سوال: جناب ڈاکٹر پزشکیان! رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے ایک حالیہ خطاب میں خصوصی طور پر حکومت کی خدمات کی تعریف کی ہے اور حکومت کی حمایت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔(1) اس کے بعد ایک دوسرے خطاب میں انھوں نے کہا کہ مشکلات اور کمیوں کے باوجود، ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ان دو خطابات اور رہبر انقلاب کی ان دو باتوں کے پیش نظر، براہ کرم گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت کی اہم ترین عملی کوششوں کی ایک مختصر رپورٹ پیش کیجیے اور ملک کی پیشرفت کے عمل کو سامعین اور ناظرین کے لیے واضح کیجیے، بہرحال آپ صدر مملکت اور ملک کی انتظامیہ کے سب سے بڑے عہدیدار کے طور پر اس پیشرفت کے عمل سے سب سے زیادہ واقف ہیں۔
جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم. سب سے پہلے ہمیں رہبر انقلاب کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اب تک، خواہ اعلانیہ نشستوں میں ہوں یا خصوصی نشستوں میں، انھوں نے حکومت کی مکمل حمایت کی ہے اور اگر ان کی حمایت اور ہدایات نہ ہوتیں، تو یقیناً ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا؛ لہذا یہ قابل تعریف ہے۔
اس وقت ہم جس چیز کے درپے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ اسے درست کریں، وہ عدم توازن کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم اس سلسلے میں بات کریں تو کہنا پڑے گا کہ ملک میں جو روش چل رہی ہے، وہ ایسی روش ہے جسے بہت سے شعبوں میں بڑے عدم توازن کا سامنا ہے۔ اینرجی کا مسئلہ، جو بالکل شروع میں ہی سامنے آ گیا تھا، پانی کا مسئلہ، مالی مسائل، انتظامی مسائل، سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی مسائل، یہ سب ایسے مسائل ہیں جن میں ہم وسیع پیمانے پر مشکلات سے دوچار ہیں۔ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو 20 ہزار میگاواٹ توانائی کا خسارہ تھا، یہ توانائی کا خسارہ برسوں میں پیدا ہوا تھا اور فطری طور پر ایک طرف تو اس کا استعمال بڑھ رہا تھا اور دوسری طرف توانائی کی خدمات کی فراہمی کے سلسلے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی تھی اور یہ وہ سال بھی تھا کہ جس میں بارش کم ہوئی تھی۔ پچھلے برسوں کی نسبت اوسط بارش میں قریب چالیس فیصد کمی واقع ہوئی تھی، ڈیموں میں پانی نہیں تھا۔ ہمارے پاس قریب 14 ہزار میگاواٹ آبی بجلی تھی اور ڈیموں میں پانی کی کمی کی وجہ سے ہم اس سے بھی پوری طرح فائدہ نہ اٹھا سکے، یعنی ہمارا توانائی کا خسارہ قریب 30 ہزار میگاواٹ تک پہنچ گیا۔ اب اسی کے ساتھ جنگ بھی تھی اور جنگ میں بھی ہمیں مسائل حل کرنے تھے۔
