اسلامی جمہوریہ ایران میں دوسرے اسٹریٹیجک نظریات سے موسوم اجلاس کا آج صبح انعقاد ہوا جس میں انصاف اور مساوات کے موضوع پر قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اور یونیورسٹیوں اور دینی علوم کے مرکز کے مفکرین، دانشوروں، اساتذہ اور محققین نے تبادلہ خیال کیا۔
چار گھنٹوں تک چلنے والے اس اجلاس میں پہلے دس مفکرین اور نظریہ پردازوں نے انصاف کی بنیادوں، مفاہیم، پہلوؤں، ضرورتوں اور افادیتوں کے بارے میں اپنے اپنے نظریات بیان کئے۔
یاد رہے کہ اس سلسلے کا پہلا اجلاس گزشتہ سال دسمبر مہینے میں منعقد ہوا تھا جس میں پیشرفت کے لئے ایرانی و اسلامی نمونے کی تدوین پر گفتگو ہوئی تھی۔
آج کے اجلاس میں قائد انقلاب اسلامی نے انصاف کے سلسلے میں اسلام کے حقیقی نظرئے کے تعین کے لئے مفکرین کے درمیان بحث و مباحثے کی ضرورت پر زور دیا اور گزشتہ تین عشروں میں سماجی انصاف کے قیام کے سلسلے میں انجام پانے والے کاموں کی تعریف کی تاہم فرمایا کہ موجودہ صورت حال پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اسلامی نظام بھرپور اور مکمل انداز میں انصاف کے قیام اور ایک عمومی قدر کے طور پر اس کی ترویج کے لئے کوشاں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اجلاس میں پیش کئے جانے والے نظریات کو بہت با معنی اور مفید قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آج کا اجلاس ایک شروعات تھی اور ہمیں امید ہے کہ ملک بھر کے صاحب نظر افراد کی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے عدل و انصاف کی بحث کو دانشور طبقے کے سب سے اہم موضوع میں تبدیل کر دیا جائے گا اور مسلسل توجہ کے نتیجے میں ایک بابرکت نتیجہ حاصل ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے انصاف کو انسانیت کی دائمی فکر کا مسئلہ قرار دیا اور تاریخ انسانیت کے مفکرین اور دانشوروں کی جانب سے اس موضوع پر کی جانے والی بحثوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ دقیق مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ عدل و انصاف کے باب میں مفکرین کی نظریہ پردازی کے باوجود اس سلسلے میں ادیان الہی کا کردار بے نظیر اور استثنائی رہا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے قرآنی آيات کی روشنی میں ثابت کیا کہ انصاف کی ترویج ادیان کا نصب العین ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ادیان کے ذریعے سماجی نظام کی تشکیل اور دینی دائرے میں انسان کی حرکت کا بنیادی ہدف عدل و انصاف رہا ہے اور انصاف کے موضوع پر اتنی سنجیدہ توجہ کسی بھی انسانی نظرئے میں نظر نہیں آتی۔
قائد انقلاب اسلامی نے ادیان الہی اور انسانوں کے مکاتب فکر میں انصاف کے تعلق سے موجود ایک اور گہرے فرق کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ انبیاء نے انصاف کی تعریف کرنے کے ساتھ ہی اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے طاغوتوں اور ستمگروں سے جنگیں کیں اور ظالم و مظلوم کے ٹکراؤ میں ہمیشہ مظلوموں کے شانہ بشانہ نظر آئے جبکہ نظریہ پرداز افراد صرف گفتگو اور کلام کی حد تک انصاف اور عدل کے سلسلے میں کام کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے تمام الہی ادیان کے اس عقیدے کو کہ تاریخ بشر ایک ایسے دور تک پہنچے گی جو عدل و انصاف کا دور ہوگا، الہی ادیان اور انسانی مکاتب فکر کا تیسرا بڑا فرق قرار دیا اور فرمایا کہ الہی ادیان نے کائنات اور انسان کے وجود کے سرآغاز، قوموں کی تاریخ اور زندگی کے سفر کے خاتمے یعنی قیامت کی تشریح کے سلسلے میں ہمیشہ انصاف کے نظرئے پر تاکید کی ہے جو بالکل استثنائی اور بے نظیر ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسی دینی نقطہ نگاہ کی وجہ سے اسلامی انقلاب میں شروع سے ہی انصاف کو خاص مقام ملا اور قوم کے نعروں، آئین، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بیانوں اور نظریات اور اسلامی جمہوریہ کی بتیس سالہ تاریخ کے دوران انصاف کو ایک قدر کی حیثیت سے دیکھا گيا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کی گہری فکر کے معاملات میں انصاف کو سر فہرست قرار دیا اور سماجی انصاف کے قیام کے لئے انقلاب کے بعد انجام پانے والے وسیع کاموں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اچھے کام بھی کافی نہیں ہیں کیونکہ ہم نے اسلامی نقطہ نگاہ کی بنیاد پر انصاف کے مکمل قیام اور ظلم کے مکمل خاتمے کو اپنا ہدف بنایا ہے چنانچہ موجودہ حالت اور سماجی انصاف کے مکمل قیام کی منزل کے بیچ پائے جانے والے فاصلے کو کم کرنے کے لئے مربوط، سنجیدہ اور ہمہ جہتی کوشش ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انصاف کے سلسلے میں خالص اسلامی نظرئے کے تعین پر اسلامی نظام کی خاص توجہ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ سر دست انصاف کے سلسلے میں اجمالی شناخت اور تعریف موجود ہے لیکن ہمیں یہ کوشش کرنا چاہئے کہ انصاف ایک اہم ترین اور ملک کے تمام شعبوں میں نظر آنے والے موضوع میں تبدیل ہو جائے اور دانشور طبقے، حکام، عوام خاص طور پر نوجوان نسل کے بیچ ایک بنیادی مسئلے کی حیثیت سے موضوع بحث قرار پائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسٹریٹیجک نظریات کے اجلاس کے انعقاد کے اہداف پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ حالت سے انصاف کے قیام کی بہترین صورت حال کے فاصلے کو جدید اور موثر روشوں اور اقدامات کے ذریعے کم کرنا چاہئے اور اس کے لئے مفکرین کی باہمی مشاورت درکار ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے بقول عدل و انصاف کے سلسلے میں نئے تجربات کرنے اور ممکنہ غلطیاں سرزد ہونے کا مرحلہ گزر چکا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ گزشتہ تین عشروں کے دوران متعدد مواقع پر انصاف کے سلسلے میں تجرباتی مرحلے میں ہم سے غلطی ہوئی لیکن اب آزمودہ اور محکم روشوں کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کی تیز رفتاری ترقی کو بھی انصاف کے موضوع پر توجہ کی متقاضی قرار دیا اور فرمایا کہ اس تیز رفتار پیشرفت کو جاری رکھنے کے لئے بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے اور اگر فیصلے کرنے کے عمل میں عدل و انصاف کے عنصر اور انصاف و پیشرف کے باہمی رابطے کو نظر انداز کر دیا گيا تو بہت بڑا خسارہ اٹھانا پڑےگا۔ آپ نے اپنے خطاب میں انصاف کے سلسلے میں نظری بحث کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا مقصد انصاف کے سلسلے میں اسلام کے خالص نظرئے کا تعین کرنا ہے اور اس عظیم ہدف کے حصول کے لئے خلاقانہ اور عصری تقاضوں کے مطابق نقطہ نظر کے ساتھ اسلامی منابع سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے اور اس عمل کے خاص طریقوں اور مخصوص فن کے ذریعے انصاف کے سلسلے میں خالص اسلامی نظرئے کا تعین کرنا چاہئے۔
