرنے پر مجبور تھے۔ کوئی معیار نہیں تھا، نہ علمی معیار تھا، نہ تقوا کا معیار تھا اور نہ عقلی معیار تھا، کچھ بھی معیار نہیں تھا۔ ایران میں ایسی حکومت کو آئین میں جگہ دی گئی تھی۔ اس آئین میں جو رضاخان کے بوٹوں تلے اور رضاخان کے کارندوں کی نگرانی میں اسی تہران میں منظور ہوا تھا۔ ایران دنیا میں رسوا تھا۔ عالمی حلقوں میں ایران کی شناخت صاحب رائے اور صاحب فکر و صاحب شخصیت ملک کی نہیں تھی۔ یہ صدقہ لینے والا اور دوسروں کے تجربات کا میدان بن کر رکھ گیا تھا۔ بعض اقتصادی اور غیر اقتصادی نظریات کا اگر تجربہ کرنا ہوتا تھا تو یہاں اس کا تجربہ کیا جاتا تھا تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟! روحانی اعتبار سے مفلس، مادی اعتبار سے مفلوک الحال، سیاسی اعتبار سے فقیر، شناخت کے اعتبار سے دیوالیہ! امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے سامنے ایسا معاشرہ اور ایسا ملک تھا۔

البتہ اس سلسلے میں ایک بہت اہم نکتہ یہ تھا کہ ملت ایران ایک عظیم اور با استعداد قوم ہے۔ جو حالت تھی وہ مسلط کردہ تھی، ایک عارضی حالت تھی۔ جب امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنی آواز بلند کی تو قوم میں حرکت پیدا ہوئی۔ البتہ جس دن سے امام نے اپنا مشن شروع کیا اس وقت سے لیکر اس بحر عظیم میں تلاطم پیدا ہونے تک پندرہ سال کا وقت لگا، رنج و محن سے بھرے ہوئے پندرہ سال۔ مگر یہ ملت گہری جڑوں والی، صاحب استعداد، صاحب ثقافت، با غیرت اور دیندار قوم تھی جو خود کو اس مسلط کردہ غنودگی اور غفلت سے نجات دلا کر اٹھ کھڑی ہوئی اور جدوجہد کے دوران، خاص طور پر آخر کے ایک دو برسوں میں اپنی شخصیت کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوئی۔ یہ مثبت پہلو تھا۔ لیکن جو حقائق و حالات ان برسوں میں اس ملک پر مسلط کر دئے گئے تھے اور جن کا اثر عوام کی زندگی پر پڑا تھا وہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے سامنے تھے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اس معاشرے کو پسندیدہ اور مطلوبہ شکل میں ڈھالنا چاہتے تھے۔ انھیں کیا کرنا تھا؟ آپ دیکھئے کہ یہ کتنا بڑا کام ہے۔ یہ مذاق نہیں ہے۔ آپ کسی جگہ پر گئے ہیں جہاں تعمیراتی مسالہ ہے، وسائل ہیں، ماحول بھی ہے، عمارت کھنڈر کی صورت میں ہے، گری ہوئی ہے۔ آپ اس مسالے سے اور اس سازگار ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک پرشکوہ، عظیم اور پائيدار عمارت تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کام ہر انجینیئر کے بس کا نہیں ہے۔ ایسے موقع پر وہ عظیم تشخص اور شناخت اپنا کمال دکھاتی ہے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اس ملت کو، اس ملک کو، اس منظر کو اور اس مسالے کو دیکھا۔ وہ اسلام کی شناخت رکھتے تھے، اسلامی مقاصد سے واقف تھے، اسلامی احکام کا علم رکھتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اسلامی مسالے کے ذریعے اور ان عوام کے ہاتھوں ایک عظیم، خود مختار، سربلند، خوش بختی کی ضامن، آگے بڑھنے والی اور خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے والی حکومت کی عمارت تعمیر کریں۔ ایسے عوام کے اندر سب سے زیادہ کس چیز پر کام کرنے کی ضرورت تھی، ترجیح کیا تھی؟

امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے ترجیحات کی شناخت کی اور ان کا انتخاب کرکے ان پر کام کیا۔ میری نظر میں دو چیزیں سب سے اہم ترجیحات میں تھیں۔ ہم روز اول سے ہی مختلف امور کے بارے میں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے فرمودات، افکار، فیصلوں اور طرز عمل کے شاہد رہے، ہم ترجیح کو بخوبی سمجھ سکتے تھے۔ آج اگر آپ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے فرمودات کا بغور جائزہ لیں، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے طرز عمل پر توجہ کریں، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے بارے میں آپ جو کچھ جانتے ہیں اگر اسے سامنے رکھیں تو یہ دونوں چیزیں بہت نمایاں طور پر آپ کو نظر آئیں گی۔

