ایک زاویے سے یہ بات سنتے ہی ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ گویا وہ بنیادی طور پر غیر ملکی ویکسین کی درآمد کے ہی مخالف ہیں لیکن انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر دوسری جگہوں سے ویکسین حاصل کی جائے، جو قابل اعتماد جگہ ہو، تو اس میں کوئي حرج نہیں ہے۔ اس سے یہ واضح ہو گيا کہ غیر ملکی ویکسین کی درآمد پر قدغن صرف ان تین مغربی ملکوں کے سلسلے میں ہے۔

یہیں پر یہ سوال بھی پیش آتا ہے کہ کیوں ایک سماج کا رہبر، ایسے حالات میں جب اس کا ملک کورونا کی وبا کے دوران، دنیا کی دیگر اقوام کی طرح ویکسین اور دواؤں کا ضرورت مند ہے، وہ بعض ممالک سے ویکسین کی درآمد پر اپنی کھلی مخالفت کا اعلان کرے جبکہ وہ ممالک کورونا کی ویکسین کی تیاری کا دعوی بھی کر رہے ہیں؟ کیا رہبر انقلاب کی جانب سے اس طرح کا رسک منطقی ہے؟ کیا ایران اور امریکا کی دشمنی اور ایران اور برطانیہ یا کبھی کبھی فرانس کے درمیان بعض اختلافات اس بات کا سبب بنے ہیں کہ وہ اختلافات کو علاج معالجے کے دائرے میں بھی لے آئيں؟ ایک جملے میں یہ کہ صرف یہی تین ملک کیوں؟ کیا یہ صرف رہبر انقلاب کا نظریہ ہے اور ایک طرح سے وہ اپنا نظریہ اپنی قوم پر مسلط کر رہے ہیں؟

#سلام_گرگ یا بھیڑیے کا سلام ایسا ہیش ٹیگ ہے جو ان دنوں ایرانیوں نے سوشل میڈیا پر فرسٹ ٹرینڈ میں تبدیل کر دیا ہے اور یہ ایک طنزیہ موضوع لگتا ہے۔ لیکن اس ہیش ٹیگ کے ساتھ جو میسیج اور پوسٹ سامنے آ رہے ہیں انھیں پڑھنے اور ان کا جائزہ لینے سے ایک عجیب نظریے کا پتہ چلتا ہے۔ اس ہیش ٹیگ کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ 'بھیڑیے کا سلام' ایک ایرانی ضرب المثل کا حصہ ہے۔ وہ ضرب المثل کچھ یوں ہے کہ "سلام گرگ بی طمع نیست!" یعنی بھیڑیے کا سلام بغیر لالچ کے نہیں ہو سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی دن کسی بھیڑیے نے آپ کو سلام کیا تو آپ چوکنا ہو جائيے کہ یقینا اس میں کوئي لالچ اور نا خوش آئند اور پنہاں مقصد پوشیدہ ہے۔ زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ سلام_گرگ ہیش ٹیگ مغربی اداروں کی جانب سے بظاہر دو خیر اندیشانہ واقعات کے جواب میں ٹرینڈ کر رہا ہے۔ ایک خبر، ایران کو کورونا کی ویکسین کے ڈیڑھ لاکھ ڈوز کا تحفہ دیے جانے کی ہے اور دوسری، مغربی ملکوں سے ویکسین خریدنے کے لیے دواؤں پر پابندی کے خاتمے کی ہے۔ کیا ایرانی، محبت کا جواب نفرت سے دے رہے ہیں؟ کیا ایرانیوں کے درمیان چاہے وہ عوام ہوں یا حکام، سازش کا توہم پایا جاتا ہے کہ وہ اپنی واضح مصلحت کو بھی نہیں سمجھ پا رہے ہیں اور ان باتوں کو بدگمانی کے ساتھ اور غیر منطقی نظر سے دیکھ رہے ہیں؟

