رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں تعمیراتی جہادی ٹیموں کے مومن و انقلابی نوجوانوں کی بہت تعریف کی اور فرمایا کہ جہاں تک ممکن ہو آپ محنت کیجئے اور آگے بڑھتے رہئے، جہاں تک ممکن ہو غور کیجئے اور پھر اس فکر کو عملی جامہ پہنائیے۔

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ

بسم الله الرّحمن الرّحیم

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ عزیزوں سے، نوجوانوں سے مل کر میں بہت خوش ہوں۔ آپ کی باتوں کو میں نے پوری توجہ سے سنا اور سچائی یہ ہے کہ آپ دوستوں نے جو باتیں بیان کیں ان میں بہت سی باتیں میرے لئے سودمند تھیں، یعنی واقعی ان سے میں مستفید ہوا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے یہاں مجاہدانہ سرگرمیوں میں مصروف ٹیموں کے اندر بڑے کارآمد، اہل فکر اور بہترین منصوبہ بندی کرنے والے افراد ہیں۔

میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ دو تین نکات پر مشتمل ہے۔ البتہ میں نے کچھ نکات نوٹ کئے تھے لیکن اب میں محسوس کر رہا ہوں کہ آپ کی توجہ ان نکات کی جانب ہے تو ان باتوں کو دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں بس دو تین باتوں کی یاددہانی کرانا چاہوں گا۔

ایک چیز تو یہ ہے کہ جہاد کا میدان بہت وسیع میدان ہے۔ یعنی جس مقدار میں آپ اب تک آگے گئے ہیں شاید اس سے دس گنا زیادہ آگے جانے کی گنجائش ہے، جہاد اس طرح ہوتا ہے۔ جہاد یعنی قلبی ایمان و یقین و اعتقاد کی بنیاد پر شروع ہونے والی مہم اور توانائیوں کا استعمال۔ اگر وہ ایمان ہے، اگر وہ قلبی یقین ہے تو اس عمل کی کوئی حد معین نہیں ہے، اس لئے کہ توانائیوں کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ انسان کی توانائیوں کی واقعی کوئی معینہ حد نہیں ہے، اس کی کوئی معینہ مقدار نہیں ہے۔ آپ کا دل، آپ کی روح، آپ کا ذہن، آپ کا دماغ غیر معمولی توانائی اپنے اندر رکھتا ہے۔ جیسے یہی کام جو آپ نے انجام دئے۔

یہی چیز کہ بیس سال کام کرتے کرتے آپ آج معمولی کاموں سے اس سطح کے بڑے منصوبوں تک پہنچ گئے ہیں، یہ آگے بھی جاری رہنا چاہئے۔ آپ اسی طرح آگے بڑھتے رہئے اور ایسا ہو کہ ہم اپنے ملک میں اسلامی انقلاب کی نسل کی ایک عظیم تعداد کو دیکھیں جو فہم و ادراک کی سطح کے اعتبار سے، انتظامی امور، خدمت رسانی اور قیام عدل و مساوات کے اعتبار سے، جو اسلام میں لازمی چیزیں ہیں، اسلامی معاشرہ عدل و انصاف کے قیام کو لازمی قرار دیتا ہے، ان تمام پہلوؤں سے یہ نسل ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ انسان کے عام ذہن کی وہاں رسائی نہ ہوئی ہو اور لوگ اسے اپنا نمونہ عمل بنائیں۔ ایک یہ نکتہ ہے جس کا ماحصل ہے جہادی فکر، جہادی عمل اور جہادی نقطہ نگاہ میں پیشرفت۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ کام تب عمومی اور عوامی شکل حاصل کرے گا جب آپ کی یہ فکر، جب آپ کا یہ طرز عمل ایک عمومی بحث میں تبدیل ہو جائے گا۔ جناب عالی نے (1) بارہ ہزار ٹیموں کی بات کی، ان ٹیموں میں آپ کی تعداد ملک کے کل نوجوانوں کی تعداد کا مثال کے طور پر دس فیصدی یا بارہ فیصدی حصہ ہے تو بقیہ 90 فیصدی یا 85 فیصدی نوجوان اس با برکت جہادی مہم سے، اس عمل سے محروم کیوں رہیں؟ اس فکر کی ترویج کی کوشش کیجئے، اس فکر کی ترویج تب آسان ہوگی جب اسے عمومی بحث میں تبدیل کر دیا جائے۔ ہم نے اپنے ماضی کے دوران گوناگوں مسائل کے سلسلے میں اس چیز کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس وقت بھی میرے ذہن میں اس کی مثالیں ہیں، البتہ میں انھیں بیان نہیں کرنا چاہتا۔ آپ اس بحث کو عام کرکے اپنی تعداد میں اضافہ کر سکتے ہیں، اسی طرح اپنے عمل کی کیفیت اور معیار کو مزید بلند کر سکتے ہیں، اس کی مقدار میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں، اس کا ایک ذریعہ وہی ہے جو میں نے جناب عالی سے کہا (2)، یعنی تبلیغ کا کام، صحیح تشہیر، فنکارانہ تشہیر۔

میں بعض اوقات دیکھتا ہوں کہ بہت اچھی تشہیر ہوئی بڑا، اچھا کام ہوا مثال کے طور پر قلعہ گنج (3) کے واقعے کو لے لیجئے! جس کا ذکر ہمارے ایک دوست نے ابھی کیا اور مجھے بھی اس کی اطلاع ہے۔ قلعہ گنج کے سلسلے میں بھی بار بار بات ہوئی لیکن عوام کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ملک کے ایک گوشے میں، ایک محروم علاقے میں، بلند حوصلے والے افراد کے ذریعے ایسا کام انجام پایا ہے! اگر عوام کو معلوم ہو جائے تو آپ دیکھیں گے کہ اس سے نوجوانوں میں کتنی امید بڑھ جاتی ہے۔ تعمیراتی جہادی فکر پر کام کرنے والے افراد کی تعداد بڑھانے کا جہاں تک مسئلہ ہے تو میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اس فکر کو، اس عمل کو، اس مہم کو گھروں کے اندر، کالجوں میں، اسکولوں میں، کام کی جگہوں پر عام کیجئے، اس  پر کام کیجئے۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے۔