پہلی چیز تھی عوام کے اندر خود اعتمادی اور خود مختاری کے جذبے کا احیا۔ برسہا برس سے عوام کو یہ تلقین کی جاتی رہی تھی کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے۔  مختلف طبقات کے افراد علما، دوسرے افراد، یونیورسٹی کے لوگ، عالم، جاہل کوئی بھی کچھ کہتا تو جواب یہی ملتا تھا کہ 'ممکن ہی نہیں ہے، کوئی فائدہ نہیں ہے۔' اس فکر کو بدلنا ضروری تھا۔ اس طرح کی سماجی فکر شخصی اور انفرادی فکر کی طرح نہیں ہوتی۔ ویسے شخصی اور انفرادی سوچ بھی آسانی سے تبدیل نہیں ہو پاتی۔ جبکہ سماجی فکر اور عادات و اطوار کو بدلنا تو بے حد دشوار ہوتا ہے۔ امام خمینی کے سامنے یہ چیلنج تھا کہ اس کی جگہ پر خود اعتمادی، خود باوری اور خود مختاری کا جذبہ پیدا کرتے۔ اس کے لئے یہ ضروری تھا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اس ملت پر کوئی بھی بیرونی دباؤ اور مداخلت ہرگز برداشت نہ کرتے اور آپ نے واقعی برداشت نہیں کی۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ امام خمینی اس زمانے میں امریکہ کے مقابلے میں اور سوویت یونین کے مقابلے میں اس سختی کے ساتھ ڈٹ گئے تو اس کی یہی وجہ تھی۔ پچیس سال سے امریکی سر اٹھائے اس ملک میں چلے آتے تھے۔ ایک دسترخوان لگا ہوا تھا جس پر وہ اور مٹھی بھر مہرے جو دل میں آتا تھا کرتے تھے۔ انقلاب آنے کے بعد بھی شروع کے کچھ مہینوں تک ان کی امیدیں منقطع نہیں ہوئی تھیں۔ میرے ذہن میں کچھ واقعات ہیں لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے انھیں بیان نہیں کر سکتا۔ امام خمینی نے ان سب کی بساط لپیٹ دی۔ اگر امام سے ذرہ برابر بھی چوک ہوتی تو مختلف سمتوں سے اور مختلف دریچوں سے وہی عناصر جنہیں بے دخل کیا گيا تھا دوبارہ دراندازی کرتے۔ امام خمینی نے اغیار کے تسلط اور نفوذ کے ہر راستے کو پوری سختی کے ساتھ جس طرح بھی ممکن ہوا بند کر دیا۔ یہ پہلا نکتہ تھا۔

دوسری چیز، جس پر امام کی بہت زیادہ توجہ تھی، عوام کے اندر دینی جذبے اور ایمان کا احیاء تھا۔ وہی ایمان جو ان کے اندر پہلے سے موجود تھا۔ چنانچہ وہ دین کے امور میں، اللہ کی اطاعت اور دین سے متعلق دیگر تمام مسائل میں بہت زیادہ محنت اور توجہ سے کام کرتے تھے۔ اس معاملے میں ہرگز کوئی پسپائی اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے کہ دین علاج اور راہ حل ہے۔ اگر کسی قوم میں دینی جذبہ ہے تو اس کا اثر صرف یہ نہیں ہوتا کہ شخصی اعتبار سے لوگ اچھے، پاکیزہ اور پارسا ہوتے ہیں، دینی جذبے کا اثر سماجی زندگی میں بھی منعکس ہوتا ہے۔ البتہ اگر دین صحیح ہے تب۔ یہی وجہ تھی کہ جس دین کی ترویج امام کرتے تھے، جس اسلام کو وہ خالص اسلام قرار دیتے تھےاس کی مخالفت دنیا کے تمام دشمنوں اور ملک کے اندر موجود ان کے مہروں نے کی۔ یہ مخالفت کی کہ یہ تو سیاسی اور حکومتی دین ہے۔ کبھی دیگ سے زیادہ چمچہ گرم والی حالت نظر آتی تھی اور اب بھی بعض اوقات یہ چیز دیکھنے میں آتی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جناب! آپ جس سیاسی دین اور حکومتی دین کی بات کرتے ہیں وہ لوگوں کی نظر میں دین کی وقعت کم کر دے گا۔ لوگوں کا عقیدہ و ایمان اس سے کمزور ہوگا! جبکہ یہ دعوی حقیقت کے بالکل برخلاف ہے۔ اگر سماج میں دین ہوتا ہے تو قربانی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ اگر کسی سماج میں دین ہو تو آگاہی، بیداری اور احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے۔ آج اگر آپ دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے اور ملک میں دینی مسائل کے بارے میں، جہاں تک عوام کو اطلاع مل پاتی ہے، لوگوں میں ذمہ داری کا احساس اور غیرت کا جذبہ متحرک ہوتا ہے تو یہ دینی روح کا نتیجہ ہے۔ دشمن اسی روح کو کمزور کر دینا چاہتا ہے۔ امام نے اسی روح اور جذبے کو سماج کے تمام طبقات کے اندر، عہدیداران اور عوام کے اندر تقویت پہنچائی۔ یعنی حکومت میں، پارلیمنٹ میں، عدلیہ میں، قوانین میں، نگراں کونسل میں، انتخابات میں، ہر چیز میں امام خمینی نے دینی ایمان، دینی اطاعت شعاری اور دینی التزام پر تکیہ کیا۔ امام نے ان دونوں خصوصیات کو پہلی ترجیح قرار دیا۔ اس قوم کے سامنے امام نے دستور العمل کے طور پر جو کچھ پیش کیا اس کا تعلق انھیں دونوں چیزوں سے ہے۔

