رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دشمنوں کی جانب سے وسیع ترین پیمانے کی یلغار کی صورت میں ضروری ہے کہ ہم بھی اپنی وسیع ترین توانائیوں، وسائل اور طاقت کو مجتمع کرکے آگے بڑھیں تاکہ ذکر الہی اور توکل علی اللہ پر عوام اور حکام کے گہرے یقین و عقیدے کے زیر سایہ اللہ تعالی عظیم الشان ملت ایران کے بارے میں اپنے وعدے کو پورا فرمائے۔ (1)

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین

مجھے بڑی خوشی ہے کہ محترم ماہرین کی زیارت کا موقع پھر میسر ہوا اور ہمیں یہ توفیق حاصل ہوئی کہ آپ دوستوں کی معیت میں بیٹھیں۔ حضرات کی گفتگو سے حقیر نے بھی اور باقی سب نے بھی استفادہ کیا۔ اللہ تعالی ان شاء اللہ مدد فرمائے اور توفیق دے کہ ہم جو کچھ سمجھ رہے ہیں اس پر عمل بھی کر سکیں۔

ضروری ہے کہ یہ حقیر بھی دو بڑے اہم علما و فقہا جناب شاہرودی مرحوم (2) اور جناب مومن مرحوم (3) کے انتقال پرملال پر اظہار افسوس کرے۔ واقعی یہ دونوں ہستیاں قم کے دینی علوم کے مرکز کے لئے اہم ستون کا درجہ رکھتی تھیں، بہت مفید ہستیاں تھیں، بہت جید علما تھے۔ ایسے جید علما جنہوں نے حقیقت میں انقلاب کے اہداف کی تکمیل کے لئے حقیقت میں کام کیا۔ ان عزیزوں کی رحلت ہمارے لئے اور دینی علوم کے مرکز کے لئے واقعی بہت بڑا خسارہ ہے۔ جناب مومن مرحوم بھی اور جناب شاہرودی مرحوم بھی دونوں ہی حقیقت میں جس چیز کے لئے محسوس کر لیتے تھے کہ انقلاب کے لئے اور ملک کے لئے اس کی انجام دہی ضروری ہے وہ اس پر عمل پیرا رہتے تھے، وہ بھی بالکل بے غرض اور بے لوث ہوکر۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے اور ان ہستیوں کے فقدان کا ہمیں صلہ عطا فرمائے۔ ان شاء اللہ ہمارے نوجوان فقہا اسلامی فقہ کے مسائل کے بارے میں جہاں تک ممکن ہے اپنے فہم و ادراک اور کاوشوں کو بلندی پر لے جائیں، ان میں استحکام اور باریک بینی پیدا کریں۔ کاموں کو مزید توجہ اور لگن کے ساتھ آخر تک انجام دیا جائے۔ محکم اور جدید مسائل سے آگاہ اور ملکی امور سے  باخبر جید فقہا کی ہمیں بہت ضرورت ہے۔

آج آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے میں نے جو بحث آمادہ کی ہے وہ آپ کے لئے نئی نہیں ہے۔ یہ بحث اس لئے پیش کر رہا ہوں کہ آپ میں سے ہر شخص بحمد اللہ کسی نہ کسی میدان میں، عوام کے درمیان، طلبہ کے درمیان یا دینی مدارس میں ایک خاص مقام و منزلت کا مالک ہے اور آپ کی باتیں سنی جاتی ہیں۔ ان باتوں کا تذکر اس لئے کیا جا رہا ہے کہ جو عناوین اور جو موضوعات ہم یہاں عرض کر رہے ہیں وہ آپ حضرات اپنی علمی صلاحیتوں کی مدد سے، اپنی مہارت کی مدد سے، تجزئے کی اپنی توانائی کی مدد سے عوام کے درمیان بیان کیجئے تاکہ یہ ایک عمومی بحث کی شکل اختیار کر لے، عمومی ادراک کا موضوع بن جائے۔ یہ چیز بہت اہم ہے کہ ملک کے عوام کسی خاص موضوع اور بحث کے بارے میں پوری طرح آگاہ اور باخبر ہو جائیں۔

میں اس بحث کے موضوع کے طور پر جو چیز پیش کرنا چاہتا ہوں وہ ہے چیلنجز اور مسائل و واقعات سے وطن عزیز اور ملک کے بااثر افراد کے نمٹنے کا طریقہ۔ میں یہ بحث پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ظاہر ہے ہر ملک اور ہر سماج کو کچھ واقعات در پیش ہوتے ہیں، ان میں بعض واقعات اچھے ہوتے ہیں اور بعض تلخ ہوتے ہیں۔ کبھی ان سے دباؤ پڑتا ہے جیسے کہ ہم اس وقت پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں، ثقافتی یلغار کی زد پر ہیں اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ہیں، یا بعض دیگر ممالک ہیں جو فوجی حملوں کے نشانے پر ہیں، تو ملکوں کو واقعات و مسائل در پیش ہوتے ہیں۔ کبھی پیشرفت بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح کے واقعات و حالات جب ہوں تو اس وقت طریقہ کار اور روش بہت اہم ہوتی ہے کہ ان واقعات سے کیسے پیش آیا جائے۔ میں جو بحث اور جو موضوع آج پیش کرنا چاہتا ہوں وہ یہی ہے۔

میں اس سلسلے میں چند دو رخی متبادل کا ذکر کروں گا۔ یعنی یہ کہ پیش آنے اور نمٹنے کی چند صورتیں ہو سکتی ہیں۔ کبھی تو ہم ان واقعات و حالات کا سرگرمی و تندہی سے مقابلہ کرتے ہیں اور کبھی ہمارے مقابلے کا انداز یہ ہوتا ہے کہ خود کو حالات کے بہاؤ کے رخ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ سرگرمی اور تندہی سے حالات کا مقابلہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ جب ہمیں کوئی واقعہ در پیش ہو تو ہم دیکھیں اور غور کریں کہ اس واقعے کے سلسلے میں، اسے روکنے کے لئے، اسے رفع کرنے کے لئے، اس کا زور کم کرنے کے لئے یا ضرورت کے تحت اس کو تقویت پہنچانے کے لئے ہم کیا کیا کر سکتے ہیں۔ ہم سوچیں اور پوری تندہی کے ساتھ میدان میں اتر جائیں۔ اس کو کہتے ہیں سرگرم مقابلہ۔ حالات کے رخ پر خود کو چھوڑ دینے کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی تلخ اور سخت واقعہ رونما ہو، کوئی مشکل در پیش ہو تو ہم آہ و زاری شروع کر دیں، بس بار بار اس کا رونا روئیں، اس کا ذکر کریں، دہراتے رہیں اور اس کے تدارک کے لئے کوئی عملی قدم نہ اٹھائیں۔ حالات و واقعات سے پیش آنے کے یہ دو طریقے ہیں۔ سرگرم مقابلہ یا حالات کے رخ پے خود کو چھوڑ دینا۔