اس عدم توازن کے بارے میں جو کوشش کی گئی وہ یہ تھی کہ ایک طرف تو ہم نے اخراجات اور مصرف میں کمی یا کنٹرول شروع کیا اور دوسری طرف سب سے تیز راستہ جس تک ہم پہنچ سکتے تھے اور ضروری توانائی فراہم کر سکتے تھے، وہ شمسی توانائی کے پینل تھے جو ماحولیاتی اعتبار سے بھی بہت قیمتی ذریعہ ہیں، اس طرح کہ شمسی توانائی ہر ہزار میگاواٹ میں، تقریباً دس لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضا میں داخل ہونے سے روکتی ہے۔ ہم اس سال تک تین ہزار میگاواٹ سے زیادہ پینلز کو توانائی کی پیداوار میں شامل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، جبکہ گزشتہ برسوں میں صرف ایک ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی تھی۔ یہ عمل جاری ہے، کل پھر تقریباً آٹھ سو میگاواٹ کے شمسی پینلز کو بجلی کی پیداوار کے عمل میں شامل کریں گے اور یہ کام تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، چنانچہ ہر ہفتے تقریباً تین سو میگاواٹ شمسی پینل کام کر رہے ہیں اور جو معاہدے کیے گئے ہیں وہ تقریباً اسی ہزار میگاواٹ کے ہیں، یعنی اگر ہم اس روش کو آگے بڑھا سکیں تو فوسل ایندھن کے استعمال کو بہت زیادہ کم کر دیں گے۔ دوسری طرف ہم نے ایسے پاور پلانٹ بنائے تھے جو کمبائنڈ سائیکل والے تھے مگر ان میں صرف گیس استعمال ہوتی تھی۔ ہمارے پاس تقریباً سات ہزار میگاواٹ کمبائنڈ سائیکل والی توانائی ہے جس میں سے ہم تین ہزار میگاواٹ کو گرڈ میں شامل کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن اب بھی چار ہزار میگاواٹ باقی ہے جس پر کام ہو رہا ہے اور اس میں اب گیس کی ضرورت نہیں بلکہ بھاپ سے بھی توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
بجلی کے استعمال کا عمل ہر سال تقریباً پانچ چھے فیصد بڑھ جاتا تھا اور پانچ چھے فیصد کا مطلب ہے تین چار ہزار میگاواٹ اضافی ضرورت۔ جو ہدایات اور تجاویز دی گئيں اور جو پروگرام تیار کیے گئے ان سے ہمارے یہاں پانچ فیصد کمی کی شرح بھی رہی۔ نہ صرف یہ کہ پانچ فیصد کا اضافہ نہیں ہوا بلکہ ہم پانچ فیصد کمی کرنے میں بھی کامیاب رہے، یعنی تقریباً تین چار ہزار میگاواٹ پر ہم نے کنٹرول کیا۔ دوسری طرف جو مائنرز موجود تھے انھیں کنٹرول کر کے بھی ہم تقریباً دو ہزار میگاواٹ استعمال میں کمی کر سکے۔ بنابریں ان کاموں سے ہم کسی حد تک توانائی کے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب رہے۔ البتہ یہ کام اب بھی جاری ہیں اور ہم کوشش کریں گے کہ ان شاء اللہ آنے والی گرمیوں میں ہم بجلی کی لوڈشیڈنگ کا اس شکل میں سامنا نہ کریں جیسا کہ اس سال تھا، سوائے اس کے کہ خدا نخواستہ کوئی حادثہ پیش آ جائے یا کوئی لائن خراب ہو جائے یا کوئی فیکٹری بند ہو جائے لیکن شمسی پینلز کی تیاری اتنی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے کہ ان شاء اللہ توانائی کی پیداوار کے لیے کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔
سوال: ڈاکٹر صاحب! آپ صبح ساڑھے چھے بجے اٹھتے ہیں اور سات بجے کام پر ہوتے ہیں، رات کو کس وقت سوتے ہیں؟
جواب: کچھ طے نہیں ہے۔ ہم کئی بار صبح پانچ بجے اٹھ جاتے ہیں اور رات بارہ بجے واپس آتے ہیں۔