امام نے اسلامی جمہوریہ کا نظریہ پیش کیا۔ اسلامی جمہوریہ یعنی ایسا نیا اور جدید نظام حکومت جو دنیا میں رائج کسی بھی حکومتی نظام سے مشابہت نہیں رکھتا، تاہم کسی بھی نظام میں جتنی بھی مثبت خصوصیات کا تصور کیا جا سکتا ہے وہ اسلامی جمہوری نظام میں موجود ہیں۔ اسلام بھی ہے، عوامی ووٹوں کا کردار بھی ہے، عوام کا جذبہ ایمانی بھی ہے، عزت کا احساس بھی ہے، اطاعت شعاری بھی ہے، اسلامی احکام و ضوابط بھی ہیں جو انسان کی زندگی کا احیاء کرنے والے ہیں۔ بے شک اگر ہم اسلام کو اسی معنی میں جس معنی میں امام نے اس کی شناخت کی، یعنی اسی صحیح، خالص اور اصولوں پر استوار مفہوم میں رو بہ عمل لائیں تو ہر مشکل کا حل اس سے مل جائے گا۔ چنانچہ ہم نے جہاں بھی میدان میں قدم رکھا، اس کا دفاع کیا اور اس پر اصرار کیا وہاں ہمیں حل ملا۔ یہ اسلام حکومتی نظام میں بھی کارگر ثابت ہوا۔ اب وقت نہیں ہے کہ میں بیان کروں کہ ایران میں اس وقت جو نظام حکومت موجود ہے وہ کسی بھی ملت کی آزادی و پیشرفت کے لئے دنیا کے مختلف حصوں میں موجود الگ الگ حکومتی نظاموں سے زیادہ سازگار ہے۔ یہ مغربی جمہوریت سے بھی بہتر ہے اور دوسرے گوناگوں حکومتی نظاموں سے بھی بہتر ہے۔ گھٹن والے استبدادی نظاموں کی تو خیر کوئی بحث ہی نہیں ہے۔ جہاں بھی اسلامی نظام کی تجویز کے مطابق عمل ہوا خواہ وہ کوئی بھی تجویز رہی ہو، ہمیں نتیجہ حاصل ہوا ہے۔ ثقافتی امور کے معاملے میں اور دشمن کا مقابلہ کرنے میں ہمیں کامیابی ملی۔ تا بہ امروز ہمیشہ ہمارے ملک اور ہماری ملت کو مغربی ثقافت سے سب کچھ سیکھنا پڑتا تھا۔ لیکن امام خمینی کے اقدام کی برکت سے ثقافتی بہاؤ دو طرفہ ہو گیا۔ ہمارے مرکز یعنی اسلامی معاشرے سے بھی  ایک بہاؤ اس معاشرے کے باہر کی سمت جاری ہے۔ صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ استکبار کے عمائدین بارہا وحشت زدہ ہو گئے اور آج تک وہ یہی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ البتہ ان دنوں انہوں نے بیان دینا کم کر دیا ہے۔ پہلے تو شور مچاتے تھے کہ آپ اپنا انقلاب برآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ ہم نے اپنے انقلاب کی کوئی پیکنگ تو نہیں کی تھی کہ اسے کہیں ایکسپورٹ کرتے! اس کا مطلب یہی دو طرفہ ثقافتی بہاؤ تھا جو اسلامی ملکوں کی جانب، یہاں تک کہ غیر اسلامی ملکوں کی جانب جاری ہو گیا اور انسانوں میں بیداری پیدا کرنے لگا۔

میں اقتصادی مسائل کے بارے میں بھی چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ اگر ہم اقتصادی میدان میں بھی اور دفتری انتظامی میدان میں بھی اسلام کی سفارشات پر مو بمو عمل کرتے تو یقینا ہماری حالت اس سے بہتر ہوتی۔ ہم نے اقتصادی میدان میں جو کام کیا ہے وہ ایک مخلوط نسخہ ہے۔ کچھ چیزیں اس میں اسلام کی ہیں لیکن ان میں دوسری چیزیں بھی ملی ہوئی ہیں۔ جن چیزوں کی آمیزش کی گئی ہے ان سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔ آج مغربی اقتصادی اصول و نظریات جو کچھ عرصہ پہلے تک مسلّمات میں شمار ہوتے تھے اب خود مغرب میں ان کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ واقعی قوموں کی کیا غلطی ہے؟ جو قومیں اپنے عمائدین کی وجہ سے ان اقتصادی روشوں کو اختیار کرنے پر مجبور ہیں ان کا کیا قصور ہے؟ ہم نے امام کی زندگی کے اواخر میں غیر سودی اسلامی بینکنگ کا سلسلہ شروع تو کیا لیکن ناقص! موجودہ حکومت کا ایک عزم یہی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ اسے اس کام میں کامیابی ملے گی کہ سود سے پاک اسلامی بینکنگ کو کامل شکل میں نافذ کرے۔ البتہ اس سے پہلے بہت سے کام انجام دئے گئے ہیں لیکن اب اگلا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ امام کے خطوط، امام کی وصیت اور امام کی سفارشات، اس کی بنیاد یہی چیزیں ہیں جو میں نے عرض کیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم رجعت پسندوں کی طرف کسی چیز سے چپک کر رہ گئے ہیں اور اس بارے میں کسی تعقل اور غور و فکر کے قائل نہیں ہیں۔ جی نہیں، وہ مرد حکیم، اسلام شناس انسان، وہ دنیا کی مکمل شناخت رکھنے والا انسان، اس ملت کی ضرورتوں کے مد نظر ایک راستے کا انتخاب کرتا ہے، اس کی کچھ علامتیں معین کرتا ہے اور کچھ سفارشات کرتا ہے۔ جہاں بھی ان سفارشات پر عمل کیا گيا بہترین نتیجہ حاصل ہوا۔ آج بھی ہمیں انھیں سفارشات کی ضرورت ہے۔ آج بھی ہمارے ملک کو اسی راستے، انھیں علامتوں اور انھیں خطوط کی ضرورت ہے۔ بحمد اللہ ملت اور عہدیداران کا پختہ عزم یہی ہے کہ اس راستے پر گامزن رہا جائے۔ بفضل پروردگار ہم اس راستے پر جو راہ خدا ہے، راہ پیغمبر ہے، کوثر کے جامہ عمل پہننے کا راستہ ہے، نجات، سربلندی اور عزت کا راستہ ہے، ملکی مشکلات کے رفع ہونے کا راستہ ہے، دشمنوں کے مطالبے اور عناد کے باوجود اور کوتاہ بینی پر مبنی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پوری قوت کے ساتھ گمزن رہیں گے۔