ایک اور پہلو سے دیکھئے تو حالات کا مقابلہ یا تو جدت عملی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے یا پھر رد عمل کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ حالات کا مقابلہ رد عمل کی صورت میں ہونے کا یہ مطلب ہے کہ مثال کے طور پر ہمارا سامنا کسی دشمن سے ہے۔ دشمن ہمیں مقابلے کے ایک میدان کی جانب کھینچ رہا ہے، ہم اسی میدان میں پہنچ جائیں اور اس کے پروگرام کے مطابق جب وہ کوئی قدم اٹھائے تو اسی انداز سے ہم اس کا جواب دیں۔ یہ رد عمل کہلائے گا۔ یعنی ہم جو کارروائی کر رہے ہیں وہ ایک طرح سے دشمن کے اقدام کے تابع ہے۔ جدت عملی کی صورت میں مقابلہ ایسا نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر دشمن کسی پہلو سے ہم پر حملہ آور ہوتا ہے تو ہم اس پر کسی اور پہلو سے حملہ کریں۔ ہم ایک الگ رخ سے جدت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کارروائی کریں۔ اس انداز سے عمل کریں کہ دشمن پر ضرب لگا سکیں۔ یہ بھی حالات کا مقابلہ کرنے کے دو متبادل طریقے ہیں۔

ایک اور دو رخی متبادل یہ ہے کہ مایوسانہ انداز میں مقابلہ کیا جائے یا امید و نشاط کے ساتھ مقابلہ ہو۔ کبھی انسان کو کچھ حالات پیش آتے ہیں اور اس کی توجہ دشمن کی توانائیوں اور دشمن کے اقدامات پر ہوتی ہے اور نتیجے میں اس پر مایوسی چھا جاتی ہے۔ اب ممکن ہے کہ وہ مقابلے کے میدان میں اترے لیکن مایوسی کے عالم میں۔ یہ حالات سے نمٹنے کا ایک طریقہ ہے۔ حالات کا مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان امید و نشاط کے ساتھ مقابلے پر آئے۔ ان دونوں روشوں میں بھی فرق ہے۔ اگر ہم مایوسی کے عالم میں میدان میں اتریں تو ہمارا عمل کسی اور انداز سے ہوگا جبکہ امید و نشاط کے ساتھ میدان میں اتریں گے تو ہمارے عمل کا انداز کچھ اور ہوگا۔ یہ بھی ایک دو رخی متبادل ہے۔

ایک اور دو رخی متبادل ہے خوف و دلیری۔ کبھی انسان میدان میں تو اترتا ہے لیکن اس پر خوف طاری ہوتا ہے، دشمن کا خوف، حادثے کا خوف، دشواریوں کا خوف، خوف کے عالم میں میدان میں اترتا ہے۔ یہ دشمن کا مقابلہ کرنے اور رد عمل دکھانے کا  ایک طریقہ ہے۔ کبھی انسان دلیری کے ساتھ میدان میں اترتا ہے۔ روایتوں میں ہے، «خُضِ الغَمَراتِ لِلحَقّ‌»؛ (4) میدان میں اترتا ہے دلیری کے ساتھ، شجاعت کے ساتھ۔ یہ بھی حالات سے نمٹنے کا ایک طریقہ ہے۔ ہمیں دنیا کے ملکوں کے حالات کو دیکھنا چاہئے۔ جن ملکوں سے ہم آشنائی رکھتے ہیں، جن ملکوں کے حالات ہمارے پیش نظر ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے امور میں ان دونوں طریقوں پر عمل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بعض ملکوں پر امریکہ کا دباؤ ہوتا ہے تو کبھی وہ شجاعت کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں، دلیری کا مظاہرہ کرتے ہیں، کبھی خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ ہر ملک کا الگ انداز ہے۔ جو خوفزدہ ہے وہ ممکن ہے کہ کبھی کوئی اقدام کر بھی دے لیکن اس کے اقدام میں اور شجاعت و امید و نشاط کے ساتھ سامنے آنے والے ملک کے اقدام میں کافی فرق ہوتا ہے۔

ایک اور دو رخی متبادل یہ ہے کہ ہم دشمن کے مقابلے میں جو اقدام کرنا چاہتے ہیں وہ ہم بھرپور عزم و تدبیر کے ساتھ کریں یا پھر تساہلی اور سادہ لوحی کے ساتھ۔ مثال کے طور پر آپ حضرات کی گفتگو میں سائیبر اسپیس اور سوشل میڈیا جیسے موصوعات کا ذکر تھا۔ اس قضیئے سے دو طرح سے پیش آیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مدبرانہ انداز میں عمل کیا جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تساہلی اور سادہ لوحی سے پیش آیا جائے۔ تساہلی اور سادہ لوحی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ سادہ لوحی کا مطلب یہ ہے کہ انسان پیچیدگیوں کو نظر انداز کر دے، کاموں کی مشکلات اور پیچیدگیوں سے بے خبر رہے۔ تساہلی یہ ہے کہ انسان دیکھ رہا ہے مگر خطرے کو یونہی چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح سے بھی عمل کیا جا سکتا ہے۔ تدبر اور توجہ کے ساتھ اور تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھی عمل کیا جا سکتا ہے۔

ایک دو رخی متبادل یہ بھی ہے کہ واقعات و حالات کا سامنا ہو تو خطرات اور مواقع دونوں پر نظر رکھی جائے یا پھر یک طرفہ طور پر دیکھا جائے یعنی صرف خطرات کو دیکھا جائے یا پھر صرف مواقع پر نظر مرکوز رکھی جائے۔ مثال کے طور پر جب ہمیں امریکہ کی دشمنی کا سامنا ہے تو ہم دو طرح سے اس صورت حال میں عمل کر سکتے ہیں۔ دیکھیں، غور کریں کہ بظاہر طاقتور نظر آنے والے اس دشمن سے نمٹنے کے عمل میں ہمارے پاس کیا مواقع ہیں اور کون سی چیزیں ہیں جو ہمارے لئے خطرات کا درجہ رکھتی ہیں۔ ہمیں دونوں کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ دونوں کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھیں اس کے بعد فیصلہ کریں۔ کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ہم صرف خطرات کو دیکھیں، ہمارے پاس جو مواقع ہیں انھیں نظر انداز کر دیں۔ یا اس کے برعکس کبھی صرف مواقع کو دیکھتے ہیں اور خطرات کو نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔ اس طرح کا زاویہ نگاہ غلط ہے۔ ایسی صورت حال میں جامع نظر ہونا چاہئے۔ عمیق فہم و ادراک ہونا چاہئے۔ ہم جو عرض کر رہے ہیں کہ عوامی سطح پر ہمیں ایک عمومی ادراک پیدا کرنا چاہئے اس کا یہی مطلب ہے۔ میں بعد میں اس کی مزید وضاحت کروں گا۔

