«بسم ‏اللَّه الرّحمن الرّحیم»

قال اللَّه الحکیم: یا اهل الکتاب: تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم الاّ نعبد الا اللَّه و لا نشرک به شیئاً و لا یتخذ بعضنا بعضاً ارباباً منّ دون اللَّه.

دو ادیان کے مفکرین اور علما کی گفتگو: اسلام و عیسائیت اگر آج کلیدی ترین انسانی مسائل کے بارے میں مشترکہ موقف اختیار کریں تو وہ بہت مفید اور بابرکت ہوگا۔ بے شک ان میں ایک اہم مسئلہ انسانی زندگی میں روحانیت کے وجود اور ترویج کے خلاف مسلسل جاری جنگ کا ہے۔ یہ جنگ در حقیقت دنیا کی بے لگام سیاسی و اقتصادی طاقتوں کی جانب سے عجلت پسندانہ اور سراسیمگی پر مبنی رد عمل ہے جو پیسے، پیشرفتہ تشہیراتی وسائل اور مہلک و تباہ کن ہتھیاروں سے لیس ہیں۔

20 اپریل 1993

استکبار کی نظر میں جو چیز اہم ہے وہ دین اسلام ہے۔ وہ اسلام پر وار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہم سب کو سمجھنا ہوگا۔ ان کے لئے شیعہ سنی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جو بھی قوم، جو بھی آبادی، جو بھی شخصیت اسلام سے مربوط ہو، اسے وہ خطرناک سمجھتے ہیں اور اس میں وہ حق بجانب بھی ہیں۔ واقعی استکبار کے تسلط پسندانہ عزائم و اہداف کے لئے اسلام ایک خطرہ ہے۔ غیر مسلم اقوام کی بات ہے تو اسلام ان کے لئے خطرہ نہیں ہے۔ استکباری طاقتیں اس کے بالکل برعکس پروپیگنڈہ کرتی ہیں۔ وہ آرٹ کی مدد سے، تشہیراتی وسائل کی مدد سے، سیاست کی مدد سے، ذرائع ابلاغ کی مدد سے یہ پروپیگنڈا کرتی ہیں کہ اسلام دیگر اقوام کا مخالف ہے۔ دیگر ادیان کا مخالف ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اسلام دیگر ادیان کا مخالف نہیں ہے۔ اسلام وہی دین ہے جس نے غیر مسلم علاقوں کو جب فتح کیا تو وہاں کے لوگوں نے اسلام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ ہمارے ساتھ ہمارے سابق حکمرانوں سے زیادہ مہربان ہیں۔ شامات کے اسی خطے میں جب مسلم فاتحین داخل ہوئے تو اس علاقے کے یہودیوں اور عیسائیوں نے ان سے کہا کہ آپ مسلمان ہمارے ہمدرد ہیں۔ انھوں نے عوام الناس کے ساتھ محبت آمیز برتاؤ کیا۔ اسلام شفقت کا دین ہے، رحمدلی کا دین ہے، رحمۃ للعالمین ہے۔ اسلام عیسائیت سے کہتا ہے: «تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم» ان کے ساتھ اشتراکات پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اسلام دیگر اقوام کا مخالف نہیں، دیگر ادیان کا دشمن نہیں ہے۔ اسلام ستم کا مخالف ہے، ظلم کا مخالف ہے، استکبار کا مخالف ہے، تسلط پسندی کا مخالف ہے۔ تسلط پسند عناصر، ظالم و مستکبر اس حقیقت کے برعکس تصویر دنیا میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہیں۔ ہالیوڈ سے لیکر تشہیراتی وسائل، اسلحے اور فوجی توانائیوں تک سارے وسائل استعمال کرکے اس حقیقت کے برخلاف تصویر پیش کرنے کے لئے پروپیگنڈا کرتے ہیں، اسے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اسلام اور اسلامی بیداری خطرہ ضرور ہے لیکن استکبار کے لئے۔ وہ جہاں بھی اس خطرے کو دیکھتے ہیں اس پر حملہ کرتے ہیں، اپنے حملوں کی آماجگاہ بنا دیتے ہیں۔ خواہ وہ سنی ہو یا شیعہ۔ استکبار فلسطین میں حماس کے بارے میں وہی سوچ اور وہی رویہ رکھتا ہے جو لبنان کے حزب اللہ کے بارے میں ہے۔ وہ سنی تنظیم ہے اور یہ شیعہ تنظیم ہے۔ دیندار اور فرض شناس مسلمانوں کے بارے میں ہر جگہ استکبار کا رویہ یکساں ہے۔ خواہ وہ شیعہ ہو یا سنی۔ تو کیا یہ سمجھداری کی بات ہے کہ ہم اپنے اندر ایک دوسرے کے بارے میں فرقہ وارانہ سوچ رکھیں؟ قومیتی تفریق کی سوچ رکھیں؟ آپس میں دست و گریبان رہیں؟ ایک دوسرے سے الجھ جائیں اور یہ فراموش کر دیں کہ مشترکہ دشمن کا ہدف یہ ہے کہ ہمیں مٹا دے اور ہم اپنی توانائیاں اس طرح ضائع کریں؟

