رہبر انقلاب اسلامی نے 27 رجب مطابق 3 اپریل 2019 کو اپنے اس خطاب میں فرمایا کہ پیغمبر اکرم کی بعثت جامع ترین، کامل ترین اور پائیدار ترین بعثت ہے۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ آج اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کا تسلسل ہے اور توحید و طاغوت کی معرکہ آرائی میں حق کی فتح کا وعدہ اللہ نے کیا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ؛

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

بعثت کی اس عید سعید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں تمام حاضرین محترم، نشست میں تشریف فرما غیر ملکی مہمانوں، تمام ملت ایران اور عظیم ملت اسلامیہ کو۔ البتہ ان دنوں ہماری عزیز قوم سیلاب کے حوادث کی وجہ سے مشکلات میں مبتلا ہے، بعض جگہوں پر ہمارے عوام مصیبت میں مبتلا ہیں، جانی اور مالی نقصانات ہوئے ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ توفیق خداوندی سے، نصرت پروردگار سے عہدیداران وسیع عوامی پشت پناہی کی مدد سے جو بحمد اللہ آج تک جاری ہے، اس سنگین حادثے کا کچھ بوجھ عوام سے کم کر سکیں گے  اور اس دن کی برکت سے اللہ تعالی ان شاء اللہ لطف فرمائے گا اور ہمارے عوام کے دلوں کو شاد کرے گا۔

بحمد اللہ اس معاملے میں عوام کی محنت اور کوشش بہت اچھی رہی۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ قدرتی آفات و حوادث کے تمام موقع پر جو کہ ظاہر ہے حادثات ہیں ان کی ظاہری شکل آفت و مصیبت کی ہے،  ان کے باطن میں ممکن ہے کہ نعمت و عطائے الہی مضمر ہو، ملت ایران نے ہمیشہ دل و جان سے تعاون کیا ہے۔ ہم بارہا اس کا تجربہ کر چکے ہیں۔ ہمارے عوام کے اندر یہ یکجہتی کا جذبہ اور ہم وطنوں کی خدمت کے لئے فی الفور آمادہ اور منظم ہو جانے کا جذبہ ایک منفرد خصوصیت ہے۔ اس سے حکومتی عہدیداران کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، انھیں بھی اس سے مدد ملتی ہے۔ اس دفعہ بھی یہی ہوا۔ ملک کے تمام علاقوں کے عوام بھی مدد کے لئے میدان میں اتر پڑے اور عہدیداران بھی متحد ہوکر پوری توجہ کے ساتھ بھرپور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مسئلے میں پہلے مرحلے کا کام انجام دینے میں کامیاب ہوئے۔ البتہ ابھی بہت سے کام باقی ہیں جنہیں انجام دیا جانا چاہئے۔ ہم نے محترم عہدیداران سے بھی اس نکتے پر تاکید کی ہے اور وہ خود بھی اس جانب متوجہ تھے، انھیں اس کا خیال ہے کہ اصلی کام تو بعد میں شروع  ہوگا۔ جو تباہی ہوئی ہے، جو نقصانات ہوئے ہیں، کھیتوں کا نقصان، گھروں کا نقصان، اس طرح کے جو نقصانات ہوئے ہیں ان کی تلافی کی جانی چاہئے اور ان شاء اللہ کی جائے گی۔ ہمارے عزیز عوام عہدیداران سے تعاون جاری رکھیں، یہ بہت ضروری ہے۔ میدان میں عوام کا موجود رہنا، ان کا تعاون اور ان کی مدد واقعی راہ گشا ثابت ہوتی ہے۔