بسم‌ اللَّه ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌

و العصر. انّ الانسان لفی خسر. الّا الذین امنوا و عملوا الصّالحات. و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر. (۴)

 

بسم‌ اللَّه‌ الرّحمن‌ الرّحیم‌

الحمد للَّه ربّ العالمین. و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الأطیبین الأطهرین المنتجبین. الهداة المهدیّین المعصومین. سیّما بقیّة اللَّه فی‌ الارضین و علی ائمّة المسلمین علىّ امیرالمؤمنین و صدّیقة الطّاهرة و الحسن و الحسین، سیّدی شباب اهل الجنّة و علی ‌بن‌ الحسین و محمّد بن‌ علی و جعفر بن‌ محمّد و موسی بن ‌جعفر و علی ‌بن ‌موسی و محمّد بن‌ علی و علی ‌بن ‌محمّد و الحسن ‌بن ‌علی  و الخلف القائم المهدی. حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک. و صلّ علی ائمّة المسلمین و حماة المستضعفین و هداة المؤمنین. اوصیکم بتقوی اللَّه و استغفر اللَّه لی و لکم.

دوسرے خطبے میں چند اہم باتیں ہیں جن کے بارے میں آپ عزیز نمازیوں سے مجھے گفتگو کرنا ہے۔ لیکن چونکہ وقت کم ہے اس لئے میں حالیہ دنوں وطن عزیز میں جو دلخراش واقعہ پیش آیا یعنی حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ کی شان میں گستاخی کا جو واقعہ ہوا سب سے پہلے اسی کے بارے میں چند اہم اور لازمی نکات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ اس کے بعد اگر وقت رہا تو باقی باتیں ہوں گی۔

