بسم الله الرحمن الرحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین.
(فقہی مسائل کی) بحث کا آغاز کرنے سے قبل یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ ایک دو دن کے دوران ملک کے عہدیداران، (تینوں) شعبوں کے سربرہان کے ذریعے منظور شدہ بل کے بعد گزشتہ روز، گزشتہ شب، اس سے پہلے والی رات ملک کے بعض شہروں میں کچھ واقعات ہوئے، افسوس کی بات ہے کہ مشکلات پیدا ہو گئیں، کچھ لوگوں کی جانیں چلی گئيں، کچھ مراکز کو نقصان پہنچایا گيا۔ ان ایک دو دنوں میں یہ سب بھی ہوا۔ چند نکات پر توجہ رکھنا ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب ملک کے عمائدین نے کوئی بل پاس کیا ہے تو انسان کو چاہئے کہ اس کے تعلق سے پرامید رہے۔ یہ اس حقیر کا میدان نہیں ہے، یعنی میرے پاس اس کا اسپیشلائیزیشن نہیں ہے۔ میں نے متعلقہ افراد سے کہا بھی ہے۔ میں نے کہا کہ چونکہ پیٹرول کے مسئلے میں ماہرین کی آرا الگ الگ ہیں۔ بعض اس کو لازمی اور بہت ضروری سمجھتے ہیں، کچھ اسے نقصان دہ مانتے ہیں۔ ان امور میں یہ حقیر بھی کوئی مہارت نہیں رکھتا، اس لئے میں نے کہا کہ میں صاحب نظر نہیں ہوں، لیکن اگر تینوں شعبوں (مقننہ، مجریہ، عدلیہ) کے سربراہان نے ملک کے لئے کوئی فیصلہ کیا ہے تو اس پر عمل ہونا چاہئے۔ یہ تو رہا پہلا نکتہ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بے شک کچھ لوگ اس فیصلے سے تشویش میں مبتلا ہوں گے، یا ناراض ہوں گے، یا اس سے انھیں نقصان پہنچے گا یا انھیں یہ خیال پیدا ہوگا کہ ان کے لئے نقصان دہ ہے، بہرحال وہ ناراض ہوں گے۔ لیکن کسی بینک کو آگ لگا دیا! یہ عوام کا کام نہیں ہے، یہ شر پسندوں کی حرکت ہے، شر پسندوں کا کام ہے۔ اس پر توجہ رکھنا چاہئے۔ ایسے واقعات میں عام طور پر شر پسند عناصر، کینہ پرور عناصر، نابکار افراد میدان میں کود پڑتے ہیں اور بعض اوقات کچھ نوجوان بھی ہیجان میں آکر ان کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور اس طرح کی تباہ کاریاں انجام دیتے ہیں۔ یہ تباہ کاری کسی مشکل کو حل کرنے والی نہیں ہے۔ اس سے یہ ہوگا کہ جو مشکلات ہیں ان کے ساتھ ہی بدامنی کی ایک نئی مشکل بھی پیدا ہو جائے گی۔ بدامنی کسی بھی ملک اور کسی بھی سماج کے لئے سب سے بڑی مصیبت ہے۔ ان کا یہی ارادہ ہے۔ آپ غور کیجئے کہ ان دو دنوں میں، تقریبا دو شب اور ایک دن کے دوران جب یہ واقعات رونما ہوئے، ہمارے خلاف سرگرم شرپسندی کے مراکز نے ان تخریبی اقدامات کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ خبیث و منحوس پہلوی خاندان سے لیکر خبیث اور جرائم پیشہ منافقین کے گروہ تک، سب کے سب سوشل میڈیا پر اور دیگر پلیٹ فارموں پر حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، شر پسندی کی ترغیب دلا رہے ہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی ان شر پسندوں کی مدد نہ کرے۔ کوئی بھی شائستہ اور سمجھدار انسان جو اپنے وطن سے محبت کرتا ہے، اپنی پرسکون زندگی سے لگاؤ رکھتا ہے ہرگز ان عناصر کی مدد نہیں کرے گا۔ یہ شر پسند عناصر ہیں۔ یہ حرکتیں عام شہریوں سے سرزد نہیں ہوتیں۔
البتہ عہدیداران بھی توجہ دیں، بہت خیال رکھیں کہ جہاں تک ممکن ہے اس فیصلے سے پیدا ہونے والی مشکلات کو کم کریں۔ میں نے کل ٹی وی پر دیکھا کہ بعض عہدیداران نے آکر کہا کہ ہم اس بات کی گہری نگرانی کر رہے ہیں کہ پیٹرول کی قیمت میں اضافے سے دیگر اشیاء اور مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہونے پائے۔ یہ اچھی بات ہے۔ چونکہ اس وقت پہلے سے ہی مہنگائی ہے، اب اگر گرانی میں مزید اضافہ ہوتا ہے تو عوام کی مشکلات بہت زیادہ ہو جائیں گی۔ عہدیداران اس کا خیال رکھیں۔
وہ ان چیزوں کی نگرانی کریں۔ ملکی سلامتی کے ذمہ دار عہدیداران اپنے فرائض پر عمل کریں۔ ہمارے عزیز عوام جنہوں نے اس ملک کے مختلف معاملات میں ہمیشہ اپنی بصیرت اور آگاہی کا ثبوت دیا ہے، یہ سمجھیں کہ یہ تلخ واقعات کس کی طرف سے انجام پا رہے ہیں اور ان کی ماہیت کیا ہے۔ یہ آتش زنی، یہ تخریبی اقدامات، یہ انہدامی کارروائیاں، یہ لڑائیاں اور بدامنی پھیلانے کی یہ کوشش کون کر رہا ہے؟! اسے وہ بخوبی سمجھیں، توجہ رکھیں! البتہ عوام بخوبی سمجھ رہے ہیں، وہ پوری طرح متوجہ ہیں۔ وہ خود کو ان عناصر سے دور کر لیں۔ یہ ہماری سفارش ہے۔ ملک کے عہدیداران بھی اپنے فرائض پر پوری سنجیدگی سے عمل کریں۔
بہرحال ملک کے تینوں شعبوں کے سربراہوں کی طرف سے کوئی فیصلہ کیا گیا ہے، یعنی یہ صرف حکومت کی بات نہیں ہے، کسی ایک وزارت کا فیصلہ نہیں ہے، تینوں شعبوں کے سربراہوں نے مل کر ایک فیصلہ کیا ہے اور ماہرانہ بحث اور تحقیق پر مبنی فیصلہ کیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اس قضیئے میں یہ حقیر صاحب نظر نہیں ہے، تاہم ایک عام انسان کی حیثیت سے دیکھتا ہوں کہ ملک کے عہدیداران نے فیصلہ کیا ہے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے زمانے میں بھی یہی ہوتا تھا۔ عہدیداران، تینوں شعبوں کے سربراہان کچھ امور کے بارے میں فیصلہ کر لیتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ آج بھی وہی ہوتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ عوام کی مدد سے، عہدیداران کی ہم خیالی اور باہمی تعاون سے، جذبہ ہمدردی اور لگن سے کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں لطف پروردگار سے یہ کام بھی بہترین انداز میں انجام پائے گا۔