رہبر انقلاب اسلامی تقریب میں شرکت کے لئے گئے تو سب سے پہلے آپ نے شہیدوں کے مزار پر فاتحہ خوانی کی اور اسلام و وطن عزیز کے فداکار محافظوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔
اس کے بعد سپریم کمانڈر نے گراؤنڈ پر موجود دستوں کا معائنہ کیا۔ اس موقع پر آپ نے جنگ میں زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے سابق فوجیوں کی بھی احوال پرسی کی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے اس موقع پر اپنے خطاب میں سیکورٹی کی حفاظت کو اسلامی جمہوریہ کی مسلح فورسز کا مقدس اور حساس فریضہ قرار دیا اورعلاقے کے بعض ملکوں کی امن و سلامتی سلب کر لینے کے لئے دشمنوں کی جانب سے جاری سازشوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ عراق و لبنان کے خیر خواہ افراد سمجھ لیں کہ ان کی اولیں ترجیح بدامنی کا علاج ہے اور ان ملکوں کے عوام کو بھی جان لینا چاہئے کہ ان کے بجا مطالبات قانونی ڈھانچے کے دائرے میں ہی پورے ہو سکیں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عہدیداران، فکری میدان کے موثر افراد، اسی طرح عوام الناس کو دعوت دی کہ ان کے افکار اور اندازوں کو تبدیل کر دینے کی دشمن کی کوششوں کی طرف سے ہوشیار رہیں اور ان کوششوں کے مقابلے کا واحد راستہ بصیرت ہے۔ اس سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی نے چند اہم نکات گوش گزار گئے۔ آپ نے فرمایا کہ مستقبل اور اللہ کے وعدوں کی تکمیل کی بابت پرامید رہنا چاہئے، دشمن پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے، دشمن کی سرگرمیوں کی طرف سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں ہونا چاہئے، ہمیں کامیابیوں پر غرور نہیں کرنا چاہئے اور مسلح فورسز کی ذمہ داری ہے کہ فتنے سے نمٹنے کے لئے اپنی تیاری مکمل رکھیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں ہر معاشرے کے لئے سیکورٹی کی اہمیت اور سیکورٹی کو یقینی بنانے کے سلسلے میں مسلح فورسز کی ذمہ داریوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ اگر معاشرے میں امن و سلامتی نہ ہو تو اقتصادی، علمی، تحقیقاتی، فکری اور ثقافتی سرگرمیوں کے امکانات نہیں ہوں گے، لہذا امن و سلامتی کی حفاظت حد درجہ اہم فریضہ ہے جس کی قدر و قیمت سمجھنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق کسی بھی ملک کے خلاف سب سے بڑی ضرب یہ ہو سکتی ہے کہ اس کی سیکورٹی سلب کر لی جائے۔ آپ نے علاقے کے بعض ممالک کو امن و سلامتی سے محروم اور آشوب میں مبتلا کر دینے کے لئے دشمنوں کی منصوبہ بندی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ان خباثتوں اور خطرناک کینہ توزی میں ملوث عناصر جانے پہچانے ہیں، ان واقعات کے پس پشت امریکہ اور مغربی ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیاں ہیں جو علاقے کے بعض رجعت پسند ممالک کے پیسوں کی مدد سے سرگرم عمل ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عراق اور لبنان کے خیر خواہوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلی ترجیح بدامنی کی مشکل کا ازالہ ہونا چاہئے اور ان ملکوں کے عوام کو بھی خیال رکھنا چاہئے کہ دشمن ان ملکوں کے قانونی و آئینی ڈھانچے کو منہدم کرنے اور خلاء پیدا کرنے کی کوشش میں ہے، جبکہ عوام کے مطالبات پورے ہونے کا واحد راستہ قانونی ڈھانچے کے دائرے میں ان مطالبات کی تکمیل کی کوشش ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ دشمن یہی منصوبے وطن عزیز ایران کے سلسلے میں بھی رکھتے تھے لیکن خوش قسمتی سے ملت نے بڑی ہوشیاری سے اور بر وقت میدان میں قدم رکھے اور مسلح فورسز بھی پوری طرح آمادہ تھیں لہذا یہ سازشیں ناکام ہو گئیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں استکباری طاقتوں کی افواج اور اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی ماہیت کا فرق بیان کرتے ہوئے کہا کہ استکباری قوتوں کی افواج کی اصلی ذمہ داری جارحیت، غاصبانہ قبضہ اور دیگر ممالک پر ضرب لگانا ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ کی مسلح فورسز کا فلسفہ وجودی مقتدرانہ اور محکم انداز میں دفاع نفس ہے جس میں جارحیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے گزشتہ ایک صدی کے دوران بر صغیر ھند، مشرقی و مغربی ایشیا، شمالی اور وسطی افریقا میں برطانیہ، فرانس، امریکہ کی افواج کے بعض جرائم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان افواج کی سب سے بڑی مشکل استکباری نظام سے ان کی وابستگی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ تاکید کرتے ہیں کہ اسلامی نظام کے مختلف شعبوں اور اداروں کا تکیہ اسلام اور قرآن پر ہونا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی نظام، اپنی مسلح فورسز بشمول فوج، سپاہ پاسداران انقلاب، رضاکار فورس اور پولیس فورس سب کو خاص احترام کی نظر سے دیکھتا ہے اور وہ اسلامی نظام کے کلیدی اور موثر عناصر و اجزاء ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ گزشتہ چالیس سال کے دوران تمام میدانوں میں جانفشانی اور تمام امتحانوں میں کامیابی اسلامی جمہوریہ کی فوج کی دیگر خصوصیات ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ فوج کے با ایمان افراد جیسے شہید صیاد شیرازی، شہید ستاری، شہید بابائی، شہید فلاحی، شہید فکوری نیز ظہیر نژاد مرحوم، سلیمی مرحوم بڑی تعداد میں اسلامی جمہوری نظام کے استقبال کے لئے آگے آئے اور اپنے ساتھ فوجی اہلکاروں کی کثیر تعداد لیکر آئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ فوج کی بڑی کامیابیوں میں سے حالیہ برسوں میں مزاحمتی محاذ کی بھرپور پشت پناہی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مستقبل میں اور مناسب وقت پر اس کلیدی کردار کا اعلان کیا جائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں آزاد منش قوم کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اندازوں اور تخمینوں کو بدل دینے کی کو دشمن کی کوششوں سے یہ قوم کبھی متاثر نہیں ہوتی۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن کا ایک منصوبہ عہدیداران اور دانشوروں نیز عوام الناس کے اندازوں اور تخمینوں کو تبدیل کر دینا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے قومی مفادات کو درستگی کے ساتھ پہچان نہ سکے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ عہدیداران اور عوام کے تخمینوں کو تبدیل کر دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی کمپیوٹر سسٹم میں وائرس ڈال دیا جائے یا ڈیٹا میں رد و بدل کر دیا جائے اور غلط ڈیٹا ڈال دیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ بعض اوقات دشمن کسی ملک کے عمومی انتظامی سسٹم میں، اس کی فکر اور اندازوں میں تبدیلی کر دیتا ہے لیکن آزاد منش قوم کبھی بھی اس طرح کی کوششوں سے متاثر نہیں ہوتی بلکہ پوری شجاعت کے ساتھ اپنے قومی مفادات کی حفاظت کرتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کا خلاصہ چند نکات میں بیان کیا؛ نمبر ایک دشمن پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے اور سادہ لوح افراد کی طرح دشمن سے امیدیں وابستہ نہیں کرنا چاہئے۔ نمبر دو دشمن کی نقل و حرکت سے ایک لمحے کے لئے بھی نظر نہیں ہٹانا چاہئے۔ نمبر تین دشمن کو کمزور و ناتواں نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ دشمن کی قوت کا صحیح تخمینہ رکھنا چاہئے اور اس کے مقابلے کے لئے آمادہ رہنا چاہئے۔ نمبر چار فتوحات پر غرور نہیں پیدا ہونا چاہئے کیونکہ ایک لمحے کی غفلت بھی جنگ احد کی مانند فتح کو شکست میں تبدیل کر سکتی ہے جبکہ خود پیغمبر ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت میدان میں موجود تھے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مستقبل کے تعلق سے بھرپور امید اور اللہ کے وعدوں کے پورا ہونے کے مکمل یقین کو دشمنوں کی سازشوں کے مقابلے کے لئے دو کلیدی ہتھیار قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ آج لطف خداوندی سے اور دشمن کی بد قسمتی سے ملک کے نوجوان امید و نشاط سے مالامال ہیں اور اللہ کے ان وعدوں کی تکمیل کا اپنی آنکھ سے مشاہدہ کر رہے ہیں جن کا ماضی میں تصور بھی دشوار تھا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حزب اللہ کے مومن نوجوانوں، اور فلسطین کے بلند ہمت جانبازوں کے مقابلے میں تینتیس رزہ، بائیس روزہ اور سات روزہ جنگوں میں صیہونی حکومت کی پے در پے شکست کو اللہ کے وعدوں کی تکمیل کے عینی نمونے قرار دیا اور فرمایا کہ مغربی ایشیا میں بے پناہ پیسے خرچ کرنے کے باوجود استکبار کی ناکامی اور اس کی جانب سے اس شکست کا اعتراف بھی اللہ کے وعدوں کی تکمیل کے مصادیق ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں فرمایا کہ لطف خداوندی سے غزہ میں واپسی مارچ ایک دن فلسطینیوں کی ان کی سرزمینوں کی طرف واپسی پر منتج ہوگا۔