ایک چیز تو یہ ہے کہ یہ پورا کا پورا قضیہ حقیقت میں بہت تلخ تھا۔ میں عرض کرنا چاہوں گا کہ ایک مجلے میں امام زمانہ ارواحنا فداہ کی شان میں جو گستاخی ہوئی اس سے حضرت امام زمانہ کی بارگاہ میں یہ حقیر شرمندہ ہوا۔ میں نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کیا کہ پروردگار! اگر اس قضیئے کی وجہ سے حضرت ولی عصر کا قلب مقدس ہم سے آزردہ اور رنجیدہ ہوا ہے تو ہم گڑگڑا کر دعا کرتے ہیں کہ حضرت کے قلب مبارک کو دوبارہ ہم سے خوشنود فرما۔ امام زمانہ کی مملکت میں اور ایسے عوام کے درمیان جو حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے عشاق ہیں، ایسا واقعہ بہت قبیح اور سنگین ہے۔ البتہ عوام نے، علمائے کرام نے اور عہدیداران نے سب نے اپنی اپنی ذمہ داری اور پوزیشن کے اعتبار سے اس قضیئے کے سلسلے میں مناسب رد عمل ظاہر کیا، بیزاری اور برائت کا اعلان کیا۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جو لوگ عوام کی نظر میں مقدسات کی حرمت شکنی کرنا چاہتے ہیں اور انھیں لوگوں کے ذہنوں سے دور کرنا چاہتے ہیں وہ بظاہر بہت چھوٹی چیزوں سے یہ کام شروع کرتے ہیں تاکہ عوامی رد عمل کا اندازہ لگا سکیں۔ اگر ملک کے عہدیداران اور علما سخت موقف اختیار نہ کرتے اور اگر عوام اظہار بیزاری و نفرت نہ کرتے تو یہ امکان تھا کہ اس پہلے قدم کے بعد دوسرا قدم بھی اٹھایا جاتا اور وہ دوسرا قدم مزید گستاخانہ ہوتا اور اس کے بعد یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہتا۔ اس موقع پر عوام کی دینی غیرت نے حقیقت میں بر محل اپنا کام کیا۔ ایسے معاملات میں بہت سے لوگوں کے صبر کی طاقت جواب دے دیتی ہے اور ان کا دینی جذبہ نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے۔ چنانچہ آپ نے پورے ملک میں اس چیز کا ملاحظہ کیا۔ اس قضیئے میں جس نے بھی رد عمل ظاہر کیا، وہ عوام ہوں، علما ہوں، افاضل ہوں، ملک کے عہدیداران ہوں، صدر محترم ہوں، پارلیمنٹ اسپیکر ہوں، عدلیہ کے سربراہ ہوں، میں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، یہ بہت اچھا اور لازمی اقدام تھا۔ جو لوگ اس ملک کو پاکیزہ و منطقی عقائد سے اور عقیدے کی گہرائی کو ظاہر کرنے والی چیزوں سے دور کرنا چاہتے ہیں، انھیں یاد رکھنا چاہئے کہ وہ کچھ نہیں کر پائیں گے۔ یہ عوام بیدار ہیں۔ یہ عوام اسلام کے پابند ہیں۔ یہ عوام عشق اہل بیت رکھتے ہیں۔ اسلام کی راہ میں اس قدر قربانیاں دینے والے یہ عوام ہرگز یہ  اجازت نہیں دیں گے کہ کچھ لوگ ثقافتی ذرائع سے اور ثقافتی میدان میں اس طرح آشکارا طور پر اسلام کے خلاف کام کریں۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ اعلامیوں میں اور بعض بیانوں میں کہا گیا کہ طلبا کے ایک میگزین میں یہ چیز لکھی گئی تھی۔ یہ لوگ طلبا کو اس میں کیوں گھسیٹنا چاہتے ہیں؟! اگر ایسے عمل میں چند طالب علم شامل تھے تو کچھ لوگ پوری طلبہ برادری کا نام اس میں کیوں جوڑنا چاہتے ہیں؟! اس قضیئے میں جن طبقات نے بہت کھل کر اور دو ٹوک انداز میں اپنی بیزاری کا اعلان کیا ان میں ایک ہمارے طلبا کا طبقہ تھا۔ میں نے مانا کہ کسی جگہ دو طالب علموں نے کوئی غلط کام کر دیا تو اس کی ذمہ داری سارے طلبا کے سر تو نہیں ڈالی جا سکتی۔ لوگوں کو چاہئے کہ بہت محتاط رہیں، دشمن ان چیزوں کے سلسلے میں بہت حساس ہے۔ بار بار طلبا کا نام لیا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کے ذہن طلبا کے سلسلے میں بدگمانی میں مبتلا ہو جائیں۔ یعنی وہی حالت پیدا ہو جائے جو انقلاب سے پہلے تھی۔ انقلاب سے پہلے لوگ علما اور دینی مدارس کے بزرگان کے پاس جاتے تھے تو یونیورسٹی کا ذکر بے دینی کے مرکز کے طور پر کرتے تھے اور طلبا کے سامنے دینی مدارس کا ذکر رجعت پسندی اور بے خبری کے مراکز کے طور پر کرتے تھے۔ دونوں طبقات کو ایک دوسرے سے دور کرتے تھے! اب ایسا نہیں ہے، یونیورسٹی طالب علم بھی دینی طلبہ کی مانند، تاجر برادری کی مانند، محنت کش طبقے کی مانند، شہری لوگوں اور دیہی علاقوں کے لوگوں کی مانند ہیں۔ یہ سب ملت ایران کا حصہ ہیں۔ ہم ملت ایران کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اس کا اطلاق سب پر ہوتا ہے۔ ہمارے طلبا کا طبقہ بھی بقیہ عوام کی طرح ہی ممتاز، نمایاں اور دیندار طبقہ ہے۔ آپ دیکھئے کہ یونیورسٹیوں میں دینداری کی علامتیں کس قدر زیادہ ہیں؟!

ایک نکتہ اور بھی ہے کہ بعض لوگوں نے اس قضیئے کو دوسری جگہوں پر بھی گھسیٹ لیا۔ ملک کے بعض عہدیداران اور بعض بزرگان کا نام بھی اس سے جوڑ دیا۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ ہم ملک کے عہدیداران اور عمائدین کے بارے میں بدگمانی کیوں پیدا کریں؟ جبکہ اس چیز کی کوئی بنیاد بھی نہیں ہے۔ آج بحمد اللہ ملک کے عہدیداران دیندار ہیں، یہ ایسے افراد ہیں جنہوں نے اپنے وجود کو عوام کی خدمت کے لئے اور اسلام کی خدمت کے لئے وقف کر رکھا ہے، اس پر خاص توجہ دے رہے ہیں۔ صدر محترم ایک عالم دین، دیندار انسان، عاشق اہل بیت اور راہ خدا میں گامزن انسان ہیں۔ پارلیمنٹ کے اسپیکر، عدلیہ کے سربراہ، اراکین پارلیمنٹ اور دیگر عہدیداران اس ملک کو آگے لے جانے کے لئے اور اسلام کی سربلندی کے لئے اور امام خمینی کے نام کو زندہ کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ ان معاملات کو اس طرح کی باتوں سے ہرگز نہیں جوڑنا چاہئے جو پور طرح منطق اور شائستگی سے دور اور ناقابل قبول ہیں۔ ایک واقعہ ہوا ہے، عہدیداران کو چاہئے کہ اسی واقعہ پر توجہ دیں اور جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی کریں۔ بے شک عوام کے لئے بھی ضروری تھا کہ وہ اپنا موقف واضح کرتے اور ان کا موقف بہت اچھا رہا، علما اور عہدیداران کا موقف بھی بالکل بجا تھا۔