سوال: میں نے یہ اس لیے پوچھا کہ کچھ مغربی میڈیا آپ کے بعض موقفوں اور باتوں کو توڑ مروڑ کر یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت اور صدر مملکت لڑنے اور مسائل حل کرنے سے قاصر ہیں۔ ان معاندانہ اور عداوت آمیز دعوؤں پر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کا کیا جواب ہے؟
جواب: دیکھیے! ان تمام تجزیوں کی بنیاد پر جو انھوں نے کیے تھے، انھیں یقین تھا کہ اگر صہیونی حکومت ایران پر حملہ کرے تو نظام کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ ایسا کیوں نہیں ہوا؟ دراصل ان کا تمام تر اندازہ یہ تھا کہ اگر وہ حملہ کریں تو لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے، مسائل پیدا ہوں گے، لوگوں کی معیشت مشکل میں پڑ جائے گی اور مختلف خدماتی معاملات درہم برہم ہو جائیں گے۔
سوال: البتہ جنگ کے دنوں میں بھی حکومت کی خدمات منظم طریقے سے جاری تھیں۔
جواب: پہلے سے بہتر تھیں کیونکہ اختیارات گورنروں کے پاس تھے، مثلاً ان بارہ دنوں کے دوران انھوں نے ہمارے کسٹمز میں دس ملین ٹن سے زیادہ سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا۔ وہی ڈرائیور، جنھیں کچھ باتوں پر اعتراض تھا، مردانہ وار کام کے میدان میں آ گئے، ان لوگوں نے، جنھیں اعتراض تھا، دل و جان سے نظام اور ملک کی ارضی سالمیت کی حفاظت کی، یعنی درحقیقت انھوں نے دشمن کے مقابلے میں داخلی یکجہتی بھی دکھائی، اپنی موجودگی بھی دکھائی اور اپنی ہم آہنگی کا بھی مظاہرہ کیا۔ یہ بہت اہم بات ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ حکومت والوں اور سیاست دانوں کو، عوام پر بھروسہ کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ مہربان ہونا چاہیے۔ ہماری تمام تر کوشش یہ ہے کہ جو کچھ بھی اور جتنا بھی ہم سے ممکن ہو، ہم عوام کی خدمت کریں سچائی کے ساتھ اور بغیر کوئی احسان جتائے اور ان لوگوں کی خدمت کے علاوہ، کم از کم میں اپنے طور پر تو یہی کہوں گا کہ، ہم کوئی دوسری چیز نہیں چاہتے۔ لوگوں نے بھی تمام تر دباؤ کے باوجود بہت ساتھ دیا۔ دشمنوں کا اندازہ یہ تھا کہ اگر وہ حملہ کریں تو ملک میں ہنگامہ برپا ہو جائے گا لیکن لوگوں نے اپنے ایران کی، اپنے ملک کی، اپنے دین کی، اپنی ثقافت کی اور اپنی قیادت کی حفاظت کی۔ سنہ 2022 میں ایک واقعہ پیش آیا، کچھ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور قیادت کی بے احترامی کی؛ لیکن سنہ 2025 میں سب سڑکوں پر نکل آئے اور کہا کہ ہماری جان رہبر پر فدا۔ کیا ہوا؟ لوگوں کی یہ سوچ اور اس سماجی سرمائے کی واپسی بہت حوصلہ افزا تھی اور ہم اس قوم کی جتنی خدمت کریں، کم ہے۔ لہذا مجھے امید ہے کہ ہم اپنی اس عزیز قوم کے سامنے شرمندہ نہ ہوں گے۔
سوال: ان معاندانہ دعوؤں پر آپ کا کیا جواب ہے جو میں نے بیان کیے؟ مثلاً آپ کے بارے میں حال ہی میں مغربی میڈیا نے ایسے تجزیے شائع کیے ہیں کہ مسعود پزشکیان کہتے ہیں کہ میں نہیں کر سکتا! حالانکہ یہ ان کاموں کے بالکل برعکس ہے جو آپ کر رہے ہیں۔
