اس خطاب کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
....ان تینوں اماموں کے بارے میں یعنی حضرت امام محمد تقی سے لیکر امام حسن عسکری علیہم السلام تک ایک خاص چیز ہے اور جیسے جیسے امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانے کی طرف بڑھئے یہ چیز زیادہ واضح طور پر نظر آتی ہے، وہ چیز یہ ہے کہ ان تینوں اماموں کے اثر و رسوخ کا دائرہ اور ان تینوں اماموں کے زمانے میں تشیع کی وسعت امام صادق اور امام باقر علیہم السلام سے شاید دس گنا زیادہ ہوگی۔ یعنی یہ عجیب چیز ہے۔ شاید یہی وجہ بھی تھی کہ ان اماموں کو اس قدر جور و جفا کا نشانہ بنایا گيا۔ جب حضرت امام رضا علیہ السلام ایران کی طرف آئے، خراسان تشریف لائے تو جو تبدیلیاں رونما ہوئیں وہ امام ہشتم علیہ السلام کے اندازے کے مطابق تھیں۔ کیونکہ اس سے پہلے تک شیعہ اکّا دکّا ہر جگہ تھے، لیکن آپس میں جڑے ہوئے نہیں تھے، مایوسی کا عالم تھا۔ کوئی واضح افق نگاہوں کے سامنے نہیں تھا۔ کوئی امید نہیں تھی۔ خلفا کا ہر جگہ تسلط تھا۔ اس سے پہلے ہارون کا زمانہ تھا جو فرعونی قوت کا مالک تھا۔ جب حضرت خراسان تشریف لائے اور اس پورے راستے سے گزرے تو لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ایسی شخصیت ظاہر ہوئی جس نے علم، عظمت، شکوہ، صداقت اور نورانیت کا ایسا مرقع پیش کیا جو نظروں سے کبھی نہیں گزرا تھا۔ اس زمانے میں کتنے شیعہ ایسے رہے ہوں گے جنھوں نے مدینہ پہنچ کر امام صادق علیہ السلام کی زیارت کی ہوگی؟ اس طولانی سفر کے دوران ہر جگہ لوگوں نے قریب سے امام کی زیارت کی۔ ایک غیر معمولی منظر تھا، گویا لوگ پیغمبر کی زیارت کر رہے تھے۔ یہ عالم تھا۔ وہ روحانی ہیبت، وہ روحانی عظمت، وہ وقار، وہ اخلاق، وہ تقوی، وہ نورانیت، علم کا وہ سمندر کہ جو پوچھنا ہے پوچھ لو، جو چاہو ان کے پاس موجود ہے! لوگوں نے یہ چیز کبھی دیکھی ہی نہ تھی! لوگوں میں ایک نیا جوش پیدا ہو گيا اور سب خراسان و مرو کی جانب چل پڑے۔ اس وقت دار الخلافہ مرو تھا جو اب ترکمنستان میں ہے، مرو وہاں ہے، خراسان کا حصہ ہے۔ اس کے ایک دو سال بعد حضرت کی شہادت ہوتی ہے اور لوگ غم و اندوہ میں ڈوب جاتے ہیں۔ اس وقت امام کی آمد سے وہ حیرت انگیز منظر ظاہر ہوا کہ جسے لوگوں نے کبھی بھی نہ تو دیکھا اور نہ اس کے بارے میں سنا تھا۔ اس کے بعد حضرت کی شہادت کا بھی عشاق اہل بیت کے دلوں پر گہرا داغ لگا۔ اس ماحول میں شیعہ یکبارگی سرگرم عمل ہو گئے۔ آپ دیکھئے کہ اچانک قم میں اشعریین نظر آنے لگے۔ وہ کیوں آئے؟ اشعریین تو عرب ہیں۔ وہ آئے قم۔ قم میں حدیث و اسلامی معارف کا بازار گرم ہو گيا۔ احمد بن اسحاق اور دوسرے افراد نے قم کو اپنا مرکز بنایا۔ ری کے علاقے میں وہ ماحول پیدا ہوا کہ شیخ کلینی جیسی ہستیاں وہاں سے نکلیں۔ اس لئے کہ شیخ کلینی جیسی عظیم ہستی یونہی اچانک کسی شہر میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ شیعہ ماحول ہو، مومنین کا ماحول ہو تاکہ اس ماحول میں پرورش پاکر بچہ بڑا ہو اور جوانی کے مراحل طے کرے اور ایسی خصوصیات کے ساتھ اس کی پرورش ہو کہ محمد بن یعقوب کلینی بن جائے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ آپ دیکھئے کہ شیخ صدوق رضوان اللہ علیہ ہرات، خراسان وغیرہ تک گئے اور جاکر شیعوں کی احادیث جمع کیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ خراسان میں شیعہ محدثین کیا کر رہے تھے؟ شیعہ محدثین سمرقند میں کیا کر رہے تھے؟ سمرقند کہاں ہے؟ شیخ عیاشی سمرقندی خود سمرقند میں تھے۔ یعنی اسی شہر سمرقند میں تھے جس کے بارے میں کہا گيا ہے؛ «کانَت مَرتَعاً لِلشّیعَة وَ أَهلِ العِلم» (۱) یہ شیخ کشّی کے بیانوں میں ہے۔ خود شیخ کشّی بھی سمرقندی تھے۔ یعنی امام رضا علیہ السلام کی ایک تحریک، آپ کا آنا اور اس کے بعد حضرت کی مظلومانہ شہادت کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ یہ پورا علاقہ ائمہ علیہم السلام کے زیر نگیں ہو گیا۔ ائمہ علیہم السلام نے ان حالات سے استفادہ کیا۔ یہ مراسلہ نگاری، یہ آمد و رفت اور ابو الادیان (2) وغیرہ جیسے افراد کو جو آپ دیکھتے ہیں تو یہ سب کچھ آسانی سے نہیں ہوا۔ یہ سب کچھ خاموشی سے اور خفیہ طور پر ہوا۔ ورنہ اگر آشکارا طور پر یہ سب کچھ انجام دیا جاتا تو خلفا جو تشدد کر رہے تھے اس کے پیش نظر تو ان افراد کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئے جاتے۔ مثال کے طور پر متوکل نے کربلا جانے پر پابندی لگا دی تھی تو کیا وہ اجازت دیتا کہ عوام الناس کے مسائل سے امام کو آگاہ کیا جائے اور پھر امام جو جواب دیں اسے عوام تک پہنچایا جائے۔ لوگ جو رقوم شرعیہ دیں انھیں ان سے جمع کرکے امام کی خدمت میں لایا جائے اور رسید لیکر اسے لوگوں تک پہنچایا جائے؟ یہ علی ابن مہزیار وغیرہ کی خط و کتابت جو آپ دیکھتے ہیں اس سے ان تینوں اماموں کی عظیم مہم اور اطلاع رسانی اور تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانے کا وسیع نیٹ ورک قائم ہو گیا تھا۔ امام رضا علیہ السلام کے بعد سے امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت تک۔
اس طرح کا واقعہ رونما ہوا تھا۔ یہ سب کچھ شہر سامرا میں رہ کر ہوا جو ایک چھاونی تھی۔ «سُرَّ مَن رأىٰ» (سامرا کا قدیمی نام) کوئی بڑا شہر نہیں تھا، بلکہ ایسا شہر تھا اور ایسا دار الخلافہ تھا جسے نیا نیا بسایا گيا تھا اور وہاں حکومت کے عمائدین، عہدیداران وغیرہ اور عوام الناس کی بس اتنی تعداد رہتی تھی کہ روز مرہ کی ضرورت ان سے پوری ہو جائے۔ سُرّ مَن رأىٰ یا سامرا در حقیقت بغداد کے بعد ایک نو تعمیر شدہ شہر تھا۔ اسی شہر سامرا میں ان دونوں ہستیوں امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام نے رابطے اور اطلاع رسانی کا ایسا عظیم نیٹ ورک بنایا کہ وہ عالم اسلام کے گوشے گوشے تک پھیل گيا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یعنی ہم ائمہ علیہم السلام کی زندگی کے ان پہلوؤں کو جب دیکھتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ کیا کر رہے تھے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ صرف نماز، روزے اور طہارت و نجاست وغیرہ کے مسائل بیان نہیں کرتے تھے۔ بلکہ اسی اسلامی معنی و مفہوم کے ساتھ امام کی منزلت میں تھے اور امام کی حیثیت سے لوگوں سے بات کرتے تھے۔
میری نظر میں یہ پہلو بہت زیادہ قابل توجہ ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ سے سامرا لایا گيا اور جوانی کے ایام میں بیالیس سال کی عمر میں حضرت کو شہید کر دیا گیا۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو اٹھائیس سال کی عمر میں شہید کر دیا گیا۔ یہ ساری چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ پوری تاریخ میں ائمہ علیہم السلام، آپ کے شیعوں اور اصحاب کی عظیم مہم مسلسل جاری رہی۔ حالانکہ حکومت بے حد ظالم تھی، ظالمانہ برتاؤ کرتی تھی لیکن اس کے باوجود ائمہ علیہم السلام کامیاب رہے۔ یعنی ائمہ کی غریب الوطنی اور بے کسی کے ساتھ ہی اس وقار اور اس عظمت کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔
۱) رجال کشّی، صفحہ ۱۳
۲) امام علی نقی علیہ السلام کے گھر کے خادم جو حضرت کے گھر میں رہتے تھے اور ساتھ ہی خطوط کے امور سنبھالتے تھے، امام کے خطوط مختلف شہروں میں پہنچاتے تھے۔