سوال: جناب ڈاکٹر پزشکیان! مختلف شعبوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کے ذریعے ملک کے امور کو آگے بڑھانے اور نظام کی عمومی پالیسیوں کو نافذ کرنے کے بارے میں آپ کے نظریے اور ساتھ ہی حال ہی میں مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) کے اراکین سے ملاقات میں رہبر انقلاب کی جانب سے کابینہ کی تشکیل کے عمل میں پارلیمنٹ اور حکومت کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون پر تاکید کے بعد آپ کے پاس اس ہم آہنگی اور تعمیری تعاون کو عملی جامہ پہنانے کا کیا پروگرام ہے؟
جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ صراط مستقیم کے اصولوں میں سے ایک اصول مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی ہے۔ آپ قرآن کریم کو دیکھیے: "وَ مَن یَعتَصِم بِاللہِ فَقَد ھُدِیَ اِلى صِراطٍ مُستَقیم"؛ آپ جب آیات کو دیکھتے ہیں تو ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی تاکید کی گئی ہے۔ آج اگر ہمارے ملک کے کسی حصے میں مسائل اور مشکلات ہیں تو اس کی وجہ وہ اختلافات ہیں جنھیں ہم ہوا دے رہے ہیں۔ ہمیں ان اختلافات کو ختم کرنا چاہیے۔
کابینہ کے ارکان کو مجلس میں پیش کرنے کے عمل میں یہ کام کرنے کے لیے ہم نے تمام گروہوں، جماعتوں اور سیاسی شخصیات سے کہا کہ وہ اپنے مدنظر ایسے افراد کا، جو حکومت کی مدد کر سکتے ہیں، نام پیش کریں تاکہ قومی اتفاق رائے پیدا ہو سکے۔ ان میں سے ہر ایک نے، چاہے وہ اصلاح پسند ہوں، اصول پسند ہوں یا ان کا کسی سیاسی دھڑے بندی سے تعلق نہ ہو، یا سیاسی شخصیات ہوں، کچھ فہرستیں پیش کیں۔ اب ان فہرستوں سے چھانٹ کر ہر عہدے کے لیے چار پانچ افراد کی آخری لسٹ تیار کی جا رہی ہے۔
سوال: "ایک مثبت خصوصیت جو آپ میں ہے اور جو انتخابی مہم کے دوران بھی لوگوں نے دیکھی، وہ حاشیے میں نہ پڑنا اور اشتعال انگیزی سے بچنا اور ماحول کو پرسکون کرنا تھا۔ چونکہ ملک کا انتظام، سکون اور اشتعال انگیزی سے پرہیز کا متقاضی ہے، تو اگلے چار سال میں، جب ملک کی انتظامیہ کی باگ ڈور آپ کے ہاتھوں میں ہوگي، اس سکون کو برقرار رکھنے کے لیے آپ کے کیا منصوبے اور خیالات ہیں؟
جواب: ہمارے پاس رہبر معظم کی جانب سے پیش کردہ عمومی پالیسیاں ہیں؛ انتخابی مباحثوں میں بھی، میں نے کہا تھا کہ یہ پالیسیاں صحیح راستے کی رہنمائی کرنے والی ہیں اور ہماری منزل کو طے کرتی ہیں۔ اس کے بعد، ایک پروگرام ہے جو ہمارے ماہرین، منتظمین اور ذمہ داران کو ان پالیسیوں کی جہت اور سمت میں لکھنا چاہیے۔ فطری طور پر اگر ہم اس کو قبول کریں اور ایک قانون بنائیں جو نظام کی پالیسیوں کی جہت میں ہو اور خود کو اس پر عمل درآمد کا ذمہ دار سمجھیں اور پھر اس سمت میں آگے بڑھنا چاہیں، تو اختلاف اور جھگڑا بے معنی ہے۔