ایک اور دو رخی متبادل ہے زمینی حقائق کی شناخت۔ زمینی حقائق سے آشنا ہونا یا آشنا نہ ہونا۔ یعنی ہمیں یہ علم ہو کہ ہم کس پوزیشن میں کھڑے ہیں۔ ہم کہاں ہیں، دشمن کہاں ہے، ہماری پوزیشن کیا ہے؟ یہ ان چیزوں میں ہے جن کے لئے دشمن بڑی کوشش کرتا ہے۔ ان چند برسوں میں دشمن کی ہمیشہ یہ کوشش رہی اور کچھ داخلی عناصر بھی اسی کوشش میں رہے کہ ہماری پوزیشن کو کمزور ظاہر کریں اور دشمن کو بہت مضبوط دکھائیں۔ اس بات کی بار بار تلقین کرنا کہ "ہم تو برباد ہو گئے، ہماری تو حالت خراب ہو گئی، اب تو ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں!" یہ چیز بھی بہت اہم ہے۔ یہ بھی بہت بنیادی دو رخی متبادل ہے۔ ہمیں پتہ ہونا چاہئے کہ ہم کہاں ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ علاقے میں اس وقت ہماری ایسی پوزیشن ہو گئی ہے کہ دشمن ہم سے خوفزدہ ہے تو ہمارے اقدامات کا انداز الگ ہوگا۔ فرض کیجئے کہ جو لوگ علاقے میں ہماری موجودگی کے بارے میں بات کرتے ہیں، لکھتے ہیں، اعتراض کرتے ہیں، بے جا اشکال کرتے ہیں وہ لوگ، میں کسی پر کوئی الزام نہیں لگانا چاہتا، دشمن کے اس منصوبے کی تکمیل میں مدد کر رہے ہیں۔ یہ بھی ایک دو رخی متبادل ہے کہ ہم میدان میں اپنی پوزیشن سے اور دشمن کی پوزیشن سے باخبر رہیں۔

ایک اور دو رخی متبادل احساسات و جذبات کے اظہار سے متعلق ہے۔ بعض اوقات الگ الگ طرح کے واقعات میں انسان اپنے جذبات کو بے قابو چھوڑ دیتا ہے۔ اب وہ مثبت جذبات ہوں جیسے خوشی کے جذبات کہ انسان کو کوئی کامیابی ملی تو خوش ہوتا ہے، خوشی مناتا ہے اور اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھتا۔ یا منفی جذبات ہیں جیسے غم و غصہ اور پریشانی۔ اس کا ایک الگ انداز ہوتا ہے۔ جذبات پر قابو رکھنا، جذبات کو لازمی مقدار میں ہی باہر آنے دینا۔ ایک اہم پہلو جہاں واقعی ممکن ہے کہ ہمیں زک اٹھانی پڑ جائے، بلکہ بعض مواقع پر ہمیں ضرب پڑ بھی چکی ہے، وہ ہے عمومی جذبات پر قابو نہ رکھ پانا۔ مثال کے طور پر میں نوجوانوں پر بہت اعتماد کرتا ہوں، مجھے واقعی نوجوانوں کی توانائیوں پر بڑا یقین ہے۔ انقلاب سے  پہلے سے ہی نوجوانوں کے ساتھ میں کام کرتا رہا ہوں، انقلاب کے دوران بھی نوجوانوں کے ساتھ میں نے کام کیا اور یہ سلسلہ آج تک چلا آ رہا ہے۔ لیکن اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ ہم نوجوانوں پر اعتماد کرتے ہیں لیکن یہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ معاشرے کے اندر نوجوانوں کے جذبات کو بے روک ٹوک یونہی آزادانہ حکم فرمائی کے لئے چھوڑ دیا جائے! احساسات و جذبات پر قابو رکھا جانا چاہئے۔ دو طرح سے عمل کیا جا سکتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ جذبات کی رو میں بہہ کر اپنے تاثرات ظاہر کئے جائیں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جذبات پر قابو رکھا جائے، ویسے یہ آسان کام نہیں ہے۔

ایک اور دو رخی متبادل شرعی حدود و ضوابط کا خیال رکھنا اور ان کا خیال نہ رکھنا ہے۔ انقلاب سے پہلے جب تحریک کا دور تھا تب بھی ہم بعض اوقات دیکھتے تھے کہ کچھ لوگ جو جدوجہد میں بہت فعال تھے، بہت سے شرعی مسائل کو اہمیت نہیں دیتے تھے، کہتے تھے کہ جناب ہم تو تحریک کے لئے کام کر رے ہیں، ہدف کے لئے محنت کر رہے ہیں تو ایسے میں اگر مثال کے طور پر اول وقت نماز نہیں پڑھی تو نہ سہی، یا فلاں کام اگر نہیں کیا تو نہ سہی، تہمت یا غیبت وغیرہ جیسا کوئی فعل انجام دے دیا تو ان کی نظر میں اس میں کوئی خاص برائی نہیں تھی! یہ ایک طرح کا طرز عمل ہے۔ ایک طرز عمل اور ہے جو اس سے الگ ہے وہ یہ کہ انسان تقوی کا راستہ اختیار کرے۔ نقل کیا گيا ہے ک امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں؛ لَو لَا التُّقیٰ لَکُنتُ اَدهَی العَرَب (5) کون ہے جو امیر المومنین سے بڑا سیاست داں ہو سکتا ہے، ان سے زیادہ کون آگاہ، زیرک اور ہوشیار ہو سکتا ہے؟ لیکن ظاہر ہے تقوی بسا اوقات انسان کو بہت سے کاموں سے روک دیتا ہے۔ تو یہ بھی دو متبادل ہیں۔

تجربات سے فائدہ اٹھانا یا ایک ہی سوراخ سے دو بار ڈسا جانا، یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہمارا یہی جو قضیہ ہے کہ بیرونی دشمنوں جیسے مغرب، امریکہ یا یورپ کے سلسلے میں کیا پالیسی اختیار کی جائے؟ ان کے ساتھ ہمارے کچھ مسائل ہیں، بعض مسائل ماضی سے متعلق ہیں۔ انقلاب کے آغاز سے ہی ان سے ہماری کچھ مشکلات چلی آ رہی ہیں۔ تاہم حالیہ عرصے میں ایٹمی معاہدے کا قضیہ در پیش رہا، انھوں نے کچھ وعدے کئے پھر ان وعدوں کی خلاف ورزی کی، اپنے وعدوں کو ملحوظ نہیں رکھا، انھیں نظر انداز کر دیا۔ یہ ایک تجربہ ہے۔ اس دھڑے کے ساتھ جس نے ہمارے ساتھ یہ برتاؤ کیا، تاکیدہ شدہ وعدوں اور میثاق کے باوجود اپنے فرائض پر عمل نہیں کیا بلکہ صرف مسکراتے اور باتیں بناتے رہے، اس فریق کے ساتھ، اس شخص کے ساتھ، اس حکومت کے ساتھ، اس محاذ کے ساتھ اب ہمارا برتاؤ اس تجربے کے مطابق ہونا چاہئے،  ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان سے کیسے پیش آنا ہے؟!

