قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بسیج سازندگی (تعمیراتی رضاکار فورس) کے کارکنان اور جوانوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عشق و ایمان اور بصیرت و شجاعت کو ملت ایران کی عظیم تحریک کے بنیادی عناصر اور تعمیراتی رضاکار فورس کی روح اور ماہیت سے تعبیر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ جس معاشرے کے پاس بھی یہ قیمتی سرمایہ موجود ہو وہ یقینی طور پر وقار و عظمت کی بلند ترین چوٹیوں پر پہنچے گا اور اس با وقار مقام تک عظیم ملت ایران کی رسائی حتمی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے آج صبح اپنے اس خطاب میں بسیج سازندگی کے جوانوں کے شباب، جوش و خروش اور ایمان و امید کو تاریخ اور ایران کے لئے باعث افتخار قرار دیا اور ملک بھر میں سرگرم عمل لاکھوں رضاکار جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میرے عزیزو! اس انداز سے نوجوانی کو بسر کرنا اور اس طریقے سے نوجوانی کے انتہائی عزیز و گرانبہا ایام کو اسلام و انقلاب و عوام کی خدمت میں گزارنا، ہر آگاہ انسان کو آپ کے سلسلے میں رشک کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مغربی ممالک کے نوجوانوں پر چھائے بے مقصد زندگی کے احساس، اضطراب، توہم، مایوسی و ناامیدی کے جذبات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ با ایمان، با ارزش، فعال اور فرض شناس نوجوانوں کو، جنہیں اللہ تعالی نے خدمت گزاری کی نعمت و توانائی تحفتا عطا کر دی ہے، چاہئے کہ اپنے جوش و خروش اور صحیح سمت کے تعین کی قدر کریں اور ملک کے حکام بھی اس لا فانی خزانے اور با عظمت تحریک کے قدرداں بنیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے محرومین کی خدمت و امداد کی طلبہ کی تحریک کے آغاز کو تعمیراتی جہاد نامی ادارے کی تشکیل سے متعلق امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے فرمان کی بنیاد قرار دیا اور فرمایا کہ یہی رضاکارانہ جذبہ دس سال قبل بھی موجزن اور انیس سو ننانوے میں تعمیراتی رضاکار فورس کی تشکیل پر منتج ہوا اور ساتھ ہی یہ حقیقت بھی سامنے آ گئی کہ اس طرح کے عوامی کارناموں سے ملک کے حکام میں بھی جوش و جذبہ پیدا ہونا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے عشق و ایمان و بصیرت و ہمت کو تعمیراتی رضاکار فورس کی روح قرار دیا اور فرمایا کہ ان حوصلہ آفریں عوامل کو عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور انقلاب نے قدرداں ملت ایران کو بطور تحفہ عطا کیا ہے اور گزشتہ تین عشروں میں ان عوامل کا تسلسل، اسلامی انقلاب کے شجرہ طیبہ سے مسلسل نئے نئے ثمرات ملنے اور اس کے استحکام و ہمہ گیری کا باعث بنا۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے نوجوانوں کی امام خمینی سے عاشقانہ وفاداری، پختہ ایمان، مضبوط جذبات اور گہری بصیرت کو اسلامی انقلاب کے پرجوش تسلسل کی واضح مثال قرار دیا اور انقلاب کے کہنہ اور ختم ہو جانے اور امام خمینی کو فراموش کر دئے جانے کے بعض افراد کے دعوؤں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ افراد شروع سے انقلاب کے دشمن نہیں تھے لیکن حقیر مادی مفادات کی کشش کے سامنے ٹک نہیں پائے اور منصب و طاقت کے وسوسے میں پڑ گئے اور اس عظیم بلا نے انہیں اندر سے کھوکھلا اور پوری طرح ختم کر دیا چنانچہ وہ اس خام خیالی میں پڑ گئے کہ انقلاب کا کام بھی تمام ہو گيا ہے لیکن یہ دعوی توہم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں مزید فرمایا کہ قوم، پتوں کے گرنے ( کاروان انقلاب سے کچھ عناصر کی علاحدگی) پر توجہ دئے بغیر جو ممکن ہے مستقبل میں بھی نظر آئے، اپنی مردم خیز تحریک کو جاری رکھے گی۔ آپ نے ملک بھر میں دسیوں لاکھ لوگوں کی مادی و روحانی خدمت کو تعمیراتی رضاکار فورس کی برکت قرار دیا اور فرمایا کہ پسماندہ دیہی علاقوں میں با ایمان و پابند شریعت نوجوانوں کی مثالی موجودگی آیت قرآنی کی عملی تصویر اور عوام کو اسلام اور انقلاب کی جانے آنے کی عملی دعوت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسی طرح تعمیراتی رضاکار فورس کے تحت فعالیت کو نوجوانوں کی صلاحیتوں کے نکھرنے، ان کے تجربات میں اضافے، حقائق زندگی کو قریب سے محسوس کرنے، طبقاتی فاصلوں کے خاتمے اور ان میں خدمت گزاری کے شوق و شغف کے پیدا ہونے کا مقدمہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ تعمیراتی رضاکار فورس کے جوان ملک کے مختلف علاقوں میں سعی و کوشش، محنت و مشقت اور خدمت و مجاہدت کے سفیر ہیں اور ان بڑی کامیابیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ تعمیراتی رضاکار فورس کی تحریک کی حفاظت اور تقویت لازمی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نئے تعلیمی سال کے آغاز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نوجوانوں کو تندہی سے تعلیم حاصل کرنے اور علمی بلندیوں پر پہنچنے کے لئے سعی و کوشش کی دعوت دی اور فرمایا کہ تعلیمی سرگرمیوں کے دوران فرصت کے اوقات میں عوام کی خدمت کے پر کشش عمل میں شمولیت اس عمل کی تکمیل کا باعث بنے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ عظیم ملت ایران تاریخ کے خطرناک موڑ سے گزر رہی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ گزشتہ تیس برسوں میں ہم نے اس تقدیر ساز دور کے متعدد خطرناک مراحل طے کئے ہیں تاہم تاریخ کے اس نازک دور سے گزرنے کا عمل ابھی پورا نہیں ہوا ہے چنانچہ ملت ایران اور حکام کو چاہئے کہ پورے ہوش و حواس، تدبر و تفکر اور یکجہتی و یگانگت کے ساتھ اپنی پیش قدمی کو جاری رکھیں۔