جواب: البتہ میں نے بارہا کہا ہے کہ میں نہیں کر سکتا، بلکہ "ہم" کر سکتے ہیں۔ ملک کے مسائل ایسے نہیں ہیں کہ میں تنہا انھیں حل کر سکوں، یہ میں نے بارہا کہا ہے، لیکن ہم پوری طاقت کے ساتھ، ان مسائل، پابندیوں اور دباؤ کو جو وہ ڈال رہے ہیں، پیچھے چھوڑ دیں گے۔ یہ ممکن نہیں کہ ہم ساتھ ہوں اور وہ ہمیں گرا سکیں۔ یہ جو میں کہتا ہوں کہ ہم ایک ساتھ ہوں، متحد ہوں، اس لیے ہے کہ میرا یقین اور اعتقاد یہی ہے۔ خواہ ملک کے اندر ہو یا ہمارے پڑوسیوں کے ساتھ، اگر ہم متحد ہوں گے تو امریکا خطے کے ممالک کا اس طرح استحصال نہیں کر پائے گا۔ یہ ہم ہیں جو مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ البتہ جو مسائل موجود ہیں، وہ اتنی آسانی سے حل ہونے والے نہیں ہیں۔ انھوں نے حساب کتاب کیا ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ بغیر حساب کتاب کے ہی آ گئے ہوں۔ معاشی لحاظ سے بھی، عسکری لحاظ سے بھی، سیاسی اور سیکیورٹی اور پروپیگنڈے کے لحاظ سے بھی، وہ ہر لحاظ سے کام کر رہے ہیں۔ ہمارا ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہے۔ وہ منصوبہ بناتے ہیں کہ مثال کے طور پر ایران کو 36 مہینے بعد گر جانا چاہیے! کل تک وہ کہتے تھے کہ بارہ دنوں میں گر سکتا ہے، اب کہہ رہے ہیں کہ چھتيس مہینے۔ اگر ہم ساتھ ہوں تو چھتیس ہزار سال میں بھی وہ یہ کام نہیں کر سکتے۔ ساتھ رہنے کے لیے ہمیں ایک مشترکہ زبان اور سوچ پر پہنچنا ہوگا، ہمیں رہبر انقلاب کی پالیسیوں پر عمل کرنا ہوگا اور اختلافات کو چھوڑنے کی کوشش کرنی ہوگی کیونکہ ہر اختلاف، حکومت کے عمل میں بے ترتیبی کا سبب بنتا ہے۔ انھوں نے راستے ہمارے اوپر بند کر دیے لیکن ہم راستہ ڈھونڈ لیں گے اور اگر کوئی راستہ نہیں ڈھونڈ سکے تو کوئی راستہ بنا لیں گے۔ اگر ہم ساتھ ہوں تو یہ ممکن ہے لیکن اگر ہم آپس میں لڑیں گے تو یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ ایک عمومی اور اجتماعی بحث ہے اور ہمیں اسی فریم ورک میں چلنا ہوگا اور ہم آہنگی سے عمل کرنا ہوگا۔
سوال: رہبر انقلاب نے ایک بار کہا تھا کہ حکومت کی تبدیلی کے باوجود، نظام کی کچھ پالیسیاں اور بڑے منصوبے آگے بڑھ رہے ہیں اور مسعود پزشکیان صاحب، نئے صدر کی حیثیت سے پچھلی حکومت کے کچھ منصوبوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور انھیں مکمل کر رہے ہیں۔(2) براہ کرم ان میں سے کچھ منصوبوں کے بارے میں وضاحت فرمائیں اور بتائیں کہ کیا وہ کسی نتیجے پر پہنچ چکے ہیں یا آپ کی تشخیص کے مطابق ان کی راہ میں کوئی تبدیلی کی گئی ہے۔
