رہبر انقلاب اسلامی نے اتوار کی صبح ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اپنے اس خطاب میں عاشورا کے واقعے کو جہاد، قربانی اور شہادت کی بلند چوٹی سے تعبیر کیا اور محرم کے عشرہ اولی اور ہفتہ حکومت کی ایک ساتھ آمد کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہفتہ حکومت کے تعین کی بنیاد جہاد اور شہادت ہی ہے کیونکہ رجائی (صدر مملکت) اور با ہنر (وزیر اعظم) نے دائمی جدوجہد، سخت کوشی، مشکلات کے ہجوم اور محاصرے کے وقت سعی و کوشش، ذاتی مفادات پر توجہ سے اجتناب، عوامی حمایت بٹورنے کے لئے اپنی ساکھ بنانے کوششوں سے پرہیز جیسے اصولوں پر کاربند رہ کر خود کو عظیم ترین جزائے الہی یعنی شہادت کا حقدار بنایا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے پیداوار کے فروغ کو بے روزگاری، معیشتی مسائل، افراط زر میں اضافے اور  قومی کرنسی کی قدر میں گراوٹ جیسی مشکلات کا اصلی حل قرار دیا اور زور دیکر کہا کہ ان میدانوں میں جہاں تک ممکن ہو کام کیجئے۔ آپ کا کہنا تھا کہ پیداوار کے راستے کی رکاوٹوں کو دور کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بے شک پابندیوں کو ہٹوانا یا ایران کے فروخت شدہ تیل کی قیمت کا بیرون ملک پھنسا ہوا پیسہ حاصل کرنا تو حکومت کے اختیار میں نہیں ہے لیکن بہت سی داخلی رکاوٹیں ہیں جنہیں پوری سنجیدگی سے کام کرکے ہٹانا چاہئے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ بے روک ٹوک امپورٹ جس کی بار بار شکایت کارخانے کر رہے ہیں اور جس کی وجہ سے یہ کارخانے دیوالیہ ہو رہے ہیں، بہت خطرناک ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملکی اقتصادی مسائل پر اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے خام مواد کی فروخت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ قیمتی معدنیاتی پتھروں کو خام شکل میں فروخت کرنا اور پھر بیرونی ممالک سے اسے ویلیو ایڈڈ ٹیکس ادا کرکے امپورٹ کرنا، جزیرہ ہرمز کی مٹی فروخت کرنا، جنوبی خراسان کا زعفران پروسسنگ کے بغیر خام شکل میں فروخت کرنا وہ مسائل ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ان شعبوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کو معاشرے کی تشکیل اور سماجی انتظام و انصرام کے انسانی نظریات کی ناکامی کا مظہر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ قتل و غارت، جنگ افروزی اور بدامنی امریکی حکومت کے معمولات میں شامل ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ معاشی منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے پابندیوں کے خاتمے یا کسی ملک کے انتخابی نتیجے کا انتظار نہ کیا جائے۔

آپ نے ملکی معیشت کے بیرونی ممالک پر انحصار کو اسٹریٹیجک غلطی قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی وسائل اور توانائیوں پر توجہ مرکوز کی جائے اور معاشی و اقتصادی مسائل کو بیرونی دنیا کی تبدیلوں سے نہ جوڑا جائے۔   

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ملکی عہدیداروں پر زور دیا کہ وہ اسلامی حکومت میں خدمت کی قدر و منزلت کو محسوس کریں کیونکہ اسلامی جمہوریہ کے لیے کام کرنا در اصل معاشرہ سازی اور سماجی انتظام و انصرام کے اسلامی رول ماڈل کی تیاری میں مدد فراہم کرنے کے مترادف ہے، بنا برایں اس کی اہمیت دوچنداں ہو جاتی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے معاشرتی انتظام چلانے میں مختلف انسانی نظریات کی ناکامی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، امریکہ کو اس ناکامی کا مظہر قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ صحت عامہ، انصاف اور سلامتی جیسے انسانی امور سب سے زیادہ امریکہ میں پامال کئے جا رہے ہیں۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اندرونی مشکلات اور  بد انتظامی علاوہ شام، فلسطین اور یمن میں قتل و غارتگری، جنگ بھڑکانا اور بدامنی پیدا کرنا امریکیوں کے معمولات کا حصہ بن گیا ہے اور وہ اس سے پہلے یہ تمام کام عراق، افغانستان نیز ویتنام اور ہیرو شیما جیسے علاقوں میں بھی انجام دے چکے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کے موجودہ قائدین کو جنہوں نے اپنے ملک کو دنیا بھر میں  رسوا کر دیا، شکست خوردہ انسانی نظریات اور مغرب زدہ افراد کے یوٹوپیا یا آئیڈیل انسانی سماج کی ناکامی کا مظہر قرار دیا۔

آپ نے فرمایا کہ معاشرہ سازی اور سماجی انتظام سے متعلق اسلام کا خودمختار ماڈل تین بنیادوں"ایمان، علم اور انصاف" پر استوار ہے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے اس گرانبہا قول کا ذکر کیا کہ " اگر مومنین ایک دوسرے کی مدد نہیں کریں گے تو شکست کھائیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ پوری انسانیت اور تمام مومنین کے لیے ایک درس ہے۔ آج جب دشمن مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں، ہمیں بھی ان کے مقابلے کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی اور کابینہ کے بعض ارکان نے حکومتی منصوبوں اور اقدامات کی رپورٹیں  پیش کیں۔

صدر روحانی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ تیل کی قیمتوں میں گراوٹ، اقتصادی پابندیاں اور کورونا وائرس کی وبا تین بڑے اقتصادی جھٹکے تھے جنہیں حکومت نے استقامتی معیشت کی پالیسیوں کی مدد سے سنبھالا۔