قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج وزارت خارجہ کے اعلی عہدہ داروں اور دیگر ممالک میں ایران کے سفرا اور نمایندوں سے ملاقات میں اسلام جمہوری نظام کی موجودہ عالمی پوزیشن اور مسلسل جاری ترقی و پیشرفت کے عمل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ضروری اقدامات اور تدابیر پر روشنی ڈالی۔ آپ نے ادارہ خارجہ امور کے دانشمندانہ، شجاعانہ اور ذمہ دارانہ طرز عمل کے تقاضے بیان فرمائے۔ آپ نے کہا کہ وزارت خارجہ کوچاہئے کہ اسلامی نظام کی روز افزوں توانائیوں کو منعکس کرنے کے ساتھ ہی ملک کے مفادات کے لئے ان سے استفادہ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی جمہوری نظام نے گزشتہ تیس برسوں میں مسلسل چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے بہت عظیم اور بسا اوقات نا قابل تصور ترقی کی ہے۔
آپ نے قومی اتحاد، اصولوں کی پابندی اور سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کو قومی قوت و اقتدار کے تین بنیادی عناصر قرار دیا اور فرمایا کہ ملت ایران نے ان تینوں مسائل میں قابل رشک کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ملک کے اندر قومی اتحاد اپنی حقیقی شکل میں موجود ہے اور یہ اتحاد عوام کے اندر اور حکام و عوام کے باہمی رابطے میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ دنیا کا بے مثال قومی اتحاد ہے۔
قائدانقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوری نظام میں انقلاب کے اصولوں کی سختی سے پابندی کئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے اسے بہت اہم اور قومی جوش و جـذبے کے لئے نہایت سازگار قرار دیا اور فرمایا کہ سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں بھی ملک میں علمی تحریک کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں ملک نے بعض ایسی ٹکنالوجیاں حاصل کی ہیں جو دنیا میں صرف ایک یا معدودے چند ممالک کے پاس ہیں۔
قائدانقلاب اسلامی نے دنیا میں اسلام کی جانب عام میلان اور لبنان و فلسطین میں جذبہ مزاحمت کی تقویت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے عالمی رای عامہ میں اسلامی نظام کی ترویج اور ملت ایران کی عزت و وقار کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ اس وقت ایران کو علاقائی طاقت یا علاقے کی سب سے بڑی طاقت کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ملت ایران اسلامی نظام کے اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے مسلسل ترقی کر رہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ وزارت خارجہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس ترقی کو دنیا میں متعارف کرائے اور اس سے بھرپور استفادہ کرے۔ آپ نے فرمایا کہ اس عظیم فریضے کی ادائیگی کےلئے دانشمندانہ، شجاعانہ اور ذمہ دارانہ طرز عمل کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں سفارتی میدان کے ہراول دستے کے ارکان کی حیثیت سے سفیروں کی ذمہ داری سب سے سنگین اور بڑی ہے۔
آپ نے سفیروں کی ذمہ داریاں گنواتے ہوئے فرمایا کہ سفیروں کو چاہئے کہ اسلامی جمہوری نظام کے اصولوں کو بیان کرنے کے لئے موثر اور چنندہ شخصیات سے استفادہ کریں۔ آپ نے فرمایا کہ مثال کے طور پر فلسطین کے سلسلے میں ایران کا آئیڈیا سب سے زیادہ منطقی اور قابل قبول ہے کیونکہ ایران کا کہنا ہے کہ فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے اصلی باشندوں کی خواہش کے مطابق کیا جانا چاہئے جن میں مسلمان، عیسائی اور یہودی سب شامل ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل وزیر خارجہ منوچہر متکی نے اپنے بیان میں ایران کے سفارتی شعبے کی گزشتہ ایک سال کی کارکردگی کی بریفنگ دی اور کہا کہ ملت ایران کے حقوق کی حفاظت کے سلسلے میں منطقی اور قانونی استقامت، منصوبہ بند علاقائی بحرانوں سے کامیابی کےساتھ مقابلہ، علاقائی اور عالمی اجلاسوں میں موثر شرکت، دینی طرز فکر کی تقویت، ملت ایران کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیوں کو ناکام بنانا اور عالمی سطح پر ایران کے ثقافتی امور کے لئے کوششیں وہ اقدامات ہیں جو ملک کے سفارتی شعبے نے گزشتہ ایک برس کے دوران کامیابی کےساتھ انجام دئےہیں۔