عدلیہ کے سربراہ اور اعلی عہدہ داروں نے آج پیر اٹھائیس جون کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ عدلیہ کے عہدہ داروں سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے عدلیہ کو اسلامی نظام کا بہت اہم اور حساس ادارہ قرار دیا اور ملک کے تمام محکموں کی جانب سے عدلیہ کے ساتھ تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ عدلیہ کی ایک اہم ترین ذمہ داری فیصلے اور قضاوت میں عدل و انصاف کے راستے سے نہ ہٹنا اور سیاسی پروپیگنڈوں اور دوستی و دشمنی سے متاثر نہ ہونا ہے۔
ایران کی عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی اور آپ کے بہتر ساتھیوں کی شہادت کے دن کی مناسبت سے اس سانحے کے شہدا کے اہل خانہ اور ملک کی عدلیہ کے عہدہ داروں سے ہونے والی اس سالانہ ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے سات تیر تیرہ سو ساٹھ ہجری شمسی (مطابق اٹھائیس جون انیس سو اکیاسی) کے سانحے کے شہیدوں کو جاں بکف، آزمودہ اور خدمت گزار انسانوں کا مجموعہ قرار دیا اور فرمایا کہ ان شہیدوں میں آیت اللہ بہشتی شہید سر فہرست ہیں جو با ایمان، با اخلاص، با صداقت اور مضوط قوت ارادی کے مالک انسان تھے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنی بات پر مکمل یقین، اپنے یقین کی عملی پابندی اور ہدف کی جانب پیش قدمی میں کسی بھی خطرے کو خاطر میں نہ لانے کو آيت اللہ بہشتی شہید کی اہم خصوصیات میں قرار دیا اور فرمایا کہ وہ عزیز شہید اصولوں اور ضوابط کے پابند، منطقی سوچ والے انسان اور حقیقی معنی میں اصول پسند انسان تھے جو اصولوں کے معاملے میں کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ان خوبیوں کو بااثر اور پائيدار تاریخی شخصیتوں کو وجود میں لانے کے اہم عوامل میں شمار کیا اور فرمایا کہ بعض لوگ ہیں جو صرف باتیں بناتے ہیں، عمل نہیں کرتے، بعض ہیں جو اپنے قول پرعمل تو کرتے ہیں لیکن ناموافق حالات، طوفانوں، تمسخر، تنقید اور دشمنی کا سامنا نہ کر پانےکی وجہ سے عمل کرنا چھوڑ دیتے ہیں جبکہ بعض افراد ترک عمل کے بعد پسپائی بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ موثر اور ناقابل فراموش انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے پختہ اور خالص یقین اور اپنے قول پر ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹا رہتا ہے اور مومنانہ و شجاعانہ فیصلے کی بنیاد پر اپنا عمل جاری رکھتا ہے نیز اپنے اس عمل کو اس صبر و تحمل سے جوڑ دیتا ہے جو محبت پروردگار کا عامل ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے آیت اللہ بہشتی اور آپ کے بہتر انقلابی ساتھیوں کی شہادت کو اسلامی جمہوریہ اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے منطقی موقف کے استحکام اور نوتشکیل شدہ اسلامی نظام کی پائیداری میں ممد و معاون قرار دیا اور فرمایا کہ سات تیر تیرہ سو ساٹھ ہجری شمسی کا واقعہ وہ بھی اس نازک دور میں، یقینا دہلا دینے والا واقعہ تھا لیکن اسلامی انقلاب پر اس کے عطیم تعمیری اثرات مرتب ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تک شہادت کے جذبے کو معاشرے میں بلند مقام و مرتبہ حاصل ہے موجودہ سامراجی طاقتوں اور حتی ان سے بھی زیادہ قوی طاقتوں سمیت کوئی بھی طاقت اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں عدلیہ کو اسلامی نظام کا بہت حساس اور اہم ادارہ قرار دیا اور اس محکمے میں امید بخش وسائل و امکانات کی فراہمی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان وسائل میں سے