جواب: دیکھیے! میرے خیال میں ہمارا مسئلہ اب تک یہ رہا ہے کہ جب بھی کوئی آتا تو اپنے لیے ایک پروگرام تیار کرتا تھا حالانکہ اگر ہم یہ تسلیم کریں کہ ہمارے پاس ایک جنرل پالیسی ہے تو ہمارے پاس ایک ویژن اور بیس سالہ پروگرام ہے۔ رہبر انقلاب نے اس بیس سالہ دستاویز میں فرمایا تھا کہ ہمیں سنہ 2025 میں کہاں ہونا چاہیے۔ اگر ہم ان پالیسیوں پر عمل کرتے تو کیا ہم وہاں ہوتے جہاں اب ہیں؟ ہم وہاں کیوں نہیں ہیں؟ اس لیے کہ جب بھی کوئی آیا، اس نے سوچا کہ اس کے پاس پروگرام ہے، حالانکہ اعلی قیادت کے پاس پروگرام تھا، اس کی پالیسی واضح تھی اور جو بھی کوئی آتا اسے اس پروگرام اور پالیسی پر عمل کرنا چاہیے تھا۔ انتخابات کے زمانے میں بھی ہمارے ساتھ لوگ جو بحث کرتے تھے وہ اسی پر ہوتی تھی کہ تمھارے پاس پروگرام ہی نہیں ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ملک کی کوئی پالیسی ہو، کوئی پروگرام ہو اور کوئی آ کر ایک دوسرا پروگرام دے دے۔ میں اس پروگرام کو، جس پر انھوں نے ان پالیسیوں کے تناظر میں عمل درآمد کیا تھا، چھوڑ کر، ایک دوسرا پروگرام اور ایک دوسرا راستہ نہیں چن سکتا۔ تمام تر مشکلات کے باوجود، ہم پوری طاقت کے ساتھ اس راستے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سوال: براہ کرم اس کی کچھ مثالیں دیں۔
جواب: مثال کے طور پر مہر ہاؤسنگ اسکیم، ہم نے محروموں کے لیے پچاس ہزار سے زیادہ مکانات کے علاوہ جو مکانات ادھورے تھے، انھیں مکمل کیا۔ آب رسانی کی اسکیموں کے سلسلے میں، جس راستے سے طالقان کا پانی تہران تک پہنچنا تھا، ایک بڑا منصوبہ تھا، ہم نے اس کے لیے فنڈز دیے اور اسے مکمل کیا اور یہ وہی راستہ تھا جو وہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ مثال کے طور پر زاہدان-چابہار کوریڈور کو انھوں نے شروع کیا تھا، ہم اسے مکمل کر رہے ہیں، یہاں تک کہ آستارہ-رشت کے راستے کو بھی انھوں نے شروع کیا تھا لیکن ہم پوری طاقت کے ساتھ اسے مکمل کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اب بوشہر میں موجود جوہری توانائی کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جن سے تقریباً دو ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ ہم پوری طاقت کے ساتھ ان پر کام کر رہے ہیں۔ البتہ اس میں وقت لگے گا اور یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ ہم نے اپنی طرف سے کوئی چیز نہیں شروع کی ہے، یہ تمام وہ کام ہیں جو پہلے سے موجود تھے اور ہم اسی راستے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سوال: ڈاکٹر صاحب! رہبر انقلاب نے پانی، روٹی، خوراک، پیٹرول اور توانائی جیسے مختلف شعبوں میں فضول خرچی کے مسئلے پر بارہا توجہ دلائی ہے اور اسے ایک بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ مختلف شعبوں میں فضول خرچی کو کم کرنے کے لیے آپ کی حکومت کا کیا پروگرام ہے؟