ایک اور نکتہ اور دو رخی متبادل جو آخری دو رخی متبادل کے طور پر پیش کرنا چاہوں گا یہ ہے کہ ہم جب بھی کچھ سخت حالات و واقعات سے روبرو ہوں تو آپس ہی میں ایک دوسرے پر چڑھ دوڑیں، ایک دوسرے پر تنقیدیں کریں، اپنے اندر ہی ایک دوسرے کو خطاوار قرار دیں، میں آپ کو اور آپ مجھے قصوروار سمجھیں، یہ ایک روش ہے جو بد قسمتی سے بہت سے مواقع پر دیکھنے میں آتی ہے کہ جب کچھ ٹیمیں، اب وہ ٹیم کوئی پارٹی ہے، کوئی حکومت ہے یا کوئی قوم، ایک دوسرے کو قصوروار قرار دینے لگتی ہیں۔ دوسری روش یہ ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔ ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے بجائے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے بقول "جتنا چلانا ہے امریکہ پر چلائیے!" (6) ہمارا فریق مقابل وہی ہے۔ میں نے اپنی تقاریر میں بار بار کہا ہے کہ ہم اس غلطی کے مرتکب نہیں ہوں گے کہ اپنے دشمن کو ہی نہ پہچانیں۔ ہمارا دشمن تو جانا پہچانا ہے۔ کچھ دوسرے افراد بھی ہیں جو غفلت میں یا عمدا ہمارے خلاف کام کرتے ہیں لیکن ان کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ جو اصلی دشمن ہے؛ «وَ هَلُمَّ‌ الخَطبَ فی ابنِ اَبی‌ سُفیان»،(7) یہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ اس طرح کے مسائل میں بلا وجہ ایک دوسرے پر نہ چلائیں، آپس میں نہ جھگڑیں! ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ حقیقت میں ہمارا جھگڑا کس سے ہے۔ ہمیں کس کو اپنا حریف مان کر کام کرنا ہے۔ ہماری روش یہ ہونا چاہئے۔

میرے خیال میں یہ سارے متبادل بہت اہم سوالات ہیں۔ ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ ان حالات میں ہم کون سے متبادل اختیار کرتے ہیں۔ البتہ ان سوالوں کا زبان سے جواب دینا تو آسان ہے لیکن عمل سے جواب دینا اور اس کا پابند رہنا اتنا آسان نہیں ہے۔ میری نظر میں ہمارے اسلامی متون میں ان سوالوں کے جواب واضح ہیں۔ مثال کے طور پر جب فتوحات ملی رہی ہوں تو قرآن ہمیں سکھاتا ہے؛ اِذا جاءَ نَصرُ اللهِ وَ الفَتحُ، وَ رَاَیتَ النّاسَ یَدخُلونَ فی دینِ اللهِ اَفواجًا، فَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّکَ وَ استَغفِرهُ اِنَّه کانَ تَوّابًا؛(8) قرآن یہ نہیں کہتا کہ حوشیاں مناؤ! باہر نکل کر نعرے بازی کرو! فَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّک، قرآن کہتا ہے جاؤ تسبیح کرو، یہ تمہارا کارنامہ نہیں بلکہ اللہ کی دین ہے۔ استغفار کرو۔ اس عمل کے دوران ہو سکتا ہے کہ تم سے کوئی غفلت ہو گئی ہو تو اللہ تعالی سے طلب مغفرت کرو۔ مثبت واقعات و حالات میں تمہارا طرز عمل یہ ہونا چاہئے۔ غرور میں نہیں پڑنا چاہئے، اس فتح کو اللہ کا عطیہ سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ؛ «وَ ما رَمَیتَ اِذ رَمَیتَ وَلکِنَّ اللهَ رَمی» (910) اپنے سلسلے میں غرور میں پڑ جانا، اللہ کے سلسلے میں غفلت میں پڑنا درست نہیں ہے۔ «فَحَقُّ لَکَ اَن لا یَغتَرَّ بِکَ الصِّدّیقون»؛(10) صحیفہ سجادیہ کی دعا میں آیا ہے کہ  صدیقین بھی کسی غرور میں نہ پڑیں اور یہ نہ کہیں کہ اللہ کے ساتھ تو ہمارا قضیہ بالکل واضح ہے! ہرگز نہیں، اللہ کو صدیقین سے بھی کوئی تکلف نہیں ہے۔ اگر ان سے بھی کوئی غلطی ہوئی تو وہ بھی نقصان اٹھائیں گے۔ جو کام ہوا ہے، جو اچھا عمل انجام پایا ہے ہم اسے اپنا نہ سمجھیں بلکہ اللہ کا کرم مانیں، کیونکہ حقیقت امر بھی یہی ہے۔