ان سوالوں اور ان مبہم باتوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں تھوڑی کاوش کرنی ہوگي تاکہ کچھ مغربی ملکوں کے سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی اور ایرانی عوام (کم سے کم ان کے ایک بڑے حصے) کی بدگمانی کے سلسلے میں متفقہ نظریے کا سراغ لگا سکیں۔ رہبر انقلاب اسلامی کی اسی تقریر میں جب انھوں نے فرانس کا نام لیا تو اس واقعے کی طرف اشارہ کیا جس کے بارے میں ہم نے کم ہی سنا ہے۔ انھوں نے کہا تھا: "البتہ فرانس کے سلسلے میں بھی میری اچھی رائے نہیں ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے دامن پر آلودہ خون کے دھبے ہیں۔"

سوال یہ ہے کہ آلودہ خون کا کیا معاملہ ہے؟

انیس سو اسّی کے عشرے کےاوائل میں ایران میں مسعود نامی ہیموفیلیا کے مریض ایک چھے سالہ بچے کے گھر والوں نے ایک تکلیف دہ واقعے کی شکایت کی۔ وہ بچہ، خون لیے جانے کے دوران ایڈز کی بیماری میں مبتلا ہو گیا تھا۔ اس واقعے پر لوگوں کی توجہ مرکوز ہو جاتی ہے اور اس سلسلے میں تحقیقات شروع ہو جاتی ہیں۔ آخر میں جو بات واضح ہوتی ہے وہ زیادہ ناگوار اور تکلیف دہ ہوتی ہے: سنہ 1983 اور 84 میں ایران اور عراق جنگ کے دوران فرانس کے میریو انسٹی ٹیوٹ نے، جو اس وقت فرانس کی سانوفی آونتی کمپنی کی ملکیت ہے، ایچ آئي وی سے آلودہ خون جمنے کے فیکٹرز، ایران اور کئي دیگر ملکوں میں ہیموفیلیا کے مریضوں کے استعمال کے لیے برآمد کیے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ہولناک واقعے کے پہلو بھی وسیع تر ہوتے گئے۔ ہیموفیلیا اور تھیلیسمیا کے مریض، جنھوں نے ان بلڈ پروڈکٹس کو دوا کے طور پر استعمال کیا تھا، اس مہلک وائرس میں مبتلا ہو گئے اور یکے بعد دیگرے ان کی موت ہو گئي۔

اس ہولناک اور مذموم واقعے کے بعد ایرانیوں کا ایک اور سوال ہے:

اگر امریکی، برطانوی اور فرانسیسی حکام کے لیے ایرانی انسان کی جان اہم ہے تو پھر کیوں انھوں نے ایران پر بنیادی اور کمیاب دواؤں کی پابندی لگائي ہے؟ کیوں فارما کمپنیوں کو ایران دوائيں بھیجنے سے روک دیا گيا ہے اور انھیں دھمکی دی گئي ہے کہ اگر انھوں نے دوائيں ایران بھیجیں تو ان پر بھاری جرمانے لگائے جائيں گے؟ ای بی (Epidermolysis bullosa) کی بیماری میں مبتلا ایک بچے کی امریکا یا برطانیہ اور فرانس سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے کہ اس کی دوا پر پابندی عائد کی جائے؟

ظاہر سی بات ہے کہ اس عدم اعتماد اور بدگمانی کی جڑیں، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا ہے اور جسے ایرانی یوزرس نے سوشل میڈیا پر #سلام_گرگ یا #اطمینان_بخش_ویکسین خریدیے جیسے مختلف ہیش ٹیگس کے ذریعے ظاہر کیا ہے، صرف میڈیکل کے شعبے کے واقعات اور امریکا، برطانیہ اور فرانس کے ساتھ تعاون جیسے کسی ایک خاص موضوع تک محدود نہیں ہو سکتیں۔ اصولی طور پر یہ سوچ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور مختلف واقعات کے تجربات سے مضبوط ہوئي ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ایرانیوں کو خاص طور پر عصر حاضر میں، ویسی صداقت نہیں ملی ہے جیسی انھوں نے ان حکومتوں کے سلسلے میں اپنائي ہے۔

ڈاکٹر مصدق کی حکومت کے خلاف بغاوت(1)

پہلوی آمریت کی حمایت، صدام کو کیمیائي ہتھیاروں سے مسلح کرنا(2)

