قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر اور ارکان سے ملاقات میں ایران کی معیشت کو کمزور کرنے، حکام کے درمیان اختلاف بھڑکانے اور اسلامی عقائد و جذبات کو کمزور کرنے کے لئے تسلط پسند طاقتوں کی طرف سے جاری سازشوں کا تجزیہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ اور حکومت کے درمیان مدارات اور باہمی تعاون اور قانون کو قول فیصل کا درجہ دئے جانے کی ضرورت پر تاکید کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے امریکہ اور تسلط پسند طاقتوں کی توسیع پسندی کے مقابلے میں پارلیمنٹ کے صریحی، دو ٹوک اور افتخار آمیز موقف پر اظہار تشکر کرتے ہوئے عالمی محاذ بندی اور تسلط پسندانہ نظام کے اہداف کے سلسلے میں عظیم ملت ایران کے گہرے فہم و ادراک کو الطاف الہی کا جز قرار دیا اور فرمایا کہ عالمی استبدادی نظام کے ہمہ گیر تشہیراتی اقدامات کا مقصد ماحول کو غبار آلود کرنا اور قوموں کی بیداری و آگہی کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہے لیکن ملت ایران روز بروز اپنے فہم و بصیرت میں اضافہ کر رہی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایران اور اسلام کے دشمنوں کے مقابلے میں پارلیمنٹ اور حکومت کے مستحکم موقف کے تسلسل کو ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب اور استکباری طاقتوں کے درمیان مقابلہ آرائی انقلاب پر ضرب لگا پانے کی طرف سے مستکبرین کی مایوسی تک جاری رہے گی۔ تاہم الہی نصرت و مدد کے طفیل میں اور ملت ایران اور اسلامی نظام کی استقامت کے باعث اس مقابلہ آرائی میں اسلامی جمہوریہ کی پوزیشن وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ قوی تر اور دشمن کی پوزیشن کمزور سے کمزور تر ہوئی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے توسیع پسند طاقتوں کے منصوبوں کے پیشگی ادراک اور اس کے مقابلے میں درست منصوبہ بندی کو دشمنوں کی حتمی شکست کا باعث قرار دیا اور استکبار کی سازش کے اہداف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن نے علی الاعلان اقتصادی امور پر توجہ مرکوز کی ہے تاکہ ایران کی معیشت کو مفلوج اور عوام کو مایوسی میں مبتلا کر دیں، چنانچہ دشمن کی اس اعلانیہ حرکت سے حکومت، پارلیمنٹ اور مختلف شعبوں کے تمام حکام کے گوش گزار ہو جانا چاہئے کہ رواں سال میں جسے اسی وجہ سے اقتصادی جہاد کا سال قرار دیا گيا ہے انہیں کس شعبے پر بھرپور توجہ مرکوز کرنے اور محنت کرنے کی ضرورت ہے؟
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے انتظامی امور چلانے والے اداروں کے درمیان اختلاف کی آگ بھڑکانے کو تسلط پسندانہ نظام کا دوسرا اہم ہدف قرار دیا اور فرمایا کہ تمام عہدیداروں کو چاہئے کہ پوری طرح بیدار رہیں اور پسند و ناپسند اور مزاج کے اختلاف کو چیلنج اور تنازعے پر نہ منتج ہونے دیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں سنہ تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق دو ہزار نو- دو ہزار دس عیسوی کے فتنے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ان واقعات کو اگر فراخدلی اور حسن ظن کے ساتھ دیکھا جائے تو بھی آشوب پسند عناصر کا عظیم اور ناقابل معافی جرم یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ذہنی شبہے اور خدشے کو اسلامی نظام کے مقابل ایک چیلنج میں تبدیل کر دیا اور ملک و نظام پر ضرب لگائی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اختلافات سے اجتناب کو اسلام، انقلاب اور ایران کے دفاع کا قومی فریضہ قرار دیا اور فرمایا کہ پارلیمنٹ کے مختلف حلقوں کو چاہئے کہ اپنے رجحانات اور پسند و ناپسند سے بالاتر ہوکر ملک میں اختلاف کی آگ بھڑکانے کے دشمن کے انتہائی مذموم ہدف کے مقابلے میں اپنا فریضہ پورا کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے موجودہ حساس حالات میں ملت ایران اور دیگر مسلم اقوام کے درمیان اسلامی عقائد اور جذبات کو کمزور کرنے اور ان کی جگہ الحادی یا الحاد سے ملتے جلتے نظریات کی ترویج کو دشمن کا تیسرا اہم ہدف قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس اور دیگر ممالک کے نوجوانوں کے افکار کو متاثر کرنے کے لئے مغرب کی جانب سے جاری وسیع تشہیراتی یلغار کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ گوناگوں اخلاقی برائیوں کی ترویج اور دینی عقائد کے سلسلے میں شکوک و شبہات کی تبلیغ ایران کے خلاف اور علاقے میں جاری اسلامی بیداری کی لہر کے مقابلے میں تسلط پسندانہ نظام کے جامع منصوبے کے تحت انجام پا