جواب: ہم یہ کام کر رہے ہیں اور رہبر انقلاب اپنی تجاویز اور حمایت سے ہماری بہت مدد کر رہے ہیں۔ جو تجاویز عمل میں آئی ہیں، ان سے پانی کا استعمال دس فیصد کم ہوا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ دس فیصد، سالانہ کتنے ملین کیوبک میٹر بنتا ہے؟ اس طرف انھوں نے پانی کے استعمال میں کمی کی، بجلی کے استعمال میں بھی کمی کی۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ ہم تقریباً 180 ارب ڈالر، یعنی روزانہ تقریباً 90 لاکھ بیرل تیل اور گیس پیدا کرتے ہیں، قریب پندرہ لاکھ بیرل برآمد کرتے ہیں، باقی ہم استعمال کر رہے ہیں۔ اب اگر ہم دس فیصد بچت کریں ــ جو بہت آسانی سے ممکن ہے ــ تو روزانہ تقریباً نو لاکھ بیرل تیل اور گیس بنتا ہے۔ یہی دس فیصد، ان تمام کمیوں اور خلا کو پُر کر دے گا جو موجود ہیں، یعنی ان تمام مسائل کو حل کر دے گا، جن سے لوگ ناخوش ہیں؛ معیشت کو، راستے کو، شاہراہ کو اور آگے کے ترقیاتی منصوبوں کو۔ اس کے بجائے کہ ہم فرض کیجیے کہ نوے لاکھ بیرل تیل اور گیس جلائیں، اس کا دس فیصد بچائیں، یہ بہت بڑا عدد ہے۔
ہم یورپ سے دو تین گنا زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں، جو گیس ہم استعمال کرتے ہیں، اس کا یورپ والوں کے ساتھ موازنہ ہی نہیں کی جا سکتا۔ گیس اور توانائی کے لحاظ سے ایران دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے لیکن اب ہم صنعتوں، پیٹروکیمیکلز اور کارخانوں کی گیس بند کر رہے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ ہم نے صحیح طور پر مینیجمنٹ نہیں کیا، صحیح طور پر گیس تقسیم نہیں کی، ہم صحیح طور پر استعمال نہیں کر رہے۔ ضرورت نہیں کہ ہم اس طرح استعمال کریں جس طرح اس وقت کر رہے ہیں۔ میں نے ایسی رپورٹیں دیکھی ہیں کہ اسی امریکا میں، جب وہ کچھ بحران کا شکار ہوئے تھے، تو ان کے صدر نے اعلان کیا تھا کہ اپنے گھروں کو 21 ڈگری سے زیادہ گرم نہ کریں۔ اب میرے دفتر کا درجۂ حرارت 21 ڈگری سے زیادہ نہیں۔ ہم درجۂ حرارت 28 یا 30 پر رکھتے ہیں، بلکہ اپنی قمیص بھی اتار دیتے ہیں، کبھی کبھی کھڑکی بھی کھول دیتے ہیں اور ہمارا ہیٹر یا ریڈی ایٹر بھی چل رہا ہوتا ہے! قرآن میں فرمایا گیا ہے: کھاؤ اور پیو اور فضول خرچی نہ کرو، بے شک اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ خدا اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو فضول خرچی کرتا ہے۔ ہم ایک کمرے میں بیٹھے ہیں، چالیس بلب جلا رکھے ہیں! اس کی کیا ضرورت ہے؟ ہر شخص اگر تھوڑا سا کنٹرول کر لے تو ہم اپنے بہت سے مسائل حل کر سکتے ہیں۔ ہمیں دوسروں کی کوئی ضرورت نہیں، بشرطیکہ ہم خود اپنے پاس موجود چیزوں کا صحیح طریقے سے مینیجمنٹ کر سکیں۔ ہمارا ملک سونے اور کانوں سے بھرا ہوا ہے لیکن یہ ہمارا رویہ ہے جو اس سونے اور کانوں کو کسی مقام تک پہنچا سکتا ہے یا نہیں پہنچا سکتا۔
سوال: مطلب یہاں کا ٹمپریچر 21 ڈگری سے اوپر نہیں جاتا؟
جواب: میں جب یہاں آیا تو میں نے اعتراض کیا کیونکہ جب ہم یہاں نہیں ہوتے تو انھیں بالکل حق نہیں ہے کہ اس جگہ کو گرم رکھیں۔
سوال: نہیں، گرم نہیں تھا ڈاکٹر صاحب۔