بعثت کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں بشر کی ہدایت کے لئے رسولوں کو ارسال کرنے اور بھیجنے کا ذکر بار بار ہے اور اسے بعثت کا نام دیا گیا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے برانگیختہ کرنا۔ رسولوں کو بھیجنے کے لئے قرآن میں بعثت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ بعث کا لفظ آیا ہے۔ «بَعث»؛ لَقَد مَنَّ اللهُ عَلَی المُؤمِنینَ اِذ بَعَثَ فیهِم رَسولًا؛(۲) هُوَالَّذی بَعَثَ فِی الاُمِّیّینَ رَسولًا؛(۳) وَ لَقَد بَعَثنا فی کُلِّ اُمَّةٍ رَسولًا؛(۴) بہت اہم نکتہ ہے: «بَعث» کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے برانگیختہ کرنا۔ یہ صرف ایک معمولی سبق آموز عمل نہیں ہے۔ معاشرے میں پیغمبر کی آمد ہوتی ہے تو صرف اس لئے نہیں کہ وہ آکر لوگوں کو کچھ چیزیں سکھا دیں۔ بے شک «یُعَلِّمُهُمُ الکِتابَ وَ الحِکمَة»(۵) بھی ہے، «یُزَکّیهِم»(۶) بھی ہے۔ لیکن یہ سارا عمل ایک بعثت کے دائرے میں انجام پاتا ہے۔ ایک عظیم تحریک کے تحت انجام پاتا ہے۔ بعثت برانگیختہ کرنا۔ اس عمل کا رخ  کیا ہوتا ہے؟ اس تحریک کی سمت اور جہت کیا ہوتی ہے؟ اس کی سمت اور اس کا رخ خود قرآن میں بار بار بیان کیا گیا ہے۔ وَ لَقَد بَعَثنا فی کُلِّ اُمَّةٍ رَسولًا اَنِ اعبُدُوا اللهَ وَ اجتَنِبُوا الطّاغوت؛(۷) پہلی چیز ہے اللہ کی بندگی یعنی زندگی اور حیات کو اللہ تعالی کے اوامر و احکامات کی تعمیل کے دائرے میں قرار دیا جائے اور دوسری چیز ہے طاغوت سے اجتناب۔ طاغوت کیا ہے؟ تمام ظالمین، تمام خبیثانہ صفت بادشاہ، آج کے زمانے میں وہ صدور ہیں جو امریکہ اور بعض دیگر ممالک میں ہیں۔ یہ سب طاغوت ہیں۔ طاغوتوں سے اجتناب کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنا دامن ان سے بچائیے کہ آپ کا دامن آلودہ نہ ہو جائے، اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی بندگی و توحید کے مد مقابل ایک محاذ موجود ہے جو طاغوت کا محاذ ہے۔ طاغوت کی نفی اللہ پر ایمان کا نتیجہ ہے۔ یہ انبیاء کے مبعوث کئے جانے کی غرض و غایت ہے۔

انبیا کی بعثت ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لئے ہے۔ جیسا کہ ذکر کیا گيا، اس کا مقصد ایک تمدن کی تشکیل ہے۔ تمدن میں ساری چیزیں ہوتی ہیں۔ تمدن کے اندر سب کچھ ہے۔ علم بھی ہے، اخلاق بھی ہے، طرز زندگی بھی ہے اور جنگ بھی ہے۔ جنگ بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ دیکھئے کہ قرآن کریم میں کتنی آیتیں ہیں جو جنگ سے مربوط ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسلام اس لئے آیا کہ جنگ ختم ہو جائے۔ نہیں، جنگ کا رخ اہم ہوتا ہے۔ جنگ کس سے ہو رہی ہے؟ جنگ کس لئے ہو رہی ہے؟ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ دنیا کی طاغوتی طاقتیں نفسانی خواہشات کے لئے جنگ کرتی ہیں، اپنی جاہ طلبی کے لئے جنگ کرتی ہیں، فساد برپا کرنے کے لئے جنگ کرتی ہیں۔ صیہونی برسوں سے جنگ کر رہے ہیں لیکن وہ خبیثانہ مقصد کے تحت جنگ کر رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں مومنین بھی جنگ کر رہے ہیں۔ فلسطینی مجاہدین جنگ کر رہے ہیں، حزب اللہ کے مجاہدین جنگ کر رہے ہیں، ہماری عزیز قوم نے مقدس دفاع میں، آٹھ سالہ جنگ میں پیکار کیا۔ لیکن یہ جنگ مذموم نہیں ہے، قابل تعریف ہے۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اَلَّذینَ ءامَنوا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ الله؛(۸) یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ مومن بھی قتال کرتا ہے لیکن الہی اہداف کے لئے۔ وَالَّذینَ کَفَروا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ الطّاغوتِ فَقاتِلوا اَولِیاءَ الشَّیطان (۹)۔ آپ دیکھئے کہ قرآن کی عبارتوں اور اصطلاحات میں موجود نکات پر غور کرنے سے ہمارے لئے نئے دریچے وا ہوتے ہیں۔

