اللہ تعالی آپ کو اجر دے، صبر عطا فرمائے۔ (الحاج قاسم سلیمانی) کی زندگی بھی آپ کے لئے ایک امتحان تھی اور ان کی شہادت بھی آپ کے لئے ایک امتحان ہے۔ رنج و الم بہت زیادہ ہے، بہت بڑا غم ہے، تاہم اس کا اجر بھی اتنا ہی زیادہ ہے۔ ہمیں صبر کرنا ہوگا۔ ہمیں اللہ کے فیصلے پر رضامند رہنا چاہئے۔ بہرحال ہر شخص کو اس دنیا کی زندگی کا مرحلہ طے کرکے دوسری دنیا میں منتقل ہونا ہے، سب کو اس مرحلے سے گزرنا ہے۔ میں، آپ، دوسرے، سبھی لوگ، نوجوان، بوڑھے۔ تاہم یہ اہم ہے کہ اس منتقلی کا انداز کیا ہے۔ جو شخص راہ خدا میں شہید ہوتا ہے، اللہ کے لئے پورے اخلاص سے عمل کرتا ہے، (وہ بہترین انداز میں اس دنیا سے گزرتا ہے)۔ الحاج قاسم سو دفعہ شہادت کے بالکل قریب پہنچے۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ لیکن راہ خدا میں فریضے کی ادائیگی کے معاملے میں، جہاد فی سبیل اللہ میں وہ ہر خوف سے بے پروا تھے، انھیں کسی چیز کا خوف نہیں تھا۔ نہ دشمن کا خوف تھا اور نہ لوگوں کی باتوں کی انھیں کوئی فکر تھی، نہ سختیوں کی انھیں کوئی پروا ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر کسی ملک میں چوبیس گھنٹے گزارے، ان میں 19 گھنٹے کام کیا! کبھی کسی کے ساتھ تو کبھی کسی اور کے ساتھ میٹنگ کی، سمجھایا، دلائل پیش کئے، باتیں کیں! کیوں؟ اس لئے کہ اسے ایک اچھے نتیجے پر پہنچائیں! وہ اپنے لئے کام نہیں کرتے تھے۔ ان مقاصد کی تکمیل کے لئے کام کرتے تھے۔ الحاج قاسم ایسے انسان تھے۔ بہت اچھی زندگی گزاری، اللہ ان پر رحمتیں نازل فرمائے، اچھی زندگی گزاری۔ آپ نے بھی ان کے ساتھ اچھی زندگی گزاری۔ آپ نے بھی صبر کیا، ساتھ دیا، مشکلات کو برداشت کیا، خود آپ نے، آپ کے بچوں نے، بیٹوں نے، بیٹیوں نے مشکلیں برداشت کیں۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں ان ساری چیزوں کا اجر و ثواب ہے۔ بہرحال اس مرحلے سے اس دنیا سے آخرکار انسان کو جانا ہے اور وہ بہترین انداز میں گئے۔