اس سال 11 فروری کے جشن انقلاب میں لوگوں کی شرکت گزشتہ برسوں سے زیادہ تھی، یہ کام کس نے کیا؟ کون شخص یہ دعوی کر سکتا ہے کہ اس معاملے میں میرا موثر رول رہا؟ ہم جب بھی غور کرتے ہیں ہمیں تو دست قدرت خداوندی ہی اس میں کارفرما نظر آتا ہے۔ سب نے بتایا کہ مختلف جگہوں پر اس سال گزشتہ برسوں سے زیادہ بہتر جلوس نکلے، یہ قدرت خداوندی کے علاوہ کسی بھی چیز سے ممکن نہیں ہے۔ یہ دست قدرت خداوندی کا کرشمہ ہے۔ جس زمانے میں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) بیمار تھے میں نے کسی چیز کے بارے میں کہا کہ یہ کار خدا تھا، یہ بہت بڑی کامیابی ملی ہے، آپ نے مجھ سے فرمایا کہ میں انقلاب کے آغاز سے یا بالکل شروعات سے، اس طرح کا کوئی لفظ استعمال کیا تھا، اب تک دیکھ رہا ہوں کہ ایک دست قدرت ہے جو ہمارے کاموں کو آگے لے جا رہا ہے۔ میں وہاں سے باہر نکلا تو امام کے الفاظ من و عن لکھ لئے تھے، مگر اس وقت مجھے یاد نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں ایک دست قدرت کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔ حقیقت ماجرا بھی یہی ہے۔ ایک دست قدرت ہے جو کاموں کو انجام دے رہا ہے۔ البتہ دست قدرت خدا کی مدد اس لئے ہوتی ہے کہ ہم اپنا عمل درست کریں تاکہ رحمت خداوندی ہمارے شامل حال ہو۔ اَللهُمَّ اِنّی اَسئَلُکَ موجِباتِ‌ رَحمَتِک‌ (11) رحمت کے اسباب ہمارے اپنے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ امام خمینی نے فرمایا کہ (خرم شہر کو) اللہ نے آزاد کرایا، یہ درست ہے، اللہ نے ہی آزاد کرایا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اتنے شہیدوں کی قربانیاں دینے کے بعد بھی کچھ نہ ہو پاتا۔ 'رمضان آپریشن' میں، جو اسی زمانے میں انجام دیا گيا تھا، لیکن اللہ کی مرضی نہیں تھی ہمیں فتح ملے تو نہیں ملی، لیکن خرم شہر میں فتح نصیب ہوئی۔ یہ ارادہ خداوندی کا کرشمہ تھا۔ یہ مثبت اور مسرت بخش واقعات پیش آنے کی صورت میں مناسب طرز عمل کے بارے میں تھا۔

جب سخت اور مشکل حالات ہوں جیسے یہی سخت پابندیوں کا قضیہ ہے، یا مثال کے طور پر کوئی فوجی حملہ ہو یا فوجی کارروائی ہو تو یہ سخت اور تلخ واقعات ہوتے ہیں جو ممکن ہے کہ دشمن کی جانب سے مسلط کئے جائیں۔ ایسی صورت حال کے لئے بھی اللہ تعالی نے اپنا حکم اور صحیح روش واضح طور پر ہمیں بتا دی ہے۔ وَ لَمّا رَءَا المُؤمِنونَ الاَحزابَ قالوا هذا ما وَعَدَنَا اللهُ وَ رَسولُه وَ صَدَقَ اللهُ وَ رَسولُه وَ ما زادَهُم اِلّا ایمانًا وَ تَسلیمًا.(12) ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ ایسے دور میں جب دنیا میں مادیت کا غلبہ اور مادی حکومتوں کا تسلط قائم ہے اسلامی حکومت تشکیل پائے گی اور دنیا کے مادہ پرست افراد اور تمام مادی طاقتیں خاموش ہوکر دیکھیں گی، پہلے ہی معلوم تھا کہ وہ مخالفت کریں گی۔ یہ ظاہر ہے کہ اگر ان کے بس میں ہوگا تو پابندیاں لگائیں گی، معلوم ہے کہ اگر فوجی حملہ ان کے بس میں ہوگا تو وہ ضرور کریں گی۔ ہمیں اپنے طور پر اس طرح  کام کرنا ہے کہ وہ ان اقدامات کے بارے میں سوچنے کی ہمت ہی نہ کریں اور اگر اس بارے میں سوچیں اور اقدامات کریں تو ان کے سارے اقدامات ناکام ہو جائیں۔ یہ توقع رکھنا غلط ہے کہ دشمن ہم پر حملہ نہیں کرے گا۔ تو یہ الہی حکم کی بات تھی۔

ناموافق حالات و واقعات در پیش ہوں تو خوف اور اضطراب میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ اَلا اِنَّ اَولِیاءَ اللهِ لا خَوفٌ عَلَیهِم وَ لا هُم یَحزَنون؛(13) یہ آیت سورہ یونس میں ہے۔ میں نے دیکھا سورہ بقرہ میں بھی شاید چار پانچ جگہ (14) «لا خَوفٌ عَلَیهِم وَ لاهُم یَحزَنون» مومنین کے بارے میں آیا ہے۔ یہ ایمان کی وجہ سے ہے، یہ اللہ سے رابطے کی وجہ سے ہے، ولایت خداوندی کو تسلیم کرنے کی وجہ سے ہے، خوف و اضطراب ایسی صورت میں نہیں ہونا چاہئے۔ امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) واقعی نہیں ڈرتے تھے۔ ایک دفعہ ہم لوگ ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اوائل انقلاب کی بات ہے، اس وقت کی بات ہے جب اس بندہ خدا (15)  سے مسلح فورسز وغیرہ جیسے مسائل میں ہمارا اختلاف تھا۔ میں نے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) سے کہا کہ "آپ نے فلاں شخص کے بارے میں فلاں جملہ کہا تو کیا اس وجہ سے کہ آپ ڈر رہے تھے کہ۔۔۔" میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ کیا آپ ڈر رہے ہیں کہ آپ کی بات مسلح فورسز کو بری لگے گی۔ جیسے ہی میں نے کہا کہ آپ  ڈر رہے تھے، امام (خمینی) نے برجستہ فرمایا کہ میں کسی چیز سے نہیں ڈرتا۔ انھوں نے یہ انتظار نہیں کیا کہ میں بتاتا کہ ڈر کس بارے میں ہے، جیسے ہی میں نے کہا کہ آپ ڈر رہے تھے کہ۔۔۔۔ امام خمینی نے فرمایا میں کسی چیز سے نہیں ڈرتا۔ واقعی ایسا ہی تھا۔ آپ کسی بھی چیز سے نہیں ڈرتے تھے۔ «اَلا اِنَّ اَولِیاءَ اللهِ لا خَوفٌ عَلَیهِم وَ لا هُم یَحزَنون‌» کا یہی مطلب ہے۔ انسان کیوں ڈرے؟ وہ عظیم انسان واقعی ایسے ہی تھے۔