جواب: یہ کہتے تھے کہ ابھی آن کیا ہے، ورنہ ہم نے انھیں بند کر دیا تھا۔ ہم اپنے زیادہ تر کمروں میں اب ریڈی ایٹر (ہیٹر) نہیں چلاتے،؛ اس لیے کہ جب میں وہاں نہیں جاتا، تو پھر اس کے آن رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں ایک گھنٹے کے لیے وہاں جانا چاہتا ہوں، کیا 24 گھنٹے اس جگہ کو گرم رکھا جائے؟ میں اپنے کام ایک ہی جگہ انجام دیتا ہوں اور پھر اس کمرے سے دوسرے کمرے میں نہیں جاتا، اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بہت آسانی سے بچت کی جا سکتی ہے۔ اب میں نے کہا ہے کہ ہمارے گھر میں ایک دیوار یا پردہ لگا دیں تاکہ ہم ایک چھوٹی سی جگہ کو مثال کے طور پر اسی 21 یا 22 ڈگری تک گرم کریں، باقی کو گرم نہ کریں؛ یہی کافی ہے۔ جب میں پانچ چھے میٹر کے کمرے میں بیٹھ سکتا ہوں، تو ایک بڑے کمرے کو میرے لیے گرم اور ٹھنڈا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ رہبر انقلاب کی تجویز بھی یہی ہے، خداوند بھی فرماتا ہے کہ اگر تم مسلمان ہو تو فضول خرچی نہ کرو۔ اب میں اپنے دفتر میں کتاب پڑھنا چاہتا ہوں، تو پوری عمارت کو روشن کر دیتے ہیں کہ میں وہاں بیٹھا ہوا ہوں! کیوں؟ اب ہم نے ٹیبل لیمپ رکھا ہے، ٹیبل لیمپ سے ہم اپنا کام کر رہے ہیں۔ وہاں مجھے اور کوئی کام نہیں، تو باقی بلبس کو آف کر دیتے ہیں۔ پورے کمرے کو روشن کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ میں دو دستخط کرنا چاہتا ہوں؟ اگر ہم دس فیصد بچت کر سکیں، تو یہ بھی بہت بڑی بات ہے۔ البتہ ہم اس سے کہیں زیادہ کنٹرول کر رہے ہیں۔ یہاں ایک سوئمنگ پول بنایا گیا تھا، ہمیشہ گرم رہتا تھا۔ ہم نے کہا کہ یہاں کو گرم کیوں رکھا ہوا ہے۔ طے یہ تھا کہ کسی دن میں وہاں جا کر سوئمنگ کروں گا۔ میں نے کہا کہ اسے ختم کر دیں۔ اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ جب بھی مجھے سوئمنگ پول جانا ہوگا، میں ایک عمومی سوئمنگ پول چلا جاؤں گا، اس کی ضرورت نہیں کہ ایک مخصوص سوئمنگ پول چوبیس گھنٹے رکھا جائے کہ کسی دن میں اس میں تیراکی کروں گا۔
سوال: کیا آپ اپنے اوپر زیادہ سختی نہیں کرتے؟
جواب: نہیں، ہم انہی سختیوں کے ساتھ پلے بڑھے ہیں۔ اب بھی ہمارے پاس اپنی توقع سے کہیں زیادہ ہے۔ میرے خیال میں، ہم امریکا، اسرائیل اور یورپ کے ساتھ ایک مکمل جنگ میں ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک اپنے پیروں پر کھڑا رہے۔ یہ جنگ عراق کے ساتھ جنگ سے بھی بدتر ہے، اگر اچھی طرح سمجھا جائے، تو یہ جنگ اس جنگ سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہے۔ عراق کے ساتھ جنگ میں، صورت حال واضح تھی، وہ میزائل مارتا تھا، مجھے بھی معلوم تھا کہ کہاں مارنا ہے۔ یہاں اب ہر لحاظ سے ہماری گھیرا بندی کر رہے ہیں، ہمیں مشکلات اور تنگی میں ڈال رہے ہیں، مسائل پیدا کر رہے ہیں ــ معاشی، ثقافتی، سیاسی اور سیکورٹی کے لحاظ سے اور معاشرے کی توقعات بڑھا رہے ہیں، ایک طرف تو ہماری فروخت، ہمارے لین دین، ہماری تجارت کو روک رہے ہیں، دوسری طرف معاشرے میں توقعات بڑھ گئی ہیں! بنابریں ہم سب کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ مدد کرنی چاہیے اور ملک کو بہتر سے بہتر بنانا چاہیے۔