6 اپریل 2007

دنیائے اسلام کے لئے مہلک زہر تفرقہ ہے۔ یہ تفرقہ قوموں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیتا ہے، دلوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیتا ہے۔ اس وقت دشمن، اسرائیل اور امریکہ کی یہی خفیہ ایجنسیاں عراق میں کچھ لوگوں کو اشتعال دلاتی ہیں کہ وہ شیعوں سے جن کی حکومت میں اکثریت ہے، مقابلہ کریں، ان سے لڑیں، بدامنی پیدا کریں اور اسی بدامنی کو بہانہ بنا کر عراق میں اور بغداد میں وہ اپنی پوزیشن مضبوط کر رہی ہیں۔ عراق میں جمے رہنے کے لئے امریکہ کو بہانہ چاہئے اور یہ بہانہ بدامنی ہے۔ وہ عراقی حکومت کو ضروری خدمات انجام دینے سے روکنے کے لئے اس ملک میں بدامنی پیدا کرتے ہیں تاکہ عراق میں موجود رہنے کا بہانہ انھیں حاصل رہے۔ وہ اختلافات کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ اہل سنت کو شیعوں سے اور شیعوں کو اہل سنت سے اس قدر بدگمانی میں مبتلا کر دینا چاہتے ہیں کہ وہ اتنے زیادہ اشتراکات کے باوجود ایک ساتھ نہ رہ سکیں۔ یہ دشمن کا کام ہے۔ اس حقیقت کو ہم کیوں نہیں سمجھ پاتے؟ برسوں سے، آیت اللہ بروجردی مرحوم  رضوان اللہ تعالی علیہ کے زمانے سے اور مصر کے بعض بزرگ علمائے اہل سنت کے دور سے جب اختلافات کو حل کرنے کی فکر پیدا ہوئی، یہ سوچ سامنے آئی کہ سنی اپنے عقیدے پر رہیں، شیعہ اپنے عقیدے پر رہیں، آپ اپنے اپنے عقیدے پر قائم رہیں، لیکن ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملا کر کھڑے ہو جائیں۔ قرآن پیغمبر اکرم کی زبانی اس زمانے کے عیسائیوں سے کہتا ہے: «تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم الاّ نعبد الاّ اللَّه و لا نشرک به شیئا» تو پھر مسلمان فرقے جن کا خدا ایک ہے، جن کا نبی ایک ہے، جن کا قرآن ایک ہے، جن کا قبلہ ایک ہے، جن کی عبادت ایک ہے، اتنے سارے اشتراکات و مسلّمات کے کے باوجود کچھ اختلافی موضوعات کو دشمنی و عناد کا ذریعہ بنائیں! یہ غداری نہیں ہے؟ یہ دشمنوں کی دشمنی اور غافلوں کی غفلت کا نتیجہ نہیں ہے؟ جو بھی اس سلسلے میں کوتاہی کرے وہ اللہ کے نزدیک جوابدہ ہوگا، خواہ وہ شیعہ ہو یا سنی۔

8 اگست 2006