ایران کے خلاف اس کی ہر ممکن مدد کرنا(3)

ایران کے مسافر بردار طیارے کو میزائیل سے مار گرانا(4)

ایم کے او جیسے دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی اور پیرس اور نیویارک میں ان کی پشت پناہی(5)

ایرانیوں اور ان کے ہمسایوں کے درمیان اختلاف ڈالنا(6)

اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی طاقت میں مداخلت کرنا(7)

ایرانوفوبیا کی جھوٹی لہر پیدا کرنا(8)

ایران کے خلاف پروپیگنڈا چینلز شروع کرنا، بڑے پیمانے پر سماجی تفرقہ اندازی کی کوشش، ہمہ گیر اور بقول خود ان کے مفلوج کر دینے والی پابندیوں(9) کا ساتھ دینا اور اسی طرح کی بہت سی باتیں ان تین ملکوں خاص طور پر امریکا اور برطانیہ کے سلسلے میں ایرانی عوام کے تاریخی تجربات کا حصہ ہیں۔

البتہ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ایک قوم اور ایک معاشرہ صرف اپنے ہی تجربات کو بنیاد بنائے، عصر حاضر میں بھی دیگر اقوام کے خلاف ان تین ملکوں کے بزدلانہ ہتھکنڈوں اور سامراجی فتنوں کی تاریخ پڑھ کر ایک ہوشیار معاشرہ ان تین ملکوں کے مقابلے میں پوری آگہی سے اپنا انتخاب کر سکتا ہے۔

فرانس کی جانب سے الجزائر میں خفیہ ایٹمی تجربہ(10)

برطانیہ کی جانب سے امریکا کے مقامی افراد کے درمیان وبائي اور مہلک ہتھیاروں سے آلودہ کمبلوں کی تقسیم(11)

امریکا کی جانب سے گواٹیمالا کے سپاہیوں، قیدیوں اور ذہنی مریضوں کو سفلیس یا آتشک کی بیماری میں مبتلا کرنا(12)

امریکا کی جانب سے ایڈز اور ہیپاٹائٹس سے آلودہ امریکی قیدیوں کے خون کی کینیڈا کے بلڈ بینک کو فروخت(13) اور اسی طرح کے دیگر ظاہر اور پوشیدہ معاملے۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے بیان کو پڑھنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ بدگمانی، پروپيگنڈے کے برخلاف آئيڈیالوجیکل یا مغرب دشمنی پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ پوری طرح مغرب کے رویے اور کارکردگی کے پیش نظر ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے 14 جون سنہ 2016 کو ملکی حکام سے ملاقات میں کہا تھا: اسلامی جمہوریہ ایران نے فرانس کے خلاف کیا دشمنی کی ہے؟ چونکہ امام خمینی کچھ عرصہ وہاں رہے تھے اس لیے فرانس، انقلابی فورسز کی نظر میں قابل ستائش بھی تھا لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ایٹمی معاملے میں فرانسیسیوں نے بیڈ پولیس کا کردار ادا کیا، البتہ یہ پروگرام امریکی چلا رہے ہیں، یہ بات واضح تھی لیکن ایٹمی معاملے میں سب سے برا موقف فرانس نے اختیار کیا؛ ہم نے فرانسیسیوں کے ساتھ کیا کیا تھا؟ کیا کوئي دشمنی کی تھی؟