کسی رسول کو بھیجنے کو بعثت سے کیوں تعبیر کیا جاتا ہے؟ آپ فرض کیجئے کہ کبھی کسی معاشرے میں کوئی فلسفی بھی پیدا ہوتا ہے جیسے افلاطون یا سقراط تھے۔ یہ بھی ایسے افراد تھے جنہوں نے بشریت کو کچھ چیزیں سکھائیں لیکن ان کی آمد «بَعث» نہیں ہے۔ انبیاء کا مسئلہ ایسا نہیں ہے۔ ان کی بعثت ہوتی ہے۔ رسول اسلام کی بعثت تمام بعثتوں میں سب سے برتر، سب سے جامع، سب سے کامل اور سب سے پائیدار ہے۔ یعنی یہ بعثت آج بھی موجود ہے۔ آج بھی پیغمبر اکرم حالت بعثت میں ہیں۔ یعنی آپ جب قرآن پڑھتے ہیں، اس سے کوئی درس لیتے ہیں، آپ کے اندر جذبہ پیدا ہوتا ہے اور آپ کسی مہم کا آغاز کرتے ہیں تو یہ فی الواقع بعثت پیغمبر کا تسلسل ہے۔ ملت ایران ہمارے بزرگوار امام جیسی عظیم ہستی کی قیادت میں متحرک ہوئی، وہ سختیوں کو عبور کر رہی ہے، آگے بڑھ رہی ہے، ایران جیسے اہم ترین خطے میں کئی ہزار سالہ خبیث طاغوتی نظام کی بوسیدہ عمارت کو مسمار کر دیتی ہے اور اس کی جگہ اسلامی نظام کی تعمیر کرتی ہے تو یہ در حقیقت بعثت پیغمبر ختمی مرتبت کا تسلسل ہے۔ انقلاب، بعثت پیغمبر کی ایک کڑی تھا، اسلامی جمہوریہ بعثت پیغمبر کی ایک کڑی ہے۔ یہ ہمارا موقف ہے۔ جو اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کا دشمن ہے وہ صدر اسلام کے دشمنوں کی مانند اسلامی بعثت اور توحیدی تحریک کا دشمن ہے۔ ہمارا یہ نظریہ ہے۔

بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ "جناب! دشمن تراشی نہ کیجئے۔" جی نہیں، ہم کسی کو دشمن نہیں بنا رہے ہیں۔ ہم تو بس پیغمبر کی بات، خدا کی بات اور توحید کی بات اپنی زبان پر لاتے ہیں۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ زبان پر یہ بات آتے ہی کچھ لوگ دشمن بن جاتے ہیں۔ توحیدی مہم کی وجہ سے لوگ دشمن بن جاتے ہیں۔ اس دشمنی کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ اپنی مہم سے دست بردار ہو جائیں اور اسی حالت میں لوٹ جائیں جسے وہ پسند کرتے ہیں۔ یعنی طاغوت کی بندگی، طاغوت کی پیروی وغیرہ۔ امریکہ ہم سے یہ چاہتا ہے۔ امریکہ کے غلام یعنی آل سعود جیسے لوگ، امریکہ کے یہ جو علاقائی فرماں بردار ہیں، وہ بھی یہی چاہتے ہیں۔ جو کچھ امریکی کہتے ہیں وہی سب یہ دہراتے رہتے ہیں۔ در حقیقت یہ لوگ «یُقاتِلونَ فی سَبیلِ الطّاغوت»(۱۰) وہی ہیں جو طاغوت کے لئے جنگ کرتے ہیں، طاغوت کی خاطر کام کرتے ہیں۔

