"تمہارا کیا نام ہے؟

قاسم!

فیملی نیم؟

سلیمانی!

پڑھائی نہیں کرتے؟

کیوں نہیں، لیکن کام بھی کرنا چاہتا ہوں۔

چند منٹ بعد ایک پلیٹ چاول اور سالن آ گیا۔ میں اسے پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اسے قورمہ سبزی کہتے ہیں۔"

یہ 14 سال کے قاسم سلیمانی کی سرگزشت ہے تقریبا 1972 کے آس پاس کے دور کی۔ جب انہوں نے اپنے آبائی گاؤں کو چھوڑا اور صوبے کے مرکزی شہر پہنچ گئے، جہاں وہ اپنے خیال کے مطابق کام کرکے والد کا قرضہ اتارنا چاہتے تھے۔ آپ خود کو اس زمانے کے اہل کرمان کی جگہ پر رکھئے! ایک قبائلی دیہات کے نو عمر اور ناتجربہ کار بچے کو جو زندگی میں پہلی دفعہ قورمہ سبزی کھا رہا تھا، کون کام دینے پر تیار ہوتا؟! قاسم نے لیکن عہد کیا تھا کہ والد کا قرض ادا کرنا ہے۔ وہ اپنے عہد پر قائم رہا۔

بچپن اور نوجوانی کے ایام کے بارے میں الحاج قاسم کی ڈائری کے مطالعے سے ایک چیز بہت اچھی طرح قاری کے ذہن میں بیٹھ جاتی ہے کہ بڑے کارنامے انجام دینے کے لئے بہت زیادہ وسائل، رئیس زادہ ہونے اور لاؤ لشکر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس اتنا کافی ہے کہ اللہ کے نیک بندے بنئے۔ جہاں مرضی پروردگار کا علم ہے آگاہانہ اس راہ پر چلئے اور جہاں اس کی مرضی کا علم نہیں وہاں اپنی پاکیزہ فطرت کی آواز سنئے اور کسی چیز سے نہ ڈرئے۔ اگر ایسا ہو گیا تو اللہ آپ کو سعہ صدر عطا کرے گا کہ آپ بڑے سے بڑا غم بھی بخوشی قبول کر لیں گے اور آپ کے بازوؤں کو ایسی قوت عطا کرے گا کہ وہ اس کی امانت کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائیں گے۔ آپ کا نام بڑا ہو جائے گا کیونکہ آپ ایک عظیم راستے کے مسافر بن گئے ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو عمر کے پانچویں اور چھٹے عشرے میں بھی آپ کی زندگی اسی پاک و پاکیزہ انداز میں جاری رہے گی جو پاکیزگی بارہ تیرہ سال کی عمر میں آپ کے اندر ہوتی ہے۔

خواہ وہ 1976 کا سال ہو، شہر کرمان ہو، قبائلی والدین کے سائے سے آپ دور ہوں لیکن وہی پاکیزگی و طہارت رہے گی جو گاؤں کی زندگی میں ہوتی ہے، پوری عمر پاکیزہ فطرت کی رہنمائی کے مطابق گزرتی ہے، کبھی غلط سمت میں قدم نہیں بڑھتے۔

بعد کے برسوں کی بہت سی خصوصیات و اوصاف اور حاج قاسم کی شخصیت کے شکوہ و وقار کی نشانیاں ان کے بچپن اور لڑکپن کے دور میں ہی دیکھی جا سکتی ہیں۔ سارے انسان ایسے ہی ہوتے ہیں لیکن فن تو یہ ہے کہ زندگی کے اندر، نفسانی خواہشات و معصیت کے طوفانوں کے ہجوم میں، انسانی فطرت کے پاکیزہ پودے کا خیال رکھا جائے۔ دوسرے بہت سے افراد اور حاج قاسم کا فرق یہیں پر واضح ہوتا ہے۔ ان کی انسانی فطرت کے پاکیزہ پودے کی بخوبی آبیاری ہوئی۔ اس قدر اچھے انداز میں کہ برسوں بعد ایک با عظمت درخت، عزت و شکوہ و پائیداری و استقامت نیز بندگی پروردگار سے متبرک درخت اپنے پھل دینے لگتا ہے۔

حاج قاسم نے اسی انداز میں اپنی سادہ، ہر آلودگی سے پاک، غربت و محرومیت میں ڈوبی ہوئی زندگی کے حالات اسلامی انقلاب کی تحریک اور جدوجہد کے وسطی بروسوں تک بیان کئے ہیں۔ خواہ وہ بچپن کا دور ہو جب وہ اپنے خاندان اور والدین کے ساتھ ٹھنڈے اور گرم علاقوں کے درمیان آمد و رفت میں مصروف رہے، خواہ وہ دور ہو جب نوعمر لڑکے کے طور پر کرمان نام کی بڑی جگہ پر قدم رکھتے ہیں، خواہ وہ دور ہو جب انھوں نے 1974 میں شاہ ایران کے خلاف باتیں سنیں جو ان کے بقول اس وقت تک ان کے ذہن میں بہت اہم شخص تھا، خواہ وہ دور ہو جب 1977میں وہ امام رضا علیہ السلام کے حرم کی زیارت کے طفیل میں اور اس سورج کی روشنی کی برکت سے اس سرچشمے سے متصل ہوئے۔ قاسم کی زندگی کی ساری داستان یہی ہے۔