آپ نے ملت ایران کو امت مسلمہ کی سعادت و نجات کی علمبردار قوم قرار دیا اور ملت ایران کے مقابلے میں عالمی سامراجی و استبدادی طاقتوں کی تیس سالہ محاذ آرائی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ ان کا نشانہ ایران ہے جبکہ حقیقت میں ان کا نشانہ اسلام اور قرآن ہے کیونکہ انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ ملت ایران کی پیشرفت، پائیداری اور عزت و وقار کی روح دین اسلام، روحانیت اور قرآن ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ابتدائے انقلاب کے دور کے مقابلے میں اس وقت ملت ایران کی بصیرت و ہمت و توانائی کو بدرجہا بیشتر قرار دیا اور فرمایا کہ ملت ایران امت مسلمہ اور عالمی سامراج کی مقابلہ آرائی میں ہراول دستے کی حیثیت سے بغیر کسی تزلزل اور پسپائی کے اپنی پیش قدمی کی سرعت و قوت میں اضافہ کرتے ہوئے اسی طمطراق اور انقلابی قدرت کے ساتھ آگے بڑھتی رہے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی ٹکنالوجی، نینو ٹکنالوجی اور اسٹیم سیلز سے متعلق ٹکنالوجی سمیت علم و دانش کے مختلف میدانوں میں ملک کے نوجوانوں کی فیصلہ کن کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ نوجوان جنہوں نے انقلاب کی کامیابی، امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور مقدس دفاع کا دور نہیں دیکھا وہ بھی اس وقت دیگر طبقات کے ساتھ ہر شعبے میں پیش پیش ہیں اور تعمیر و ترقی کے میدانوں میں کامیاب کارکردگی کے ساتھ ساتھ اکتیس دسمبر( 2009) اور گیارہ فروری (2010) کو (انقلاب اور اسلامی نظام کی حمایت میں با شکوہ ریلیاں نکال کر اور) عظیم تاریخ رقم کرکے نیز انتخابات میں زوردار شراکت کے ذریعے سیاسی شعبے کو بھی بصیرت و شجاعت و امید و نشاط کی جلوہ گاہ بنا چکے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ان حقائق کو انقلابی جذبات کو کمزور کرنے اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی یاد ذہنوں سے مٹانے کی دشمن کی سازش کی ناکامی کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ جو لوگ اسلامی انقلاب کے شروعاتی دور میں تین دن، ایک ہفتے یا حد اکثر دو مہینوں کے اندر ملت ایران کے انقلاب کے خاتمے کی بات کرتے تھے اب یہ لغویات زبان پر نہیں لاتے جس سے ان کی کمزوری اور ملت ایران کی قوت و طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے جو اکتیس شہریور مطابق بائیس ستمبر یعنی ایران کے خلاف عراق کی صدام حکومت کے حملوں کے آغاز کے دن کی مناسبت سے تقریر کر رہے تھے، ایران کے خلاف آٹھ سالہ جنگ میں عالمی طاقتوں کی جانب سے صدام کی مالی، اسلحہ جاتی، سیاسی اور تشہیراتی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ صدام جسے عالمی تسلط پسند طاقتوں نے ملت ایران، انقلاب اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے سامنے کھڑا کر دیا تھا ذلت و بد بختی کی موت مر گيا جبکہ اسلامی انقلاب اور امام خمینی کی قوم ہمیشہ سے زیادہ قدرت و طاقت کے ساتھ زندہ و پائندہ ہے، یہ ایسا تجربہ ہے جسے دہرایا بھی جا سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ صدام کا انجام اسلامی مملکت ایران کے دوسرے دشمنوں کے بھی انتظار میں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یقینی طور پر ملت ایران کی تحریک قوم کے دشمنوں کی بد بختی و ناکامی کے ساتھ ہی روز بروز زیادہ قوی ہوگی اور ترقی و افتخار کی بلند و بالا چوٹیوں پر پہنچے گی۔
اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل رضاکار فورس کے کمانڈر جناب نقدی نے رضاکاری کی کیمپنگ میں نوجوانوں کی بڑی تعداد میں شرکت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دس برسوں میں پسماندہ دیہی علاقوں میں بسنے والے لاکھوں لوگوں کو براہ راست طبی، رفاہی اور تعمیراتی خدمات فراہم کی گئي ہیں اور اس طرح کی ترقیاتی و تعمیراتی کارروائیاں ترقی کے نئے آئیڈیل کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔ جناب نقدی نے صدر مملکت اور صوبائی گورنروں کی جانب سے کئے جانے والے بھرپور تعاون کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ رضاکاروں کے بے لوث اور رضاکارانہ کاموں اور حکومت کی بھرپور مدد و اعانت سے پانچویں ترقیاتی منصوبے کے تحت ناخواندگی کے مکمل خاتمے اور بہت سے تعمیراتی پروگراموں کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