رہی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس سازش کے مقابلے کے طریقوں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ بیشک اسلامی نظام اپنے فلسفیانہ اور مدلل عقیدتی سرمائے اور ماہر افرادی قوت کی وجہ سے اس کثیر الجوانب سازش کا مقابلہ کرنے پر قادر ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دو نکتوں کو مد نظر رکھا جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دشمنوں کی منصوبہ بند سازشوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے غفلت اور غرور سے اجتناب کو دو اہم ترین شرط قرار دیا اور فرمایا کہ اگر غفلت کی وجہ سے ہم بنیادی کاموں کو چھوڑ کے فروعی مسائل میں الجھ گئے یا ہم نے غرور میں آکر دشمن کو کمزور اور لاچار سمجھ لیا تو دشمن سے شکست کا خطرہ بہت حد تک یقینی ہو جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کے دو سو نوے ارکان، مجریہ اور عدلیہ کے حکام اور تمام عوام کو موجودہ نازک وقت میں بہت ہوشیاری سے کام لینے کی دعوت دی اور فرمایا کہ جو شخص جس جگہ پر بھی کوئی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں خود کو ملت ایران اور اسلام و انقلاب کے دشمن عناصر کے درمیان جاری اس بڑی محاذ آرائی کے میدان کا سپاہی تصور کرے اور اس طرز فکر کے ساتھ اپنے فریضے کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔
قائد انقلاب اسلامی نے تسلط پسندانہ نظام کی خفیہ اور آشکارا سازشوں کے مقابلے میں ہوشیاری و بیداری کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بقول جو کام بھی دشمن کی مطلوبہ سمت میں پیش قدمی کا باعث بنے اور اس سے ملک اور قوم کو نقصان پہنچے وہ عظیم گناہوں میں ہے جسے اللہ تعالی ہرگز معاف نہیں کرے گا کیونکہ اس طرح کے کاموں سے توبہ اور اس طرح کے اقدامات اور غفلت سے قوم پر پڑنے والی ضرب کی تلافی عملی طور پر ناممکن ہوتی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے حکام سے فرمایا کہ اللہ تعالی نے آپ کے دوش پر بڑی سنگین امانت رکھ دی ہے جسے آپ کو مقتدرانہ انداز میں پوری ایمان داری کے ساتھ منزل تک پہنچانا ہے۔ آپ نے ملت ایران پر ضرب لگانے کے لئے دشمن کی کوششوں کو ایک فطری حقیقت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ میدان جنگ میں ہر شخص اپنے حریف پر وار کرنا چاہتا ہے۔ لہذا تسلط پسند عناصر نے اپنی نرمی کی باتوں کے باوجود آستینوں میں خنجر چھپائے ہوئے ہیں اور موقعے اور ایرانی عوام و حکام کی غفلت کے منتظر ہیں کہ موقعہ ملتے ہی یہ خنجر اس قوم کے سینے میں اتار دیں بنابریں موجودہ بیداری و ہوشیاری کو قائم رکھنا اور اسے تقویت پہنچانا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے انفرادی اور ذاتی تقوے کے ساتھ ہی اجتماعی تقوے کو بھی لازمی قرار دیا اور فرمایا کہ تنظیمیں، جماعتیں اور گروہ اپنے ارکان کے ذاتی تقوے کے ساتھ ہی اجتماعی تقوے کے زیور سے بھی خود کو آراستہ کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ایسا نہ کیا گيا تو ان جماعتوں میں موجود متقی افراد بھی عام طور پر انجام دی جانے والی خطاؤں کو دیکھ کر انحراف کا شکار ہو جائیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں ایک مثال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ابتدائے انقلاب میں جو حلقہ بائیں بازو کے نام سے مشہور ہوا اور جس نے بہت سے اچھے نعرے بھی بلند کئے تھے پارسا اور پرہیزگار انسانوں کی موجودگی کے باوجود اجتماعی تقوے سے غافل رہ گیا اور پھر نوبت یہ آن پہنچی کہ حضرت امام حسین علیہ السلام، اسلام اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے دشمن عناصر اس کی مدد لینے لگے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اجتماعی تقوے سےغفلت خطرناک عواقب کی حامل ہو سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنی نگرانی خود کرنے کے پارلیمنٹ کے بل کو اجتماعی تقوے کا مصداق قرار دیا اور فرمایا کہ بیشک گوشہ و کنار میں ایسے افراد بھی ہیں جنہوں نے کہا کہ یہ بل ارکان پارلیمنٹ کی آزادی کے منافی ہے لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے اور اس نظارتی بل کا مقصد بعض ارکان پارلیمنٹ کی ممکنہ کج روی کی نگرانی کرنا ہے تا کہ یہ بنیادی قانون ساز ادارہ جسے امام حمینی رحمت اللہ علیہ نے بہت بلند مقام کا حامل قرار دیا ہے بعض ارکان کے روئے کی وجہ سے بدنام نہ ہونے پائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کے ارکان سے سفارش کی کہ اس نظارتی بل کو اس