وہ پاکیزہ فطرت کی آواز پر عمل آوری نیز اپنے سادہ زیست اور گاؤں میں خیموں میں زندگی گزارنے والے والدین کی پاکیزہ و پر خلوص تربیت کے نتیجے میں نفسانی وسوسے اور معصیت سے محفوظ رہے۔ اللہ بھی ان کی حفاظت کرتا رہا اور زمانے کے حوادث و فتنوں کے طوفان میں انھیں اکیلا اور بے سہارا نہیں چھوڑا۔ گویا قاسم کی ساری زندگی بس یہی تھی کہ بعد کے برسوں کے ان کے دوست صیاد شیرازی کے بقول «من کان لله کان الله له» جو بھی اللہ کے ساتھ ہو اللہ اس کے ہمراہ ہوتا ہے۔ خود خداوند عالم کے بقول «وَالَّذينَ جاهَدوا فينا لَنَهدِيَنَّهُم سُبُلَنا»۔ آج کل کے لوگوں کے بقول جو لوگ میری راہ پر قدم بڑھاتے ہیں، ان کے لئے میں ہدایت کا راستہ واضح اور '4 لین' (کشادہ) کر دیتا ہوں۔ اسی کو الگ عبارت میں صدیوں پہلے عطار نیشاپوری نے بیان کیا ہے:

«تو پای به راه در نِه و هیچ مپرس؛ خود راه بگویدت که چون باید رفت...»

کرمان رابر قنات ملک کے پہاڑوں اور ٹیلوں کا پاکیزہ اور ہر آلودگی سے دور قاسم اپنی عمر کے آخری لمحے اور بغداد ایئرپورٹ پر اپنی معراج تک فوق الذکر عبارت کے کامل و اتم مصداق تھے۔

انقلاب سے ٹھیک ایک سال قبل خمینی سے آشنائی کے نتیجے میں قاسم کی زندگی بدل گئی اور بندگی پروردگار کی رفتار میں کئی گںا اضافہ ہو گیا۔ نوجوان قاسم کی زںدگی کو برق رفتاری عطا کرنے والے خمینی تھے۔ وہ انھیں خصوصیات، سیرت اور طرز زندگی کا عملی نمونہ اور تصویر تھے جس کی تعلیم برسوں تک انھیں اپنے والدین اور اپنی پاکیزہ فطرت سے ملی تھی اور قاسم نے جسے بغور سنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے عہد کر لیا کہ زندگی کے آخری لمحے تک خمینی کے سپاہی بنے رہیں گے۔ زندگی کی آخری سانس تک وہ اپنے عہد پر قائم رہے۔ آپ نے ضرب المثل سنی ہے کہ سر چلا گیا لیکن عہد کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔ قاسم کا سر واقعی چلا گیا لیکن عہد کا دامن نہیں چھوٹا۔۔۔۔

'میں کسی چیز سے نہیں ڈرتا تھا' وہ سوانح زندگی ہے جسے حاج قاسم نے اپنے زخمی ہاتھ سے رقم کیا ہے۔ کرمان کے دور افتادہ گاؤں کے اندر سے نکلنے والے مرد کی زندگی کا تذکرہ جس میں اس نے اپنی سادہ اور پرکشش زندگی کے کچھ حالات آپ کے لئے بیان کئے ہیں۔ یہ اس مرد کی شخصیت کی تعمیر کا قصہ ہے جو چرواہے سے اس مقام پر پہنچا جو آسمانوں کی وسعتوں کی بلندی کا مقابلہ کرے۔

***

اس کتاب کا پہلا نسخہ بدھ 16 دسمبر 2020 کو رہبر انقلاب اسلامی سے شہید سلیمانی کے اہل خانہ کی ملاقات کے اختتام پر رہبر انقلاب اسلامی کی خدمت میں پیش کیا گيا۔ شہید سلیمانی کی بیٹی نے کتاب کے مقدمے میں ذکر کیا ہے:

میں حاج قاسم کی نمائندگی میں آپ کے لئے ایک تحفہ لیکر گئی تھی۔ یہ تحفہ حاج قاسم کا خود نوشت زندگی نامہ تھا جسے ہم شہید کی برسی کے موقع پر کتاب کی شکل میں شائع کرنا چاہتے تھے۔ میرے ہاتھ میں اسی کتاب کا ابتدائی نسخہ تھا۔

ملاقات ختم ہونے کے بعد اسے میں نے رہبر انقلاب کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے اس کے بارے میں چند سوالات کئے اور اس چھوٹے سے تحفے کو بڑی محبت سے قبول کر لیا۔

ملاقات کے چند دن بعد ان لمحات میں جب کتاب کو حتمی شکل دی جا رہی تھی رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے ایک عبارت مجھے موصول ہوئی۔ آپ نے کرم فرمائی کی اور مطالعے سے قبل ایک نوٹ اپنے وفادار سپاہی کی یاد میں تحریر فرمایا تھا۔ محبت و شفقت میں ڈوبی یہ عبارت اس کتاب کے پیکر کے لئے روح بن گئی۔:

جو بھی شئے ہمارے عزیز شہید کے ذکر کو نمایاں کرے بصارت نواز اور دلنواز ہے۔ ان کی یاد کو اگرچہ خداوند عالم نے بام ثریا پر پہنچا دیا اور اس طرح ان کے اخلاص و عمل صالح کا دنیوی اجر بھی انھیں عطا فرمایا لیکن ہم سب کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ اس کتاب کو ابھی میں نے پڑھا نہیں ہے لیکن بظاہر یہ اسی راہ میں اٹھایا گیا ایک قدم ثابت ہو سکتی ہے۔

سید علی خامنہ ای

27 دسمبر 2020