یہ جو ایک مقابلہ آرائی ہے، یہ حق و باطل کی مقابلہ آرائی ہے، توحید و طاغوت کی مقابلہ آرائی ہے، لا محالہ یہ مقابلہ آرائی جاری رہتی ہے، اس میں اللہ تعالی نے جس فریق کی مقدر میں فتح لکھی ہے وہ حق کا محاذ ہے، یعنی آپ ملت ایران۔ اگر آپ اسی انداز سے آگے بڑھتے رہے جس انداز سے اب تک آپ نے عمل کیا ہے تو یقینا آپ کو دشمنوں پر فتح ملے گی۔ یعنی آپ امریکہ پر فتحیاب ہوں گے۔ وَ نُریدُ اَن نَمُنَّ عَلَی الَّذینَ استُضعِفوا فِی الاَرضِ وَ نَجعَلَهُم اَئِمَّةً وَ نَجعَلَهُمُ الوارِثین.(۱۱) هُوَ الَّذیِ اَرسَلَ رَسولَهُ بِالهُدی وَ دینِ الحَقِّ لِیُـظهِرَهُ عَلَی الدّینِ کُلِّه؛(۱۲) اللہ نے یہ مقدر فرمایا ہے۔ البتہ ہم اور آپ اس نتیجے کو بدل سکتے ہیں! وہ کس طرح؟ اس طرح کہ کوتاہی شروع کر دیں، تعاون نہ کریں، جو کام کر رہے ہیں اس میں صداقت کو ملحوظ نہ رکھیں، سنجیدگی سے محنت نہ کریں، راہ خدا میں سعی و کوشش اور جدوجہد نہ کریں۔

جی ہاں، اگر ہم نے یہ سب نہ کیا تو یہ محاذ جسے حق کا محاذ کہا جاتا ہے کامیاب نہیں ہو پائے گا۔ لیکن ملت ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایسی نہیں ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے یہ حقیقت اور بھی عیاں ہوتی جا رہی ہے۔ آج ہمارے جو نوجوان ہیں وہ ہم لوگوں کے مقابلے میں جو اپنی جوانی کے دور میں اس پیکار اور اس جدوجہد کا حصہ رہ چکے ہیں، زیادہ قوی جذبہ رکھتے ہیں، ان کی معرفت بھی زیادہ ہے اور ان کی آمادگی بھی زیادہ ہے۔ یہ جو میں نوجوانوں سے خطاب کرتا ہوں، اکثر ان سے اپنی باتیں کہتا ہوں، اس کی یہی وجہ ہے۔ آج ہمارے نوجوان پوری طرح آمادہ ہیں۔ ہمارے نوجوان مختلف محاذوں پر کام کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔ البتہ ملت ایران کے اس پیکار اور اس جدوجہد کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ بندوق اٹھا لی جائے۔ بالکل نہیں، ہم کسی سے بھی جنگ نہیں کرتے۔ سوائے اس صورت کے جب ہم پر حملہ ہو جائے۔ عام طور پر ہم حملے کی شروعات نہیں کرتے۔ تاہم دیکر محاذوں پر جیسے علم کے محاذ پر ہم آگے بڑھتے ہیں، اخلاقیات کے محاذ پر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ طرز زندگی کے میدان میں ہم آگے بڑھتے ہیں، پیشرفت حاصل کرتے ہیں۔ آج ہمارے نوجوانوں کا جوش و جذبہ بہت اچھا ہے۔ ہم ایک ایک قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔

اقتصادی مسائل کے سلسلے میں ضروری ہے کہ سب کام کریں، بالخصوص نوجوان۔ ثقافتی مسائل کے میدان میں بھی سب سرگرم عمل رہیں، بالخصوص نوجوان۔ سیاسی و آگاہانہ تحریکوں کے میدان میں سب کو اور خصوصا نوجوانوں کو سرگرم عمل رہنا چاہئے۔ نوجوان آمادہ ہیں، وہ سرگرمیاں انجام دے سکتے ہیں اور وہ توفیق خداوندی سے انجام بھی دیں گے۔ اس ملک کا مستقبل مومن اور جوش و جذبے سے سرشار نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے جو اپنے پختہ ارادے سے، عالم شباب کے جوش و خروش سے، اپنی روشن خیالی سے، اپنی اختراعی صلاحیتوں سے اس ملک کو ان شاء اللہ بام ثریا کی بلندی پر لے جائیں گے۔ ہمیں یہ توقع ہے۔ بعثت سے، عید بعثت سے ہمارے ذہن میں اس طرح کا خیال پیدا ہونا چاہئے تاکہ عید بعثت صرف ایک واقعے کے ذکر اور کسی خاص واقعے کی یاد تازہ کرنے تک محدود نہ رہے۔ صرف پیغمبر اکرم کو خراج عقیدت پیش کرنے تک محدود نہ رہے، صرف زبانی تذکرے تک محدود نہ رہے۔ واقعی ہمیں اس سے سبق ملنا چاہئے۔