مغرب دشمنی یا پوری مغربی دنیا سے بدگمانی کے لیبل کی نفی کے لیے 12 اپریل سنہ 2016 کو اطالوی وزیر اعظم سے ان کی ملاقات کی طرف بھی اشارہ کیا جا سکتا ہے جس میں رہبر انقلاب اسلامی نے کہا تھا کہ اٹلی کے سلسلے میں ایران کی سوچ، ایک مثبت اور اچھی سوچ ہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے یہ تک ظاہر کیا ہے کہ ماضی کے بعض واقعات کو نظر انداز کر دینا چاہیے اور اسی طرح تعاون اور آپسی لین دین کی تاریخ پر غیر منصفانہ طریقے سے نظر نہیں ڈالنی چاہیے اور اس ملک کو بھی دیگر ملکوں کی صف میں نہیں کھڑا کرنا چاہیے جس نے ایران کے لیے کم مسائل کھڑے کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے 10 اکتوبر سنہ 2012 کو بجنورد شہر کے عوام سے خطاب میں کہا تھا: "یورپی ممالک جو اپنے آپ کو پیش مرگ کی طرح امریکا پر قربان کر رہے ہیں، حماقت کر رہے ہیں۔ بہت سے یورپی ملکوں کے بارے میں ہمارے عوام کی کوئی بری یادیں نہیں ہیں۔ فرانس، اٹلی اور اسپین کے تعلق سے ہماری کوئي بری یاد نہیں ہے۔ ہاں، برطانیہ کی بہت سی بری یادیں ہیں، برطانیہ کو ہم 'خبیث برطانیہ' کہتے ہیں لیکن دوسرے یورپی ملکوں کو نہیں۔ یہ لوگ اب جو کام کر رہے ہیں، یعنی امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں، جو ہماری نظر میں پوری طرح سے غیر عاقلانہ اور غیر دانشمندانہ ہے، اس سے ایرانی قوم کی دشمنی کو دعوت دے رہے ہیں، اپنے آپ کو ایرانی قوم کی نظر میں نفرت انگیز بنا رہے ہیں۔"

کل ملا کر یہ کہ کسی سماج کی حکومت اور اس کا انتظام چلانا عالم خیال یا آرزو نہیں ہے بلکہ اس کے برخلاف یہ دانشمندی، تجربے اور امکانات کی وادی ہے۔ اگر آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اور ایران کے عوام مذکورہ تین ملکوں سے ویکسین کی خریداری کے سلسلے میں محتاط ہو گئے ہیں تو اس کی وجہ وہ تشویش ہے جو کسی نقصان اٹھانے والے انسان کو ہوتی ہے۔ اس بات کی طرف سے تشویش اور بدگمانی کہ شاید یہ تین ممالک ویکسین دینے میں اپنی شخصیت کے ہائیڈ(14) پہلو میں ہیں اور اس سے ان کا کچھ دوسرا ہی مقصد ہے جیسے یہ کہ وہ اس ویکسین کو دوسری اقوام پر آزمانا چاہتے ہوں خاص طور پر اس لیے کہ ان ملکوں کی تیار کردہ ویکسین نے خود ان ممالک میں ہی کوئي خاص کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔

 

1- https://www.npr.org/2019/01/31/690363402/how-the-cia-overthrew-irans-democracy-in-four-days

2- https://www.wsws.org/en/articles/2003/03/chem-m13.html

3- https://www.globalpolicy.org/iraq-conflict-the-historical-background-/us-and-british-support-for-huss-regime.html

4- https://edition.cnn.com/2020/01/10/middleeast/iran-air-flight-655-us-military-intl-hnk/index.html

5- https://www.theguardian.com/commentisfree/2012/sep/23/iran-usa

6- https://www.tehrantimes.com/news/455959/FM-Zarif-urges-U-S-to-withdraw-from-the-region

7- http://www.xinhuanet.com/english/2021-01/05/c_139641559.htm

8- https://www.tehrantimes.com/news/452473/How-U-S-led-Iranophobic-propaganda-contributed-to-Arab-normalization

9- https://www.dw.com/en/how-trumps-sanctions-are-crippling-irans-economy/a-49335908

10- http://america.aljazeera.com/articles/2015/3/1/algerians-suffering-from-french-atomic-legacy-55-years-after-nuclear-tests.html

11- https://edition.cnn.com/2020/04/14/us/native-americans-coronavirus-blake/index.html

12- https://www.britannica.com/event/Guatemala-syphilis-experiment/Study-flaws-and-ethical-considerations

13- https://www.economist.com/united-states/1999/03/11/poison-from-the-prisons

14- مشہور ناول Strange Case of Dr Jekyll and Mr Hyde میں ڈاکٹر جیکل کی دوہری شخصیت کا منفی پہلو جس کا نام مسٹر ہائیڈ تھا۔