ہم نے بہت سے شہیدوں کی قربانیاں دیں، سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈروں نے شہادت پیش کی، عوام الناس نے شہادت پیش کی لیکن جو شہید دنیا کے خبیث ترین انسانوں یعنی امریکیوں کے ہاتھوں شہید کیا جائے اور امریکی فخر کریں کہ انھوں نے اسے شہید کر دیا تو میری نظر میں الحاج قاسم کے علاوہ ایسا کوئی شہید نہیں ہے۔ ان کا جہاد بہت بڑا جہاد تھا۔ اللہ تعالی نے ان کی شہادت کو بہت بڑی شہادت قرار دیا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی ان شاء اللہ ان کے درجات بلند کرے اور وہ عظیم نعمت جو ان کے شامل حال ہوئی وہ انھیں مبارک ہو، واقعی وہ اس کے حقدار تھے، اس عظیم نعمت کی ان میں پوری لیاقت تھی۔ واقعی اگر الحاج قاسم بستر پر آخری سانس لیتے، ایکسیڈنٹ میں فوت ہو جاتے اور دیگر تکالیف کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہو  جاتے، کیونکہ کچھ عرصے سے ان کے سینے میں تکلیف تھی، (صدام کے ذریعے کئے گئے) کیمیکل حملے سے متاثر تھے، پریشانی تھی، تو بڑا افسوس ہوتا۔ الحاج قاسم کو اسی شان سے شہید ہونا تھا۔ البتہ ہمارے لئے یہ مرحلہ بہت دشوار ہے۔ آپ کے لئے بہت سخت ہے، شاید میرے لئے اور بھی زیادہ سخت ہو (1) لیکن بہرحال صبر کرنا ہے، ہمیں اس مرحلے کو عبور کرنا ہے۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی ان شاء اللہ ان دنوں کے بعد آپ کو خوشی کے دن دکھائے۔ جو زخم لگا ہے وہ مندمل ہو۔ ان شاء اللہ پروردگار عالم اپنے فضل و کرم سے آپ کے دلوں کو، ہمارے دلوں کو اور تمام عوام کے دلوں کو صبر عطا فرمائے۔ آج آپ نے دیکھا؟! کرمان میں الحاج قاسم کو سبھی قریب سے پہچانتے تھے۔ آج کرمان میں جو مجمع سڑکوں پر نکلا وہ تعجب خیز نہیں تھا لیکن تبریز کے لئے کیا کہیں گے؟ آپ نے تبریز میں دیکھا؟ آپ نے مشاہدہ کیا؟ کیسا جم غفیر تھا؟! عقیدت کا کیا عالم تھا؟! تبریز کے عوام نے سڑکوں پر نکلنے والے دسیوں لاکھ لوگوں نے کس طرح گریہ کیا! البتہ یہ تو ہماری آنکھ کے سامنے دکھائی دینے والی نعمتیں ہیں اور اللہ تعالی اس لئے کہ ہم سمجھ سکیں کہ شہادت کی قدر و منزلت کیا ہے، ان نعمتوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے پیش  کر دیتا ہے۔ آپ ان کے جلوس جنازہ میں بھی دیکھیں گے کہ کیا عالم ہوگا، کس انداز سے ان کا جلوس جنازہ نکلے گا! یہ چھوٹی نعمتیں ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، بڑی نعمتیں وہ ہیں جو ہم دیکھ نہیں پاتے، وہ ہیں جن کا ہمیں ادراک نہیں ہے۔ وہ ہیں کہ: «ما رَاَت عَینٌ‌ وَ لا سَمِعَت اُذُنٌ‌ وَ لا خَطَرَ عَلى قَلبِ بَشر» (۲) ہمارے دلوں میں ایسی نعمتوں کا کبھی تصور بھی نہیں آیا۔ ہمارے تصور سے بالاتر ہیں۔ یہ نعمتیں اللہ تعالی نے انھیں دی ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ، خوش قسمت ہیں وہ، خوش قسمت ہیں وہ! ان کی تمنا پوری ہو گئی، ان کی آرزو تھی، شہادت کے لئے وہ گریہ کرتے تھے، ان کے بہت سے دوست شہید ہو چکے تھے، اپنے ساتھیوں کا انھیں غم تھا تاہم خود ان کے اندر شہادت کا اتنا شوق تھا کہ اس کے لئے روتے تھے۔ ان کی آرزو پوری ہو گئی۔ ہماری دعا ہے کہ ان شاء اللہ آپ کی بھی آرزوئیں پوری ہوں، ہماری بھی آرزو پوری ہو اور اللہ تعالی اس خسارے کی بھرپائی کرے۔

آپ بھی تحمل سے کام لیجئے، صبر کیجئے، خود اس صبر کا اجر ہے، ثواب ہے۔ اللہ کی راہ میں جہاد یعنی اپنے وجود کے اندر کی جانے والی جدوجہد۔ ہر بیرونی جہاد کی بنیاد در حقیقت ایک اندرونی جہاد ہوتا ہے۔ یعنی جو شخص دشمن کے سامنے پہنچ جاتا ہے، اسے کوئی خوف نہیں ہوتا، تمام میدانوں میں اسے نہ کسی طرح کی تھکن ہوتی ہے، نہ سردی کا احساس ہوتا ہے، نہ گرمی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ شخص اگر اپنے وجود کے اندر اس جہاد اکبر میں فتحیاب نہ ہوا ہوتا تو اس بے خوفی کے ساتھ دشمن کے سامنے نہیں جا سکتا تھا۔ تو بیرونی جہاد کی بنیاد ہوتا ہے انسان کے وجود کے اندر کا جہاد۔ آپ بھی اپنے اندرونی جہاد کا سہارا لیجئے، ذکر خدا سے اپنے دلوں کو سکون عطا کیجئے، ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کے دلوں کو سکون عطا کرے۔ ہم بھی دعا کریں گے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ لوگ الحاج قاسم کے لئے کیا کیا کر رہے ہیں، اس سے آپ کے دل کو تسلی ملے گی۔ آج تہران میں، اوپر کے علاقے میں، نیچے کے علاقے میں، ہر جگہ، یہاں آپ کے گھر کے اطراف میں بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں، اسی طرح مختلف شہروں میں، سارے عوام سوگوار ہیں، سوگواری کے جذبات ہیں۔ یہ آپ کے دلوں کے لئے ایک طرح کی تسلی ہونا چاہئے۔ آپ یہ سمجھ لیجئے کہ عوام کو آپ کے والد کی قدر و منزلت کا بخوبی اندازہ ہے اور اس کی وجہ ان کا اخلاص ہے۔ یہ خلوص کا نتیجہ ہے۔ اگر اخلاص نہ ہو تو اس انداز سے لوگوں کے دل راغب نہیں ہوتے۔ دلوں کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس انداز سے سب کے دل اگر مائل ہو جاتے ہیں تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اس شخص کے اندر بہت بڑا خلوص پایا جاتا تھا، وہ بہت عظیم انسان تھے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم ان کے درجات بلند کرے۔

۱) حاضرین رونے لگے۔

۲) کنز العمّال، جلد ۱۵، صفحه‌ ۷۷۸؛ «کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور کسی انسان کے دل میں یہ خیال نہیں آیا۔»