ایک اور نکتہ جس کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں یہ ہے کہ سیاسی دھڑے اس قضیئے کو سیاسی امور کے بیچ میں نہ لائیں کہ ایک دوسرے کے مد مقابل اٹھ کھڑے ہونے کا باعث بنے۔ آج ملک کی مصلحت، ملت کی مصلحت اور انقلاب کی مصلحت کا تقاضا ہے موقف کی یکسانیت اور دلوں کا اتحاد۔ ہم نے ایک دو مہینہ پہلے نماز جمعہ میں ملت ایران کی خدمت میں اتحاد و یکجہتی کے تعلق سے جو کچھ عرض کیا اس کے بعد بعض سیاسی شخصیات نے خط لکھا اور پیغام دیا کہ ہم تیار ہیں، میں نے بھی حضرات سے تقاضا کیا۔ رفتہ رفتہ لوگ آئے اور بعض عہدیداروں اور شخصیات سے جن کا تعلق سیاسی جماعتوں اور دھڑوں سے ہے اور جن کے اندر محترم شخصیات، بڑے علماء اور طویل سیاسی تجربہ رکھنے والے افراد موجود ہیں، بات چیت ہوئی۔ سب نے قبول کیا اور عملی طور پر بھی کچھ اقدامات کئے اور معاشرے کی سیاسی فضا دشمن کی پسندیدہ کشیدگی سے دور ہوئی اور دلوں میں ایک دوسرے سے قربت پیدا ہوئی۔ میں اس پر بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اب ایک بار پھر اس قضیئے میں کچھ لوگ کچھ کہیں اور کچھ دوسرے اس کا جواب دیں، کوئی الگ بات کہیں، شور شرابا ہو، ہنگامہ برپا ہو تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ میں ایک بار پھر دہراتا ہوں اور ہمارے معاشرے کے سیاسی دھڑوں اور جماعتوں میں شامل افراد سے گزارش کرتا ہوں کہ عوام پر، عوام کے خلوص و پاکیزگی پر توجہ مرکوز کریں، دیکھیں کہ یہ کیسی قوم ہے۔ وہ ایسا کام نہ کریں کہ عوام کے دل اس تصور سے کانپ اٹھیں اور غمگین ہو جائیں کہ سیاسی جماعتیں جو مرکز میں موجود ہیں وہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ وہ آپس میں مہربان رہیں۔

میں نے اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ یہ ممکن ہے کہ بعض سیاسی و غیر سیاسی مسائل کے بارے میں لوگوں کے درمیان اختلاف رائے ہو۔ دینی مسائل کے بارے میں اختلاف نظر ہونا جھگڑے کا باعث نہیں بنتا۔ آپ اسلام کے فقہا کو دیکھئے! کسی مسئلے میں کسی فقیہ کی ایک رائے ہے، دوسرے فقیہ کی رائے اس کے سو فیصدی خلاف ہے، لیکن وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ ایک دوسرے کی اقتدا کرتے تھے۔ ایک دوسرے کو عادل مانتے تھے۔ یہی طرز عمل اپنایا جانا چاہئے۔ اگر نفسانی خواہشات شامل نہ ہوں، اگر خود پسندی کا جذبہ شامل نہ ہو، اگر اقربا پرستی کا جذبہ شامل نہ ہو، بلکہ ملک کی مصلحت، نظام کی مصلحت اور مستقبل کی دراز مدتی مصلحت پر نظر ہو تو یہ تنازعات ایسے نہیں ہیں کہ دو گروہوں کو، دو لوگوں کو، دو انقلابی انسانوں کو ایک دوسری کا دشمن بنا دیں! میں اس وقت بھی یہی عرض کروں گا کہ آپسی لوگوں کے یہ گروہ اپنے فاصلوں کو کم کریں۔ آپسی گروہ کا مطلب وہی ہے جو میں نے اس سے قبل نماز جمعہ کے خطبے میں بیان کیا۔ یعنی وہ لوگ جو اسلام کو مانتے ہیں، جو اسلامی حکومت کو مانتے ہیں اور اس عظیم انسان (امام خمینی) کو مانتے ہیں جس کی علامتیں بحمد اللہ ہمارے درمیان وفور کے ساتھ موجود ہیں، اس کی راہ اور اس کی سمت کی حقانیت کو قبول کرتے ہیں، تو اس معنی میں یہ سارے گروہ اگر عوام کی نمائندگی کرتے ہیں تو در حقیقت وہ عوام کی واضح اکثریت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اگر وہ عوامی نمائندے نہیں ہیں تب بھی انھیں یاد رکھنا چاہئے کہ عوام کی اکثریت اسی راہ پر گامزن ہے۔ ممکن ہے کہ گوشہ و کنار میں کوئی گروہ ایسا ہو جسے انقلاب سے نقصان ہوا ہے، جو دشمن سے واسبتہ ہے، یا اس میں ایسے ضعیف الارادہ افراد ہیں جن کا استحالہ ہو گیا ہے اور وہ ان چیزوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ مگر جو اپنے گروہ ہیں انھیں چاہئے کہ وہ آپس میں فاصلہ کم کریں، دوریوں کو کم کریں۔ اگر ان میں آپس میں فاصلہ کم ہو جائےگا تو اغیار سے ان کا فیصلہ اپنے آپ آشکارا ہو جائے گا۔ یعنی وہی چیز جس کا ذکر امام خمینی نے اپنے وصیت نامے میں اور اپنے بیانوں میں فرمایا ہے کہ اغیار کو اس قوم کی تقدیر اور مستقبل پر اثرانداز ہونے کا موقع نہ دیجئے۔ اغیار کے اثرانداز ہونے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ غیر آئے اور آکر کوئی عہدہ اپنے  ہاتھ میں لے لے۔ کبھی  کبھی اغیار دوسرے راستوں سے اثرانداز ہوتے ہیں۔ جو اپنے ہیں انھیں چاہئے کہ غیروں کو اس کا موقع نہ دیں۔ انھیں چاہئے کہ آپس میں نزدیک ہوں تاکہ غیروں سے ان کی دوری آشکارا ہو جائے۔ جو لوگ خود اسلام کو اور اسلامی حکومت کو قبول نہیں کرتے، البتہ میں جو کہہ رہا ہوں کہ خود اسلام کو قبول نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اسلام کو اپنا دین نہیں مانتے، ہمارے ملک میں بھی بہت سی اقلیتیں ہیں جنھوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا ہے، لیکن ملت ایران کے چنے ہوئے راستے سے اتفاق رکھتی ہیں اور ملت کے ساتھ ساتھ ہیں۔ جو لوگ خود انقلاب کے معیاروں اور امام خمینی کے راستے کی خصوصیات کو قبول نہیں کرتے، وہ سرے سے اس کے منکر ہیں، انھیں یہ انتظار ہے کہ بیرون ملک سے کوئی آئے اور ملک کے امور اپنے ہاتھ میں لے لے۔ وہ اغیار کی آمد کے منتظر ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ انقلاب سے پہلے والی حالت واپس آ جائے، یہ لوگ اغیار ہیں۔ آپ سب اپنے ہیں اور آپ کو آپس میں نزدیک ہونا چاہئے، ایک دوسرے کے لئے مہربان ہونا چاہئے۔ آپ ایسا کریں گے تو اغیار آپ سے دور ہوتے جائیں گے۔