جب تک ہم کسی حتمی فیصلے اور ہدف پر نہ پہنچ جائیں، تب تک ہمارا اپنا سلیقہ اور ذوق، خیال اور کوئي خاص سمت ہو سکتی ہے لیکن جب وہ پالیسی اور قانون میں تبدیل ہو جائے تو اختلاف کرنا اور اسے تسلیم نہ کرنا، افراتفری کے علاوہ کچھ بھی سامنے نہیں لائے گا۔ میں اور میری حکومت اور تمام دوسرے ادارے، اگر ان پالیسیوں پر قائم رہے اور جو پروگرام ہم لکھیں وہ ان پالیسیوں کی سمت میں ہو، تو اختلاف یا تفرقہ اور جھگڑا بے معنی ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اس قانونی راستے سے بہتر بھی ایک راستہ ہے تو اس کا بھی علمی طریقوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
ملک کی سمت اس ہدف کی طرف ہونی چاہیے جس کے ذریعے ہمیں ملک میں کامیاب ہونا ہے۔ ان جنرل پالیسیز میں موجود چیزیں، بہت قیمتی اہداف ہیں۔ نتیجتاً پارلیمنٹ، حکومت، عدلیہ اور دیگر ادارے اور سیکیورٹی ادارے سب کو ان عمومی پالیسیوں کے اہداف کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے پورا تعاون کرنا چاہیے۔
سوال: جناب ڈاکٹر پزشکیان صاحب! آپ نے انتخابی مہم کے دوران بارہا زور دے کر کہا کہ عوام اور ملک کے مسائل اور مشکلات کا حل آپ کی حکومت کی اولین ترجیح ہوگا، رہبر انقلاب نے بھی اس نقطۂ نظر کی حمایت کی اور اس سے اتفاق کیا۔ البتہ رہبر انقلاب الیکشن سے پہلے بھی اس مسئلے پر تاکید کرتے تھے اور آپ کی کامیابی کے بعد بھی انھوں نے اس مسئلے پر زور دیا۔ انھوں نے کچھ اشاریوں اور معیاروں کا ذکر کیا اور اراکین پارلیمنٹ سے ملاقات کے دوران کابینہ کے ارکان کے معیاروں کے بارے میں یہ جملہ استعمال کیا کہ کون میدان میں اترنا چاہتا ہے اور اقتصادی، ثقافتی اور ایسے ہی دوسرے میدانوں کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے۔ اس ہدف کے حصول اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک مؤثر اور کارآمد حکومت تشکیل دینے کے لیے آپ اپنے کابینہ اور حکومت میں ان معیارات اور اس نقطۂ نظر کو کس طرح عملی جامہ پہنائیں گے؟
جواب: اس وقت ملک میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم افراد کو اپنے تعلقات، دوستی یا اپنے ذہنی معیارات کے مطابق منتخب کرتے ہیں لیکن علمی لحاظ سے کچھ معیارات ہیں جو شاید ہمارے ذہن میں نہ سمائیں۔ ہم نے کہا کہ یونیورسٹیوں کے مینیجمنٹ کے پروفیسرز ایسے معیارات تیار کریں جن کے ذریعے ہم ان افراد کو منتخب کر سکیں۔ کچھ معیارات تیار کیے گئے جن کا ہم نے اعلان بھی کیا۔ پھر ہم نے سبھی سے کہا کہ اگر کسی کو ان معیارات سے کوئی مسئلہ ہے تو وہ بتائے تاکہ اگر کچھ کم ہیں تو انھیں بڑھایا جائے اور اگر کوئی معیار غلط ہے تو اسے ختم کیا جائے۔ آخر کار ہم نے کچھ معیارات تیار کر لیے۔
مثال کے طور پر کتنے سال کام کیا ہے، مثال کے طور پر جو کام انجام دیا ہے اس کا اثر کتنا رہا ہے، مثال کے طور پر ایمان داری اور کسی قسم کا منفی ریکارڈ نہ ہونا۔ تو پہلا قدم یہ تھا کہ معیارات طے کریں۔