آپ نے مزید فرمایا کہ انصاف کے سلسلے میں اسلامی نظرئے کے استنباط کے لئے دیگر نظریات سے خوشہ چینی کرنے یا انہیں جوڑ کر ایک نیا نظریہ تیار کرنے سے سختی کے ساتھ پرہیز کرنا چاہئے اور اصلی اسلامی منابع سے رجوع کرکے انصاف کے نظرئے کو حاصل کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق ہر مکتب فکر میں انصاف کا نظریہ اس مکتب فکر کے نظریہ کائنات پر استوار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ انصاف کے سلسلے میں اسلامی نظرئے کی شناخت کے لئے دیگر مکاتب فکر سے رجوع کرنے سے اجتناب ضروری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انصاف کے سلسلے میں اسلام اور انسانی مکاتب فکر کے درمیان گہرے فرق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام میں حق، انصاف کا سرچشمہ ہے اور انصاف کی پابندی ایک دینی فریضہ سمجھی جاتی ہے جبکہ انسانی مکاتب فکر میں یہ نقطہ نگاہ موجود نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انصاف کے سلسلے میں خالص اسلامی نظرئے کے حصول کے عمل میں آراء و نظریات کے تبادلے کو ناگزیر ضرورت قرار دیا اور فرمایا کہ کسی کو یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ اس مسئلے میں ہم اپنے ذہن میں پہلے سے موجود تصویر کی بنیاد پر نظریہ قائم کر سکتے ہیں بلکہ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ نظریاتی بحث و مباحثے کے ذریعے درست اور صحیح نتیجے تک پہنچیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خالص اسلامی نظرئے کے تعین کے بعد بھی اس سلسلے میں خیالات کا تبادلہ ہمیشہ جاری رہنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ موجودہ مرحلے میں ہمیں در حقیقت یہ کوشش کرنا چاہئے کہ انصاف کے سلسلے میں ایک مدلل اور محکم نقطے پر متفق ہوں اور پھر اس کو بنیاد قرار دیکر دراز مدتی منصوبے ترتیب دئے جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ متفق علیہ نتیجے پر پہنچ جانے کے بعد اس پر عمل درآمد کے طریقوں کے بارے میں نئی تحقیق شروع ہونا چاہئے اور اس میدان میں دوسروں کے تجربات سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے یونیورسٹی اور دینی علوم کے مرکز میں انصاف کے موضوع کی باقاعدہ ایک سبجیکٹ کے طور پر تدریس کو انصاف کے موضوع کی تقویت اور باصلاحیت افراد کی تربیت کے لئے ایک اچھی سرمایہ کاری قرار دیا اور فرمایا کہ نظری بحث کی سطح پر ایک اور اہم کام سماجی انصاف کے قیام کی سطح معلوم کرنے کے لئے پیمانے اور معیار کا تعین ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مغربی نظریات میں طے شدہ معیار مخصول حالات میں بروئے کار لائے جا سکتے ہیں لیکن ان میں بہت سے معیار ناقص یا پھر بالکل غلط ہیں بنابریں اسلام کے نقطہ نگاہ سے انصاف کے قیام کی سطح کو پرکھنے کے لئے الگ معیار بنانے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے قانون سازی کے عمل میں پارلیمنٹ اور شورائے نگہبان (نگراں کونسل) کی انصاف پر خاص توجہ کو ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ عملی میدان میں سماجی انصاف قائم کرنے کے لئے بہت سے کام انجام دینے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں آغاز ہستی اور یوم قیامت کے عقیدے کو انصاف کے مسئلے میں بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیا اور فرمایا کہ معاد پر ایمان اور روز قیامت اعمال کے مجسم ہوکر سامنے آنے کا عقیدہ انصاف پسندانہ جوش و جذبے کو تقویت پہنچاتا ہے چنانچہ جس معاشرے میں سر آغاز ہستی اور معاد کا عقیدہ نہ پایا جاتا ہے وہاں حقیقی معنی میں انصاف قائم ہونا ممکن نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اپنی اپنی ذات کے سلسلے میں انصاف نافذ کرنے کی ہر شخص کی کوشش بھی اس سلسلے میں بہت اہم ہے اور اپنے سلسلے میں انصاف پسندانہ نظریہ گناہ سے اجتناب اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں خضوع و خشوع کا باعث بنتا ہے اور اس سے سماجی انصاف قائم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
اجلاس کے بعد حاضرین نے قائد انقلاب اسلامی کی امامت میں نماز ظہرین ادا کی۔