ایک اور اہم نکتہ جو میری نظر میں ہے، ثابت قدم رہنے اور لغزش سے بچنے کا مسئلہ ہے۔ میری گزارش ہے کہ آپ اسے خاص اہمیت دیجئے۔ آپ نوجوانوں کی ٹیم کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ نوجوان کو ہمیشہ دو طرح کے خطرات لاحق رہتے ہیں۔ ایک ہے مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کی کمی، سوچ میں آنے والا بدلاؤ اور دوسرے انسان کی عام فطری مشکلات و مسائل سے دوچار ہو جانا۔ اجمالی طور پر اور اشارتا میں بس اتنا ہی عرض کرنا چاہوں گا۔ آپ خیال رکھئے کہ آپ کے نوجوان ان مشکلات سے محفوظ رہیں، صراط مستقیم پر ثابت قدم رہیں، ان کے اندر مستقل مزاجی رہے۔

اعتقادی و فکری پہلو سے اس پر کام کرنے کی ضرورت اپنی جگہ، عملی اقدامات کے معاملے میں بھی کچھ کام ضروری ہیں۔ یعنی عبادت، توجہ، نماز کو اول وقت ادا کرنا، روزانہ لازمی طور پر قرآن کی تلاوت، حتی المقدور مستحبات پر عمل کرنا۔ مثال کے طور پر کسی علاقے میں کچھ لوگ کام کر رہے ہیں تو وہ لازمی طور پر نماز مسجد کے اندر جاکر پڑھیں اور اول وقت پڑھیں۔ نماز بہترین انداز میں اور پوری توجہ سے پڑھیں۔ اخلاص کو ملحوظ رکھیں۔ کوشش کیجئے کہ وہ صرف خوشنودی پروردگار کو مد نظر رکھ کر کام کریں، ہم عمر کے جس پڑاؤ میں ہیں اس میں یہ کام مشکل ہے، اگر ہم نے پہلے سے کام نہیں کیا ہے، پہلے سے اس پر عمل نہیں کیا ہے، نوجوانی کے ایام سے اس فکر میں نہیں رہے ہیں اور اب ہم اخلاص عمل کے ساتھ کام کرنا چاہیں تو یہ بہت مشکل ہوگا۔ آپ جس سن میں ہیں اس میں یہ کام آسان ہے۔ نوجوانی کے ایام میں اپنے اندر اخلاص کا جذبہ پیدا کرنا آسان ہے۔ جب آپ کی نیت میں خلوص آ گیا تو ہر طرف سے آپ کے اوپر رحمت و ہدایت خداوندی کا نزول ہوگا۔  هُدًی لِلمُتَّقین‌؛ (۴) قرآن کہتا ہے کہ اس کی ہدایت متقین کے لئے ہے۔ واقعی اگر ان باتوں کو ملحوظ رکھا جائے تو ہدایت خداوندی اور اللہ کی طرف سے فکری مدد بھی زیادہ ہوگی۔ اللہ آپ کو کامیاب کرے۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة ‌الله

۱) رضاکار فورس کے ادارے کے سربراہ محمد زہرائی کی تقریر کی جانب اشارہ ہے جس میں انھوں نے جہادی ٹیموں کی تعداد میں 18 سال کے اندر ہونے والے اضافے کے بارے میں بتایا۔ ان ٹیموں کی تعداد اس مدت میں چالیس سے بڑھ کر بارہ ہزار ہو گئی ہے۔

 ۲) جہادی ٹیم کے رکن عظیم ابراہیم پور کی رپورٹ پر رہبر انقلاب اسلامی نے یہ جواب دیا۔ ابراہیم پور نے اپنی رپورٹ میں ڈھائی سال کے اندر جہادی ٹیموں کے ذریعے 2800 گاوؤں میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور محرومیت و غربت دور کئے جانے کے بارے میں بتایا۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اس کی اطلاع عوام تک پہنچنا چاہئے۔ یعنی مناسب اور دانشمندانہ انداز میں اس کی تشہیر کی جانی چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ میرے خیال میں ان پہلوؤں پر بہت کم کام ہوا ہے۔ یعنی آپ خود سوچئے کہ آپ بتاتے ہیں کہ اس وقت ہزاروں گاؤں ہیں جو غربت و محرومی کا شکار ہیں۔ ہمیں بھی اس کی اطلاع ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نوجوان جہادی ٹیموں نے حکومت سے کوئی بجٹ لئے بغیر، کسی پر کوئی بوجھ ڈالے بغیر کتنے ہزار گاوؤں کو ایسے مقام پر پہنچا دیا کہ وہاں روزگار کے مواقع پیدا ہونے لگے یا انھیں غربت و محرومیت کی حالت سے باہر نکال لیا؟! یہ بہت بڑی چیز ہے۔ عوام اس سے باخبر کیوں نہ ہوں؟ اطلاع رسانی کی روش بہت اہم ہے۔ یہ بہت اہم ہے کہ اس کی اطلاع رسانی کس طرح کی جاتی ہے۔ ایک ٹیم کو اسی پر مامور کرنا چاہئے کہ وہ اطلاع رسانی کی روش اور طریقے پر غور کرے۔

۳) صوبہ کرمان کا ایک شہر

۴) سوره‌ بقره، آیت نمبر 2  «... اور متقین کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے۔