امید و نشاط اور مایوسی و قنوطیت کے دو راستے سامنے ہوں تو ہمیں ہرگز مایوسی اور ناامیدی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ لا تَایئَسوا مِن رَوحِ اللهِ اِنَّه لا یَایئَسُ مِن رَوحِ اللهِ اِلَّا القَومُ الکّْفِرون (16) یہ سورہ یوسف میں ہے، یہ دنیاوی مسائل سے مربوط ہے۔ «لا تَایئَسوا مِن رَوحِ الله» روحانی امور سے متعلق نہیں ہے۔ یہ جناب یوسف کو تلاش کرنے سے متعلق ہے۔ یابَنِیَّ اذهَبوا فَتَحَسَّسوا مِن یوسُفَ وَ اَخیهِ وَ لا تَایئَسوا مِن رَوحِ الله‌؛(17) یوسف کو تلاش کرنے کے سلسلے میں جو ایک دنیاوی معاملہ ہے «لا تَایئَسوا مِن رَوحِ الله»۔ بنابریں یہ جملہ «لا تَایئَسوا مِن رَوحِ الله» دنیاوی امور میں ایک جامع درس ہے۔ البتہ اخروی امور میں بھی یہی طرز عمل ہونا چاہئے لیکن یہ آیت دنیاوی امور کے بارے میں ہے۔ لا تَایئَسوا! انسان کیوں مایوسی میں رہے؟ ہرگز نہیں، ہمیں پوری امید ہے کہ ہم استکباری طاقتوں کو دھول چٹا دیں گے، ان کی گردن مروڑ دیں گے۔ ہم یہ کام کر سکتے ہیں۔ ہمیں پوری امید ہے۔ اگر ہم محنت کریں، بلند ہمتی سے کام لیں، دل سے چاہیں، اللہ پر توکل کریں، اللہ سے دعا کریں تو یہ کام ہو سکتا ہے۔

ہم عجلت پسندی اور بہانہ بازی نہ کریں۔ ایک بہت ضروری چیز جس پر ہم سب کو، مجھے، آپ کو سبھی شہروں میں نماز جمعہ کے خطبوں میں، طلبہ کے درمیان، افاضل کے درمیان، دینی علوم کے مراکز میں ہر جگہ توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ ہے کہ ہماری ایک بڑی خامی بے صبری اور عجلت پسندی ہے۔ انسان زمین پر پیر پٹختا رہتا ہے کہ جناب کیوں نہیں ہوا؟ کیوں نہیں ہو سکا؟ ظاہر ہے ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے، ہر چیز کے لئے ایک ڈیڈ لائن اور میعاد ہے۔ ہر چیز تیزی سے انجام نہیں پاتی۔ ایک بار ایک شخص امام (خمینی) کے پاس آیا اور اس نے حکومت کی شکایت کی، اس وقت میں صدر جمہوریہ تھا، اس نے کوئی بات کہی۔ امام (خمینی) نے اس سے ایک جملہ کہا تھا جو میں کبھی نہیں بھولتا۔ آپ نے فرمایا: جناب! ملک چلانا بہت دشوار کام ہے۔ میں صدر مملکت تھا، امام کے اس جملے کی میں نے تہہ دل سے تصدیق کی۔ بعض کام ہیں جنہیں حتمی طور پر انجام دیا جانا ہے، اس کے لئے آمادہ رہنا ہے کمر ہمت کسنی ہے لیکن اس منزل تک پہنچنے میں کچھ وقت درکار ہے۔ یہ عجلت پسندی، پیر پٹخنا اور شکایت کرنا کہ کیوں نہیں ہوا؟ یہ اچھی روش نہیں ہے۔

میں نے یہاں یہ آیہ کریمہ نوٹ کی ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کے قضیئے سے مربوط ہے۔ جب آپ واپس آئے اور اپنے ساتھ تختیاں لائے اور دیکھا کہ بچھڑے والا قضیہ ہو چکا ہے۔ قالَ یقَومِ اَلَم‌ یَعِدکُم‌ رَبکُم‌ وَعدًا حَسَنًا؛ اللہ نے تو تم سے وعدہ کیا تھا کہ تمہاری زندگی کو ٹھیک کر دے گا۔ اَفَطالَ عَلَیکُمُ العَهد، کیا تاخیر ہو گئی تھی؟ جس وقت اللہ کا یہ وعدہ پورا ہونا تھا کیا وہ گزر چکا ہے کہ تم اس طرح بے صبری دکھا رہے ہو؟ صبر کرو، اللہ اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ اللہ تعالی کے سلسلے میں حسن ظن رکھنا بہت ضروری ہے، میں اسی میٹنگ میں کسی موقع پر اس بارے میں عرض کر چکا ہوں (18)۔ اللہ کے وعدوں کے بارے میں بدگمانی رکھنا اور شکایت کرنا کہ "کیوں نہیں، کیوں نہیں ہوا؟" بہت مذموم فعل ہے۔ ان آیتوں میں؛ اَفَطالَ عَلَیکُمُ العَهدُ اَم اَرَدتُم اَن یَحِلَّ عَلَیکُم غَضَبٌ مِن رَبکُم (19) مجھے یہ لگتا ہے کہ «یًّاَیُّهَا الَّذینَ ءامَنوا لاتَکونوا کَالَّذینَ ءاذَوا موسیٰ فَبَرَّاَهُ اللهُ مِمّا قالوا» (20) اس نکتے کی طرف اشارہ ہوگا: «وَاِذ قالَ موسیٰ لِقَومِه! یقَومِ لِمَ تُؤذونَنی وَقَد تَعلَمونَ اَنّی رَسولُ الله» (21) غالبا اس نکتے کی جانب اشارہ ہے کہ مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے کہ؛ "جناب کیوں نہیں ہوا، کیوں نہیں ہوا؟" البتہ یہ ساری باتیں فرعون سے نجات مل جانے کے بعد کی ہیں۔ تاہم فرعون سے نجات ملنے سے قبل بھی یہی صورت حال تھی؛ قالوِّا اوذینا مِن قَبلِ اَن تَأتِیَنا وَ مِن بَعدِ ما جِئتَنا، (22) حضرت موسی پر اعتراض کرتے تھے کہ اب جب آپ آ گئے ہیں تب بھی ہم انھیں پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ یعنی بنی اسرائیل کے اعتراضات کا جو بہت ذکر ہوتا ہے وہ یہی سارے اعتراضات ہیں۔ واقعی ایسا ہی ہے، ہمیں محتاط رہنا جاہئے کہ ہم ان غلطیوں میں مبتلا نہ ہوں۔