دوسری بات یہ تھی کہ ہم ان معیارات کو معاشرے کے تمام فعال اور اہم افراد کے سامنے پیش کریں اور کہیں کہ وہ جن افراد کو جانتے ہیں، ان معیارات کے مطابق ان کا نام ہمارے پاس بھیجیں۔ تیسرا قدم یہ تھا کہ ان متعارف کرائے گئے افراد کو ان معیارات کی بنیاد پر چھانٹا جائے اور انھیں نمبر دیے جائیں۔ اور پھر جب وہ چھانٹ لیے جائيں تو، رہبر انقلاب سے ضروری مشاورت کی جائے تاکہ ہم اس اصل نتیجے تک پہنچ سکیں جس کی ہم تلاش کر رہے ہیں۔ ہم نے اپنی پوری کوشش کی کہ تمام آراء اور دھڑوں کا ان معیارات کی بنیاد پر جائزہ لیں اور مدنظر افراد کو منتخب کریں تاکہ ہم اپنا کام کر سکیں۔
سوال: کابینہ کے لیے تجویز کردہ افراد کے انتخاب کے سلسلے میں آپ کے عمومی معیارات اور ترجیحات کیا تھیں؟
جواب: قانون کی پابندی، صداقت، ایمان داری، سچائي، اچھی شہرت، جنرل پالیسیز پر یقین، قانون پر یقین اور اسلامی جمہوری نظام پر اعتقاد۔ بہرحال اگر کوئی شخص ایمان دار اور صادق نہ ہو تو اسے منتخب نہیں کیا جا سکتا۔ امیرالمؤمنین علی (علیہ السّلام) نے مالک اشتر سے فرمایا: "وَلیَکُن اَحَبَّ الاُمورِ اِلَیکَ اَوسَطُھا فِی الحَقِّ وَ اَعَمُّھا فِی العَدلِ وَ اَجمَعُھا لِرِضَى الرَّعِیَّۃ" یعنی، اے مالک! حق کے معاملے میں درمیانی راستہ اختیار کرو کیونکہ اگر تم بہت زیادہ باریک بینی سے کام لینا چاہو گے تو اس کا مصداق نہیں ملے گا، اگر انصاف کو علی کی طرح نافذ کرنا چاہو گے تو نہیں کر پاؤ گے۔ اس لیے وہ سفارش کرتے ہیں کہ "اَعَمُّھا فِی العَدلِ وَ اَجمَعُھا لِرِضَى الرَّعِیَّۃ" کی کوشش کرو، یعنی وہ کام جس میں اکثریت کی رضامندی اور خوشی ہو۔ اگر آپ بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کریں گے تو معصوم انسان نہیں پائیں گے۔
سوال: آج کل ملک اور عوام کے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک اقتصاد اور معاشی صورتحال ہے۔ آپ اور آپ کی اقتصادی ٹیم کے پاس لوگوں پر سے معاشی بوجھ کم کرنے اور ایرانی گھرانوں کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے کون سے اصلی، فوری اور وسط مدتی ترجیحات اور پروگرام ہیں؟
جواب: ہمارے ملک میں توانائی کا عدم توازن ہے اور اس وقت ہم پٹرول خریدنے کے لیے 8 ارب ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ کب تک چل سکتا ہے؟ ایک اور مثال بجلی کی کھپت کی ہے۔ ہم پورے یورپ جتنی توانائی اور بجلی وغیرہ استعمال کر رہے ہیں، یہ علمی و سائنسی نقطۂ نظر سے صحیح کام نہیں ہے۔ ایک طرف ہم اپنی فیکٹریوں کو بجلی فراہم نہیں کر سکتے اور دوسری طرف ہم بجلی، گیس اور دیگر توانائی کے ذخائر کا جتنا دل چاہتا ہے استعمال کرتے ہیں۔ تو سب سے پہلے ہمیں اپنے طرز عمل کوملک میں پیدا ہونے والے اس عدم توازن کے سلسلے میں صحیح کرنا ہوگا۔ یہ چیز ہم آہنگی اور ہمدلی سے ممکن ہے۔
