تہران کے دورے پر آئے شام کے صدر بشار اسد نے ہفتے کی شام قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں گزشتہ تیس برسوں کے دوران پائيداری و استحکام کے لحاظ سے اسلامی جمہوریہ ایران اور شام کے تعلقات کو بے مثال قرار دیا اور شام کے سابق صدر حافظ اسد مرحوم کو یاد کرتے ہوئے فرمایا کہ دونوں ملکوں کے تعاون کا اطمینان بخش عمل ماضی سے زیادہ سرعت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ آپ نے ایران اور شام کے سیاسی تعلقات کو بہترین تعلقات سے تعبیر کیا اور اقتصادی و فنی شعبے میں دونوں ملکوں کے بڑھتے ہوئے تعاون کو تشفی بخش قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اب بھی اس تعاون کے فروغ کی گنجائش موجود ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ علاقے میں ایسے کوئی بھی دوسرے دو ممالک نہیں ہیں جن کے درمیان (شام اور ایران کی مانند) تیس سالہ مستحکم تعلقات ہوں، بنابریں اس تجربے سے بھرپور استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکا کو علاقے میں استقامت و مزاحمت کے محوری نقطے کا اصلی مخالف قرار دیا اور استقامت و مزاحمت کے اس محور کو ختم کر دینے کی امریکی حکام کی کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کوششیں ماضی کی طرح بے نتیجہ ہی رہیں گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے دوست ممالک کے درمیان علاقائی تعاون کے فروغ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ تمام عراقی جماعتیں ماضی کی طرح عوامی حمایت و مینڈیٹ پر بھروسہ کرتے ہوئے اور باہمی تعاون اور ہمدلی کے ساتھ عراق کی تعمیر و ترقی، عوام کی مشکلات کے خاتمے اور قابض افواج کے اخراج کے لئے موثر قدم اٹھائیں گی۔
اس ملاقات میں شام کے صر بشار اسد نے بھی ایران اور شام کے تعلقات کو نمونہ اور آئیڈیل قرار دیا اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور شام ایک ہی محاذ میں کھڑے ہوئے ہیں اور دونوں کے مشترکہ اہداف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام شعبوں میں دونوں ملکوں کا تعاون جاری رہے گا اور نتیجے میں ہم دن بدن نئی نئی کامیابیوں کا مشاہدہ کریں گے۔
اس ملاقات میں پروٹوکول کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر محمود احمدی نژاد بھی موجود تھے۔