امام خمینی کی تحریک کی برکت سے ملت ایران کو یہ راستہ مل گیا۔ انھوں نے یہ راستہ کھولا اور قوم آج اسی راستے پر رواں دواں ہے۔ آپ جو یہ ساری چیزیں آج دیکھ رہے ہیں، ملت ایران کے یہ فضائل، ملت ایران کی یہ تعریفیں، یہ سب کچھ اسی راہ پر سفر کا نتیجہ ہے۔ انقلاب کی کامیابی سے پہلے یہ چیزیں، ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور عوامی میدانوں میں اس انداز سے قوم کے عظیم اقدامات نہیں ہوتے تھے۔ انقلاب کی برکت سے یہ حالت پیدا ہوئی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ اس میں روز بروز اضافہ ہوگا۔ اللہ تعالی کو ہم پیغمبر اکرم کی قسم دیتے ہیں کہ ہمارے بزرگوار امام کی روح مطہرہ اور عزیز شہیدوں کی پاکیزہ ارواح کو جنہوں نے ہمیں اس راستے کی  ہدایت کی اور ہماری رہنمائی کی پیغمبر کے ساتھ محشور فرمائے۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة‌ الله و‌ برکاته

۱) اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے صدر مملکت حجت الاسلام والمسلمین حسن روحانی نے تقریر کی۔

۲) سوره‌ آل ‌عمران، آیت نمبر ۱۶۴ کا ایک حصہ؛ «یقینا اللہ نے مومنین پر یہ احسان فرمایا کہ ان کے درمیان سے ایک پیغمبر کو مبعوث کیا۔..»

۳) سوره‌ جمعه، آیت نمبر ۲ کا ایک حصہ «وہ وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں کے درمیان انھیں میں سے ایک رسول بھیجا۔...»

۴) سوره‌ نحل، آیت نمبر ۳۶ کا ایک حصہ «یقینا ہر امت میں ہم نے ایک رسول بھیجا۔...»

۵) منجملہ سوره‌ بقره، آیت‌ ۱۲۹؛ «... انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے..»

۶) منجملہ سوره‌ بقره، آیت ۱۲۹؛ «... اور ان کا تزکیہ کرے ...»

۷) سوره‌ نحل، آیت نمبر ۳۶ کا ایک حصہ؛ « اور در حقیقت ہم نے ہر امت کے اندر ایک رسول بھیجا تاکہ پیغام پہنچائے کہ اللہ کی عبادت اور طاغوت سے اجتناب کرو...»

۸) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۷۶ کا ایک حصہ؛ «جو لوگ ایمان لائے وہ راہ خدا میں پیکار کرتے ہیں...»

۹) سوره‌ نساء، آیت نمبر۷۶ کا ایک حصہ «... جن لوگوں نے کفر اختیار کیا وہ طاغوت کی راہ میں جنگ کرتے ہیں تو تم شیطان کے دوست داروں سے جنگ کرو...»

۱۰) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۷۶ کا ایک حصہ «...طاغوت کی راہ میں جنگ کرتے ہیں...»

۱۱) سوره‌ قصص، آیت نمبر ۵؛ «اور ہم چاہتے ہیں کہ زمین میں کمزور کر دئے گئے لوگوں پر احسان کریں اور انھیں لوگوں کا پیشوا قرار دیں اور انھیں زمین کا وارث بنائیں۔»

۱۲) منجملہ سوره‌ توبه، آیت نمبر ۳۳؛ «اللہ وہ ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور صحیح دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غلبہ دلائے...»