مستقبل میں ہمارے سامنے دوسرے بہت سے امور ہیں۔ ابھی چند مہینے بعد انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس کے بعد بھی دوسرے گوناگوں انتخابات ہیں۔ مستقبل کی چیزوں کے سلسلے میں ابھی سے بہت زیادہ مصروف ہو جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ملک کے سامنے بہت سے کام ہیں۔ کوشش کیجئے کہ ایران پر جو پسماندگی مسلط کر دی گئی، علمی میدان میں، اقتصادی میدان میں اور دوسرے گوناگوں میدانوں میں، اسے دور کیا جائے۔ عہدیداران کو اور کام میں دلچسپی رکھنے والوں کو موقع دیا جانا چاہئے۔

ایک اور نکتے کا ذکر کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ سننے میں آیا ہے کہ یہی جو چیز میگزین میں چھپ گئی تھی اس کے بارے میں گوشہ و کنار میں کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ ہم اقدام کریں گے، ہم خود سزا دیں گے۔ ہرگز نہیں! اسلامی نظام میں یہ ذمہ داری عہدیداران کی ہے۔ ہاں اگر نظام کفر و طاغوت کا نظام ہے، ملکی امور ایسے افراد کے ہاتھ میں ہیں جو پہلوی دور حکومت کی طرح دین کے مخالف ہیں، جنھیں دین کا کوئی ادراک نہیں ہے، عدلیہ کی قیادت ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہے جو فاسق و فاجر ہیں۔ پارلیمنٹ ماضی کی مجلس شوری کی طرح فاسق و فاجر اور ضعیف الارادہ افراد پر مشتمل ہے تو ایسی صورت میں ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے دینی فریضے کو محسوس کرکے کوئی کاررائی کرنا چاہے، وہ ایک الگ بحث ہے۔ اسلامی نظام میں یہ ذمہ داری حکومت کی ہے۔ سب سے پہلے تو عدلیہ یہ پتہ لگائے کے حقیقت ماجرا کیا ہے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی شخص غفلت میں کوئی چیز لکھ دے، نادانستہ طور پر توہین کر دے، اسے علم ہی نہیں کہ وہ گستاخی کر رہا ہے، کبھی اس سے بھول چوک ہو گئی ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عمدا یہ کام کیا گیا ہے۔ دونوں صورتوں میں سزا میں فرق ہے۔ عدلیہ میں جو ذمہ داران ہیں یقینی طور پر امام زمانہ علیہ السلام سے، اسلام سے اور ان مسائل سے ان کا قلبی لگاؤ اس طرح کے بیان دینے والوں سے کم نہیں ہے۔ ان عہدیداران کے اندر بھی غیرت دینی موجود ہے، وہ بھی غیرت دینی رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کی بارگاہ میں بھی اور عوام کے سامنے بھی جوابدہ ہیں۔ لہذا یہ دیکھنا ضروری ہے کہ حقیقت ماجرا کیا ہے۔ جو صورت بھی ہوگی اس کے لئے ایک حکم ہے۔ سب سے اہم جو چیز تھی وہ انجام پائی، وہ چیز تھی ملت ایران کا رد عمل۔ ملت ایران نے ثابت کر دیا کہ اس طرح کی چیزوں پر وہ اس انداز سے بپھر جاتی ہے، یہ بالکل صحیح ہے۔ بزرگ علما اور شخصیات نے بھی دکھا دیا کہ ایسی حرکتوں پر ان کا جوش و جذبہ، عقل و ایمان سب متلاطم ہو اٹھتا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ کسی شخص کو سزا دینی ہے، کیا سزا دینی ہے، کس طرح سزا دینی ہے، سزا کون دے؟ یہ چیزیں ایسی ہیں جن کا فیصلہ عوام الناس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہ عہدیداران کی ذمہ داری ہے۔ البتہ ہم بھی نظر رکھے ہوئے ہیں کہ کسی بھی طرف سے کوتاہی نہ ہونے پائے اور کوئی بھی فریق زیادہ روی نہ کرے۔ آپ یہ بھی یاد رکھئے کہ اسلام میں کوتاہی بھی غلط ہے اور زیادہ روی بھی غلط ہے۔ ایک صحیح اور درست راستہ ہے جو اسلام کا راستہ ہے اس پر بغیر کسی کمی و بیشی کے عمل ہونا چاہئے۔ اللہ کی مرضی یہی ہے۔ جسے حکم خداوندی کے مطابق دس کوڑے لگائے جانے ہیں، اسے نہ تو 9 کوڑے مارے جا سکتے ہیں اور نہ ہی 11 کوڑے مارے جا سکتے ہیں۔ کوئی بھی زیادہ روی نہ کرے، سب اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔ اگر کوئی جذبات میں آ جاتا ہے تو ٹھیک ہے یہ اچھی بات ہے اللہ کی بارگاہ میں یقینا اسے اجر ملے گا، لیکن اگر اسی جوش میں اصولوں اور معیاروں کے برخلاف کوئی اقدام اور عمل ہو گیا تو یقینا اللہ کی بارگاہ میں اسے کوئی اجر نہیں ملنے والا ہے۔ میں نے بھی اس کی ممانعت کر دی ہے تو اب قانونی ممنوعیت کے ساتھ ہی شرعی ممنوعیت بھی ہو گئی ہے۔ لہذا آپ محتاط رہئے۔ تقلید کے اعتبار سے اگر کوئی شخص کسی اور کا مقلد ہے تب بھی حقیر نے اگر ممانعت کر دی ہے تو اس کے لئے بھی یہ چیز حرام ہوگی۔ یہ تمام علما کا فتوی ہے۔ کسی کو بھی بغیر سوچے سمجھے کوئی اقدام کرنے کا حق نہیں ہے۔

اس قضیئے میں آخری نکتہ یہ ہے کہ ملک کے ثقافتی شعبے کے عہدیداران سے میری توقع اس سے زیادہ ہے۔ مجھے توقع یہ ہے کہ ملک کی ثقافتی فضا ایسی نہ ہو کہ کوئی شخص امام زمانہ علیہ السلام کے تعلق سے ایسی گستاخی اور غفلت کا مرتکب ہو۔ آپ دیکھئے اور غور کیجئے کہ ہر جمعے کو ملک بھر میں لاکھوں بلکہ دسیوں لاکھ لوگ دعائے ندبہ پڑھتے ہیں، نوجوان اشک بہاتے ہیں۔ آپ دیکھئے کہ نیمہ شعبان کے موقع پر عوام کیا کرتے ہیں؟! ضرور کہیں کوئی نقص ہے کہ ملک کی ثقافتی فضا میں کوئی شخص یہ جرئت یا غفلت برتتا ہے اور امام زمانہ کی شان میں اور اس کلیدی عقیدے کے تعلق سے اس طرح گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ جو لوگ ثقافتی امور کے عہدیداران ہیں ان سے مجھے توقع ہے اور میں نے مطالبہ بھی کیا ہے کہ پوری سنجیدگی کے ساتھ نظر ثانی کریں اور غور کریں کہ نقص کہاں ہے؟

دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو اس سرزمین کے تمام مسلمان، مومن اور عزیز عوام کو جنہوں نے حقیقت میں اس بیس سال کی مدت میں اسلام کو زندہ کر دیا، اپنے لطف و کرم سے نوازے اور ہم سب کو تقوی اختیار کرنے کی توفیق دے۔ آپ تمام نمازی بھائیوں اور بہنوں کو گفتار و رفتار میں تقوی پر عمل کرنے کی سفارش کرتا ہوں۔

 

بسم‌ اللَّه‌ الرّحمن ‌الرّحیم‌

انّا اعطیناک الکوثر. فصلّ لربّک و انحر. انّ شانئک هو الابتر. (۵)

 

والسّلام علیکم و رحمة اللَّه و برکاته.

۱) سورہ کوثر، آيت نمبر ایک سے تین تک

 

۲)  کامل الزیارات، صفحہ ۵۳

 

۳)  بحار الانوار،  جلد ‌۳۶، صفحہ ۲۰۵، اس طرح سے ارشاد ہوا ہے: «ان الحسین‌ بن علی فی السماء اکبر منه فی الارض، فانه مکتوب عن یمین عرش‌ اللَّه: مصباح هدی و سفینة النجاة و امام غیر و هن و ...»

۴) سورہ عصر آيت نمبر ایک سے چار تک

 

۵) سورہ کوثر آیت نمبر ایک سے تین تک