سوال: تو جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں، عدم ہماہنگي کو حل کرنے کے لیے، کشیدگي آپ کی حکومت کی ریڈ لائن ہے۔
جواب: اگر ہم میں آپس میں ہم آہنگی ہو اور ہم ایک دوسرے کو تسلیم کریں تو ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔
سوال: یہ صحیح ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میں ملک کی سب سے بڑی پریشانی معیشت رہی ہے اور اس نے ملک کے منتظمین، پالیسی سازوں اور عوام کی توجہ اپنی طرف مرکوز کر رکھی ہے لیکن اہم اقتصادی مسائل کے ساتھ ساتھ، ثقافت کا مسئلہ بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے اور رہبر انقلاب نے حالیہ برسوں میں معیشت کے ساتھ ساتھ ثقافت کے مسئلے پر بھی زور دیا ہے۔ آخری سوال کے طور پر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ معیشت جیسے ملک کے تمام مسائل اور فوری امور کے ساتھ ہی آپ اپنی حکومت کی ثقافتی ترجیحات اور پالیسیوں کو کیسے بیان کریں گے؟
جواب: میں جب ایک منتظم، ماہر یا دینی ذمہ دار کی حیثیت سے کسی کو انسانی رویے، اخلاق یا کسی صفت کی تعلیم دینا چاہوں، تو سب سے پہلے انسانیت اور اخلاق میرے اپنے اندر موجود ہونا چاہیے۔ بنابریں اگر کلچر کو ٹھیک کرنا ہے تو اس کی شروعات ہمیں خود سے کرنی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرماتا ہے: "فَبِما رَحمَۃٍ مِنَ اللہِ لِنتَ لَھُم وَ لَو کُنتَ فَظًّا غَلیظَ القَلبِ لَانفَضّوا مِن حَولِک" (اے رسول! یہ اللہ کی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان لوگوں کے لیے اتنے نرم مزاج ہیں۔ ورنہ اگر آپ درشت مزاج اور سنگدل ہوتے تو یہ سب آپ کے گرد و پیش سے منتشر ہو جاتے۔) یہ میرے جیسوں کی بات نہیں ہے، یہ اللہ کا کلام ہے اور اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے۔ اللہ اپنے رسول سے فرما رہا ہے کہ اگر آپ بد اخلاق ہوتے تو کوئی بھی آپ کے گرد اکٹھا نہ ہوتا۔ پھر ہم جیسوں کی تو کوئي حیثیت ہی نہیں ہے۔
تو کلچر کے معاملے میں سب سے پہلے ہمیں خود کو ٹھیک کرنا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ ہم دوسروں کے عیوب تلاش کریں، پہلے ہم اپنے عیوب تلاش کریں۔ اگر میں ایک ٹھیک آدمی ہوں اور میرا اخلاق اچھا ہو، اگر میں لوگوں کا خیر خواہ ہوں اور لوگ یہ سمجھ جائیں کہ میں ان کا خیر خواہ ہوں تو پھر ایسا نہیں کہ لوگ مجھے نہ چاہیں۔ بنابریں ثقافت کے سلسلے میں ہمیں دوسروں کے عیب نکالنے کے بجائے زیادہ تر اپنے آپ پر توجہ دینی چاہیے۔ "دَواؤُکَ فیکَ وَ ما تَشعُرُ وَ داؤُکَ مِنکَ وَ ما تُبصِر" درد بھی ہم خود ہیں اور علاج بھی ہم خود ہیں۔
ڈاکٹر صاحب! آپ کی اجازت سے میں کچھ الفاظ کہوں گا، آپ کے ذہن میں جو پہلی چیز آتی ہے، وہ بتائيں۔
پرچم- ایران
عوام- اتفاق و یکجہتی
قاسم سلیمانی- افتخار، حریت اور ایرانی غیرت
ڈاکٹر صاحب ہم بہت شکر گزار ہیں۔
اللہ آپ کو کامیاب کرے۔