ایک، عالم، فاضل، مجتہد، آگاہ، جوان اور اعلی صلاحیتوں سے سرشار شخصیت کی اس ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے موجودگی ہے جس کے فرائض منصبی کی اس تھوڑی سی مدت میں ہی اہم اثرات نمایاں ہونے لگے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عدلیہ کے اعلی حکام کو پاکیزہ اور شاندار ریکارڈ کا مالک قرار دیا اور فرمایا کہ عدلیہ کی سطح پر بھی فاضل، روشن خیال، شجاع اور صحیح کارکردگی والے ججوں کی کمی نہیں ہے جو عدلیہ کی انتہائی امید بخش خوبیوں میں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے عدلیہ کو اس کے شایان شان مقام پر پہنچانے سے متعلق اپنی مکرر تاکید کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عدلیہ کو اس مقام پر پہنچنا چاہئے کہ ہر مظلوم انسان کو یہ یقین رہے کہ عدلیہ سے رجوع کرکے اپنا حق اور مظلومیت سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عوام میں یہ یقین عام کرنے کو ایک دشوار اور وقت طلب کام قرار دیا اور فرمایا کہ انصاف پانے کے لئے کئے جانے والے رجوع کا منصفانہ اور عادلانہ نتیجہ اتنا زیادہ اور یقینی ہو جائے کہ تمام لوگوں میں انصاف ملنے اور مظلومیت دور ہونے کی بابت مکمل وثوق ہو۔ قائد انقلاب اسلامی نے عدلیہ میں باایمان، صاحب علم اور منصف مزاج افراد کو جگہ دینے اور کارکردگی پر بھرپور نگرانی کو ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ عدلیہ میں ایک اور اہم مسئلہ عدلیہ کے ڈھانچے کو عصری تقاضوں کے مطابق اور ان سے ہم آہنگ رکھنا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ڈھانچوں میں مسلسل تبدیلی کا مطلب عدلیہ کے محکمہ جاتی ثبات کو ختم کر دینا نہیں ہے بلکہ ثبات و پائيداری کے ساتھ ساتھ ڈھانچے پر تنقیدی نگاہ رکھنا مقصود ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عدلیہ کے داخلی اصول و ضوابط پر نظر ثانی کرنے، قوانین کے ممکنہ تضاد کو رفع کرنے، نچلی عدالتوں کے فیصلوں اور اعلی عدالتوں کے فیصلوں میں عدم مطابقت کی اصلاح کو عدلیہ کی اہم ضرورتوں میں قرار دیا اور فرمایا کہ عدلیہ کا ایک اہم ترین مسئلہ جو بہت دشوار اور سخت بھی ہے دوستی و دشمنی اور سیاسی پروپیگنڈوں سے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ مختلف سیاسی حلقوں، اخبارات اور بیرونی ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈوں کا عدالتی فیصلے اور مقدمات کی سماعت کے عمل پر اثر پڑے، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ جذبات اور دوستی و دشمنی سے متاثر ہوئے بغیر راہ عدل و انصاف پر بنا کسی کجی اور انحراف کے آگے بڑھا جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایسی صورت حال قائم ہو جانے پر عوام عدلیہ کے فیصلے سے مطمئن ہوں گے اور ذہنی طور پر راضی رہیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے معاشرے میں عدلیہ کے فیصلے کے احترام کی فضا کو بہت اچھا موقع قرار دیا اور فرمایا کہ تمام محکموں کو چاہئے کہ عدلیہ کی معاونت کریں تاکہ یہ ادارہ ان حساس حالات میں اپنے فرائض پر بحسن و خوبی عمل کر سکے جس کا نتیجہ بلند اہداف کی سمت ملک کی پیش قدمی کی صورت میں نکلے گا۔ قائد انقلاب اسلامی نے رواں مہینے یعنی رجب المرجب کے ایام کا ذکر کیا اور دعا، توسل اور استغفار کے اس عظیم و گراں قدر موقع سے بھرپور مستفیض ہونے کی سفارش کی۔
اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ صادق آملی لاری جانی نے اپنی دس مہینے کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی۔