ایک اور اہم مسئلہ دشمن سے فاصلہ رکھنے کا ہے جو سافٹ وار سے خود کو محفوظ رکھنے میں مددگار ہے۔ ایک بہت ضروری کام یہی ہے کہ ہم دشمن سے اپنے فاصلے کو کم رنگ نہ ہونے دیں۔ دشمن سے فاصلہ قائم رکھنا ضروری ہے۔ اگر دشمن سے فاصلہ قائم نہ رکھا گیا، فاصلہ نمایاں نہ رہا تو اس فاصلے سے گزر کر ایک طرف سے دوسری طرف پہنچ جانا ممکن ہوگا۔ بالکل اسی طرح جیسے جغرافیائی سرحدوں کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ اگر جغرافیائی سرحدیں نہ ہوں، اگر انھیں نمایاں نہ رکھا جائے تو دوسری طرف سے کوئی شخص اٹھے گا اور اس طرف آن پہنچے گا اور یہاں آکر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا شروع کر دے گا۔ اسمگلر، چور، جاسوس، اس طرح کے افراد دوسری سمت سے آئیں گے، اسی طرح ہماری طرف سے بھی کوئی غافل شخص یا کوئی منحرف شخص وہ فاصلہ عبور کرکے دشمن کے پاس پہنچ جائے گا۔ عقیدے اور سیاست کی سرحدیں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں۔ اگر سرحد نمایاں نہ ہوگی تو دشمن کو دراندازی کا موقع مل جائے گا، وہ فریب دے سکے گا، وہ دھوکا دینے والے اقدامات کر سکتا ہے، سائیبر اسپیس پر مسلط ہو سکتا ہے۔ اگر یہ فاصلہ قائم رہے گا تو پھر دشمن کے لئے سائیبر اسپیس پر مسلط ہونا، ثقافت پر غلبہ حاصل کرنا آسان نہیں رہے گا۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے جو آیہ کریمہ؛ «لا تَتَّخِذوا عَدُوّی وَ عَدُوَّکُم اَولِیاءَ تُلقونَ اِلَیهِم»، اور پھر نوبت یہ ہو جاتی ہے کہ «تُسِرّونَ اِلَیهِم بِالمَوَدَّةِ وَ اَنَا اَعلَمُ بِما اَخفَیتُم» (23)۔ اللہ تعالی نے اس سے منع کیا ہے کہ دشمن سے ہم اس طرح  پیش آئیں۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔

دشمن سے فاصلہ رکھنے کی جو بات میں نے عرض کی ہے اس میں ایک ذیلی نکتہ بھی ہے جو میری نظر میں بہت اہم ہے۔ وہ اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم ہر کسی کو دشمن نہ سمجھیں۔ یہ بھی بہت اہم نکتہ ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دشمن سے ہم جو نفرت اور بیزاری رکھتے ہیں اور یہ نفرت بالکل بجا ہے، درست ہے، تو اس کی وجہ سے جیسے ہی کوئی شخص کوئی ایسی بات کرتا ہے جو دشمن کے سلسلے میں ہمارے نظرئے سے مطابقت نہیں رکھتی تو ہم اس شخص کو بھی فورا مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں کہ تم دشمن کے ساتھ ہو۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھئے کہ اس وقت ملک کے اندر کسی کنونشن پر بحث چل رہی ہے یا کوئی بین الاقوامی مسئلہ زیر بحث ہے۔ کوئی اس کا موافق ہے اور کوئی مخالف ہے تو کوئی تک نہیں بنتا کہ جو موافق ہے اس پر وہ شخص الزام لگا دے جو مخالفت کر رہا ہے یا جو مخالف ہے اس پر اس شخص کی جانب سے الزام لگا دیا  جائے جو حمایت کر رہا ہے۔ یہ تو دو نظرئے ہیں، دو استدلال ہیں۔ ایک شخص اس دوسرے شخص کے استدلال سے متفق نہیں ہے اور وہ دوسرا شخص اس پہلے شخص کے استدلال کو قبول نہیں کرتا۔ ایک دوسرے پر الزام نہ لگانا، آپس ہی میں الجھ پڑنے سے بچنا، وہی چیز ہے جو میں نے پہلے بھی عرض کی۔ یعنی ہم دشمن سے اپنے فاصلے کو ختم نہ ہونے دیں۔ دشمن سے فاصلے کو باقی رکھنا بہت ضروری ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جیسے ہی ہم کسی کو دیکھیں کہ کسی معاملے میں ہم سے قدرے مختلف رائے رکھتا ہے ہم فورا اسے دشمن کا آدمی قرار دے دیں۔ کہنے لگیں کہ یہ تو دشمن کا آدمی ہے۔ ہرگز نہیں، یہ بھی ہماری نظر میں ٹھیک نہیں ہے۔

میں آخر میں دو نکتے عرض کرنا چاہوں گا۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ جب دشمن کا حملہ بہت وسیع پیمانے پر ہو تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ توانائیوں کو مجتمع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج دشمن نے اپنی بھرپور توانائی سے حملہ کیا ہے۔ یعنی وہ اپنے تمام تر وسائل اور ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے نمبر پر امریکی اور ان کے ذیل اور حاشئے میں صیہونی یعنی صیہونی حکومت، ان کے ساتھ ساتھ عام طور پر مغربی حکومتیں اور تمام یورپی حکومتیں ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اس وقت دیکھ لیجئے کہ یورپ کو تیل کی خریداری سے روکنے کا معاملہ ہے تو بعض یورپی ممالک کو امریکہ کی طرف سے چھوٹ مل گئی ہے لیکن وہ یورپی ممالک ہم سے تیل نہیں خرید رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ کھلی ہوئی دشمنی ہی تو ہے۔ یعنی اس کی کوئی اور وجہ نہیں ہو سکتی۔ تاہم یہ دشمنی کی ایک الگ روش ہے، ایک خاص انداز کی دشمنی ہے۔ انھوں نے اپنی زیادہ سے زیادہ توانائیاں استعمال کی ہیں۔ امریکیوں نے یہ بات بارہا کہی ہے کہ ہم نے اس وقت ایران کے خلاف جو پابندیاں لگائی ہیں وہ تاریخ کی سب سے سخت پابندیاں ہیں۔ وہ صحیح کہہ رہے ہیں۔ میں نے بھی ایک موقع پر اپنی گفتگو میں انھیں جواب دیا تھا کہ اس قضیئے میں امریکہ کو جو شکست ہوگی وہ بھی ان شاء اللہ تاریخ میں امریکہ کی سب سے بڑی شکست ہوگی (24)۔ بشرطیکہ ہم نے ہمت سے کام لیا، صحیح انداز سے عمل کیا اور آگے بڑھے۔ لہذا تمام توانائیوں کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔ دشمن کے وسیع ترین حملے کے جواب میں تمام وسائل اور توانائیوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ یہ رہا ایک نکتہ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تمام امور اور کاموں کی بنیاد ہے ذکر الہی؛ وَلا تَنِیا فی ذِکرِی.(25) اللہ تعالی جناب موسی و ہارون سے اس حساس صورت حال میں جب محض یہی دو لوگ فرعون جیسی بڑی جابر و ظالم قوت کی طرف جا رہے تھے جس کے پاس بے پناہ وسائل اور توانائیاں تھیں، اللہ تعالی فرماتا ہے؛ وَلا تَنِیا فی ذِکرِی، اس کا خیال رکھنا۔ بارہا ارشاد فرمایا؛ لا تَخافا اِنَّنی مَعَکُما اَسمَعُ وَاَرى(26) میں تمہاری مدد کروں گا، میں تمہاری پشت پناہی کروں گا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ «لا تَنِیا فی ذِکرِی»؛ کوتاہی نہ کرنا۔ ذکر خداوندی ان تمام توانائیوں کی بنیاد اور ذریعہ ہے جن کے بارے میں میں نے عرض کیا کہ انھیں مجتمع کرنا اور بروئے کار لانا ہے۔ ذکر الہی ان تمام توانائیوں کا مقدمہ ہے۔

میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو ذکر و توسل کی توفیق عنایت فرمائے، اس ملت کے حق میں اپنے وعدوں کو پورا فرمائے، اس امت کے حق میں اپنے تمام وعدوں کو ان شاء اللہ جلد از جلد پورا کرے۔

ساتھ ہی یہ بھی عرض کر دوں کہ میں نے سنا ہے کہ فلاں صاحب کہتے ہیں کہ نوجوانوں پر توجہ مرکوز کی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ سن رسیدہ لوگوں کو دور کر دیا جائے۔ میں اس بات کو مسترد کرتا ہوں۔ میری مراد ہرگز سن رسیدہ افراد کو ہٹانے کی نہیں ہے۔ نوجوانوں پر توجہ دینا ایک خاص مفہوم ہے، اس پر غور کرنا چاہئے، اس پر سوچنا چاہئے، اس کا بہت واضح مفہوم ہے، اس کا مطلب سن رسیدہ افراد کو ہٹانا ہرگز نہیں ہے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) اس اجلاس میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے ماہرین اسمبلی کے صدر آیت اللہ احمد جنتی اور اسمبلی کے نائب صدر آیت اللہ محمد علی موحدی کرمانی نے اپنی اپنی رپورٹیں پیش کیں۔

۲) آیت ‌الله سیّد محمود ہاشمی ‌شاہرودی

۳) آیت ‌الله محمّد مؤمن ‌قمی

4) نہج ‌البلاغه، مکتوب نمبر ۳۱؛‌ « جہاں کہیں بھی ہو، اللہ کی خاطر ہر سختی اٹھاؤ۔

5) کافی، جلد ۸، صفحہ ۲۴؛ «اگر تقوی کا خیال نہ ہوتا تو میں دنیائے عرب کا سب سے بڑا چالاک شخص ہوتا ہے۔»

6) صحیفه‌ امام، جلد ۱۱، صفحہ ۱۲۱؛ پاسداران انقلاب فورس کے کارکنان کے درمیان مورخہ 25 نومبر 1979 کا خطاب

7) امالی صدوق، صفحہ ۶۱۹؛ «ابن ابی سفیان کے اس بڑے قضیئے کو یاد کرو»

8) سوره‌ نصر، آیات ۱ تا ۳؛ «جب اللہ کی نصرت اور کامرانی آن پہنچے اور تم لوگوں کو دیکھو کہ جوق در جوق دین خدا میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے پروردگار کی ستائش کے ساتھ تسبیح پڑھو، اس سے طلب مغفرت کرو کہ وہ ہمیشہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ »

9) سوره‌ انفال،  آیت نمبر ۱۷ کا ایک حصہ؛ «...جب تم نے دشمنوں کی جانب تیر پھینکا تو وہ تم نے نہیں پھینکا بلکہ خدا نے پھینکا ہے۔

10) صحیفه‌ سجّادیّه، انتالیسویں دعا (قدرے تفاوت کے ساتھ)

11) مصباح المتهجّد، جلد ۱، صفحہ ۶۱

12) سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۲۲؛ « اور جب مومنین نے دشمن کے دستوں کو دیکھا، تو کہا: " یہ وہی ہے جس کا ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اس کے رسول نے بالکل صحیح فرمایا تھا، ان کے اندر ایمان و اطاعت میں مزید اضافہ ہی ہوا۔

13) سوره‌ یونس، آیت نمبر۶۲؛ «آگاہ رہو کہ اللہ کے چاہنے والوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ اندوہگیں ہوتے ہیں۔

14) منجملہ ‌آیات ۶۲، ۱۱۲، ‌۲۶۲، ‌۲۷۴، ‌۲۷۷

15) ابو الحسن بنی صدر

16) سوره‌ یوسف، آیت نمبر ۷۸ کا ایک حصہ؛ «...رحمت خدا سے ناامید مت ہو، کیونکہ کافرین کے علاوہ کوئی رحمت خدا سے ناامید نہیں ہوتا۔»

17) ایضا؛ «اے میرے بیٹو! جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اور رحمت خدا سے مایوس نہ ہو۔...»

18) ماہرین اسمبلی کے ارکان سے مورخہ 3 ستمبر 2015 کا خطاب

19) سوره‌ طه، آیت نمبر ۸۶ کا ایک حصہ؛ «... اے میری قوم! کیا تمہارے پروردگار نے تم سے نیکی کا وعدہ نہیں کیا؟ کیا یہ مدت تمہیں بہت طولانی محسوس ہوئی یا تم نے چاہا کہ تم پر اللہ کا عتاب نازل ہو؟ ...»

20) سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۶۹ کا ایک حصہ؛ «اے وہ لوگ جو ایمان لائے، ان لوگوں کی مانند نہ بنو جنہوں نے موسی کو (اپنی الزام تراشی سے) ایذائیں دیں اور اللہ نے ان کی کہی ہوئی باتوں سے موسی کو مبرا رکھا۔...»

21) سوره‌ صف، آیت نمبر ۵ کا ایک حصہ؛ «اس وقت کو یاد کرو جب موسی نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! مجھے کیوں ستاتے ہو جبکہ تم جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ...»

22) سوره‌ اعراف، آیت نمبر ۱۲۹کا ایک حصہ

23) سوره‌ ممتحنه، آیت نمبر ۱ کا ایک حصہ؛ «...میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ سمجھو، تم ان سے دوستی کا اظہار نہ کرو۔۔۔۔۔اگر میری راہ میں جہاد کے لئے اور میری خوشنودی حاصل کرنے کے لئے تم باہر نکلے تو چپکے چپکے انھیں کیوں پیغام دیتے ہو کہ تم ان کے دوست ہو؟ جب کہ میں اس سے جو تم چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو زیادہ واقف ہوں۔..»

24) اہل قم سے مورخہ 9 جنوری 2019 کا  خطاب

25) سوره‌ طه، آیت نمبر ۴۲ کا ایک حصہ

26) سوره‌ طه،  آیت نمبر ۴۶ کا ایک حصہ