انداز سے تیار کریں کہ رواداری اور کچھ لو کچھ دو کے حربے اسے بے اثر نہ بنا سکیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ میں موجود مختلف فکری رححان کے حلقوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس بات پر کوئی اصرار نہیں ہے کہ پارلیمنٹ میں ایک ہی فکری رجحان کا حلقہ موجود ہو کیونکہ سیاسی طرز فکر اور طریق کار کا اختلاف فطری شئے ہے لیکن ان حلقوں کو اس بات کا بھی خیال رہنا چاہئے کہ پسند اور ناپسند کا مسئلہ باقاعدہ رسہ کشی اور چیلنج میں تبدیل نہ ہو جائے اور اپنی بحثوں میں پڑ کر امریکہ، اسرائیل اور دیگر دشمنان اسلام کو فراموش نہ کر دیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس بات کا ذک کرتے ہوئے کہ رواں سال آٹھویں پارلیمنٹ کا آخری سال ہے فرمایا کہ آپ اس بات کا خیال رکھئے کہ اس سال اسفند ( فروری-مارچ) مہینے کے انتخابات کی وجہ سے ارکان پارلیمنٹ کی کارکردگي میں کوئی وقفہ اور سست روی پیدا نہ ہو اور آئندہ پارلیمنٹ میں بھی جگہ حاصل کرنے کی مساعی ارکان پارلیمنٹ کی موجودہ کارکردگی کو متاثر نہ کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں امراء اور دولتمند افراد کی قربت کو بہت بڑے خطرے سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ اگر کوئی شخص آئندہ پارلیمنٹ میں سیٹ حاصل کرنے کے لئے دولتمند اور طاقتور افراد کی قربت حاصل کرتا ہے تو اللہ تعالی اس مذموم فعل کو ہرگز معاف نہیں کرے گا اور انتقام الہی یقینا اس کی قسمت پر پر اثر ڈالے گا اور اس طرح کے اقدامات سے معاشرے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مجریہ کے ساتھ بھرپور تعاون کے سلسلے میں بھی ارکان پارلیمنٹ کو خاص سفارش کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں قانون کو قول فیصل کا درجہ دئے جانے پر زور دیا تاہم یہ بھی فرمایا کہ پارلیمنٹ کی آزادی کی مکمل حفاظت کرتے ہوئے بھی مجریہ کے طریق کار اور رجحانات کو مد نظر رکھ کر اس انداز سے قانونی ساز کی جا سکتی ہے کہ قانون پر ‏عمل آوری مجریہ کے لئے بالکل آسان ہو جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حکومت کو بھی چاہئے کہ جب قانون کو منظوری مل گئی تو پوری طاقت سے بغیر کسی لیت و لعل کے اس پر عمل کرے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مجریہ کا ڈھانچہ بہت اچھا اور پسندیدہ ہے اور حکومت محنت و مشقت میں مصروف ہے اس صورت حال میں پارلیمنٹ اور مجریہ کو ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مجریہ اور مقننہ کے درمیان ہم آہنگی اور مدارات کو بہت پسندیدہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ دشمن سے مدارات ٹھیک نہیں ہے لیکن ملک کے اندر پارلیمنٹ اور مجریہ کے باہمی تعلقات میں مدارات بہت ضروری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے آئندہ اسفند مہینے میں نویں پارلیمنٹ کے انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے انتخابات کو نظام کا پرچم اور معیار قرار دیا اور فرمایا کہ تمام تر سازشوں اور پروپیگنڈوں کے باوجود تمام انتخابات ہمیشہ بر وقت انجام پائے اور یہ حقیقت اسلامی نظام میں انتخابات کی اہمیت کی غماز ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ تین عشروں کے دوران ایران میں تیس انتخابات کے انعقاد کو نظام کا طرہ امتیاز اور ملک میں حقیقی جمہوریت کی دلیل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ تمام تر بد اخلاقیوں اور دعوؤں کے باوجود مختلف دوروں میں انتخابات شفافیت اور آزادی کے ساتھ منعقد کئے گئے لہذا کوئی بھی اس حقیقت کے بر خلاف اپنا کوئی دعوی ثابت نہیں کر سکا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے تینوں شعبوں ( مجریہ، مقننہ، عدلیہ) کو انتخابات کی شان و شوکت کی حفاظت کی ہدایت کی اور فرمایا کہ کسی کو بھی کسی بھی انداز سےانتخابات میں مداخلت نہیں کرنا چاہئے تاکہ انتخابات قانونی انداز سے منعقد ہوں اور عوام کی تشخیص اور انتخاب کے مطابق پارلیمنٹ کی تشکیل عمل میں آئے۔
آج کے اجلاس میں جو اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے بعد پہلی پارلیمنٹ کی کارکردگی کی شروعات کی سالگرہ پر منعقد ہوا قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر لاری جانی نے ایک رپورٹ پیش کی جس میں انہوں نے بتایا کہ آٹھویں پارلیمنٹ نے اپنی تین سالہ کارکردگی میں دو سو اڑتیس قوانین کو منظوری دی اور ملک کے مختلف اداروں کی کاکردگی اور اہم مسائل کے سلسلے میں بیالیس نظارتی رپورٹیں تیار کی ہیں۔